چشمِ فلک نے کیا ایسا رمضان بھی دیکھا۔۔۔! :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

چشمِ فلک نے کیا ایسا رمضان بھی دیکھا۔۔۔!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770

ہر سال جب رمضان المبارک کی آ مد ہو تی ہے، فضائیں معّطر ہوجاتی ہیں۔ ہر طرف بہار ہی بہار نظر آتی ہے۔ رمضان کا چاند دیکھتے ہی اہل ایمان خوشی اور مسرت سے جھوم اُ ٹھتے ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے بھرجاتی ہیں۔ پانچ وقت کی نمازوں میں نمازِ جمعہ کا منظر نظر آتا ہے

اور نمازِ جمعہ، عید کی نماز کا منظر پیش کرتی ہے۔ نمازِ عیدکا کیا کہنا، پورا عالمِ اسلام باہمی اخوت اور اتحاد کا ایک جیتا جا گتا نمونہ بن جا تا ہے۔ لیکن اس سال جو رمضان آیا ہے وہ بڑی تلخ یادیں چھوڑ تا ہوا ہم سے رخصت ہو رہا ہے اور یہ وہ یا دیں ہیں جسے ہماری آ نے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ عالم اسلام نے اس سال رمضان کا استقبال اس طرح کیا کہ اس کی مثال تاریخِ انسانی میں شا ید ہی ملتی ہو۔ اس رمضان میں مسجدیں مصلیوں کے انتظار میں رہیں۔رمضان کے تین جمعہ گذر گئے اور آج رمضان کا چوتھا اور آ خری جمعہ بھی آ گیا۔لیکن ہم نماز جمعہ مسجدوں میں ادا کر نے سے قا صر ہیں۔ حالات کی سنگینی نے مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ نمازِ ترا و یح بھی گھر میں پڑ ھیں۔ اور اب نماز عید بھی عیدگاہ میں ادا کر نے کے کو ئی آ ثار نظر نہیں ا ٓ رہے ہیں۔نمازِ عید کے بغیر عید کی خو شیوں کا کو ئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ نماز عید درا صل اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں اور قرآن کی شکل میں ہم کو دی گئی ہے۔لیکن اس سال اس شکرانہ کو ادا کر نے سے امت مسلمہ محروم کر دی گئی۔کر ہ ارض پر ما ضی میں بھی بڑی بڑی مصیبتیں ا ٓ ئیں، بنی نو عِ انسان شد ید ترین حالات سے بھی سے بھی گذرا۔ آ سمانی بلاؤں نے بھی انسانوں کو گھیرا۔ خود انسانوں نے اپنی کارستا نیوں کے ذریعہ بہت کچھ تباہی و بر بادی مچا ئی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پوری دنیا یکلخت ایسے نا گہانی حالات کا شکار ہو گئی کہ ہر طرف موت کا خوف انسانوں کے سروں پر منڈ لا رہا ہو۔ معلوم تاریخ میں کسی وباء کا آنا کو ئی انہونی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ وباء، کسی خاص علاقہ یا کسی خاص ملک تک محدود رہتی تھی۔ دنیا کے دیگرلوگ اس سے محفوظ رہتے تھے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جو عالمی وباء کورونا وائرس کی شکل میں آ ئی ہے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اس سے مرض سے شاید ہی بچا ہو۔ بڑے بڑے طا قتور ملکوں کو اس جان لیوا بیماری نے حواس با ختہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جن ممالک کو غرّہ تھا کہ دنیا کی کو ئی طاقت انہیں جھکا نہیں سکتی، دو مہینے سے جاری کرونا کی وباء نے ان کے غرورکی کمر توڑ کر رکھدی۔ آج یوروپی ممالک میں یہ مرض جس تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے اس سے وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ماہرین طب بھی پریشان ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے با وجود یہ ممالک قدرت کی اس قہر سامانی کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں۔ کو ئی یہ کہنے کے مو قف میں نہیں ہے اس بیماری کا خا تمہ کب اور کیسے ہو گا۔ ہر ملک میں ا حتیاطی تدا بیر ا ختیار کی جا رہی ہیں لیکن اس بیماری کا علاج کیسے ہوگا یہ بتا نے کے لئے کسی کے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا بھی بازار گرم ہو رہا ہے۔ اس بیچ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے وا قعی کو رونا وائرس کو ئی قدرتی وباء ہے یا کسی ملک کی سو چی سمجھی سازش ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس عالمی وباء نے غریبوں اور ناداروں کی زندگی کو بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ لاکھوں افراد نان شبینہ کے لئے سر گرداں ہیں۔ ایشیائی ممالک میں تو بھکمری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ ہزاروں لوگ فاقہ کشی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی داد رسی کر نے والا نہیں ہے۔ یہ گمنام لوگ کورونا سے نہیں بھوک سے اپنی جان دے رہے ہیں۔
ایسے جاں گسل حالات میں ماہ ِ رمضان کی آ مد نے عالم ِ اسلام کو اس بات پر غور کر نے کا موقع دیا ہے کہ آ یا اس عالمی وباء سے امت کوئی درسِ بصیرت لیتی ہے یا پھر دنیا کی دیگر اقوام کی طرح اسے ایک دنیاوی مصیبت سمجھ کر اس سے صرفِ نظر کر تی ہے۔ دنیا میں اس سے پہلے اس سے خطرناک امراض بھی پھیلے اور وقت کے ساتھ ان کا علاج بھی دریافت کر لیا گیا۔ کورونا وائرس کی یہ وباء بھی اب نہیں تو کچھ عر صہ بعد ختم ہو جائے گی۔ اب حکو متوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اب ہم کورونا کے ساتھ جینے کا حو صلہ اپنے اندر پیدا کر لیں۔ یعنی زندگی گذارنے کے لئے زندگی کو جوکھم میں بھی ڈالنا پڑ ے گا۔ اس مرض نے دنیا کے سا منے بڑے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ما بعد کورونا، ایک نئی دنیا وجود میں آ ئے گی۔ زندگی کے طور طریقوں میں انقلابی تبد یلیاں آ جائیں گی۔ معیشت کا نظام یکسر بدل جا ئے گا۔ معاشرتی زندگی میں کورونا کے اثرات ظا ہر ہوں گے۔ سما جی تال میل اور آپسی محبت اور تعاون اب قصہ ء پا رینہ بن جا ئے گا۔ ہر شخص خلوت پسند ہو جا ئے گا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو با ٹنے کی با تیں عجیب لگنے لگیں گی۔ غرض یہ کہ انسان، انسانوں کے ہجوم میں رہتے ہو ئے بھی اپنے آ پ کو اکیلا محسوس کر ے گا۔ کورونا کے بعد کی دنیا کا یہ منظر ہر سلیم الفطرت انسان کو پر یشان کر دینے والا ہے۔ جب مادی دنیا کے حکمران، ماہرینِ معا شیات و سما جیات دنیا کے انسانوں کو ہیبت زدہ کر نے والا یہ نقشہ پیش کر رہے ہیں تو اس زمین پر بسنے والی وہ امت جسے اس کا ئنات کے بنانے والے نے خیرِ امت کے لقب سے نوازا ہے، اس کا یہ فرض نہیں ہے کہ اس دھماکو صورتِ حال میں وہ پریشان حال انسا نیت کی صحیح رہنمائی کر ے۔ رمضان کا یہ مبارک مہینہ اسی بات کی دعوتِ فکر دیتا ہے کہ وہ امت جسے دنیا کی اما مت اور قیادت کرنے کے لئے دنیا میں بر پاکیاگیا، تاریخ کے اس نازک مر حلے پر کس دانشمندی اور دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے قا فلہء انسانیت کو اس منجدھار سے نکالنے میں اپنا فرضِ منصبی ادا کر تی ہے۔ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا آ خری نسخہء کیمیا قرآنِ مجید کی شکل میں نا زل کیا۔ اسی قرآن مجید میں یہ بیان کیا گیا کہ: خشکی اور تری میں جو فساد بر پا ہو تا ہے وہ در اصل انسانوں کی ہا تھوں کی کمائی کا نتیجہ ہو تا ہے: کیا رمضان کے دوران قرآن کی اس ٹھوس حقیت کو ہم نے دنیا کے سامنے اُ س انداز میں پیش کیا جیسے کہ پیش کیا جا نا تھا۔ دنیا میں اس وقت جو فساد مچا ہوا ہے کیا اس میں ان طا قتوں کا ہاتھ نہیں جو اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لئے پوری انسانیت کو بارود کے ڈھیر پر کھڑے کر دیتے ہیں۔ آج خدا کی زمیں، ان ظا لموں اور قا ہروں کے داستانِ ظلم کو بیان نہیں کرتی جنہوں نے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلادی؟ کتنے ہی طا قتور قوموں نے کمزوروں کی زندگی کو تہہ تیغ کر دیا۔ جب ظلم و جور اپنی حدو ں کو پار کر گیا تو پھر مشیتِ یزدی کے تحت قدرت کا کوڑا ان پرایسا پر بر سا کہ وہ زور آور قو میں عبرت کا نشان بن کر دنیا کو اپنا دعوتِ نظارہ آ ج بھی دیتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان قوموں کا تذ کیرہ بڑی تفصیل کیا گیا، جنہوں سے اللہ سے سر کشی کر تے ہو ئے اپنی خدائی کا اعلان کر د یا اوردنیا کے لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنے کاخواب دیکھ رکھا تھا۔ آج بھی ایسی نمرودی اورفرعونی طا قتیں دندناتے ہوئے دنیا میں اپنا دبد بہ قائم کر نا چا ہتی ہیں۔ ما بعد کورونا بزورِ طاقت یہ طا قتیں دنیا کی مختلف اقوام کو اپنا زر خرید غلام بنانے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ اب جب کہ دنیا کا منظر نا مہ بدل رہا ہے حا ملینِ اسلام اور قرآن کیا خاموش تما شائی بن کراپنے آپ کو قعرِ مزلّت میں ڈالنا گوا را کر لیں گے یا قرآن سے رہنمائی حا صل کر تے ہوئے دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوں گے۔ یہ رمضان ہم سے یہی سوال کررہا ہے کورونا کے بعد ہم دنیا کو کیا دیں گے جو حق کی متلا شی ہے۔
آج کی ترقی یا فتہ دنیا سب کچھ اپنے پاس رکھتے ہوئے تہی دست و تہی داماں ہے۔ علوم و فنوں کے انفجار کے باوجود آج کا انسان شئے کی حقیقت کو جا ننے سے قا صرہے۔ وہ ایک بیماری کو کیسے دفع کر سکے اس بارے میں اس کا علم اور تجربہ اس کی رہنمائی کر نے میں نا کام ہو چکا ہے۔ ایک وبائی مر ض سے عصرِ حاضر کا انسان چھٹکارا نہیں پاسکا تو اندازہ کیجئے کہ انسان کا علم اور اس کی معلومات کتنی ادھوری اور نا مکمل ہیں۔ ایک ایسے وقت جب کہ پوری انسانیت سسک رہی ہے اور اُسے سجھائی نہیں دے رہا کہ کون سا را ستہ اسے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ خیرِ امت کہلانے والوں کی ذ مہ داری ان حالات بڑی حد تک بڑھ جا تی ہے۔ کورونا وائرس کی اس عالمی وباء نے جہاں بہت کچھ شر دنیا کے سا منے لایا ہے وہیں نبض شناس نگاہیں دیکھ رہی ہیں اسی شر میں خیر کے کئی پہلو بھی پو شیدہ ہیں۔ سب سے بڑا جو خیر کا پہلو سا منے آیا وہ یہی رہا کہ جن کے دل میں نیکی اور بھلائی کا جذبہ تھا، وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر انسانوں کی خدمت کے لئے دیوانہ وار آ گے بڑھے۔ اس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں جن کا مذہب بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔ کتنے ہی ڈاکٹرس نے کورونا کے مریضوں کا علاج کر تے ہو ئے اپنی جا نیں قر بان کر دیں۔ کتنے ہی اہل ثروت نے اپنی دولت کے بڑے حصے کو غریبوں کی مدد کرنے میں لگا دی۔ ایسی کتنی ہی خبریں آ ئیں کہ مسلم نو جوانوں نے غیر مسلموں کی موت پر ان کا انتم سنسکار کیا، جب کہ ان کے افراد خاندان یہ فرض انجام دینے سے صاف انکار کردیا۔ کورونا وائرس کے اس مرض نے پراگندہ ذہنوں کی آ لو د گیوں کو بھی بے نقاب کر دیا۔ کورونا کے حوالے سے مسلمانوں کو بد نام کر نے کی جو سازش میڈیا کے ایک گو شے نے رچائی تھی اس کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا۔ بیرون ملک عربوں کی دولت پر عیش کر نے والے ہندو جنو نیوں کی حرکت سے ہندوستان کی جو بدنامی ہوئی اس سے دنیا اچھی طرح واقف ہو گئی۔ کورونا کے نام پر اسلامو فوبیا کی جو لہر چلی اس سے بھی اندازہ ہو گیا کہ کورونا سے زیادہ خطر ناک فرقہ پرستی کا یہ زہر ہے جو منظم انداز میں ملک اور بیرونِ ملک پھیلایا جا رہا ہے۔ ان دشوار گذار حالات میں امت مسلمہ نے رمضان کا مہینہ گذارا۔ اب عید کا دن بھی قریب ہے۔ رمضان کے اختتام سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آ یا ہمارا اللہ کیا ہم سے بھی وا قعی ناراض ہے۔ ربِ ذوالجلال کی ناراضگی کی جھلک ہم ان ناگفتہ بہ حالات میں محسوس کر رہے ہیں۔ آج ہم اللہ کے گھر سے دور کر دئے گئے۔ انتہا یہ کہ خا نہء کعبہ میں کئی دن تک طواف نہ ہو سکا۔ مسجدِ نبویﷺ میں نمازیوں کو جا نے اجازت نہیں رہی۔ ہماری اپنی آبادیوں کی مسجدیں جو ہمارے گھروں سے چند قدم پر ہوتی ہیں، وہاں بھی ہم نماز ادا نہ کرسکے۔ 25/ مار چ سے ملک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے اس دوران کتنے ہی جمعہ ہم مسجدوں میں آ راستہ نہ کرسکے۔ سو چنے کا مقام ہے کہ اس سے پہلے بھی آ فتیں آ ئیں، ہم نے مصیبتوں اور آ زمائشوں کو بھی جھیلا، لیکن مسجدوں سے ہم دور نہیں ہوئے ہر پریشانی میں ہم مسجدوں کی طرف لپکتے تھے اور اللہ کے حضور گڑگڑاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں ہماری پریشا نیاں دور ہو جاتی تھیں۔ لیکن کیا بات ہے کہ آج ہمارے پرودگار نے ہماری یہ درگت بنادی کہ اس کی بارگاہ میں جا کر اس کی بندگی کا حق ادا کر تے ہوئے اُ سی سے داد رسی طلب کرنے سے ہم محروم ہیں۔ رمضان کا یہ مبارک مہینہ، احتساب کا مہینہ ہے۔ امت کو اپنا محا سبہ کر نا چا ہیئے کہ آج امت مسلمہ کے لئے اللہ کے گھر کیوں بند ہو گئے ہیں۔ اسے آپ احتیاط کا نام دیں لیں یا اسے کوئی مجبوری کہہ لیں لیکن اس میں اللہ کی نارا ضگی کے پہلو کو کوئی مسلمان نظرانداز نہیں کر سکتا۔ کاش امت اپنے روٹھے ہو ئے اللہ کو منانے میں کا میاب ہو جائے تا کہ آ زمائش کا یہ دور ختم ہوسکے۔

Share
Share
Share