کالم : بزمِ درویش اللہ کی نوازشات :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
اللہ کی نوازشات

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میرے سامنے ایک ارب پتی انسان پیکر التجا بنا گر یہ زاری کر رہا تھا۔ اس کی ساری دولت اس کے لیے بے معنی اور معذور بن چکی تھی۔ ایک صحت مند آدمی کے منہ میں قدرتی طور پر روزانہ 600ملی میٹر تک تھوک بنتا ہے جو کہ 12 اونس بوتل کو بھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے

لیکن یہ امیر آدمی قدرت کی اس عظیم نعمت سے محروم ہو چکا تھا یہ بار بار اپنے منہ میں قطرہ قطرہ پانی ڈال رہا تھا مجھے بھی اس کی حالت پر ترس آرہا تھا۔ پھر میں نے اسے ذکر اذکار بتائے اور کہا کسی رات خدائے بے نیاز کے سامنے چند آنسو ندامت کے بہادو یقینا وہ ستر ماں سے زیادہ شفیق اور مہر بان ہے ضرور تمہاری حالت پر رحم کھائے گا اور تمہاری بیماری بھی شفا میں بدل جائے گی پھر وہ امیر آدمی چلا گیا لیکن میرے لیے سوچ کی بہت ساری لکیریں بھی چھوڑ گیا کہ سوہنے رب نے انسانوں کو کتنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے لیکن نا شکرا انسان ان نعمتوں کی قدر ہی نہیں کرتا انسانی جسم قدرت کا شا ہکار ہے ایک انسانی جسم میں قدرت نے چھوٹی بڑی آنتوں، رگوں اور نسوں کا جال بچھایا ہوا ہے اِس جا ل کی لمبائی ایک لاکھ کلو میٹر پر محیط ہے اِن کو اگر آپ ڈوری کی شکل دے دیں تو دو بار زمین کے گولے پر لپیٹی جا سکتی ہے ہما ری آنکھیں ایک کروڑ دس لاکھ رنگوں کو دیکھ سکتی ہیں اور اگر کسی وجہ سے آنکھیں رنگوں کی شناخت کی صلاحیت کھو دیں تو سارے زمانے کے ہیرے جواہرات اور سونے کے پہاڑ بھی آنکھوں کو اس کے رنگ واپس نہیں دلا سکتے۔ انسانی ناک تین ہزار خو شبوئیں سونگھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور جن لوگوں کی سونگھنے کی حس جواب دے جا ئے تو وہ پھولوں اور گٹر کی بو میں تمیز نہیں کرسکتا اور جن کی یہ صلاحیت ختم ہوجائے وہ پھر واپس نہیں آتی میڈیکل سائنس کی ترقی اس وقت شدید معذوری کا اظہار کر تی ہے جب وہ پو ری کو شش کے باوجود بھی کسی گو نگے کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلوا سکے۔ ہما رے ہونٹ خوبصورتی کے لیے ضروری تو ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں ہو نٹوں کی وجہ سے ہم پی سکتے ہیں کھا سکتے ہیں اور ہماری گفتگو اور الفاظ کی ادائیگی 35فیصد تک ادھو ری ہو جا تی ہیں جب تک ہونٹوں کا سہارا نہ لیا جائے۔ زخم لگنے کی صورت میں اللہ تعالی کے خودکار نظام کے تحت خود ہی تھوڑی دیر میں خون جمنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ سارا نظا م جسم میں مو جود خلیے ہی کر رہے ہوتے ہیں تصور کریں اگر حادثے یا چوٹ کی صورت میں خو ن جمے نہ تو خون کے بہنے سے مو ت واقع ہو جا ئے یعنی خو ن کا جمنا بھی عطیہ خداوندی ہے بلا شبہ چہرہ انسانی شخصیت کی خو بصورتی میں سب سے اہم کر دار ادا کر تا ہے چہرے کی خو بصورتی کا سارا دارومدار گا لوں پر ہو تا ہے اگر کسی حا دثے یا بیما ری کی وجہ سے ہما ری داڑھیں نکل جا ئیں جبڑے گل سڑ جا ئیں تو گا ل اند ر کو دھنس جا ئیں گے تو خوبصورتی کی جگہ بد صورتی لے لے گی اور انسان کی خو بصورتی اور دلکشی کا دارومدار اس کی دلکش دلنشیں سحر انگیز مسکراہٹ پر بھی ہے ایسی خو بصورت مسکراہٹ میں بنیادی کر دار وہ تین سو پوا ئنٹ کرتے ہیں جو قدرت نے تخلیق کئے ہیں اور اگر اِن پوا ئنٹس کی تر تیب غلط یا خراب ہوجائے تو چہرے پر مسکرا ہٹ کی بہار نہیں آتی اور پھر دلکش حسین چہرہ مسکراہٹ کی کرامت سے محروم ہوجاتا ہے میڈیکل سا ئنس ابھی تک ایسا آلہ نہیں بنا سکی جو مسکرانے کی صلاحیت سے عاری شخص کو ہنسا دے دل نظام قدرت کے تحت ایک دن میں ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی بار دھک دھک کر تا ہے دل کا سائز مکے کے برابر ہو تا ہے یہ روزانہ 9500لیٹر خون پمپ کرکے جسم میں بھیجتا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے 10ٹن وزن کو 33فٹ تک اٹھایا جا سکے اور یہ دل ایک سال میں ساڑھے تین کروڑ بار دھڑکتا ہے دل پو ری زندگی میں تقریبا 10لا کھ بیرل خو ن پمپ کرتا ہے اِس میں کو ئی شک نہیں کہ آجکل مصنو عی دل لگا ئے جا رہے ہیں لیکن مصنو عی دل لگا نے کے بعد مریض جس طرح زندگی گزارتا ہے اِس کی خو فنا کی کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے قدرت کے شا ہکار انسا نی جسم میں نا خنوں کو بلکل اہمیت نہیں دی لیکن اگر نا خن نہ ہوں تو انسانی جسم کی کا رکردگی 69فیصد کم ہو جا تی ہے کائنات کا چپہ چپہ خدا کی دانش و صنا عی کے ترانے الاپ رہا ہے۔ اِسی طرح انسانی جسم بھی دعوت فکر دیتا ہے جب ہم چلتے ہیں تو صرف ایک قدم اٹھاتے وقت پو رے ایک سو پٹھے کا م کر تے ہیں اگر اِن میں سے ایک بھی پٹھہ کام نہ کر ے تو ہم قدم اٹھا نے سے معذور ہوجائیں گے دنیا کی تما م مشینوں کو چلا نے کے لیے کسی ڈرائیور یا مکینک کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو چلانے کے ساتھ ساتھ اس کی Careبھی کر تا ہے اس کی مرمت بھی کرتا ہے۔ لیکن کمال حیرت کی بات ہے کہ انسان نہ تو اپنی مشین کا ڈرائیور ہے اور نہ ہی مرمت کنندہ، حضرت انسان تو اِس انسانی جسم کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے اب یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ اربوں انسانوں اور حیوانوں کو کون سی ہستی چلا رہی ہے تیل دے رہی ہے صاف کر رہی ہے۔ امپیریل کا لج آف سائنس کے ایک پروفیسر مسٹر ولیم ایک دفعہ انسانی کان کی ساخت پر تحقیق اور مشاہدہ کر رہے تھے کہ قدرت کی صناعی کے حیرت انگیز نظام اور ترتیب پر چلا اٹھے جس اللہ نے کان ایجاد کئے کیا وہ خو د صفت سمع سے محروم ہو سکتا ہے حادثات چوٹوں اور آگ لگنے کی صورت میں جسم کٹ پھٹ جا تا ہے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے یا دوران آپریشن سرجن کس بے دردی سے انسانی جسم میں سوراخ کر دیتا ہے اِس اعتماد کے ساتھ کہ قدرت کی حیرت انگیز مشین دوبارہ خلیوں اور گو شت بنا نے پر لگی ہو ئی ہے اور پھر حیران کن طور پر کٹے پھٹے زخم اور ادھڑا، چیرا ہوا جسم پھر سے اصل حالت میں آجاتا ہے اگر قدرت کا Healingکا نظا م نہ ہوتا تو مریض جرا حی کے بغیر ہی موت سے ہمکنار ہوجائے حادثات کے بعد ٹو ٹے پھوٹے جسموں کے ساتھ زندگی گزارنا موت سے بھی بدتر ہو۔ انسانی جسم قدرت کی شاہکار تخلیق ہے آپ جیسے جیسے مشاہدہ اور غور و فکر کرتے جاتے ہیں عقل سربہ سجود ہوتی چلی جاتی ہے آپ نوٹ کریں جسم انسانی کی تخلیق خلیوں کی ترتیب سے ہوئی ہے اِ ن کی تر کیب اور توازن دیکھ کر عقل دنگ رہ جا تی ہے آغاز میں یہ ایک خلیہ ہو تا ہے پھر دو چار اور آٹھ اور اِسی طرح بدن کی تشکیل ہوتی جاتی ہے خو د کار قدرتی نظام کے تحت تمام خلیے اپنی اپنی جگہوں پر لگتے ہیں یہ کان ناک اور آنکھ کی تشکیل پر لگ جا تے ہیں یہ کبھی نہیں ہوا کہ نا فرمانی کر تے ہو ئے کان کی جگہ ناک اور ناک کی جگہ آنکھ ہو دیگر اعضا کی تشکیل پر لگ جائیں ناک کی جگہ آنکھ لگ جا ئے ہو نٹوں کی جگہ کان لگ جا ئیں نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ قدرت کی آنکھ اِس نظام کی نگرانی پر معمور ہو تی ہے اور قدرت کے سامنے پو ری کائنات سر تسلیم خم کر نے پر مجبور ہے۔انسانی جسم میں انگوٹھے کی اہمیت کا اندازہ اِس با ت سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اگر انگوٹھا نہ ہو تو انسان اور بندر میں فرق ختم ہو جا ئے ریڑھ کی ہڈی نے انسان کو چوپا ئے سے انسان بنایا اور اگر یہ ہڈی اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکے تو جدید انسان ڈارون کا قدیم انسان بن جا ئے جگر اور گر دے خراب ہوجائیں تو لاکھوں روپے لگا نے کے بعد بھی زندگی اجیرن ہی رہتی ہے۔ پھیپھڑے دن میں پندرہ ہزار مر تبہ سانس لیتے ہیں سانسوں کی یہ تعداد اگر کم یا زیادہ ہوجائے تو ان مریضوں کی بے بسی لا چارگی اور تکلیف کا اندازہ لگا ئیں جو رات کو اٹھ اٹھ کر اپنی سانسوں کی بے ترتیبی کو میڈیکل آلے سے ترتیب میں بدلتے ہیں انسان کا پیشاب اور فضلہ کنٹرول کر نے کا سسٹم جوا ب دے جا ئے تو خو بصورت انسان کو بھی لنگوٹ پہن کرپھر نا پڑتا ہے۔ درد اور بخا ر ہمیں جسم میں بیماری کی نشاندہی کر تے ہیں تاکہ ہم علاج کروا سکیں اور بے ہو شی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے ہم اِس سے بے خبر ہیں تصور کر یں اگر شدید صدمے دکھ اور چوٹ میں اگر انسان بے ہو ش نہ ہو تو زندگی جہنم بن جائے قدرت بے ہوش کر کے انسان کو وقتی طو رپر دکھ درد سے آزاد کر دیتی ہے جن کی نیند اڑ جائے آپ تصور نہیں کر سکتے ان کی زندگی کتنی ہو لنا ک ہوجاتی ہے اگر موت نہ ہوتی تو آج دنیا فرعونوں چنگیزوں اورہٹلروں کی وجہ سے جہنم بنی ہو نی تھی یا لاعلا ج بیماریوں اور بڑھا پے میں جب زندگی بو جھ بن جا تی ہے تو موت ہی اپنی آغو ش وا کر کے دکھوں سے نجات دلا دیتی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو ہماری سستیوں کو تاہیوں گنا ہوں نا فرمانیوں کے با وجود ہمیں معا ف کر تا ہے خدا کائنات اور انسان کو بنا کر الگ نہیں ہوگیا بلکہ اِس کی رکھوالی اپنے ذمے لے لی ہے دنیا سوتی ہے لیکن خدا ہمہ وقت جاگتا ہے تاکہ نظام کائنات میں خلل نہ آئے بندے چاہے لاکھ غا فل ہوجائیں وہ کبھی غافل نہیں ہوتا۔

Share
Share
Share