بے پناہ ہوتے یہ مزدور بھی انسان ہیں :- ڈاکٹر سیّد احمد قادری

Share
ڈاکٹر سیّد احمد قادری

بے پناہ ہوتے یہ مزدور بھی انسان ہیں

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ :9934839110

کسی تدّبر اور تدبیر کے بغیر سوچے سمجھے،کسی مشورہ، پلان و تیاری کئے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اچانک ملک کے اندر لمبے لاک ڈاؤن کے اعلان نے ملک کے کمزور،بدحال،بے بس اور مجبور مزدور طبقہ کی جوالمناک اور افسوسناک منظر نامے سامنے آ رہے ہیں،

وہ خون کے آنسو رُلانے والے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں یوں تو پورا ملک پریشان حال ہے، لیکن کروڑوں مزدوروں، جو روز کماتے ہیں اور کھاتے ہیں، ان کے سامنے یہ لاک ڈاؤن پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑا اور حکومت کی جانب سے ایسے مزدوروں کے لئے کسی بھی طرح کا اعلان،پلان یا ہمدردی کے دو بول سننے کو نہیں ملے نہ ہی اور ان کی روزی روٹی کے مسئلہ کے حل کی کوئی عملی کوشش نظر آئی۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ان کے صبر و تحمل کا باندھ ٹوٹنا عین فطری تھااور ایسے بے پناہ لاکھوں مزدور سڑکوں پر نکل آئے کہ شائد اچانک ان کی روزی،روٹی چھن جانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کے دل میں رحم آئے اور وہ انھیں زندہ رہنے کا آخری سہارا، ان کے گاؤں، گھروں تک پہنچانے کا انتظام کر دے۔ لیکن حکومت کے کارندوں نے ان سے ہمدردی اور محبت سے پیش آنے کی بجائے انھیں بڑی بے رحمی اور بربریت سے پٹائی کی اور انھیں اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس جانے کے لئے کہا گیا۔ لیکن ان کا ٹھکانہ اور آشیانہ تو اجڑ چکا تھا۔ اب یہ مزدور جائیں تو جائیں کہاں؟ نوکری ختم، دوکانداروں نے سودا دینا بند کر دیا اور مکان مالکوں کا کرایہ ادا نہیں کئے جانے پر مکان خالی کئے جانے کی مسلسل دھمکی۔ ایسے حالات میں ان کے سامنے آگے کنواں، پیچھے کھائی تھی، اس کے بعد جو منظر نامہ ہمارے سامنے ہے، انھیں دیکھ کر انسانیت چیخ اٹھی اور بے حس حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کے بہت سارے ممالک کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ لیکن جو غیر انسانی حالات بھارت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، یہ سب دیکھ کر دنیا بھر کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ دنیا میں ایسا بھی کوئی ملک ہے،جہاں سؤ دو سؤ نہیں،لاکھوں کی تعداد میں ہر جانب سے مایوس اور نامرادہو کر مزدور تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کرتے ہوئے دو چار کیلو میٹر نہیں، بلکہ ہزاروں کیلو میٹر کے اندھے سفر پر پیدل ہی اپنے بال بچوں کو لے کرنکلنے پر مجبور ہوئے۔ جگہ جگہ پولیس والوں نے راستہ روکنے کی کوشش کی، لاٹھیوں، ڈنڈوں سے بے رحمی سے پٹائی بھی کی۔ کئی مزدوروں نے پٹائی کی تاب نہ لاکر دم بھی توڑ دیا۔پھر بھی ان کے بڑھتے قدم نہیں رکے۔ ان کے پیروں میں چھالے پڑتے رہے، چھالے پھٹتے رہے،زخموں سے خون رستے رہے۔ بھوک پیاس کی شدّت سے بیوی، بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھتے رہے۔کسی مزدور کو اپنے بچے کی بھوک وپیاس کی شدت نہیں دیکھی گئی، تو وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوا۔ حاملہ عورتیں راستے میں ہی بچے کو جنم دیتی رہیں۔ کوئی مزدورعورت صرف سترہ دنوں کے نومولود بچہ کو لے کرپیدل ہی چلنے کو مجبور نظر آئی۔ کسی ماں کی گود میں بچّہ بھوک،پیاس سے مر گیا،تو دور تک ماں اس بچے کی لاش کو اپنی گود میں لئے آگے بڑھتی رہی کہ شائد راستے میں اس بچے کی سانس لوٹ آئے اور اس کے جگر کا ٹکڑا ایک بار پھر اس کی سونی ہوتی گود کو آباد کردے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس بچے کی لاش کوراستے میں کسی بہتی ندی میں پھینکے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی ٹریکٹر پر اندھے سفر کے مسافروں میں بھوک، پیاس کی شدت سے کسی معصوم چھوٹے بچے کی ماں ہلاک ہو گئی اور اس کی لاش ٹریکٹر پر سے کسی ندی میں پھینکی جانے لگی تو بچہ،اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر ایسا کرنے سے لووگوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔اس اندھے سفر پرکوئی اپنی بیل گاڑی پر اپنا سامان رکھ کر اور اپنے اہل خاندان کو بٹھا کر نکل پڑا۔ لیکن بیل گاڑی کی رفتار بھی تو انسانی رفتار سے زیادہ تیز نہیں ہوتی ہے، اس سست رفتارسفرمیں پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان،جو گھر سے چلتے وقت رکھا تھا، وہ ختم ہو گئے اور بھوک،پیاس سے زندگی کی گاڑی کی سانسیں ٹوٹتی محسوس ہونے لگیں تو زندگی کی سانسوں کو بچانے کا ان کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ایک بیل کو فروخت کر دیں اور یہی کیا کیا گیا، پندرہ ہزار کے ایک بیل کو پانچ ہزار میں بیچ کر کسی طرح زندگی کی ڈوبتی سانسوں کو بحال کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی آگے کا سفر رکا نہیں اور انسانیت کو شرمسار کرنے والا یہ منظر بھی سامنے آیا کہ ایک بیل کے بِک جانے کے بعد اس کی جگہ مزدور خود بیل بن کر بیل گاڑی کو کھینچنے لگا۔ لوگوں نے اس غیر انسانی منظر کو دیکھا، یہ خبرٹی وی اور اخبارات کی سرخیاں بنیں، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔حکومت کی نظروں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک پاؤں سے معذور ایک مزدور ایک پرانی سائیکل پر اپنی بیوی اور اپنے دوبچے کو کسی طرح بٹھا کر سینکڑوں میل دور اپنے گاؤں کے لئے، سائیکل کے ایک ہی پیڈل پر اپنے ایک پاؤں سے چلاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ آسمان سے آگ برستے دن بھر کے سفر کے بعد یہ بے پناہ مزدور تھک کر رات گئے کسی پیڑ کے نیچے، سڑک کنارے یا پھر ریل کی پٹریوں پر تکان مٹانے، بھوکے پیاسے سو جاتے اور اسی سوئی ہوئی حالت میں ان مزدوروں کے جسموں کو روندتی ہوئی کوئی مال گاڑی، کبھی کوئی ٹرک اور کبھی کوئی کار ان کے جسموں کے پرخچے اڑاتی ہوئی گزر جاتی۔ ان مرنے والوں میں سے ان کا کوئی زخموں سے چورزندہ بچ جاتا تو ایسے لوگوں کا بھی کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔ شعلے برساتی دھوپ سے سڑک کے کولتار پگھل رہے ہیں اور اسی پگھلتی کولتار کی سڑک پر چار سال کے چھوٹو کے پاؤں پگھلتے کولتار سے چپک رہے ہیں۔ پھر بھی وہ اپنی ماں کی انگلی پکڑے پکڑے گھسٹتا ہوا بلتھری بارڈر کی سڑک پر چلنے پر مجبور ہے۔پندرہ برس کی جیوتی اپنے بیمار باپ کو سائیکل پر بٹھا کر بارہ سوکیلو میٹر کے درد اور اذیت سے بھرے سفر کو طئے کر گروگرام سے بہار کے دربھنگہ پہنچنے پر خوب واہ واہی ہو رہی ہے۔ لیکن در حقیقت یہ واقعہ بھی حکومت کی بے حسی کی ایک مثال ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے المناک اور انسانیت کو شرمسار کر دینے والے منظر نامے روز ہماری نظروں سے گزر رہے ہیں۔ پیدل چلنے والے مزدوروں کی بے کسی پر جب سوال اٹھنے لگے، تب ریلوے محکمہ نے بڑا ”احسان“ ان مزدوروں پر کرتے ہوئے ان بے بس اور لاچار مزدوروں سے کرایہ وصول کر ان کی منزل تک پہنچانے کے لئے خصوصی ریلوں کو چلایا گیا۔ اس سرکاری ریلوے سفر میں بھی انھیں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 72 سے زائد ریل گاڑیاں راستہ ہی بھول گئی، جانا تھا کہیں اور پہنچ گئی کہیں۔ جس کے باعث چند دن کا سفر چار پانچ دنوں میں طئے ہوا اور اس پورے سفر کے دوران ان مزدوروں کوبھوکے پیاسے چھوڑ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں کئی مزدوروں نے ٹرینوں ہی میں بھوک و پیاس کی شدّت کی تاب نہ لاتے ہوئے تڑپ تڑپ کردم توڑ دیا۔ ریلوے عملہ کا یہ حال رہا کہ اس طرح مرنے والوں مزدوروں کی لاشوں کو کبھی ٹرین میں ہی چھوڑ دیا گیا یا کسی جگہ اتارا بھی گیا تو اس کی لاش (کانپور جیسے بڑے پلیٹ فارم پر) پوسٹ مارٹم کے نام لواحقین کے سپرد کیا اور نہ ہی پوسٹ مارٹم کے لئے لے جایا گیا اور لاش پلیٹ فارم پر کئی دنوں تک سڑتی رہی۔ مظفرپور اسٹیشن پر کا بھی ایک منظر رُلا دینے والاہے۔ پلیٹ فارم پر ایک عورت کی ٹرین سے اتاری گئی لاش پڑی ہے اور اس عورت کا ڈھائی تین سال کا بچہ بار بار اپنی ماں کو اٹھانے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے۔ منور رانا کا ایک شعر ہے ؎
تم اس کی لاش کو دیکھو نہ یوں حقارت سے ٭ یہ شخص پہلے امیروں کے گھر بناتا تھا
ایسے دل دہلا دینے والے مناظر کو سوشل میڈیا پر دیکھنے والوں کے آنسو بہہ رہے ہیں، لیکن واہ رے غریبوں کی مسیحائی کا دعویٰ کرنے والی ہماری حکومت اور حکمراں۔ ایسی بے شرمی اور بے حیا ئی کہ بے بس اور بے پناہ ہونے والے ان مزدوروں کی مدد کرنا تو دور حاکم وقت کی ناراضگی کے خوف سے ہمدردی کے دو بول بولنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ ان مزدوروں سے ہمدردی دکھانے کی بجائے حاکم وقت کو خوش کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ ہجرت کرنے والے مزدور نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ گرمی کی چھٹیاں منانے گھر جانے والے لوگ ہیں۔ مرکزی حکومت نے بڑی بے شرمی سے سپریم کورٹ میں بھی جھوٹ بولا کہ سڑکوں پر کوئی مزدور نہیں ہے۔ مرکزی حکومت اور مختلف ریاستوں کی حکومت میں لیبر وزارت بھی موجود ہے۔ریاستوں کے لیبر منسٹر کو تو چھوڑئے، مرکزی حکومت کے لیبر منسٹر اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی پر ان مزدوروں کی بے پناہی اور اذیت کو دیکھ رہے ہیں،لیکن کچھ کرنا تو دور،ان کے لئے لب کشائی کی بھی ہمّت نہیں کر پا رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے پیدل چلتے مزدوروں کے رستے زخموں پر محبت اور ہمدردی کے مرہم لگانے کی کوشش کی،تو حکومت وقت کو یہ بھی ناگوار گزرا اور اسے ڈرامہ قرار دیا گیا۔ پرینکا گاندھی نے زخموں سے چور مزدوروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لئے ہزاروں بسوں کا انتظام کیا تو اس میں بھی سیاست نظر آئی اور کئی نقص نکال کر، پیدل چلتے چلتے پاؤں میں پڑے چھالوں اور زخموں سے لہو لہان ان مزدوروں کو، ان کی عورتوں اور بچوں کو ان بسوں پر سوار نہیں ہونے دیا، اور ان بسون کو واپس کر دیا گیا ۔ نہ خود مدد کرینگے اور نہ مدد کرنے دینگے کی پالیسی بھی عجیب ہے۔ اس پالیسی کے پس پشت مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی نظروں کے سامنے سب کچھ ہو رہا ہے، لیکن وہ اندھے سفر پر ہزاروں میل کا راستہ طئے کرتے محنت کشوں سے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں ادا کر رہی ہے اور نہ ہی مدد کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سے حاکم وقت کی اچانک لاک ڈاؤن نافذ کئے جانے والے کے نا عاقبت اندیشانہ فیصلہ اور تالی، تھالی پیٹنے نیز موم بتّی جلانے والے احمقانہ مشوروں کے ساتھ کورونا وباکوختم کرنے کی ناکامیوں کی پول کھل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن سے پریشان حال لوگوں سے حکومت کی جانب سے کسی ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور نہ ہی ان کی پریشانیوں کے ازالہ کی کوئی کوشش نظر آئی۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ سکھوں اور مسلموں نے جگہ جگہ سینکڑوں میل کے سفر پر نکل پڑے مزدوروں اور بے کسوں کی بھوک پیاس کی شدّت کو مٹانے کے لئے جگہ جگہ کھانے، پانی کا نظم کیا تو یہ بھی برسر اقتدار پارٹی کو ناگوار خاطر ہوا اور خاص طور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انھیں ایسا کرنے سے روکا گیا۔ اتر پردیش میں تو ایسے کئی لوگوں کو جیل میں بھی ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بہت سارے مسلم نوجوانوں نے ہمت، جرأت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے، پولیس اور بی جے پی کے اراکین کے ڈنڈوں کی پرواہ کئے بغیر حتی الامکان بھوک اور پیاس سے تڑپتے مزدوروں کی مدد کرنے میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ مزدوروں کے روزگار اور رروٹی چھن جانے کے ایسے حالات میں ان کی مجبوریوں پر ایک ضرب کاری، حکومت نے لگاتے ہوئے ان محنت کشوں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹہ کے بجائے اب بارہ گھنٹہ کر دیا ہے۔ ٍساتھ ہی ساتھ یہ مزدور اپنے کسی بھی حق اور استحصال کے خلاف احتجاج نہیں کریں، اس کے لئے لیبر قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان کے ٹریڈ یونین پر پابدی عائد کر دی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت مزدوروں کو انسان سمجھنے کو تیار نہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ مزدور بھی انسان ہیں، ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے، ان کے بھی احساسات وجذبات ہوتے ہیں۔ ان کے بھی بیوی،بچے اور ماں باپ ہوتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس مئی ماہ کی پہلی تاریخ کو عالمی سطح پر یوم مزدور منایا جاتا ہے، اسی مئی ماہ کے پورے مہینہ میں ان کے ساتھ حکومت کی جانب سے کسی طرح کی ہمدردی اور انسانی تقاضوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ مجھے یقین ہے کہ مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم، ناانصافی اور استحصال کے یہ سانحات تاریخ کے سیاہ باب کا حصّہ رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Share
Share
Share