افسانہ : زندگی کے رنگ :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : زندگی کے رنگ

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:

میں ہر وقت کام کی دھن میں لگا رہتاتھا۔میری ماں اکثر مجھ سے یہ کہتی بیٹا پرکاش سنبھل کر کام کیا کرو،اتنی جلد بازی اچھی نہیں۔میں اپنی ماں سے کہتا ماں تم بہت پرانے خیالات رکھتی ہو، تمہیں نہیں معلوم دنیا کہا سے کہا جارہی ہے۔دنیا بدل چکی ہے۔

اگر میں نے دیر کردی تو میں، میں نہیں رہوں گا۔ ماں پرکاش سے کہتی کہ بیٹا جب سے تو نے جوانی میں قدم رکھا ہے تیرا گھر تجھے تیرا نہیں لگتا،اور تو اور تیرے ماں باپ کے پاس بیٹھ کر دو باتیں بھی نہیں کرتاہے۔میں اپنی ماں سے کہتا ماں چِل کرو، دیکھو تمہارا بیٹا بہت جلد ترقی کرنے والا ہے۔ ماں مجھ سے کہتی کہ تو چاہے جتنی بھی ترقی کرلے اگر تو انسانی رشتوں کی بنیاد کو نہیں سمجھے گا تو تجھے ہمارے سِوا ہر رشتے میں دھوکا ہی ملے گا،چاہے وہ دوستی ہو یا کاروبار۔ نئے زمانے میں یہ عام سی بات ہے کہ آپ کے پاس کام ہے تبھی آپ کی زندگی،زندگی ہے ورنہ بے کار ہے۔ میری ماں کہنے لگی تو سمجھدار ہو کر بھی نادانوں جیسی باتیں کرتا ہے۔میں اپنی ماں سے کہہ رہا تھا کہ ماں بس بھی کرو۔مجھے اب آپ سے اور لیکچرنہیں سُننا۔ میرے دوستوں کو پتہ لگے کہ پرکاش کی ماں اس پر پابندیاں لگاتی ہیں تو سارے میرے دوست میرا مذاق اڑانا شروع کر دیں گے۔ ماں تم نہیں سمجھتی ہو تم نے باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہے۔ میری ماں ہر روز کی مانند اپنے آنگن میں رنگوں سے رنگولی بنانے لگی۔وہ ہر رنگ بھرا کرتی تھی۔میں ہر بار ان رنگوں کو بکھرا کر چلا جاتا تھا۔ میری ماں ہر وقت غصہ ہونے کے بجائے افسوس کرنے لگتی اور پھر اپنے کاموں میں جٹ جاتی۔
ایک روز میں نے اپنی ماں سے کہا۔ماں مجھے کپڑے کے شو روم میں نوکری مل گئی ہے میرا دوست آکاش ہے اس نے میرے کام کرنے کے جذبے کو دیکھ کر سفارش پر یہ نوکری دلوائی ہے۔ ہر روز میں وقت پر نوکری جاتا اور گھر لوٹ آتا تھا۔ ایک روز اس شو روم میں نئے کپڑوں کا مال آتا ہے اور میں اس مال کو شو روم میں جمانے کے لیے رُک جاتا ہو ں اور یہ کام کرتے کرتے مجھے بہت دیر ہوجاتی ہے۔میرے گھر نہ آنے پر میری ماں بے حد پریشان ہورہی تھی جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، ماں نے مجھے دیکھتے ہی میرا ماتھا چوماہے اور کہنے لگی کہ آج اتنی دیر کیوں لگا دی؟میں نے اپنی ماں سے کہا،ماں آج شو روم میں نئے کپڑوں کا مال آیا تھا اور اُسے جمانے میں وقت لگ گیا۔ ماں نے میرے لیے کھانا گرم کیا اور مجھے کھانا دیا ہم ماں بیٹے مل کھانا بھی کھا رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے ماں نے کہا پرکاش اب تو،تو کمانے لگا ہے میں تیرے لیے ایسی دلہن بیاہ کرکے لاؤں گی کہ تو دیکھتا رہ جائے گا۔میں اپنی ماں سے کہہ رہا تھاکہ ابھی کیا ہے ماں؟ ابھی مجھے کمانے دو، تھوڑا بینک بیلینس جمانے دو،پھر میں شادی کروں گا۔ میں اور ماں کھانا کھا کر سونے ہی جا رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ماں مجھ سے کہنے لگی کہ اتنی دیر رات کون آیا ہوگا؟ ماں نے مجھ سے کہا بیٹا پرکاش تو ٹھہر میں دروازہ کھولتی ہو، میں نے کہا ماں میں ہی کھول دیتا ہو،آپ آرام سے یہاں بیٹھے۔میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا اور وہ بار بار گومتی کو بلانے لگا۔ میں نے کہا انکل آپ غلطی سے یہاں آ گئے ہو۔اتنے میں ماں بھی دروازے پر پہنچ جاتی ہے اور اس بوڑھے شخص کو دیکھ کر کہنے لگی اجی آپ…..! میں نے پوچھا، ماں کیا تم انہیں جانتی ہوں؟ ماں نے مجھ سے کہا ہاں بیٹا پرکاش یہ میری زندگی ہے اور تمہارے پِتا ہے۔ یہ کیا کہہ رہی ہو؟میں تعجب میں پڑگیا۔مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔میں نے اپنی ماں سے سوال کیا یہ اتنے سال کہا ں تھے؟ اور آج یہ یہاں کیا لینے آئے ہیں۔ ماں کہنے لگی بیٹا پرکاش تمہارے پِتاجی کی اس میں کوئی غلطی نہیں تھی۔انھوں نے تو بھگوان رام جی کی طرح ونواس جھیلا ہے۔میں تمہیں بتانے والی تھی مگر تم آج دیر سے آئے اور میرے دھیان سے نکل گیا کہ آج تمہیں تمہارے پِتاجی کا پیار نصیب ہوگا۔ میں نے اپنی ماں پھر سے سوال پوچھا کہ یہ اتنے برس کہاں تھے؟ ماں نے کہا یہ جیل میں تھے۔میں دوبارہ سے پوچھا کہ آخر یہ جیل میں کیوں تھے؟ ماں نے بتایا کہ وہ جس سُنار دکان میں کام کر رہے تھے وہاں کسی نے دکاندار کا قتل کر دیا اور سارا سونا لوٹ کر لے گیا۔یہ الزام تیرے پِتا جی پر لگا دیا تھا۔ جس نے قتل کیا وہ دکاندار کا چھوٹا بھائی تھا اس نے پیسوں کی خاطر اپنے بڑے بھائی کا خون کردیا اور بڑی چالاکی سے سارا الزام تیرے پِتا جی پر لگا دیا۔ اندھا قانون تماشا بن کر آج ایک بار پھرسچائی کو کچلتے دیکھتا رہا۔جھوٹے ثبوتوں کی بِنا پرتیرے پِتا جی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی قصور وار ٹھہرائے گئے۔خیر اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔میں اپنی ماں سے کہنے لگا ماں مجھے نیند آ رہی ہے مجھے کل بھی جلدی جانا ہے کام بہت ہے۔
مجھے دیر رات جاگنے پر سویرے وقت پر آنکھ نہیں کُھل پائی۔ جیسے ہی فون کی رنگ بجی ٹن ٹن۔میں ہڑ بڑا کر نیند سے جاگا اور گھڑی دیکھنے لگا اور جلدی جلدی نہاں دھو کر تیار ہونے لگا۔گھڑی دیکھتا رہا مگر مجھے یہ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ الآرام نہیں بلکہ کسی نے اسے فون کیا تھا۔ جیسے تیسے تیار ہو کر میں شو روم جانے نکل پڑا۔ شوروم کے آس پاس لوگوں کی کافی بھیڑ جمع تھی اور جب میں نے شو روم کی طرف دیکھا تو میرے ہوش اڑ گئے اس کپڑے کے شو روم میں آگ لگی ہوئی تھی دکان کا سارا مال جل رہاتھا۔ میں یہ دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ادھر کپڑے کے شو روم کا مالک دھن راج سیٹھ آتا ہے یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوجاتا ہے۔ میں شو روم کے منیجر مہیش جی سے ملا۔منیجر مہیش جی مجھ کو دیکھتے ہی مجھ پر غصہ کرنے لگے او ر کہنے لگے کہ کل رات تم اور آکاش شوروم سے سب سے آخر میں نکلے تھے کہیں یہ حرکت تمہاری تو نہیں؟ میں تو رات کے منظر کو یاد کرکے ویسے ہی بے چین تھا میں کہنے لگا نہیں ہم نے یہ نہیں کیا ہے؟ آگ پر قابو پا لیا گیا۔کپڑوں کا سارا نیا مال جل کر خاک ہو چکا تھا۔پولیس کی تفتیش سے پتہ چلا کہ شوروم میں سورٹ سرکٹ ہونے کے سبب آگ لگی تھی۔پرکاش ایک ہفتے سے بے کار ی کی مار جھیل ہی رہا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کی خبر نے اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو معلوم ہوتا تھا۔ اس وبا کے چلتے حکومت نے ملک بھر میں لوک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ میں نے جب سے یہ خبر سُنی نہ تو دن کو چین آتا تھا اور نہ ہی رات کو نیند۔میں پوری طرح ناامید ہو چکا تھا۔ ماں جب بھی میرے کمرے کی کھڑکی کھولتی، تب میں کہنے لگتا مجھے اندھیرے میں رہنے دو۔ یہ دنیا بہت ظالم ہے۔ اس وقت بھی ماں اپنے محبت بھرے انداز میں کہتی رہی کہ بیٹا پرکاش تو، تو کہتا تھا ماں یہ دنیا بدل رہی ہے تو نے سچ ہی تو کہا تھا دنیا بدل رہی ہے پہلے تو دنیااور دنیا والوں کے لیے جیتا تھا لیکن اب تجھے خود کے لیے اورگھر کے اپنوں کے لیے جینا ہوگا۔ ناامید لوگ ہمیشہ دُکھی زندگی گزارتے ہیں میرا بیٹا اپنے نام کی طرح دنیا میں پرکاش پھیلائے گا۔ پرکاش بیٹے تو نے باہر کی دنیا دیکھ لی اب تو گھر کی دنیا دیکھ۔یہاں زندگی کے رنگ ہی رنگ ہے۔ ماں مجھے اپنے ساتھ نیچے دالان میں لے آئی اور اپنی بنائی ہوئی رنگولی دکھانے لے گئی۔ میں انکار کرتا رہا۔مجھے نہیں آنا۔ ماں نے ذبردشتی سے مجھے رنگولی دکھائی۔اس رنگولی میں کچھ رنگ تھے ماں نے کہا ہر رنگ اپنی اہمیت رکھتا ہے بیٹے پرکاش تم یہ سفید رنگ دیکھ رہے ہو یہ شانتی کا رنگ ہے یہ رنگ سب رنگوں پر بھاری ہے کیونکہ اس سفید رنگ کو دوسرے نیلے پیلے رنگوں میں ملانے پر پھر نیا رنگ نکل آتا ہے۔مجھے اس وقت کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا میں اس قدر نا امید ہو چکا تھا کہ مجھے کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں رہی۔ گھر میں بھی میں اپنے کمرے میں اکیلا ہی رہتا۔ میرے پِتا جی مجھے بار بار سمجھاتے ہیں سچائی کبھی نہیں بدلتی اور اس سچائی سے نکل آؤ کہ نوکری نہ ہونے پر زندگی ختم نہیں ہوتی، جس طرح تم اپنی منزل کو پانے کے لیے راستے بدلتے ہو اسی طرح زندگی کے موڑ ہمیں نئی زندگی کی راہ دکھاتے ہیں۔تمہیں پتا ہے بیٹے پرکاش میں جب جیل میں تھا تب اس قید خانے میں تمہاری ہی عمر لا نوجوان بھی تھا اس نے اپنے مالک کا ادھار نہیں چکایا تھا اور چکاتا بھی کیسے؟ اس کی ماں بہت بیمار تھی اور اوپر سے بہن کی شادی۔اس نے مالک سے قرضہ لیا تھا جو وقت پر نہ چکانے کے سبب مالک نے اُسے جیل بھیج دیا۔ مگر اس نوجوان نے ہار نہیں مانی اس قید خانے میں وہ ان پڑھ نوجوان گنہگاروں کولکھنا پڑھنا سیکھاتھا۔اس میں سچائی تھی، محنت کرکے کچھ کر دکھانے کا جذبہ تھا۔اس کی اچھی عادتوں کے سبب بڑے پولیس آفیسر کی سفارش پر اُس کی سزاکر دی گئی ۔ میں جب بھی اسے دیکھتا اس وقت مجھے تم یاد آجاتے۔تمہاری ماں کو ہی دیکھ لو جو اتنے برسوں تک میری غیر موجودگی میں تمہاری پرورش کرتی رہی۔وہ کبھی ناامید نہیں ہوئی۔ میں رونے لگا اورگھر میں رکھے سامان کو الٹ پلٹ کرنے لگاتھا۔تھک ہار کر زور زور سے رونے اور چیخنے لگا۔ ماں میں ہا ر چکا ہوں۔پِتاجی زندگی میں کچھ نہیں بچا۔ میں اپنے آپ کو زخمی کرنے لگا۔ماں نے مجھے بہت سمجھایا اور میرے پِتاجی نے مجھ کئی منّتِ کیں بیٹا تو کہے تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں مگر تیری یہ حالت نہیں دیکھ سکتا۔ اتنے میں گھر کے باہر کا شور اندر تک سُنائی دے رہا تھا۔ ماں نے فوراً جا کر بالکنی سے دیکھا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ آنند کورونا وائرس کی وبا سے مر گیا۔ آنند میرے بچپن کا جگری دوست تھا ہم ساتھ کھیلے اور بڑھے۔ آنند اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ماں نے کوشش کی مجھ تک یہ خبر نہ پہنچے۔ میں بھی بالکنی میں دوڑاتو یہ خبر بھی معلوم ہوگئی۔ اس کے بعد میں خود کشی کا ارادہ کرنے لگا۔ زندگی میں کالا رنگ چھا گیا ہے موت کا رنگ بھی کالا ہے مجھے مر جانا چاہیے۔اس وقت ماں نے مجھ سے کہا بیٹا پرکاش تو خود کو دکھ نہیں دے رہا ہے بلکہ تو ہمیں دکھ دے رہا ہے کیا تھجے اس دن کے کے لیے پال پوش کربڑھا کیا تھا کہ تو اپنی زندگی کو ختم کردیں۔ زندگی ابھی اتنی سستی نہیں ہوئی کہ ایک بیٹا اپنی ماں سے جدا ہوجائے۔جس دن زندگی سستی ہوگی اس دن دنیا میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ رات بھر ماں اورپِتا جی میرا ایسا خیال کرتے جیسے وہ میرا بچپنا ہو۔ میں دھیرے دھیرے دماغی مرض میں مبتلا ہوتا جارہا تھا۔ماں نے ہار نہیں مانی وہ ہر روز صبح مجھے رنگوں سے بنی رنگولی دکھاتی اور کہتی یہ تمہاری یہ جوانی کی زندگی کا سنہرا رنگ ہے۔اس رنگ کے ساتھ دوسرے رنگوں کو سجایا جاتا ہے تو وہ کبھی شہزادہ تو کبھی ویر پورش تو کبھی نیک انسان کا روپ دکھائی دیتا ہے اتنے میں رم جھم بارش ہونے لگی۔ بالکنی کی چھت ہونے سبب رنگ نہیں بکھرے۔ اتنے میں آسمان پر اند دھنک کا پٹ نظر آیا۔ ماں نے کہاں آج ہم اندردھنک کی رنگولی بنائے گے۔ ماں نے ایک ایک رنگ بھرا اور مجھ سے کہا ہماری زندگی رنگوں سے خالی ہے مگر ہمیں خود سے زندگی میں رنگ بھرنے ہوں گے۔ ماں ایک بعد ایک رنگ بھرنے لگی،میں بھی اپنے آپ ہی اس رنگولی میں رنگ بھرتا رہا۔میری زندگی کروٹ لے رہی تھی اور راہیں کھول رہی تھی۔ میں چند ہفتوں میں ابھر آیا۔ اب مجھے زندگی سے پیار ہے میں نے اپنی ماں کی بنی ہوئی رنگولی سے اور پِتا جی نصیحتوں ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیا۔اب میں اسی رنگوں کی مدد سے کئی طرح کی تصویریں بنارہا تھا۔میں نے اپنی رنگولی کے ذریعے کورونا وائرس کی وبا کے دوران کیا احتیاط رکھنی ہے اس کا مسیج بنایا اور اسے اپنے فیس بک اور انسٹاگرام اور اپنے واہسٹ ایپ پر بھیجا۔ میں اب گھر سے ملے پرکاش سے اپنی اور اپنوں کی دنیا روشن کر رہا تھا۔جینے کی راہ بننا اتنا بھی میرے لیے آسان نہیں تھا میری زندگی میں رنگ بھر چکے ہیں اور اگر آپ کو بھی یہ شکایت ہے تو اپنے ماتا پِتا کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر دیکھو اصل زندگی کے رنگ وہی سے ملتے ہیں۔
——-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

Share
Share
Share