افسانہ : سبکدوش :- آبیناز جان علی (موریشس)

Share
آبیناز جان علی

افسانہ : سبکدوش

آبیناز جان علی – موریشس

آنٹونی کی وفات کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ یوں جب اچانک کسی قریبی رشتہ دار کے جانے کی خبر ملتی ہے تو طرح طرح کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ دماغ گھنٹوں اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ جب تک کوئی تسلی بخش جواز نہیں ملتا سکون کہاں مل پاتا ہے۔ نوکری انسانی زندگی کا سب سے اہم حصّہ ہے۔ اسکول کے دنوں سے ہی بچوں کو ملازمت کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

بچے بچپن سے والدین سے یہ باتیں سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں:
”اسکول کے کام میں دھیان دو۔ دل لگا کر پڑھو تاکہ بڑے ہوکر ایک اچھی نوکری ملے۔“
استاتذہ بھی اکثر آنٹونی سے یہی کہتے:
”ہوم ورک نہیں کرو گے اورمحنت سے اپنا سبق یاد نہیں کرو گے تو بڑے ہو کر کیا بنوگے؟“
برسرِروزگار ہونے کے لئے بچہ یونیورسٹی تک مسلسل محنت کرتا رہتا ہے۔ بالآخر ڈگڑی ہاتھ میں آتی ہے۔ لاتعداد انٹرویوز کے مشکل مراحل سے گزر کر جب آخرکار نوکری ہاتھ آتی ہے تو اس کی خوشیوں کی انتہا نہیں رہتی۔ آنٹونی جب وہ دو سال کا تھا اس کے والد نے کرسمس کے موقعے پراس کے سرہانے اس کاتحفہ رکھا تھا۔ صبح جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی اس نے تکیہ کے آس پاس ہاتھ پھیڑا اور جیسے ہی اس کے ننھے ہاتھ اس رنگین کاغذات سے ٹکرائے تھے آنٹونی کے دل میں خوشیوں کی لہر بیدار ہوئی تھی اور اس نے جلدی جلدی اپنی آنکھیں ملی کر چمکیلے کاغذ کو تار تار کردیاتھا۔ اندر ایک ڈبہ تھا جس پر ایک سفید طیارے کی فوٹو تھی۔
دروازے کے پاس کھڑے آنٹونی کے والدین اسے الفت بھری نگاہوں سے جلدی جلدی ڈبہ کھولتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اس کھلونے میں نیچے بٹن ڈبانے سے طیارے کے اندر موٹر شور کرنے لگا اور اس کی لائیٹ چمکنے لگی۔ اس دن کے بعد آنٹونی نے کبھی اپنے طیارے کو خود سے الگ نہیں کیاتھا۔ رات کو سوتے وقت اگر اس کا کھلونا کہیں غلطی سے نظروں سے اوجھل ہوتا تو وہ پورا گھر سر پر اٹھالیتا۔ جب تک وہ اپنے طیارے کو سینے سے نہ لگاتا اسے نیند کہاں آتی تھی۔
جیسے جیسے آنٹونی بڑا ہونے لگا وہ اپنی زنگیں کتابوں میں دوردراز ملکوں کے بارے میں پڑھتارہتا۔ اس کے دل میں یہ امید اور مضبوط ہوگئی کہ وہ ہواباز بن کر دنیا بھر کی سیر کرے گا۔ وہ چین کی عظیم دیوار دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مصر کے اہرام کے سامنے فوٹو کھینچنا چاہتا تھا۔ وہ آئی فل ٹاور پر چڑھ کر وہ پیرس کے دلفریب مناظر سے لطف اندوزہونا چاہتا تھا۔ وہ محبت کی سب سے عظیم الشان نشانی یعنی تاج محل دیکھنے کا بھی آرزومند تھا۔
ہواباز کی ٹرینگ کے لئے اس کے والدین کی تمام جمع کئے ہوئے رقوم صرف ہوگئے۔ آنٹونی نے یہ مصمم ارادہ کیا تھا کہ وہ سرفراز ہو کر اپنے والدین کا نام روشن کرے گا۔ آنٹونی کو ابھی بھی وہ دن یاد ہے جب وہ پہلی بارآئیر موریشس میں ہواباز کی نوکری کے لئے منتخب ہوا تھا۔اس دن آنٹونی کو لگاکہ دنیا کی ساری خوشیاں اس کے پاس آگئی ہیں۔ اس کا پہلا سفر لندن کا تھا۔
”جولیا‘‘ آنٹونی نے ایک آہِ سرد بھری۔
آنٹونی لندن کا وہ سفر وہ کیسے بھول سکتا تھا۔ اس نے پہلی بار جولیا کو لال لباس میں دیکھا تھا۔ ہوائی اڈے کی بھیڑ میں وہ سب سے الگ لگ رہی تھی۔ لاؤنج میں جب دونوں کی آنکھیں ملیں آنٹونی کو ویسی ہی خوشی محسوس ہوئی جیسے اسے بچپن میں اپنا پہلا طیارہ ملا تھا۔ ہواباز کی وردی میں ملبوس خوبرو، لمبے قد اور سفید رنگت والے نوجوان نے پہلی ہی نظر میں جولیا کے دل میں محبت کاجذبہ بیدار ہوگیا تھا۔ جب نوجوان نے اس کو کافی کے لئے پوچھا تھا توجولیا نے فوراً ہاں کہہ دیاتھا۔
کلیسامیں خدا کو گواہ مان کر جب سفیدقبا میں ملبوس پادری نے جولیا سے پوچھا تھا کہ کیا وہ آنٹونی کو سکھ دکھ میں اپنا شوہر ماننے کے لئے تیار تھی تو جولیا نے اسی پراعتماد لہجے میں ’ہاں‘ کہا تھا۔ دلہن بنی جولیا سلک کے سفید لباس میں فردوس کی کوئی ہور معلوم ہورہی تھی۔ اس کے دائیں ہاتھ میں تازہ سفید پھولوں کے گلدستے کی خوشبو ان کی آئندہ زندگی کو مہکانے کی قسم کھا تی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔
آج آنٹونی پینتیس سال کی ملازمت کے بعد سبکدوش ہو رہا تھا۔ آج آفس میں اس کے لئے ایک الوداعی جشن رکھا گیاتھا۔ پورٹ لوئی کے دفتر میں جب اس نے کمرے میں نظر پھیلائی تو نوجوان ہواباز کو دیکھ کر اس کے پینتیس سال اس کی نظروں کے سامنے رقص کرنے لگے اور اس کو ایک احساسِ اضمحلال نے جیسے جکڑ لیا۔
”نوکری سے سبکدوش ہونے پر مبارک و تہنیت قبول فرمائیں آنٹونی صاحب۔ اب آپ اپنی زندگی کے مالک ہیں۔ بالکل آزاد ہیں۔“ نوجوان تارا نے اشتیاق سے ان سے کہا۔
’شکریہ تارا۔‘ آنٹونی نے صرف اتنا کہا۔
ایک طیارہ اڑاتے وقت شروع شروع میں آنٹونی آزادی کے احساس سے مسرور ہوتا۔ خلا میں بادلوں کو چیڑتے ہوئے جب ہوائی جہاز اپنی منزل کی جانب بڑھتا آنٹونی پوری دنیا کو بھول کر پوری توجہ کے ساتھ ہوائی جہاز چلاتا۔ اس کے لئے یہ باعثِ افتخار تھا کہ وہ اتنے لوگوں کو موریشس سے کبھی پیرس، کبھی ملبورن، کبھی سنگاپور تو کبھی دہلی پہنچاتا۔ سب لوگ اس کو تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے۔ وہ خود کو اپنے جزیرے اور اس سے جڑی تہذیب کا سفیر مانتا۔ مائیک میں جب وہ انگریزی اور فرنچ میں مسافروں کا ستقبال کرتا تو اس کا دل عش عش کرتا کہ موریشس میں ایک نہیں بلکہ دو سرکاری بین الاقوامی زبانیں رائجِ عام ہیں۔
”آنٹونی یار تم بہت یاد آؤ گے۔‘‘سلمان نے اس کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ آنٹونی نے اپنے دوست کو زور سے پکڑا۔ سلمان اور اس نے کئی بار ساتھ میں سفر کیا تھا۔ دونوں نے ساتھ میں لندن، پیرس، سڈنی اور کیپ ٹاؤں جیسے دلفریب شہروں کی ساتھ میں خاک چھانی تھی۔
”تم بھی یاد آؤ گے دوست۔‘‘ آنٹونی نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ موریشس صحیح معنوں میں امن و بھائی چارگی کا گہوارا ہے جہاں مختلف
مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور دوسروں کے عقیدے کا احترام بھی کرتے ہیں۔
جلسے کے ختم ہونے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ آنٹونی کو اچانک کچھ خالی خالی لگنے لگا۔ لفٹ سے نیچے اترتے وقت اسے وہ لاتعداد راتیں یاد آئیں جن کو اس نے طیارہ اڑانے میں گزارے تھے۔ اسے وہ برق آلود بادل یاد آئے جن کو چیڑتے ہوئیوہ آگے نکلاکرتا تھا۔ وہ نہایت خطرناک لمحات ہوا کرتے تھے۔ اس دوران کسی کو ہوائی جہاز میں چلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ مسافروں کی حفاظت اور ان کی زندگیاں اس وقت آنٹونی کے ہاتھوں میں ہوتیں۔ خوف کے باوجود وہ خندہ پیشانی سے طیارے کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوتا۔ کبھی کبھی وہ درجے دو کی طوفان کے اعلان میں بھی طیارہ چلانے پر مجبور ہوتا۔ پینتیس سالوں میں اس نے پوری لگن سے اپنا کام کیاتھا۔ کمپنی کی عزت کو وہ اپنی عزت سمجھتاتھا۔
خراب موسم کی وجہ سے کبھی فلائیٹ دیر سے بھی پہنچتی۔ آنٹونی کو یاد آیا کہ ایک باردہلی میں کہرے کی وجہ سے انہیں پورا دن انتظار کرنا پڑا۔ اس دن اس کی چھ سال کی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور وقت پر گھر آئے گا اور ان کے ساتھ دن بھر رہے گا۔ اگلے روز جب اس نے میڑی اور جولیا کا مایوس چہرہ دیکھا تھا اس کے دل میں کسک پیدا ہوئی تھی۔
لفٹ کا دروازہ نیچے مرکزی دروازے کے پاس کھلا۔ شاید ہی اب اسے یہاں آنے کا اتفاق ہوگا۔
”اب گھر جانا چاہئے۔‘‘ آنٹونی نے خودکلامی کی۔ مگر اس کا گھر کہاں تھا؟ پینتیس سالوں میں آئے دن دینا کے مختلف گوشوں میں بے شمار ہوٹلوں میں قیام کرتے کرتے آنٹونی گھر پر رہنے کے احساس کو فراموش کر چکا تھا۔ ہواباز کی نوکری سے کمائے ہوئے پیسوں سے اس نے پے ریبیڑ میں سمندر کے کنارے دو منزلہ مکان بنوایا تھا۔ گھر کے سامنے گول شکل کا ایک تالاب تھا جس میں اس کے بچے میڑی، جان اور ڈینیل اکثر اپنے دوستوں کو مدعو کر کے پارٹی کرتے۔ ان پارٹیوں میں اکثر و بیشتر آنٹونی شرکت نہیں کرپاتا کیونکہ وہ کہیں دور آسمان اور زمین کے درمیان اپنے طیارے میں ہوتا تھا۔
”تم کبھی گھر پر نہیں ہوتے۔“ جولیا نے ایک بار درد بھرے لہجے میں اس سے شکایت کی تھی۔ ”میرے رشتہ دار کی شادی ہے اور میں اکیلے وہاں جاؤں گی اور حسبِ معمول سب لوگ مجھ سے پوچھیں گے کہ تم کہاں ہو۔“
’’میں کیا کروں میری جان۔ نوکری ہی ایسی ہے۔ لندن سے تمہارے لئے شنیل کی نئی خوشبو لاؤں گا۔‘‘ بلبلے کے جیسا جولیا کا غصّہ بھی دوپل میں دور ہوجاتا۔ لیکن آنٹونی کے دل کی نہاں خانے میں کہیں یہ احساس کھٹک رہا تھا کہ وہ اپنی کمپنی کو اپنا سارا وقت دے کر رہا تھا۔ جیسے وہ بس کمپنی کے لئے ہی جی رہا تھا۔ اپنے بیٹے جان کے ایچ۔ ایس۔ سی میں امتیازی نمبر حاصل کرنے کی تصویریں جب جولیا نے اس کو واٹس آپ کی تھیں تو آنٹونی کے ضمیر نے اسے اپنی ترجیحات پر غور وفکر کی دعوت دی تھی۔ لیکن آنٹونی جیسے خود کو کھو ساگیا تھا۔
جب اس کے چھوٹے بیٹے ڈینیل کی شادی ہوئی تھی وہ مہمانوں کے بیچ خود کواجنبی سا محسوس کر رہا تھا۔ اتنے سالوں میں دوردراز سفر کرتے کرتے کریول زبان بھی اس کے لئے ایک اجنبی زبان بن گئی تھی۔ وہ اس میں اب روانی سے بات نہیں کرپاتا تھا۔ موریشس کے کھانے میں بھی اسے وہ لذت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ یہاں کے لوگوں کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر سے اب اتفاق نہیں رکھتا تھا۔ وہ اکثر کہتا:”موریشس کے لوگ اتنی کتابیں نہیں پڑھتے۔ لندن میں دیکھو ٹرین میں، بس میں لوگ کھڑے ہوتے ہوئے بھی اپنی کتابوں کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔“
جولیا خاموشی سے اس کی باتیں سنتی مگر اپنا حالِ دل بیان کرنے سے قاصر رہتی۔ اپنے شوہر کی غیر موجودگی کو اس نے اپنے بچوں سے پرکیاتھا۔ وہ خود کو سمجھاتی کہ آنٹونی کے کام کی بدولت وہ اپنے رشتہ داروں اور سہیلیوں کے مقابلے ایک بلند معیارِ زندگی گزار رہی تھی اور وہ اس بات کو اپنی خوش قسمتی خیال کرتی۔
آئیر موریشس کی عمارت سے نکلتے ہی سڑک کی طرف جاتے ہوئے آنٹونی کو اپنے سامنے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کام انسانی زندگی کو معنی خیزبناتاہے۔ جس پامال راستے پر ہم سالوں سے چلتے آئے ہیں جب وہ راستہ اچانک منقطع ہوجائے توذہن کشمکش میں پڑ جاتا ہے اور ایک داخلی تصادم کے بسبب ایک اضطراب گھر کرنے لگتا ہے۔ آنٹونی بدحواسی کے عالم میں ساکت کھڑا رہا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ وہیں گر پڑا۔

Share
Share
Share