کالم : بزمِ درویش – کوئی ہے؟ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
کوئی ہے؟

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

آخر کار کرونا کی جان لیوا دہشت ناک وبا نے کرہ ارض کو اپنی گرفت میں لے ہی لیا اب تو اس کے منحوس قدم دنیا کے ہرملک کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں دنیا کے بہت سارے ممالک نے چین کے شہر ووہان سے اِس خوفناک وبا کے پھوٹنے پر بہت ساری احتیاطی تدابیر کیں

لیکن جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی اِس وبا نے کسی احتیاط کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہر ملک میں جان لیوا آدم خور عفریت کی طرح جاکر اپنے خون آلودہ جبڑے کھول کر اپنی خطرناک دل خراش آمد کا اعلان کر دیا‘ دنیا کے باقی ممالک کی طرح پاکستان بھی اِس کی زد سے نہ بچ سکا ایک تو حکومت کا خواب غفلت کی نیند سونا ہر بات کو غیر سنجیدگی لاپرواہی اور اپنے ہی خود ساختہ فلسفے کے تحت دیکھنا دوسرا عوام کی لاپرواہی مذاق ہر بات کو سازش قرار دینے کا رویہ۔ جس وبا نے چند ہزار لوگوں کو اپنی خو نی آغوش میں لینا تھا حکومتی بے حسی غیر سنجیدگی لاپرواہی اور عوام کی جہالت لاپرواہی ہر بات کو مذاق میں اڑانا سازش قرار دینا جو تعداد ہزاروں میں ہوتی ابھی حکومت اور عوام کی غیر سنجیدہ رویے سے لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 5لاکھ سے تجاوز کر گئی جبکہ مریضوں کی تعداد 78لاکھ سے تجاوز کر گئی امریکہ بہادر جو خود کو موجودہ دور کی اکلوتی سپر پاور سمجھ کر پوری دنیا کو ٹیکنالوجی جدید سائنسی ترقی اور ڈالر کے استحکام کی وجہ سے طاقت کی چھڑی ہلا کر اپنی مرضی کے تنائج حاصل کر تا تھا شروع میں جب کرونا کی وبا نے چین ایران اٹلی و سپین میں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا تو پاگل اعظم بد معاش اعظم ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے اپنی سائنسی ٹیکنالوجی معاشی استحکام طاقت ور منظم ہیلتھ سسٹم کے بل بو تے پر نعرہ مارا کہ باقی لوگ کمزور غیر ترقی یافتہ تھے ہم اِس کو آسانی سے کنڑول کر لیں گے بلکہ باقی ملکو ں کو ہمیشہ کی طرح مذاق اڑایا کہ ہم دیکھتے ہیں کرونا کس طرح امریکہ میں آکر بربا دی پھیلاتی ہے اور پھر تاریخ انسانی کی سب سے خوفناک خطرناک دہشت ناک جان لیوا وباکرونا امریکہ کی سر زمین پر نمودار ہوئی اس کی سفاکیت وحشت خطرناکی اپنے جوبن پر نظر آئی دنوں میں ہی مریضوں کی تعداد لاکھوں جبکہ مرنے والے ہزاروں میں چلے گئے پھر تو افراتفری مچ گئی ٹرمپ صاحب جو ہر بات کو مذاق میں کرتے تھے دوسروں کا تمسخر اڑایا کر تے تھے اِس جان لیوا وبا کے سامنے بھیگی بلی کی طرح آئیں بائیں شائیں کر تے نظر آئے یہاں تک کہ ہیلتھ سسٹم جس کے بہت دعوئے کئے گئے تھے اُس نے انکار کر دیا سسٹم مفلوج ہو کر رہ گیا اور پھر کرونا انسانوں کو زمین پر رینگتے کیڑوں مکوڑوں کی طرح مسلنے لگی دنیاکی باقی سپر پاور برطانیہ جرمنی فرانس بھی بے بسی کا پیکر نظر آئیں یو رپ سارے میں کرونا نے جو تباہی مچائی اُس کے ہولناک مناظر ہم میڈیا پر خوف زدہ دیکھتے آئے یورپی اقوام برطانیہ امریکہ بہادر تو طاقت ور معاشی ممالک اور قدرے بہتر مضبوط نظام صحت کے مالک ہیں پھر اُن ممالک کی آبادیوں بھی ہماری نسبت بہت تھوڑی ہیں اوپر سے مالی استحکام کے بل بوتے پر کرونا کے جان لیوا واروں کو سہہ سکتے ہیں لیکن جب کرونا نے پاکستان میں پھیلنا شروع کیا تو حکومتی ایوانوں میں غیر سنجیدہ رویہ اپنایا گیا بلکہ مذاق اڑایا گیا صوبائی حکومتوں نے اگر اپنی ذمہ داری پر لاک ڈاؤن جیسے احسن اقدام اٹھائے تو اُن کی حوصلہ شکنی کے ساتھ باتیں بنائی گئیں بیماری کو عام بیماری قرار دیا گیا کہ یہ عام سا فلو ہے اس سے ڈرنا نہیں تو ہمار ی عوام تو پہلے ہی اسے غیر سنجیدگی کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے انہوں نے وفاقی گورنمنٹ کی ہلہ شیری پر تمام احتیاطوں کوبالائے طاق رکھ کر بازاروں پر یلغار کر دی اوپر سے عید پر مارکیٹیں بازار کھول کر عوام کے بے لگام ریوڑ کو کھلا چھوڑ دیا گیا عوام یہ سمجھی کہ کرونا مذاق تھا سازش تھی وفاقی گورنمنٹ نے تاثر بھی ایسا ہی دیا تھا عوام نے یہ سمجھا کرونا اگر تھا بھی تو اب ختم ہو گیا ہے عورتوں بچوں جوانوں بو ڑھوں نے بازاروں مارکیٹوں شاپنگ مال پر حملہ کر دیا کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کو ئی ایس او پیز پر عمل نہیں کرونا کی وبا نے بھی نعرے مارتی ہوئی اِس لاکھوں کے کھلے ہو ئے بے لگام ریوڑ پر آسانی سے حملہ آور ہو کر انہیں اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا حکومت عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو اِس طرح کھلے آسمان کے نیچے گتھم گھتا کندھے سے کندھا ملائے بغیر ماسک کے دیکھ کر تالیاں بجا رہی تھی کہ غریب طبقہ مر جائے گا ہمار ے ملک میں لاک ڈاؤن نہیں چل سکتا دنیا ساری کھل رہی ہے لاک ڈاؤن کا فلسفہ پاکستان جیسے ملک پر کامیاب نہیں ہے وزیر اعظم کے عظیم فلسفہ پر حواری خوشامدیوں کا ٹولہ بھی میڈیا پر اِ س عظیم فلسفے کی تشہیر خوب کر نے لگا لیکن عید پر عوامی آزادی کے جب رزلٹ آنے شروع ہو ئے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد میں ہو شربا اضافہ ہوا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ہم مانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہمارا ملک افورڈ نہیں کرتا تو کیا عوام کو عید پر ماسک کی پابندی کا کہنا مشکل کام تھا کیا ایس او پیز پر عمل کرا نا مشکل تھا آج جب سرکا ری ہسپتال کی گلیوں میں بھی جگہ نہیں بچی پرائیویٹ ہسپتال والے ایک دن کے چاجز ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک لوٹ رہے ہیں کیا یہ گورنمنٹ کا کام نہیں تھا اور ہے کہ اِن ذبح خانوں بھیڑیوں کو لگام ڈالیں ایک چھاپہ مار ٹیم تشکیل دیں جوا اِن پرائیویٹ مافیا سے مذاکرات کر ے اِن کے ہسپتال کے اخراجات کا حساب لگا کر دس پر سینٹ مزید پر اجازت دے کر حکم جاری کریں کہ ہسپتال کے باہر لکھ کر لگائیں کے روز انہ کے اخراجات اتنے ہو نگے یہ کام عوام نے کرنا ہے کہ حکومت نے۔دوسرا ماسک سینی ٹائزر جس طرح مہنگے ہو ئے ہیں اِس کو کنڑول کون کرے گا اب جب عوام بیچارے کیڑے مکوڑوں کی طرح کرونا اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے ہاتھوں روپے کی صورت میں جان کی صورت میں ذبح ہو رہے ہیں اِن کو کون کنڑول کر ے گا جراثیم کش کیمیکلز ادویات سینکڑوں سے ہزاروں میں چلی گئی ہیں ذخیرہ اندوزی کی بد معاشی الگ سے اوپر سے اگر ملیں تو ملاوٹ شدہ ان کو کون روکے گا اِن کی گردنوں کو کون دبو چے گا عوام کی غیر سنجیدگی میں ڈھالنے کا کام کس کا تھا کیا اجتماعی بیداری شعور بیدار کر نا احتیاط کا ماحول پیداکر نا حکومت کا کام نہیں تھا ان کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے عوام بے لگام ریوڑ کی طرح سڑکوں پر دندناتے پھرتے تھے اِن کو کنڑول کر نا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی فارما سو ٹیکلز کمپنیوں نے تمام ادویات جو کرونا بخار کھانسی میں استعمال ہو تی ہیں ان کی قیمتیں آسمان سے زیادہ بلند کر دی ہیں اِن کو کنڑول کر نا عوام کا کام ہے یا حکومت کا‘ اپنے پروٹوکول پر توسینکڑوں لوگوں کو آگ برساتی دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے کیا عوام کے اجتماعی شعور کے لیے فورس کو استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا اقتدار کے چبوترے پر قابض لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا آج یہاں آپ ہیں کل کوئی اور ہوگا امر اور تاریخ کے اوراق میں زندہ اور بامراد وہی ہو تے ہیں جو نظم و ضبط عوام کی فلاح کے کام کر تے ہیں شیر شاہ سوری نے تین چار سالوں میں عوام کی فلاح بہتری کے عظیم کام سر انجام دئیے کہ مغلوں کی نسل در نسل صدیوں پر محیط حکومت اُس کے چند سالوں کے سامنے پھیکی نظر آتی ہے آپ کے پاس حکومتی وسائل کی مشینری ہے ادارے ہیں آپ کی ابروئے جنبش سے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں آپ اپنی آبرو کو جنبش نہیں دے سکتے تین ماہ بعد جب کرونا ہر گھر پر دستک دے چکا ہے آپ کتنی معصومیت سے فرما رہے ہیں اب میں خود مانیٹر کروں گا کیا یہ کام تین ماہ پہلے سے مانیٹر نہیں ہو نا چاہیے تھا اقتدار کے ایوانوں پر قابض طاقت شہرت اقتدار کے مزے لوٹنے والے ایک بات ذہن میں رکھیں تاریخ ہمیشہ خدمت خلق کے علمبرداروں کو یاد رکھتی ہے خدا صرف اُس کی کوششوں میں برکت ڈالتا ہے جو سچے دل سے انسانوں کی فلاح خدمت کے لیے کچھ کر نا چاہتا ہو اِس وقت عوام پرائیویٹ ہسپتالوں سرکاری ہسپتالوں میڈیکل سٹوروں پر زندگی بھیک مانگتی نظر آرہی ہے‘ عوام پیسے دے کر اپنی زندگی بچانے کی کو شش میں ہیں جو اتنی مہنگی کہ اُس کے بس سے باہر ہو جائے بے بسی بے کسی کرونا کے خوف اور کرونا کی بیماری میں مبتلا مریض اور اُس کے لواحقین مدد مدد کہہ کر پکار رہے ہیں کہ کو ئی ہے جو اُن کی مدد کو آئے اُن کا مسیحا اپنے اگر کوئی اِن کی مدد کو نہ آیا تو پھر اُس کا مقدر تاریخ کے اوراق میں نہیں تاریخ کے کوڑے دان میں ہو گا جہاں گمنامی اور سناٹے کا راج ہو تا ہے کو ئی اُن کے نام کی گرد صاف کر نے کو تیار نہیں ہو تا۔

Share
Share
Share