افسانہ : زندگی :- آبیناز جان علی

Share
آبیناز جان علی

افسانہ : زندگی

آبیناز جان علی
موریشس

’زندگی کو ایک معمہ، ایک راز اور ایک بھید کہا گیا ہے۔اس میں ایک عجیب سی بات ہے۔ یہ الگ الگ رنگ دکھلاتی ہے۔ کبھی ہنساتی ہے اور کبھی رلاتی ہے۔ یہ ہر موڑ پر چونکا دیتی ہے۔ نشیب و فراز زندہ رہنے کے تجربات میں شامل ہے۔ زندگی کبھی خوشیوں کی بہار لاتی ہے اوار کبھی غموں کا سیلاب لاتی ہے۔

یہ ایک کمسن دوشیزہ سی پیچیدہ نظر آتی ہے۔ یہ ہر روز الگ الگ لباس اور سجاوٹ اپناتی ہے۔ کبھی تیز دھوپ میں جلاتی ہے اور کبھی سرد اور ٹھنڈی ہوا میں کپکپاتی ہے۔ لبوں پر تبسم لاتی ہے۔ گالوں پر سرخی لاتی ہے۔ یہ آنکھوں میں آنسو لاتی ہے۔ قلب و ذہن کو پریشان کرتی ہے۔ کسی کو کامیابی کی چوٹی تک پہنچاتی ہے۔ کسی کی ہستی کو مٹاکر ذلیل و خوار کرتی ہے۔ ایک طرف بچوں کی کلکاریاں ہیں، ماں کا نرم و نازک آنچل اور محبوب کی گرم باہیں ہیں تو دوسری طرف ٹوٹے ہوئے دل کی آرزوئیں ہیں۔ ناکامی کی فریاد ہے اور مفلسی کا دردوکرب ہے۔ غرض کہ سب رنگ دکھلاتی ہے۔ ہاں زندگی میں ایک عجیب سی بات ہے۔‘
ایف۔ ایم ریڈیو پر یہ باتیں سنتے ہوئے ثمینہ کو غصّہ آنے لگا۔ اس نے گاڑی کو اور تیز بھگایا۔ ایک سال کے بعد بھی وہ کڑواہٹیں دل سے دور نہیں ہو پائیں۔ کل ان تمام چہروں کو میٹنگ میں دوبارہ دیکھ کر ثمینہ کے اندر سویا ہوا طوفان پھر سے جاگ اٹھا۔
’سلام‘ ثمینہ نے امجد سے کہا۔ لیکن امجد نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ثمینہ کو دیکھتا رہ گیا۔
’ایک سال کے بعد تم اسی حالت میں ہو جس حالت میں میں تھی۔ میں نے تمہارے خلاف جو سرکاری خط لکھا تھا اسی کا اثر ہے۔ تم اب اسی غصّے سے ابل رہے ہو جس غصّے نے مجھے جلایا تھا۔‘ ثمینہ نے اپنی گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے سوچا۔ سڑک کی دونوں طرف مرغزاروں میں روشنی کی کرنیں ہریالی کا حسن دوبالا کر رہی تھیں لیکن ثمینہ کا دھیان کہیں اور تھا۔
میٹنگ ہال کے اندر اسلم ثمینہ کو گھورتا رہ گیا۔ ’اگر نظروں سے تیر چلائے جا سکتے تو میں کب کی دائی اجل کو لبیک کہہ گئی ہوتی۔‘ ثمینہ نے دل ہی دل میں سوچا۔
وزیرِ تعلیم کے ساتھ یہ میٹنگ پورٹ لوئی کے کین لی بلڈنگ میں دوبجے طے تھی۔ ایک سال پہلے ثمینہ نے یہاں کتنی ذلت محسوس کی تھی۔ دس سالوں میں اس شعبے میں کام کرتے کرتے ثمینہ آنکھ بند کرکے اس عمارت میں چل سکتی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں بنائی گئی پتھر کی یہ عمارت اس کا دوسرا گھر ہوا کرتی تھی۔ اس ائیر کنڈیشندفتر میں اس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تھا اور یہیں پر وہ زندگی کے سرد و گرم سے بیزار، پوری تقویت سے کام کرتی۔ اس کا مالک اس کے کام سے نہایت خوش تھا اور جلد اس کی ترقی کی بات بھی کر رہاتھا۔
’یہ کامیابی اور یہ پذیرائی اسلم اور امجد کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ ان سے کیسے برداشت ہوتا کہ کسی کام میں کوئی ان سے سبقت لے جائے۔‘ میٹنگ میں بیٹھی ثمینہ اس وقت کی باتوں پر کم اور اپنے دل میں اٹھ رہی تکلیف کی داستان سن رہی تھی۔ زندگی اچانک نیا رخ لے سکتی ہے۔ اس کے باوجودبرا وقت جو صدمہ دے جاتا ہے وہ ایک سال کی طویل مدت میں بھی دور نہیں ہوتا۔
ثمینہ کو اس احساس پر قدرے تعجب ہوا۔ اس کی ترقی کو روکنے کے لئے اسلم اور امجد بار بار ثمینہ کے کام میں نقس نکالتے اور ڈائریکٹر کیکان بھرتے۔ آخرکار اس کا تبادلہ دوسری شاخ میں کرایا گیا۔
ثمینہ نے سمت دار کو زور سے پکڑا۔ وہ اپنے گال اور کان میں گرمی محسوس کرنے لگی۔
’نظامِ تعلیم میں عائد نئی تبدیلیوں کے تحت بچوں کی نفسیات کو مدِنظررکھ کر کلاسوں میں اب چالیس طلباء کی جگہ صرف بیس بچے ہونگے۔ ان کے لئے الگ کتابیں تیار کی جائیں گی اور ان کے نصاب کو ہلکا کیا جائے گا تاکہ ان پر ذہنی تناؤ کم ہو۔“ وزیرِ تعلیم کہتے گئے اور ثمینہ چپ چاپ وہاں بیٹھی خود اعتمادی سے اپنے دشمنوں پر اپنی کیفیات ظاہر ہونے نہیں دے رہی تھی۔ میٹنگ کے بعد وہ ایک بوجھل دماغ کے ساتھ اس ہال سے نکلی۔ اس رات وہ کم سوئی۔ جب دو بجے کے قریب ہلکی نیند آئی تو پرانے دفتر اور پرانے رفیقِ کار کی عداوت کے خواب اسے ڈنک مارتے گئے۔
اب راستہ پر بھی ثمینہ کو امجد اور اسلم کے ہی چہرے نظر آرہے تھے۔ اسے اپنی معصومیت پر ذرا پشیمانی ہوئی۔ پھر دھوکے کے احساس سے اس کا خون کھولنے لگا۔ اس نے گاڑی کا سمت دار گھومایا۔ اسی وقت اسے ایک دھکا محسوس ہوا۔ گاڑی کا پہیہ سنگِ میل سے ٹکڑاگیا۔ گاڑی آہستہ چلنے لگی۔ ذرا آگے جا کر اس نے گاڑی روکی۔ اتر کے دیکھا تو آگے کی بائیں طرف کے پہیے کی ہوا نکل گئی تھی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر ثمینہ نے اپنے موبائل کو اپنے بستے سے نکالنا چاہا لیکن پھر احساس ہوا کہ اس کا فون تو گھر پر کمپیوٹر کی میز پر ہی رہ گیا تھا۔ ثمینہ جھنجھلا گئی اور اس نے راستے پر چلتی ہوئی گاڑیوں کو ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا۔ لیکن صبح کی مصروفیت میں کسی کو رکنے کی فرصت کہاں! گاڑی جس جگہ رکی تھی وہاں راستے کے دونوں کنارے صرف گنّے کے کھیت تھے۔ دور دور تک کوئی گھر نظر نہیں آرہا تھا۔
پانچ منٹ کے بعد ایک لاری نظر آئی۔ ثمینہ نے ہاتھ سے اسے روکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی والے نے تھوڑی دور پر اپنی گاڑی روکی۔ ثمینہ گاڑی کی طرف گئی۔
”سلام۔ میری گاڑی کے پہیے سے ہوا نکل گئی ہے۔ کیا آپ دوسرا پہیہ لگانے میں میری مدد کرسکیں گے؟‘‘
”آپ کے پاس پہیہ بدلنے کے تمام سامان موجود ہیں؟‘‘
”جی، سب کچھ ہے۔‘‘
اس آدمی نے فیول کارخانے کی وردی پہنی تھی۔ ظاہراً وہ صبح نوکری کے لئے نکلا تھا۔ پھر بھی اس نے مدد کے لئے اپنی لاری روکی۔ ثمینہ نے گاڑی سے زائد پہیہ اور اوزار نکالے جو پہیہ نکالنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔
”آپ کے پاس نٹ کسنے والا رنچ ہے؟‘‘ آدمی نے دریافت کیا۔
”جی سب کچھ ہے۔“
”آپ کو گاڑی ذرا آگے لے جانی ہوگی۔ یہاں دھنسی ہوئی ہے۔ اس کو تار پر لے جائیے تاکہ باآسانی نکل جائے۔“
ثمینہ نے گاڑی کو ذرا آگے بڑھایا۔ پھر خاموشی سے اس آدمی کے پاس کھڑی ہو گئی جو اوزار کی مدد سے گاڑی کو اوپر کھینچ رہا تھا اور پھر پیچ کو دھیلا کر کے خراب پہیہ نکالنے کی کوشش میں لگا تھا۔ اس اثنا میں جب اس آدمی کی پتلون کی طرف ثمینہ کی نظر گئی تو اسے ایک پل کے لئیاس کے دل کی دھڑکنیں رک سی گئیں اور وہ سکتے کے عالم میں اس پتلون کو دیکھتی رہ گئی۔
حمید کے پاس بھی یہی نیلے رنگ کی پتلون تھی جس کے بغل میں تین سیدھی نارنگی رنگ کی لکیریں تھیں۔ ثمینہ پر حیرت و استعجاب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ دل میں کسک اٹھی۔ایک سال پہلے سب کچھ کتنا الگ تھا۔ حمید کے ساتھ اس کی شادی طے ہوئی تھی۔ اس کی ہر بات ماننے والا اور اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے والا حمید آج بس ایک اجنبی بن کے رہ گیا ہے۔
”میں تمہارے لئے ہی تو برلن میں کام کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ ثمینہ کو یہ الفاظ ڈسنے لگے۔
’میرے لئے گئے تھے تو واپس کیوں نہیں آئے؟ جب تمہارے حالات بہتر ہوگئے، اچھی تنخواہ ملنے لگی تو واپس میرے پاس کیوں نہیں آئے؟‘
ان الفاظ نے بار بار اس کے دل کے دروازے پر دستک دیتے دیتے اس کے زخم کو ناسورمیں تبدیل کر دیا۔ شادی کے سنہرے خواب دکھا کر حمید اس کے پیسے لے کر برلن سے نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رابطہ بھی منقطع کردیا۔ ثمینہ کن کن چیزوں کا ماتم کرتی؟ کام میں رفیقِ کار کی چالبازیاں۔۔۔ جنہیں وہ دوست مانتی تھی۔۔۔یا پھر محبت میں سب کچھ قربان کرنے کے بعد تذلیل کی مار کھانے کا ماتم۔
ثمینہ اس آدمی کی پتلون کو دیکھتی رہ گئی۔ ایک حمید تھا جو اس کا سب کچھ چھین کر اپنا مطلب پورا کرنے کے بعد اس طرح دبے پاؤں رخصت ہوا جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دوسری طرف یہ انجان آدمی ہے جو اسے جانے بغیر اس کی مدد کے لئے رک گیا۔
ثمینہ نے گاڑی کے جھکے ہوئے شیشے سے اپنے بستے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اپنے بٹوے سے پانچ سو روپے نکال کر اس آدمی کو دئے لیکن اس عیسائی شخص نے انکار کیا۔
”ہم سب ایک ہی ملک میں رہتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔“
اتنا کہہ کر وہ اجنبی وہاں سے چلا گیا۔ ثمینہ نے چابی گھومائی موٹر کو آن کیا۔ اس نے اپنی نمناک پلکوں کو جھپکاتے ہوئے سوچا:
’یہ میری نیکیوں کا ثمرہ ہے۔ میرا خدا کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا۔ مجھے بس دنیا میں نیکی پھیلانی ہے۔ میری اچھائیاں صحیح وقت پر میرے کام آئیں گی۔‘
اپنی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ثمینہ خوداعتمادی سے چلتی رہی۔
—–

Share
Share
Share