مجتبیٰ حسین – ایک منفرد مزاح نگار :- اسما امروز

Share
اسما امروز

مجتبیٰ حسین – ایک منفرد مزاح نگار

اسما امروز
کھمم تلنگانہ

اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ اردو ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہت لکھا اور بہت اچھا لکھا۔ ان کی تحریروں میں مزاح کے پس پردہ معاشرے کی ناہمواریوں، بے راہ رویوں، تضادات اور عام آدمی کی تکالیف کا درد جھلکتا ہے۔

مجتبیٰ حسین نے انشائیہ نگاری، سفرنامہ نگاری، خاکہ نگاری اور کالم نگاری جیسی مشکل اصناف میں اپنے منفرد اور اچھوتے اسلوب اور قوت تخئیل کی مدد سے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی بنیادی شناخت طنزومزاح نگار کی حیثیت سے ہے۔ ان کی تحریروں میں مزاح کے بہ نسبت طنز کا پہلو زیادہ گہرا اور نکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی نا ہمواریوں، سماج کی بے راہ رویوں اور انسانی قدروں کے زوال پر بھرپور طنز کیا ہے۔ لیکن ان کی تحریروں کی شگفتگی اور بیان کی چاشنی نے ان کے طنز کو ایک خوبصورت مزاحیہ پیرائے میں ڈھال دیا ہے۔ لطیف مزاح، شائستگی، شرافت، اعتدال پسندی، رمزیت، بر جستگی، زبان کا رچاؤ اور دلکش اسلوب مجتبیٰ حسین کی تحریروں کا خاصہ ہیں۔ ان کی تحریروں کی سادگی ان کو عام قاری سے قریب کرتی ہے۔ لیکن ان کی تحریروں میں پھکڑ پن یا ابتذال نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ایسا سادہ اور عام فہم اسلوب اختیار کیا جو ہر قسم کے قاری کے لیے کشش رکھتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی تخلیقات معیاری نہیں ہیں یا کم معیاری ہیں۔
اکثر لوگ مجتبیٰ حسین کے ہم عصر طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی سے جب ان کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کو کس پر فوقیت دی جائے۔ دونوں کا اسلوب الگ ہے، دونوں کے موضوعات الگ ہیں، دونوں کا انداز بیان منفرد ہے لیکن جو بات دونوں میں مشترک ہے وہ یہ ہیکہ دونوں کا طنز و مزاح معیاری ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک یوسفی کا طنز و مزاح زیادہ عمدہ اور معیاری ہے بہ مقابل مجتبیٰ حسین کے لیکن اگر ہم ان دونوں ادیبوں کی تحریروں کو ان کے سیاق میں دیکھیں تو یہ فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر ایک طرف مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے ماضی کے ادب عالیہ پر دسترس ہونا ضروری ہے تو دوسری طرف مجتبیٰ حسین کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے عصری احوال و کوائف، سماجی صورت حال اور عصری منظر نامے سے واقفیت ضروری ہے۔ جس طرح ماضی کے ادب عالیہ سے گہری واقفیت کے بغیر یوسفی کے طنز و مزاح کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے ٹھیک اسی طرح سماجی صورت حال اور عصری منظرنامے سے ناواقف شخص مجتبیٰ حسین کے طنزومزاح سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی تحریروں کے ذریعے ترقی پسند تحریک کے نظریے کی نمائندگی کی ہے۔ ان کی تحریروں میں مجبور، بے بس اور دبے کچلے انسانوں کے تئیں دردمندی اور ہمدردی کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے، ان کا انشائیہ ”یہ رکشہ والے” اس کی بہترین مثال ہے۔
”رکشہ والے نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ اجی قبلہ دنیا کو چھوڑ کر جا بھی کہاں سکتے ہیں۔ فرمائیے، آپ کو کہاں جانا ہے؟
وہ بولے ”مجھے سلطان بازار چھوڑ دو۔
”ضرور چھوڑ دوں گا۔ آٹھ آنے ہوں گے.” وہ صاحب حیرت سے بولے ”آٹھ آنے! بس کا کرایہ تو صرف دس پیسے ہوتا ہے.” اس پر رکشے والے نے کہا ”ہاں جی 10 پیسے ہوتا ہے مگر آپ نے غور نہیں فرمایا کہ بس پیٹرول سے چلتی ہے اور رکشہ خون سے” یہ جملہ کہتے ہوئے رکشہ والے کی آنکھوں میں سرخی دوڑ گئی.’۔
مجتبیٰ حسین نے بہت سے انشائیے لکھے ہیں جن میں ”ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں ”، ”اردو کا آخری قاری”، ”ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ، ”قصہ داڑھ کے درد کا” اور اس طرح کے بے شمار انشائیے ہیں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اسے مسرت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتے ہیں۔

Share
Share
Share