کالم : بزمِ درویش – باپ کا دکھ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
باپ کا دکھ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

مجبور بے بس لاچار غمزدہ باپ کی آہوں، سسکیوں، ہچکیوں اور آہ و بکا ہ سے کمرے کے درو دیوار لرز رہے تھے ماحول کی سوگواریت ہما رے اندر تک اتر چکی تھی لگ رہاتھا دکھی باپ کے غم میں ہر چیز نے ماتمی لباس پہن لیا ہے۔ میں بے بسی کے کوہ ہمالیہ پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کس طرح اِس بے بس غمزدہ باپ کی مدد کروں

اِس کے چہرے پر خو شی کے رنگ بکھیر سکوں اِس کی سسکیوں آہوں کو خوشگوار دلنواز مسکراہٹ میں بدل سکوں غمزدہ باپ صبر و استقامت کا پہاڑ تھا اس کے 4بچے شدید معذور تھے لیکن اِس نے رب کا شکرادا کیا گلی گلی گاں گاں شہرشہر وطن عزیز کے گوشے گوشے میں بچوں کی صحت کی بھیک مانگنے گیا ہر جگہ کشکول بن کرگیا۔ لیکن اِس کا دامن خالی کا خالی ہی رہا زندگی کی آگ برساتی سلگتی حقیقتوں کا صبر سے مقابلہ کیا لیکن جب اکلوتی بیٹی کی خوشیوں کو گہن لگا تو باپ کا پیمانہ صبر چھلک پڑا باپ بیٹی کے عظیم رشتے کے گداز اور نزاکت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جن کی بیٹیاں ہیں جو بیٹیوں کا درد محسوس کر تے ہیں کیونکہ بیٹیاں تو معصوم رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہو تی ہیں جو مسائل اور مصائب کی ہلکی آنچ سے ہی مرجھا جا تی ہیں یہ معصوم کلیاں مو سم کی ذرہ سی سختی سے ہی پھیکی پڑ جا تی ہیں باپ جو ہر مشکل پر مسکراتا رہا لیکن جیسے ہی بیٹی کے معصوم چہرے پر اداسی کا رنگ اترا تو برداشت سے باہرہو گیا بیٹی کسی بھی باپ کا حساس حصہ ہو تا ہے میں نے بڑے بڑے مضبوط اعصاب کے والدین کو دیکھا ہے جو وہ بیٹی کی خوشیوں کی بھیک مانگنے کے لیے دردر دھکے کھا رہے ہو تے ہیں لوگوں کے پاں پکڑ کر التجا ئیں کر رہے ہو تے ہیں بیٹی کے سسرال والوں کے سامنے نظریں جھکائے ہا تھ جو ڑے بیٹھے معافیاں مانگ رہے ہو تے ہیں جو اپنی بیٹی کی کردہ اور نا کردہ غلطیوں کی بلا مشروط معافیاں مانگ رہے ہوں اپنی جان جائیداد اور ساری دولت دے کر بھی بیٹی کی خوشیاں خریدنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے سہاگ کی سلامتی اور خوشیوں کے لیے کس طرح مغرور دنیا دار لوگوں اور سسرالیوں کی خو شامدیں کررہے ہوتے ہیں بلاشبہ بیٹی باپ رشتہ بہت نازک حساس اور محبت بھر ا ہو تا ہے اِس رشتے پر ذرہ سی آنچ آئی نہیں اور با پ کی کمر غم سے جھکی نہیں با پ کی چیخیں نکلی نہیں۔ یہ شخص بھی صبر تشکر کا پہاڑ تھا لیکن بیٹی کے غم نے اِس کو ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیا تھا اوریہ مدد مدد کر تا ہوا بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا باپ کو دیکھ کر بیٹی آگے بڑھی اور باپ سے لپٹ گئی اور باپ کے آنسو پونچھتے ہو ئے بار بار کہہ رہی تھی ابو آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کے ساتھ خو ش ہوں مجھے کوئی دکھ نہیں مجھے آپ کے علاوہ کسی کی ضرورت نہیں بیٹی کے غم کو دیکھ کر مجھے پا کستانی معاشرے کے بانجھ پن اور بے حسی پر دکھ ہو رہا تھا کہ ہما را معاشرہ کو فہ بن چکا ہے ہر گھر گلی اور شہر میں جگہ جگہ زینب مدد مدد پکار رہی ہے لیکن ہما را معا شرہ تو کو فہ بن چکا ہے جو کسی بھی زینب کی مدد اور پکار سننے کو تیار نہیں ہم جو محرم کے چند دن حضرت زینب کے لازوال کردار اور شجاعت پر تقریریں کرتے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کر تے کہ آج بھی ہما رے معاشرے کے ظلم کی چکی میں کتنی زینبیں پس رہی ہیں کوئی ان کی مدد کو تیار نہیں معا شرے کی بے حسی پر یہی احساس ہو تا ہے کہ ہما را معا شرہ صحت مند اصلاحی معا شرہ نہیں رہا بلکہ کوفہ بن چکا ہے جہاں کسی مظلوم کی مدد کے لیے کو ئی بھی آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں۔ باپ بیٹی کے آنسو دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی موتیوں کی لڑی مسلسل جھڑ رہی تھی میں مجرموں کی طرح بیٹھا تھا کیونکہ میں بھی اِسی گلے سڑے معاشرے کا حصہ تھا جہاں ہر روز معصوم مظلوم بچیوں پر درد ناک مظالم ڈھائے جاتے ہیں آخر کار میں ہمت کر کے آگے بڑھا بیٹی کے سر پر شفقت بھرا ہا تھ رکھا اور با پ کے کندھے پر ہا تھ رکھا اسے بار بار حوصلہ دیا اور جب غمزدہ باپ کچھ نارمل ہوا تو میں ملتجی لہجے میں کہا جناب میں آپ کی کس طرح مدد کروں مجھے حکم کریں میں اپنی جان دے کر آپ کے لیے خو شیاں خرید سکوں بتائیں میں کیا کروں تا کہ آ پ کی ویران زندگی میں پھر سے بہار آجائے۔ باپ خا موش گہری نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا پھر درد ناک لہجے میں بولا کیا آپ میرے داماد کو واپس میرے گھر لا نے میں میری کو ئی مدد کر سکتے ہیں کو ئی ایسا عمل وظیفہ یا طریقہ ہے کہ میرا داماد خوشی سے ہما رے گھر واپس آجائے میری بیٹی کے چہرے پر پھر سے بہار کے رنگ بکھر جا ئیں اِس کی آنکھوں کی چمک پھر سے تیز اور گہری ہو جا ئے کیا آپ اِس معا ملے میں میری کو ئی مدد کر سکتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ باپ چار بچوں کی شدید معذوری کو بھول چکا تھا ذہنی طور پر قبول کر چکا تھا بیٹی کی مانگ میں خوشیاں بھرنا چاہتا تھا میں نے بار بار باپ اور بیٹی کو حوصلہ دیا کہ رحمن رحیم کریم کوئی راستہ ضرور نکالے گا اور پھر میں نے جا ئے نماز منگوائی اور الگ کمرے میں نماز اور حاجت کے نوافل شروع کیے سر سجدے میں رکھا اور مالک بے نیاز کے سامنے بہت رویا بہت مدد مانگی دیر تک خدا کے حضور التجائیں کرتا رہا کہ اے ربِ کعبہ تو نے ہر مشکل قدم پر میری مدد کی میری عزت رکھی آج مجھے زندگی میں سب سے زیادہ تیری مدد کی ضرورت ہے اے خدا آج کے بعد تو میری کو ئی دعا قبول نہ کرنا پر پلیز میری اِس معاملے میں مدد کر بہت رویا بہت رویا اور پھر مجھے سکون سا آگیااور پھر اچانک ایک خیال بجلی کی کو ندے کی طرح میرے دماغ میں لپکا میرا ایک دوست لاہور میں رہتا تھا جو اِسی شہر کا تھا میں نے اس کا نمبر ملا یا اور اس کو ساری بات بتائی اس نے مجھے شہر کے ایک شریف اور با اثر انسان کا پتہ اور نمبر دیا اور کہا میں اس کو فون بھی کردیتا ہوں اور پھر میں اس شریف انسان کے پاس پہنچا اس کو میرا دوست فون کرچکا تھا وہ پہلے سے ہی میرے انتظار میں تھا اچھی طرح ملا اور ساری بات سنی با ت سن کر اس کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی بہت دکھی ہوا اور کہا چلو ابھی اس لڑکے کی طرف جاتے ہیں راستے میں اس نے لڑکے کے قریبی رشتے دار کو بھی بلایا جو لڑکے والوں کا بڑا اور با اثر بندہ سمجھا جاتا تھا راستے میں لڑکے کا رشتہ دار بھی مل گیا اس کو بات جب بتائی تو وہ بہت حیران ہوا کہ اسے یہ با ت اور طرح سے بتائی گئی تھی اور پھر ہم اس لڑکے کے گھر کی طرف چل پڑے کیونکہ اب اللہ کی مدد آچکی تھی اِس لیے اب کڑیاں خود ہی ملتی جارہی تھیں اللہ تعالی کو ہم پر ترس آچکا تھا اور پھر ہم اس داماد لڑکے کے گھر پہنچ گئے سارے گھر والے موجود تھے با ت چیت شروع ہو ئی لڑکے کو معمولی عتراضات تھے کہ میں اپنا کا روبار شروع کر نا چا ہتا ہوں تو میرے ساتھ جانے والے شریف انسان نے کہا میری شہر میں کئی دوکانیں ہیں جو تم کو پسند ہے لے لو اور واپس اپنی بیوی اور سسرال کے پاس چلے جا بہت ساری جذبا تی باتوں کے بعد داماد اور اس کے ماں باپ مان گئے بلکہ معذرت خوا ہ ہو ئے کہ واقعی ہم سے ظلم ہوا ہے دوبارہ زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہو گا اور واقعی ہم سے ظلم ہورہا تھا یقینا داماد اور گھر والوں کے ضمیر جا گ اٹھے تھے اللہ کی مدد آچکی تھی اور پھر داماد اس کے گھر والے اور با قی لو گ ہم غمزدہ با پ کی طرف آئے ہم سب کو دیکھ کر غمزدہ با پ بیٹی اور ماں کے چہروں پر خوشیوں کے پھول کھل اٹھے اور میں خوشیوں سے اپنا دامن بھر کر لاہور کی طرف روانہ ہوا آج بھی جب کو ئی عبا دت گزار عبادت کا غرور کر تا ہے تو مجھے صبر اور شکر کا پہا ڑ وہ شخص یاد آجاتا ہے جس کے سامنے ہما رے جیسے کیڑوں مکوڑوں سے بھی کم ہیں آج کئی سال ہو گئے وہ ہنسی خوشی رہہ رہے ہیں مجھے جب بھی خدا کی رحمتیں یاد آتی ہیں تو بوڑھے باپ کی آنکھوں میں خوشی کے دو آنسو یاد آتے ہیں جن کو یاد کر کے میری روح خو شی سے جھومنے لگتی ہے کہ اے خدا جب بھی مشکل پڑی تیری رحمت مو سلا دھا ر برسات کی طرح خوب برسی۔

Share
Share
Share