افسانہ : بے زر :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : بے زر

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:

آج میرا اس گھر میں آخری دن تھا۔ میں نے اپنی ساس سے کئی دفعہ کہا کہ میرے امیّ ابّو آپ کی یہ فرمائش پوری نہیں کرسکتے ہیں۔ ساس مجھ سے کہنے لگی کہ بھئی ہم نے تو شادی وقت بھی کچھ نہیں مانگا تھاتمہیں تو یاد ہی ہوگا سائرہ،تم تو چند کپڑوں میں آئی تھی مگر میں نے کبھی گلہ نہیں کیا

لیکن آج میرے بیٹے کے کاروبارکے لیے چند روپیوں کی ضرورت آن پڑی ہے اور ایک طرح سے دیکھا جائے تو تم اپنے شوہر کی ہی مدد کروگی نا۔ میں نے اپنی ساس اور شوہر سے بہت دفعہ مّتیں کیں مگر نہ ساس نے سنی اور نہ ہی شوہر نے۔ مجھے گھر بِٹھا دیا۔ میں اپنی امّی ابّو کے یہاں رہنے آئی سب لوگ یہی پہلا سوال کرنے لگے اب اپنے سسرال کب جاوگی؟ جسے تیسے دن گزرتے گئے دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ گزر گئے۔اب تو لوگوں کو اور رشتے داروں کو یہ شبہ ہوگیا کہی سائرہ کی طلاق تو نہیں ہوگئی؟ میں اپنے آپ کو سنبھالتی اور ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں نوکری کروں گی۔ میری امّی نے مجھ سے کہا کہ دیکھو تم اپنے سسرال والوں سے پوچھ لو،ورنہ وہ برا مان جائیں گے۔میں اپنی امّی سے کہنے لگی یہ فیصلہ میرا اپنا ذاتی فیصلہ ہے اور میں فیصلہ کر چکی ہوں۔ میں نے اپنے ہنر کے دم پر ایک کپڑے کی کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹرکا کام کرنا شروع کر دیا۔ابتدا میں تنخواہ کم تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ تنخواہ اور عہدہ دونوں میں اضافہ ہوگیا۔
ندیم میرے حال سے اتنے بے خبر ہوگئے کہ انہیں کچھ بھی معلوم نہ ہوا۔ ایک دن اتفاق سے میں بازار سے کچھ خریداری کرنے گئی تھی اور راستے مجھے میری ساس مل گئی۔وہ مجھ کودیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے پوچھا ایسا کیا ہوا امّی؟ میری ساس کہنے ۔ لگی تم کیا گئی ندیم کی حالت دن بہ دن بگڑتی گئی۔میں نے فوراً پوچھا انہیں کیا ہوا؟ اور آپ لوگوں نے مجھ سے کوئی رابطہ کیوں نہیں کیا؟ میری ساس کہنے لگی ہم نے تمہارے گھر آنے کی کئی بار کوشش کی مگر ہم نے جو تمہارے ساتھ سلوک کیا اس کا بار بار منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتاتھا۔ ہمارے قدم بڑھتے اور دروازے تک آتے آتے رک جاتے۔میں اپنی ساس سے کہنے لگی اچھا امّی اب آپ یہ بتائے کہ ان (ندیم) کو کیا ہوا؟ ندیم کو تب دق ہوگیا ہے۔ اور ڈاکٹروں نے کہا اب یہ علاج ممکن ہے مگر اس کے تمام کورس کرنے ہوں گے تب جاکر اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور انسان پہلے کی مانند تندرست ہوسکتا ہے۔
میں نے جب یہ بات سُنی تب میرے ہوش اڑگئے۔ میں نے اپنی ساس سے کہا آپ نے تو اتنا سب کچھ ہوگیا اور مجھے بتانا بھی گنوارہ نہ سمجھا میں اتنی تو غیر نہیں تھی۔ میری ساس کہنے لگی تم ٹھیک کہتی ہو بیٹا، مگر حالات اس قدر بدلے کہ کوئی کسی سے کہنے سننے میں نہ رہا۔ کاروبار میں ہوئے نقصان کے باعث وہ اند ر سوچنے لگا اور طبیعت دھیرے دھیرے بگڑنے لگی۔ پہلے کھانسی اور اس کے بعد بخار کم نہیں ہونے لگا۔ندیم کو کئی ہسپتا لوں میں بتایا مگر ڈاکٹروں نے الگ الگ رائے بتائی کسی نے کہا سردی کے سبب ہوا ہے تو کسی نے سینے میں کف جمع ہونے کی وجہ بتائی تو کسی نے دماغی ٹینشن کی علامت بتائی۔ بالآخر پیسہ پانی کی طرح بہتا چلا جا رہا تھا اور اب بھی یہ جاری و ساری ہے۔میری ساس مجھ سے کیے گئے ظلم و ستم کی معافی مانگنے لگی دیکھو ہم نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا،لیکن اب تم اپنے گھر آجاؤ۔میں نے اسی وقت فیصلہ لیا اور اپنی ساس کے ساتھ گھر چلی گئی۔ گھر پہنچنے پر ندیم نے جیسے ہی مجھے دیکھا وہ تھوڑی دیر کے لیے سٹ پٹا سے گئے مجھ سے نظریں چرانے لگے۔ میں ندیم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی میں کوئی اجنبی تونہیں ہوں۔ میں تمہاری بیوی ہوں۔ تم نے مجھے اس وقت میرے دولت سے بے زر ہونے کا طعنہ دے کر نکال دیا تھا لیکن وقت نے ایسی کروٹ لی کہ کل جو میں دولت سے بے زر کی حالت کے سبب کچھ برداشت کر رہی تھی۔ انسان کا دھن دولت سے بے زر ہونے کا اتنا افسوس نہیں ہوتا ہے جتنا اس کاعلم اور تعلیم سے بے زر ہونے سے ہوتا ہے یہ نہ صرف افسوس بلکہ وہ درد بنتا ہے بلاآخر ناشور بن جاتا ہے آخر انسان کے ختم ہونے تک اس کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ ندیم کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لہر سی دوڑ گئی۔انہوں نے مجھ سے معافی مانگی۔ میں ندیم سے کہنے لگی میں غریب گھر سے ضرور تھی مگر پڑھی لکھی ہونے کے سبب حالات پر جلد قابو پاسکی اور تمہیں معلوم ہے ندیم میں ایک کپڑے کی کمپنی میں پہلے کمپیوٹر آپریٹر کی حیثیت سے کام کرتی تھی اور آج میں اسی کمپنی میں مینیجر کی حیثیت سے ہوں۔ اب تم دیکھنا ندیم میں تمہارا اچھے ہسپتال میں علاج کر واؤں گی اور تم کو پہلے والا ندیم بناؤں گی۔ ندیم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ سائرہ دھن دولت سے بے زر تھی مگر علم اور تعلیم سے بھر پور تھی جس شخص کے پاس دھن دولت ہوتی ہے وہ وقتی طور پر ساتھ تو دے سکتی ہے مگر راحت اور سکون جو زندگی بھر کا ساتھ ہے وہ نہیں دے سکتی۔جبکہ علم اور تعلیم کے ذخیرے سے انسان کبھی بھی خود کوبے زر محسوس نہیں کر سکتا ہے انسان علم اور تعلیم حاصل کرکے اپنے حالات بدل سکتا ہے بلکہ اپنی ٹوٹی ہوئی ہمت کو دوبارہ حوصلے کی اڑان میں بدل سکتا ہے۔ میں نے ندیم کا مکمل علاج کروایا۔میں اور ندیم دوبارہ اپنی زندگی خوشی سے گزار رہے تھے۔چند سالوں بعد میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا اس کا نام میں نے مریم رکھا۔ مریم کو پڑھا لکھایا اور آج وہ تعلیم نسواں پر کام کرنے والی پہلی افسر بن چکی ہے۔آج ہندوستان میں سائرہ او مریم جیسی عورتوں کی شدید ضرورت ہے جو دنیا بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔انسان کا دولت کا بے زر ہونا برا معلوم ہوتا ہے مگر علم کا بے زر ہونا کسی موت سے کم نہیں ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

Share
Share
Share