رانا دلدار احمد خاں قادری :- ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

Share
رانا دلدار احمد خاں قادری

رانا دلدار احمد خاں قادری
آسمان نعت خوانی کا درخشندہ ستارہ

ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
فیصل آباد ۔۔ پاکستان

نعت خوانی کے مقدس ذوق کو سات عشرؤں سے اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے ممتاز نعت خواں اور دانشور رانا دلدار احمد قادری نے 16/ جون 2014ع بمطابق 17/ شعبان المعظم 1434 ہجری بروز سوموار کوچ کے لیے اپنا رخت سفر باندھ لیا –

1940ع کو ھندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک گاؤں شاہ پور میں رانا نیاز احمد خاں ولد چودھری مولا بخش کے گھر جنم لینے والے اس نابغہ روزگار دانشور اور بے مثل نعت خواں نے اپنی خوبصورت آواز اور لحن داؤدی کی بدولت اپنے شہر اور علاقہ میں اپنی ڈھاک بٹھائی ۔۔۔۔۔۔چک 66 ج – ب دھاندرہ کی ذیلی آبادی اسلام پور ، جھنگ روڈ فیصل آباد کے ایئر پورٹ سے ملحقہ شہر خموشاں کی زمین نے نعت خوانی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔۔۔۔ان کی رحلت سے آسمان نعت خوانی ایک ایسے عاشق ؤ صادق نعت خواں سے محروم ہو گئ جس نے اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے سات عشروں سے زائد گراں قدر خدمات انجام دیں —
نعت پڑھنا، نعت سننا اور نعت لکھنا یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے۔۔ قرآن و سنت پر عمل کرنا ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔۔نعت پڑھنا، لکھنا اور نعت سننا یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔۔ اللہ تعالی کی ذات جسے چاہتی ہے اسے” ورفعنالک ذکرک” کے عمل میں مصروف کر لیتی ہے ۔ورنہ توصیف مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سننے، پڑھنے اور لکھنے کے لیے کسی میں بھی ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی کھوئی ہوئی معراج کو پا لیتا ہے –
نعت ایک ایسا جام ہے کہ جس کا چشمہ نعت خواں کے دل کے اتھاہ گوشے سے پھوٹتا ہے اور عاشقان رسولؐ کی تشنگی کو بجھاتا ہے۔ نعت کا اک اک شعرپیارے نبی سے محبت و عقیدت کی جھلک دیتا ہے۔
رانا دلدار احمد قادری کا شمار ان عاشقان نعت اور عاشقان مدینہ میں ہوتا تھا جنہوں نے ساری زندگی آقائے دو جہان سرکار مدینہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور توصیف و ثنا کے ترانے پڑھنا اپنے لیے باعث اعزاز و افتخار سمجھا — انھوں نے بنی نوع انسان سے ٹوٹ کر محبت کی اور زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔۔
رانا دلدار احمد خان قادری نے اپنی ذاتی محنت ،لگن اور انسانیت سے پیار کی بدولت جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی ،اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔۔۔ایک ایسے یگانہ روزگار فاضل کا ہماری محفل سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔۔وہ اپنے عہد کے نابغہ تھے ۔۔ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے ،وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔
اس عہد کے سب چاند چہرے دائمی مفارقت دے گئے، کیسے کیسے آفتاب و مہتاب زیر زمین چلے گئے ۔۔ کتنے بلندو بالا آسمان زمین نے نگل لئے ۔۔۔اجل کے اس چاک کو سوزن تدبیر سے رفو کرنا ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ساری زندگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور توصیف و ثنا کے ترانے پڑھنے والا سچا عاشق ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔۔۔نعت خوانی کی دنیا میں سات عشروں سے زائد اپنی خوبصورت آواز سے قلوب و اذہان کی تطہیر و تنویر کا سامان بہم پہنچانے والی ہستی اپنے لاکھوں مداحوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں جا بسی ہے۔۔یہ دنیا ہم سے اتنی دور ہے کہ ہم اپنی بقیہ زندگی صرف یاد رفتگان میں گزارنے پر مجبور ہیں –
رانا دلدار احمد قادری نے 1970 ع میں پی- اے َ- ایف لائل۔ پور ( فیصل آباد) سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور سن 2000 میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے یہیں سے ریٹائر ہوئے ۔۔۔
انھوں نے اپنا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا تھا ۔۔بچپن ہی سے آپ کے والدین نے آپ کے دل و دماغ میں دین متین کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی ۔۔ان کے والد رانا نیاز احمد خان نے انہیں چھے سات سال کی عمر میں ا اپنے گاؤں چک 241 ر – ب ، چنچل سنگھ والا میں پنے ہمسائے میں رہائش پذیر ایک درویش صفت امام مسجد پیر سید علی محمد شاہ سے قرآن پاک پڑھنے کی غرض سے ان کی شاگردی میں دے دیا تاکہ یہ قرآن مجید کی تعلیمات کو پڑھ اور سمجھ سکیں اور ساتھ ساتھ احادیث کے تراجم کو بھی اچھی طرح سمجھ سکیں ۔۔۔پیر سید علی محمد شاہ کی نگاہ کیمیا نے رانا دلدار احمد قادری کے قلب و روح میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کا شغف بھی پیدا کر دیا ۔۔۔۔پیر سید علی محمد شاہ بہت عالم باعمل انسان تھے اور وہ چک 241 ر – ب ،چنچل سنگھ والا کی مسجد کے پیش امام تھے ۔شاہ صاحب کا وصال 110 سال کی عمر میں ہوا ۔۔تقویٰ و پرہیزگاری اور ربی خوف، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبّت میں ہر وقت مستغرق رہنا شاہ صاحب پر اللہ‎ پاک کا خاص انعام رہا ہے ۔۔۔۔۔چچل سنگھ والا کی جامعہ مسجد سے ملحق ان کا مزار پر انوار ہے ۔۔پیر سید علی محمد شاہ کی قربت اور فیضان نظر سے رانا صاحب کی باطنی اور روحانی تربیت کا آغاز ہوا ، جس نے آنے والی زندگی کے لیے سنگ میل کا کام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پیر علی محمد شاہ کی چٹک ،حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے رانا دلدار احمد قادری کے قلب و روح میں نعت خوانی کا شغف راسخ ہو گیا جو مرتے دم تک انھوں نے حرز جان بنائے رکھا۔۔۔
جوں جوں وقت آگے بڑھتا چلا گیا ، رانا دلدار احمد خاں قادری کا فن نعت بھی نکھرتا چلا گیا ۔۔شوق و عقیدت کے راستے پر چلتے ہوئے ان کا تعلق بے شمار مذہبی ، دینی اور علمی شخصیات سے بڑھتا چلا گیا ۔۔۔انھیں شخصیات میں سے رانا دلدار احمد قادری کا تعلق خاطر اپنے علاقہ رسالہ والا کی ایک ایسی شخصیت سے ہوا، جن کے ساتھ رانا صاحب نے چالیس سال کا عرصہ مضبوط بنیادوں پر گزارا ۔۔ان کی دوستی ،رفاقت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ لوگ دونوں کی دوستی کی مثالیں دیتے تھے ۔۔۔۔اس ہستی کو لوگ پیر سید مشتاق حسین شاہ کے نام سے جانتے ہیں ۔۔
پیر سید مشتاق حسین شاہ کے آستانہ عالیہ ولی آباد شریف رسالے والا فیصل آباد سے رانا صاحب کا تعلق تا دم۔ مرگ رہا۔۔۔ رانا صاحب ان کے منظور نظر تھے اور سادی زندگی اپنا رابطہ آستانہ سے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ان دونوں دوستوں نے اپنی زندگی میں معرفت کی تلاش کے لیے پیر آف دیول شریف راولپنڈی والے پیر عبدالمجید صاحب کے دست مبارک پر بیعت کرکے اپنی دوستی کو مزید مستحکم کرلیا ۔۔۔پھر ان دونوں دوستوں نے اپنے علاقہ کے نگر نگر ،گاؤں گاؤں جا کر تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا ۔۔دونوں دوست دین متین کی تبلیغ عبادت سمجھ کر کرنے لگے ۔۔۔لوگوں کو معرفت الہی اور اللہ تعالی کے احکامات ، امر بالمعروف اور نہی المنکر کی تبلیغ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ۔۔۔۔۔سید مشتاق حسین شاہ قرآن مجید کے حافظ تھے اور بصارت سے محروم تھے ۔۔ رانا دلدار احمد قادری اور سید مشتاق حسین شاہ کے خیالات سوچ اور فکر کے زاویے ایک ہی مرکز پر آ کر ٹھہرتے تھے۔۔اس لئے ان کے خیالات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔۔رانا دلدار احمد قادری اپنی بائیسکل پر شاہ صاحب کو بٹھا کر تبلیغ کے لیے نکل پڑتے اور پھر احکام الہی پورا کرکے واپس لوٹتے —
ان دونوں شخصیات کو سید عبدالمجید آف دیول شریف سے روحانی فیض ملا ۔۔رانا دلدار احمد قادری نے نعت خوانی کو اپنی زندگی کا نصب العین اور منزل سمجھ کر حرز جان بنا لیا جبکہ سید مشتاق حسین شاہ نے اپنے گاؤں میں اپنا آستانہ قائم کرکے اپنے دست حق پر بعیت کرنے کا سلسلہ شروع کر لیا ۔۔سید مشتاق حسین شاہ صاحب کی زندگی میں بے شمار افراد ان کی حلقہ مریدی میں شامل تھے ۔۔۔۔آج کل سید مشتاق حسین شاہ کے بیٹے سید غلام محی الدین شاہ ان کی خلافت کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ان کے مریدین ان کے دست پر بیعت یافتہ ہیں ۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری کے فرزندِ اکبر’ رانا ریاض احمد خان اور ان کی فیملی کے بیشتر افراد پیر سید غلام محی الدین شاہ کے دست حق پر بعیت یافتہ ہیں ۔۔جو انھیں معرفت الہی کے رموز ، ربی خوف اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منازل کا راستہ بتاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔
ان کی پڑھی ہوئی منقبت "کربل وچ ذبح کیتا سید شبیر نوں، تیراں نال پچھیا نوری تصویر نوں” ہر سال دس محرم کو آستانہ ولی آباد شریف رسالے والا ، فیصل آباد میں منعقدہ محفل میں پیش ہوتی تھی۔ان کی پڑھی منقبت کے بغیر محفل مکمل نہیں ہوتی تھی ۔۔
رانا دلدار احمد قادری کی زندگی محنت و جدوجہد کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔۔۔۔اپنی پی۔ اے۔ایف کی ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی سے واپسی پر اپنے والد اور تینوں چھوٹے بھائیوں رانا عزیز احمد ، رانا منور حسین اور نصراللہ خان کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے
رانا دلدار احمد قادری کے بڑے بیٹے رانا ریاض احمد خاں اپنے والد کے اس عظیم روحانی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور نعت خوانی کی محافل میں جذب و شوق کے ساتھ حاضر ہو۔ کر نعتیں پڑھتے ہیں ۔۔ان کی آواز میں اپنے والد رانا دلدار احمد قادری جیسا سوز اور شیرینی ہے۔۔ رانا ریاض احمد کے تمام چھوٹے بھائی بھی اپنے والد رانا دلدار احمد قادری کے اس عظیم مشن نعت خوانی کو دل سے پسند کرتے ہوئے اپنے والد کی پیروی میں اس مقدس فریضہ کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں ۔۔۔یہ تمام بھائی رانا ریاض احمد خان سے لے کر رانا افضال احمد ساغر ، رانا اصغر علی خاں ،رانا محمّد سلیم خاں ، رانا شکیل انجم اور رانا فیاض دلدار اور ان کی بہنیں بھی اس پاکیزہ مشن کو اپنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔جب کبھی رانا دلدار احمد قادری کے گھر کوئی محفل برپا ہوتی ہے تو ان کے تمام صاحبزادگان باری باری نعت خوانی کر کے اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کرتے ہیں ان کا گھرانہ ایک نعت اکیڈمی کی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ رانا صاحب نے خود بھی شوق کی بنا پر نعتیں پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی شوق کی بنا پر پڑھنے کی نصیحت وصیحت کی تھی ۔۔جس پر ان کی اولاد عمل پیرا ہے ۔۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری ساری زندگی کمرشل نعت خوانی کے خلاف رہے اس لئے لوگ ان کو بلا جھجک اپنی محفل میں بلا کر اپنی محافل کو زینت بخشتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا دلدار احمد قادری کا شعبہ نعت خوانی ہے ۔۔آپ کو اللہ تعالی نے لحن داؤدی سے نوازا تھا۔۔ آپ نے ساری زندگی اپنے ہمسائے میں مسجد ” المعروف مائی دی مسیت” میں فجر کی اذان دی ۔۔اور تا دم مرگ یہ سلسلہ جاری رہا ۔۔آپ کی آواز میں سوز اور رقت کے ساتھ ساتھ شرینی اور مٹھاس ہوتی تھی کہ لوگ بے اختیار بستروں سے نکل کر مسجد کا رخ کر لیتے تھے ۔۔۔۔اس کے علاوہ دیگر نمازوں کی اذان دینے میں بھی آپ پیش پیش رہے ۔۔شاید ہی کبھی آپ کہیں گئے ہوں تو کسی دوسرے شخص نے اذان دے دی ہو ۔۔۔۔تکبیر اولی میں نماز پڑھنے والوں میں آپ کا اسم گرامی سب سے پہلے لیے جاتا تھا ۔۔۔۔۔ایسے سادہ ، منکسر المزاج ، خلیق ، حلیم ، سراپا اخلاص و اخلاق شخص میں نے اپنی زندگی میں کم دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہر وقت خوف خدا کو پیش نظر رکھنا ، لوگوں کی دل آزاری سے بچنا رانا دلدار احمد کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
ہمارے نزدیک نعتیہ کلام کی ادائیگی بہت معتبر ہے جسے سن کر اول روح و بدن با ادب ہو جائیں۔۔ دل میں سوز و گداز پیدا ہوکر رقت طاری ہونے لگے ،جو دل میں حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری کو ہوا دے کر دھیمی دھیمی آنچ سی لگا دے ۔۔جسے سن کر آپ کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی نسبت رکھنے والی ہر شے سے والہانہ محبت محسوس ہونے لگے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تڑپ پیدا ہو جائے۔۔ جسے سن کر بے ساختہ آپ کے لب حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ثنا خوانی کرنے لگے ۔۔اور یہ تمام کیفیات ہمیں رانا دلدار احمد قادری کی پر سوز آواز میں آقائے دو جہان سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت و ثنا کرتے ہوئے محسوس ہوتی تھیں ۔۔ساری زندگی سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کے ترانے پڑھنے والی زبان کی آواز میں بلا کیسے حلاوت اور سو نہ آئے ۔۔۔وہ تو دل کی دنیا بدل دینے والے ایک سچے عاشق نعت اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ۔۔۔وہ نعتوں کی ادائیگی ، ان کے طرز بیان کے لئے اپنے پڑھنے والی نعتوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ ان کے نزدیک ایسی نعتیں جہاں بے ساختہ اظہار کے بجائے بناوٹ ہو ،اور محبت میں ڈوب کر پڑھنے کے بجائے فن میں ڈوب کر ادائیگی کی فکر ہو اور اس سے بڑھ کر جہاں کلام کے با ادب الفاظ سے زیادہ دھن اور سوز سے زیادہ ساز پر دھیان ہو تو ایسی نعتوں کا انتخاب کرتے وقت رانا دلدار احمد قادری احتراز کرتے تھے ۔۔ان کے نزدیک نعت کا ایک ایک شعر پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کی جھلک دے اور نعت خوانی کرتے وقت پتہ چلے کہ کس نے محبت کے تقاضوں کی کتنی پاسداری کی ہے ۔۔۔رانا دلدار احمد قادری ایک سچے عاشق رسول ،خوش الحان نعت خواں کے نزدیک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادائیگی بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔۔وہ کہا کرتے تھے کہ گانوں کی دھنوں پر نعت کے سر بنانے سے بہتر ہے کہ ایسا نعت خواں گانا گا کر گزارا کر لے ۔۔۔۔۔۔رانا دلدار احمد قادری نعت خوانی کے شعبہ کے ایسے سچے نگینے تھے جو ہمیشہ کمرشل اپروچ کے سخت مخالف رہے ۔۔۔انھوں نے ہمیشہ نعت خوانی کو عقیدت و الفت کا دوسرا نام دیا ہے اور تمام عمر اسی پر وہ کاربند رہے ۔۔۔۔
محترم چچا رانا دلدار احمد خاں قادری ، جن کی ساری زندگی آقائے دو جہاں سرور کون و مکاں صل اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدحت کے ترانے گاتے ہوئے گزری ۔۔کل ان کی برسی تھی تو ان کی یاد شدت سے آئی ۔۔
سات عشروں سے نعت خوانی کرتے ہوئے گزار دی ۔۔۔اپنی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ انھوں نے نعت خوانی کو عقیدت و الفت کے ساتھ خوب نبھایا ۔۔۔آج کے پروفیشنل نعت خوانوں کی طرح وہ نوٹوں کی چمک دیکھ کر نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ نعت کو عشق و عقیدت کے طور پر پڑھا کرتے تھے ۔۔۔ایک سچے عاشق نعت ،عاشق مدینہ اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر آپ کی پوری زندگی بسر ہوئی ۔۔۔۔
رانا دلدار احمد خاں قادری نے اپنی پڑھی گئی نعتوں کے حوالے سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی و نفاست ، حسن اخلاق ،اسوۂ حسنہ، جلال و جمال، معجزات و کمالات، اختیارات و تصرفات، جود و سخا، عفو ودرگزر، لطف و عطاکے علاوہ فراقِ حبیب (ﷺ)، ہجرِ دربارِ رسول(ﷺ) ، آپ سے استغاثہ و فریاد ، احساسِ گناہ، شفاعت طلبی، اصلاحِ معاشرہ، انقلابِ امت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔۔ان کی شیریں آواز سے ادا ہونے والی ساری نعتیں ہمارے مشامِ جاں کو معطر کرتی چلی جاتی ہیں ۔
میرا ان کے ساتھ عزیز داری کے علاوہ نیازمندی کا تعلق بھی تھا ۔۔اکثر محفل نعت میں, میں بطور نقیب محفل حاضر ہوتا اور وہ بطور نعت خواں شریک ہوتے ۔۔اپنے شہر کے علاوہ ہم دیگر شہروں میں بھی نعت خوانی کی محافل میں شمولیت کی غرض سے اکثر جایا کرتے تھے ۔۔دوست احباب ہم لوگوں کو اس لیے بلاتے تھے کہ ہم پروفیشنل نعت خواں نہیں تھے ۔۔۔۔بلکہ زیادہ تر رانا دلدار احمد خان مرحوم ہی مجھے نقابت کے لیے اپنی معیت میں لے کر جاتے تھے ۔۔۔
مجھے نقابت کرنا ہوتی تھی ،رانا صاحب نعت خوانی کے لئے مدعو ہوتے تھےاور فیصل آباد کے ایک بلند پایا خطیب ،ادیب، مفسر ، استاد اور مذہبی اسکالر پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان کو آخر میں سیرت النبی کے حوالے سے خطاب کرنا ہوتا تھا ۔۔۔اس طرح ہمارا یہ اعزازی پینل دوستوں کی محافل نعت کو چار چاند لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا تھا۔کہیں کسی کا کوئی ختم قل خوانی ہوتا ،ختم چہلم ہوتا ، کسی کی برسی کی تقریب ہوتی۔ہم لوگ اکٹھے ہو کر اس تقریب کو سجانے کے لیے پہنچ جاتے۔۔رانا دلدار احمد قادری کی رحلت کے بعد یہ روحانی سلسلہ منقطع ہوگیا اور پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان نے بھی اپنی علالت کے پیش نظر محافل میں جانا کم کر دیا تھا ۔۔پھر کچھ عرصہ بعد مفتی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے ۔۔۔آج ان دونوں عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد شدت سے آ رہی ہے ۔۔۔جو بغیر کسی معاوضے اور کرایہ کے دور دور تک جا کر عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت بانٹا کرتے تھے ۔۔اب کہاں لوگ اس طبعیت کے !
رانا دلدار احمد قادری کو میں نے پہلی بار اپنے بچپن میں صائم چشتی کی یہ پنجابی نعت پڑھتے سنا ہے ۔۔آج سے پنتالیس سال قبل جب ان کی آواز میں یہ نعت سنی تھی تو تمام حاضرین کے اوپر رقت طاری ہو گیا تھا ۔۔وہ لمحہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے آٹا ہے ، تو دل جھوم جاتا ہے ۔۔نعت کے چند بول ۔۔۔

تیری خیر ہووے پہرے دارا
روضے دی جالی چم لین دے
اساں ویکھنا اے رب دا نظارہ
روضے دی جالی چم لین دے
نہ ایہہ طور اے نہ عرش معلی
ایتھے ہر ویلے رب دا تجلی
ایہہ محمّد دا پاک دوارا
روضے دی جالی چم لین دے
ساڈے مولا نے ایہہ دن دکھاے
آ کے ڈیرے غریباں نے لاۓ
ایتھے رب دا حبیب پیارا
روضے دی جالی چم لین دے
رانا دلدار احمد خاں قادری کی آواز میں قدرت نے حلاوت و شرینی اس قدر پیدا کر رکھی تھی کہ سننے والے پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔۔۔جب کھبی رانا صاحب اس حمد پاک” ثنا گو پتہ پتہ ہے خدایا دم بدم تیرا ” کو کسی محفل میں سناتے ، تو محفل میں یک دم ایک سناٹا طاری ہو جاتا ۔۔۔دل کی دھڑکنیں گویا رک سی گئیں ہوں ۔۔۔سامعین دم بخود ہو جاتے۔۔۔میں راقم (اظہار احمد گلزار) نے اس حمد کو رانا صاحب کی زبانی متعدد بار سنا ۔۔اور ہر کی بار ایک علیحدہ ذائقے سے متعارف ہوا ۔۔۔ مختلف محافل میں سامعین ان سے بار بار فرمائش کر کے یہی حمد سنتے ۔۔۔۔

ثنا گو پتہ پتہ ھے خدایا دم بدم تیرا
زمین و آسماں تیرے ہیں موجود وعدم تیرا
جب انسان تیرا کھا کر بھی شکوے کرے یارب
تعجب ھے کہ اس پر بھی رہے لطف وکرم تیرا
یوں تو رانا دلدار احمد خاں قادری نے سینکڑوں کی تعداد میں معروف شعراء کرام کی نعتیں پڑھی ہیں لیکن جو نعتیں میں نے ان کی زبانی زیادہ سنی ہیں ان میں ایک معروف نعت گو محمّد علی ظہوری قصوری کی لکھی یہ نعت بھی وہ بہت والہانہ انداز میں جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے ۔۔۔ان کی زبان سے ادا ہونے والا نعت کا ایک ایک بول دلوں کی تاروں کو چھیڑتا چلا جاتا۔۔وہ جب اس نعت کا پہلا مصرعہ ہی ادا کرتے ” یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرور انبیاء تیری کیا بات ہے "۔۔۔۔۔۔تو سبحان اللہ ،سبحان اللہ ۔۔۔کی بلند آوازیں محفل میں ب گونجنا شروع ہوجاتی ۔

یوں تو سارے نبیۖ محترم ہیں مگر سرور انبیاءۖ تیری کیا بات ہے
رحمت دو جہاں اک تری ذات ہے اے حبیبۖ خدا تیری کیا بات ہے
تیری کون و مکاں پہ نکھار آ گیا سب کی بے چینیوں کو قرار آ گیا
مرحبا مرحبا ہر کسی نے کہا آمد مصطفٰیۖ تیری کیا بات ہے

چار سو رحمتوں کی گھٹا چھا گئی جیسے گلشن میں فصل بہار آ گئی
دل کا غنچہ کھلا اسم اعظم ملا ذکر صلے علٰی تیری کیا بات ہے

رانا دلدار احمد قادری نے بے شمار نعت گو شعرا کا کلام مختلف محافل میں پیش کیا اور حاضرین و سامعین سے داد اور پسندیدگی کی سند حاصل کی ۔۔۔ان کی اصل کامیابی اور خوشی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں قبولیت ہی ہوتی تھی ۔۔وہ کہا کرتے تھے کہ میرے آقا مولا شافع محشر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی میرے اس کام سے خوش ہو جائے تو میرا مقصد پورا ہو گیا ۔۔انھوں نے امام احمد رضا خان بریلوی ، مولانا الطاف حسین حالی ،حسن رضا خان بریلوی ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی ، پیر نصیر الدین نصیر ، مولانا محمد الیاس عطاری صائم چشتی ، حافظ محمد حسین حافظ ،عبدالستار نیازی ،محمد علی ظہوری قصوری ،احمد ندیم قاسمی ، محسن کاکوروی ،نور محمّد نور کپور تھلوی ،ریاض احمد قادری ،اظہار احمد گلزار ،بیدم شاہ وارثی ، بابا تاجی شاہ ، اور دیگر متعدد شعرا کا کلام اپنی شیریں آواز اور لحن داؤدی سے پڑھا ہے ۔۔
فیصل آباد کے ایک ممتاز نعت گو شاعر عبد الستار نیازی کی نعتیں انھیں بہت پسند تھیں اور وہ وجد و کیف میں نیازی صاحب کی نعتیں پڑھا کرتےتھے ۔۔۔ ان کی آواز میں
عبدالستار نیازی کی زیادہ پڑھی گئی نعتوں کے پہلے مصرعے یوں ہیں ۔۔

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبیﷺ کر دیا

@اللہ، غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

@بن گئی بات ان کا کرم ہو گیا، شاخ نخل تمنا ہری ہو گئی

@خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

@محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں

@دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں

@بن کے خیر الوری آگئے مصطفی ہم گنہ گاروں کی بہتری کے لیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور عقیدت ایمان کا لازمی جزو ہے اور اسی محبت و عقیدت کا اظہار نعت ہے۔۔ اور یہی بات ہمیں رانا صاحب کی شخصیت میں ملتی ہے ۔۔اسی عشق و عقیدت نے ہی ان کی نعت خوانی کے ذوق کو چار چاند لگا دیے تھے ۔۔رانا دلدار احمد خاں قادری نے اپنی شیریں آواز کی ادائیگی سے بہت سے شعراء کا نعتیہ کلام ازبر کیا ہوا تھا اور جب بھی کسی شاعر کے کلام کے سننے کے لیے ان سے فرمائش کی جاتی ،تو وہ فورا ان کا کلام پڑھنا شروع کر دیتے ۔۔۔
نور محمّد نور کپور تھلوی عہد حاضر کے ایک ممتاز شاعر ہیں ، جن کی بیشتر نعتیں رانا دلدار احمد قادری کو ازبر تھیں ۔۔ ان کی چند نعتوں کے کچھ مصرعے ۔۔۔
@ مٹھیاں مٹھیاں ، سوہنیاں سوہنیاں ، بھاگاں بھریاں پیار دیاں
آؤ رل کے گلاں کریے ! اج مدنی سرکار دیاں

@ کدے سد لو شہر مدینے نوں
ٹھنڈ پا دیو سڑ دے سینے نوں

م@ مینوں یثرب کدے بلا سائیاں
روضے دی جھلک وکھا سائیاں

@ نعت لکھن دا فن ہے بہت مشکل لوڑ ایہدے لئی بڑے شعور دی اے
اوہو کرے ہمت لفظ کول جسدے ، نالے واقفی سارے بحور دی اے
@ لفظاں چ نہیں سمآندی عقیدت رسول دی اللہ‎ ای جان دا اے حقیقت رسول دی

@ محمّد توں صدقے ، محمّد توں واری
مری ساری دولت مری جان پیاری

رانا دلدار احمد قادری ۔۔۔سب کا "دل دار ” تھے ۔۔۔ وہ دلوں پر حکومت کا فن جانتے تھے ۔۔۔انہوں نے ساری زندگی میں محبتیں بانٹیں اور محبتیں سمیٹی ہیں ۔۔۔۔عجز و انکساری اور سراپا اخلاص تمام زندگی ان کی خوبی رہی ۔۔۔رانا دلدار احمد قادری ۔۔جو سب کا دل دار بن کر رہا ۔ان کی حسین یادیں اب تو زندگی بھر ان کی دائمی مفارقت کا احساس دلاتی رہیں گی ۔۔۔اپنی محفل سے رخصت ہونے والوں کو یاد کرکے دراصل ہم اپنے قلب و روح کو ان کی حسیں یادوں سے منور رکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
رانا دلدار احمد قادری سے اللہ‎ پاک خوش تھا ۔۔رانا صاحب نے زندگی بھر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر جانے کی تمنا کی ۔۔ایسی نعتیں پڑھیں جن میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی ٹرپ رہی ۔۔۔لیکن حالات نے ان کو موقع نہ دیا ۔۔۔تنگی داماں آڑے آتی رہی ۔۔لیکن ایک دفعہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میلاد میں مدعو تھے ۔۔انھوں نے بھی وہاں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔۔۔بعد ازاں قرعہ اندازی کے ذریعے عمرہ کی ٹکٹیں دی جانی تھیں ۔۔جب قرعہ اندازی ہوئی تو رانا صاحب کے نام کی پرچی بھی نکل آئی ۔۔اس طرح اللہ‎ پاک نے اپنے اس عاشق صادق کو اپنے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در اقدس پر آنے کے منظوری دے دی ۔۔یوں رانا صاحب عمرہ کی سعادت کر کے آے تو ان کی دنیا اور بدل گئی ۔۔۔۔ان کی شخصیت میں دنیا کی بے ثباتی ہر وقت پیش نظر رہتی ۔۔۔وہ اس دنیا کے حوالے سے اسے بند مٹھی میں ریت سے تشبیہ دیتے تھے جو لمحہ بہ لمحہ مٹھی سے سرکتی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔دنیا کو برف کی طرح کہا کرتے تھے جو ہر سانس کے ساتھ پگھل رہی ہے ۔۔۔۔۔زندگی بھی برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا صاحب کہا کرتے تھے بیٹا ! اس دنیا سے دل نہ لگاؤ بلکہ دنیا والے سے دل لگاؤ ۔۔۔۔۔۔۔زندگی بن جاۓ گی ۔۔۔۔۔
رانا دلدار احمد قادری اور ان کے ساتھیوں کی معرفت خداوندی ،فقر و استغنا ،اللہ مستی اور خود گزینی اور کشف و کرامات کے بارے میں عقل محو تماشائے لب بام دکھائی دیتی ہے ۔اقلیم معرفت کے فرماں روا اور آدابِ خود آ گہی کے رمز آشنا ان بزرگوں کی زندگی روشنی کا ایک مینار رہی ۔فقر و مستی اور درویشی و قلندری کا قریہ بھی عجب قرینہ رکھتا ہے جہاں کے محرم راز جذبِ دروں سے سرشار ہو کر مال و دولتِ دنیا سے بے تعلق رہتے ہیں اور پارس جیسے پتھروں کو بھی پائے استحقار سے ٹھکرا دیتے ہیں ۔۔رانا دلدار احمد قادری کی زندگی سر چشمۂ فیض تھی اور وہ ایک شجرِ سایہ دار کی طرح دُکھی انسانیت کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔ان کی رحلت کے بعد وفا کے سب افسانے دم توڑ گئے ۔۔رانا دلدار احمد خاں قادری جیسے مقرب بارگاہ بزرگوں کا وجود اہل عالم کے لیے خالق کائنات کا بہت بڑا انعام تھا ۔ان کے افکار و اعمال ان کے معتقدین کے لیے سدا خضرِ راہ ثابت ہوئے ۔ان کی وفات پرہم خود کو فکری اعتبار سے تنہا اور بے بس محسوس کرتے ہیں ۔اب اپنی دعائے نیم شب میں ہماری کامیابی ، مسرت ،سلامتی اور صحت کی دعا کون کرے گا؟ہمارے گھر کے درو بام پر محرومی ،اُداسی اور حزن و یاس کے سائے بڑھنے لگے ہیں ۔ان کی رحلت کے بعد بھی موضوع گفتگو نہیں بدلا بل کہ ہر محفل میں ان کا ذکر اچھے لفظوں میں کیا جاتا ہے ..اللہ تعالی رانا دلدار احمد قادری ،ان کے رفقا ،اساتذہ اور عالم اسلام کو ، جو راہی ملک عدم ہو گئے ہیں ۔ان سب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ، درجات کی بلندی سے نوازے اور بروز محشر حضور نبی کریم ،شافع محشر ، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے ۔۔آمین ۔۔
@ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔!

ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
Share
Share
Share