کالم : بزمِ درویش – رزق حلال :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
رزق حلال

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

کئی مہینوں سے جاری وبا کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا تھا مسلسل گھر رہ کر مسلسل وہی چہرے بار بار دیکھ کر انسان ڈپریشن کا شکار ہو رہے تھے انسان معاشرتی جانور ہے یکسانیت سے بور ہو نا شروع ہو جاتا ہے الجھن کا شکار ہو کر ڈپریشن خوف کی دھند میں لپٹنا شروع ہو جاتا ہے

اِس لیے تبدیلی تنوع کی تلاش میں باہر نکلنا چاہتا ہے آجکل سب سے زیاد ہ تو اُن خواتین کو مشکل کا سامنا ہے جنہوں نے روزانہ شاپنگ کی وجہ سے اور بغیر خریداری کے لیے بار بار بازار جانا ہو تا ہے بہت ساری خواتین صرف نئے نئے برانڈ دیکھ کر اپنی گفتگو کو لچھے دار امیرانہ بنا نے کے لیے مختلف بازاروں شاپنگ مال کی یاتراکر تی ہیں تاکہ ٹیلی فون پر یا ملاقات پر فیشن کی دنیا کے نئے ڈیزائن تبدیلیوں کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کر سکیں آجکل کیونکہ کرونا کے سیاہ بادل پو ری دنیا پر چھائے ہیں اِس لیے خواتین کا یہ شغل گھروں سے باہر نکلنا مختلف شاپنگ مالز اور مارکیٹوں کے دورے کرنا بھی تعطل کا شکار ہیں اپنی اِس بیزارگی سے خواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی اب بوریت اور ڈپریشن کا شکار ہو تے جارہے ہیں میرا ایسا ہی ایک دوست جو شدید بوریت اور ڈپریشن کا شکار تھا کئی دنوں سے بار بار فون کر رہا تھا جناب آپ سے ملے ہو ئے بہت دن ہو گئے ہیں آپ کو دیکھنے آواز سننے کی بہت خواہش ہے پلیز کسی دن اجازت دیں تاکہ میں آکر ملاقات کر سکوں اِس طرح کی بہت ساری کالیں آجکل آرہی ہیں لوگ بیچارے کرونا سے اب تنگ آچکے ہیں خدا ئے باری تعالی کو پتہ نہیں کب بے بس لاچار انسانوں پر تر س آئے گا تاکہ یہ نارمل زندگی گزار سکیں جب میرے دوست کا ڈپریشن خطرناک حدوں کو کراس کر نے لگا تو میں نے اُسے ایک شام کو بلا لیا تو وہ خوشی خوشی مسکراتا ہوا آگیا میرے موبائل کی چارجنگ لیڈ تنگ کر رہی تھی میں نے سوچا اِس کی صحبت کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے مارکیٹ کا چکر لگا تے ہیں شائد کہیں سے مل جائے اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ تر دوکانیں بند تھیں اِس لیے اب ہم مختلف مو ضوعات پر باتیں کر تے ہوئے لاہور شہر لبرٹی گلبرگ کی سڑکیں ناپ رہے تھے ایک اشارے پر جیسے ہی ہماری کار رکی تو اچانک گدا گروں کی فوج کو پتہ نہیں کہاں سے نمودار ہو ئی انہوں نے ہماری اور باقی گاڑیوں پر یلغار کر دی گدا گروں میں مختلف نسلوں عمروں کے لوگ شامل تھے اِن میں خطرناک تیسری نسل ہیجڑے تھے طاقت ور صحت مند توانا جسموں کے مالک یہ بے باک نڈر نسل کے لوگ جتھوں کے جتھے آجکل لاہور شہر پر حملہ آور ہیں تمام بھکاری بوڑھا بوڑھی یا بچہ لا چارگی بے بس ملتجانہ نظروں چہرے کے تاثر کے ساتھ اشاروں میں کا رکے شیشے پر ہلکی سی دستک سے اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں لیکن یہ ہیجڑے تو رگوں میں تیز گردش کر تے خون بلکہ ابلتے خون کے ساتھ دھماکہ دار انٹری ڈالتے ہیں ساتھ میں ہاتھوں سے تالیاں مارتے ہوئے آنکھوں سے اشاروں کے تیر برساتے ہوئے اداؤں کے دلفریب مضحکہ خیز لشکارے مارتے ہوئے دھماکے کے ساتھ آپ کی گاڑی پر اِس شدت سے حملہ آور ہو تے ہیں کہ معصوم بے چارے خوفزدہ لوگ اِن کو دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ شیشہ توڑ کہ اُن کو کھینچ کر ڈرائیونگ سیٹ سے اتار کر پیسوں کے ساتھ کپڑے بھی نہ اتار لیں فوری طور پر بڑا نوٹ ادب سے اِن کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں جب یہ تھوڑے وقت میں مختلف گاڑیوں سے نوٹ اکٹھے کر تے ہو ئے پورے اشارے کو برق رفتاری سے لوٹ لیتے ہیں تو بوڑھے بو ڑھیاں اور یتیم بچے حیرت اور خوفزدہ نظروں سے ان کے چھ چھ فٹ کے ڈیل ڈول کو دیکھ کر آہ بھرتے ہیں میرا دوست بھی ڈپریشن میں تھا اُس نے فوری سو روپے کا نوٹ نکالہ حملہ آور ہیجڑے کو پیش کیا ابھی دوسرے حملہ کرنے والے تھے کہ اشارے کو ہم پر رحم آیا گرین سگنل ہوا اور ہم آگے کو سرک گئے میرا دوست اِن سے خوفزدہ تھا کہ ایک رات انہوں نے میری کار میں گھس کر میرے بٹوہ خالی کر دیا تھا ساتھ ہی کہنے لگا کوئی اصلی حق دار ہو تو بتائیے گا اُس کی سخاوت کے جذبے کو دیکھ کر مجھے باجی سعیدہ یاد آگئی جو اگلے موڑ پر بچوں کے ریڈی میڈ کپڑوں کا سٹال سڑک کے جنگلے پر لگاتی تھی ایک دن اِسی طرح میں اپنے دوست کے ساتھ تھا وہ کسی دنیا وی آفت کی وجہ سے پریشان تھا پریشانی ٹالنے کے لیے صدقہ دے رہاتھا بہت سارے نوٹ کار میں رکھے ہو ئے تھے جو بھی سامنے آتا اُس کو دے کر آگے نکل جاتا تو ہمیں پچاس سالہ لاچار غریب کمزور نحیف و نزار قسم کی خستہ حال برقعے میں عورت نظر آئی جو کپڑے لگا کر بیٹھی تھی میں نے اپنے اُس آفت زدہ دوست سے کہا یار یہ حق دار لگتی ہے ہم دونوں اُترے اُس کے کپڑے دیکھنے شروع کر دئیے اُس بیچاری نے دکھانے شروع کر دئیے باتوں میں جب میں نے اُس کے میاں کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی وہ تو پانچ سال پہلے انتقال کر گئے اب میری پانچ بیٹیاں ہیں جن کی عمریں سات سال سے اٹھا رہ سال کے درمیان ہیں میاں کے انتقال کے بعد میں زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے مختلف دوکانوں سے بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے لاتی ہوں مختلف جگہوں پر سڑک کنارے مزدوری کر کے گھر چلی جاتی ہوں کا ر پوریشن والے بہت تنگ کر تے ہیں لیکن ایک دو ٹریفک وارڈن کو میری مجبوری غربت کا پتہ ہے اُن کے تعاون سے اب یہاں وہاں مزدوری کر تی ہوں۔ عورت کسی اچھے مہذب خاندان سے لگتی تھی اُس کی گفتگو سے شائستگی ٹپک رہی تھی نہ ہی اُس کو بھکاریوں کی لت پڑی تھی جو سوال کر تے وہ مختصر جواب دیتی یعنی وہ بھکاریوں کی طرح ہمارے پیچھے نہیں پڑ گئی تھی چند منٹ کی گفتگو اور اُس کے شریفانہ روئیے سے ہمیں پتہ چل کہ یہ پانچ یتیم بچیوں کے ساتھ اس عوام کش معاشرے میں زندگی کے دن پور ے کر رہی ہے اُس کے حالات جان کر میرے دوست نے دس ہزار روپے نکالے اور کہا بہن جی یہ آپ رکھ لیں ہمیں یقین تھا کہ وہ فوری طور پر پیسے پکڑ لے گی لیکن حیران کن طور پر اُس نے انکاار کر دیا کہ میں بھکاری نہیں ہو یہ پیسے میرے لیے حرام ہیں اورمیں اپنی بچیوں کو رزق حلال دینے کی پو ری کو شش کر تی ہوں جب ہم نے پیسے دینے کا بہت اصراار کیا تو وہ بو لی دیکھیں میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں میں اپنی بچیوں کو رزق حلال کما کر دے رہی ہوں آپ یہ پیسے کسی حق دار کو جا کر دیں اگر میں نے یہ پیسے رکھ لیے تو یہ میرے لیے حرام ہو نگے اور میں کسی کا حق ماروں گی جب بہت زور لگانے پر بھی اُس نے پیسے نہ لیے تو ہم نے اُس کے سارے کپڑے جو سات ہزار کے بنے خرید لیے تا کہ اُس کی مدد ہو جائے اِس بات پر وہ تیار ہو گئی تو میں بہت متاثر ہوا اُس سے یہ کہہ کر اُس کے کرائے کے گھر کا ایڈریس لیا کہ کسی کو اگر کپڑوں کی ضرورت ہوئی تو اُس کو دوں گا وہ آپ سے آکر لے جائے گا اُس کی خود داری رزق حلال کا جذبہ مجھے گرویدہ کر گیا میں نے اپنے دوست سے کہا گاڑی موڑو ہم اُس سار ی سڑکوں پر دیکھتے رہے کہ وہ شائد آج بھی بچوں کے کپڑے کسی جگہ بیچ رہی ہو تو وہ کہیں بھی نظر نہ آئی تو اچانک یہ خیال مجھے اداس کر گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آجکل تو اُس کی مزدوری بند ہو گی تو وہ اپنی پانچ بچیوں کا پیٹ کیسے پالتی ہو گی میں ایک دفعہ اُس کے گھرسے جاکر کپڑے خرید چکاتھا راستہ مجھے پتہ تھا کچی آبادی کے شکستہ ٹوٹے پھوٹے گھروں اور خستہ حال گلیاں کے پار اُس کا گھر تھا آخر کار ہم اُس کے گھر تک پہنچ گئے جہاں اُس نے اپنے عزیز کے پاس اوپر والا دو کمروں کا پورشن لیا ہو اتھا ایک کمرے میں سلائی کی مشین اور کپڑے تھے دوسرے میں وہ سوتے تھے گھر کے دروازے پر جاکر میں نے سعیدہ بہن کو کال ملائی اُس نے فون اٹھا لیا اور مجھے پہچان کر کہا بھائی اوپر آجائیں نیچے گلی میں باتیں کر نا اچھا نہیں لگتا میں نے اپنے دوست کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اُس کے مختصر دو کمروں کے گھر کے چھوٹے صحن میں داخل ہواتو خود دار عورت کھڑی تھی میں نے جاتے ہی کہا بہن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کیونکہ آپ کا کام بند ہے تو میں گھبرا کر آگیا کہ آپ کا گزارہ کیسے ہو تا ہو گا اِس لیے یہ رقم آپ رکھ لیں تو وہ چٹانی لہجے میں بولی بھائی آپ کا شکریہ میرے پاس بہت کام ہے آپ کی طرح ایک بھائی نے لاک ڈاؤن سٹارٹ ہو تے ہی آکر کہا جب تک لاک ڈاؤن ہے آپ کو کپڑے بھیجا کروں گا آپ سلائی کر کے ہمیں دے دیا کرو وہ چھوٹے شہروں اور آن لائن کپڑے بیچتے ہیں ماشاء اللہ آئیں آپ کو دکھاؤں کتنا کام آیا ہو اہے اب میں اُس بھائی کو کپڑے سی کر دیتی ہوں میرا رزق تو پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے یہ میں با عزت بچوں کو رزق حلال دے رہی ہوں آپ یہ پیسے کسی حق دار کو جاکر دیں مجھے اِن پیسوں کی ضرورت نہیں ہے میں نے دبے لفظوں میں اصرار کیا لیکن مجھے پتا تھا وہ نہ مانی میں جب اُس کے گھر کی سیڑھیاں اتر رہا تھا تو سوچ رہا تھا اِس ملک میں لوگ بنکوں کے بنک ڈکار گئے اربوں کھربوں کھا کر ڈکار بھی نہیں مارا جاتا رشوت حرام خوری کا دھندہ اپنے جوبن پر ہے ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے جا رہے ہیں اِس متعفن معاشرے میں سعیدہ باجی جیسی رزق حلال کی مشعلیں جو اپنے بچوں کو ایک نوالہ بھی حرام کو دینے کو تیار نہیں‘ ایسے ہی ہو تے ہیں کردار کے سورج جن سے معاشروں کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور یقین ہو تا ہے کہ خدا سے ڈرنے اور محبت کر نے والے لوگ ابھی زندہ ہیں سلام ایسے لوگوں کو جو مادیت پرستی کے اِس دور میں بھی رزق حلال کی شمع جلائے ہو ئے ہیں۔

Share
Share
Share