کورونا کی تباہ کاریاں کیا بڑھتی ہی جائیں گی ؟ :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کورونا کی تباہ کاریاں کیا بڑھتی ہی جائیں گی ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا کی وباء دنیا بھر میں پھیلتی ہی جارہی ہے۔ گزشتہ سال ڈسمبر میں جب چین کے شہر وہان سے یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ ایک جان لیوا مرض نے چینیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، تب بہت سارے ممالک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ملک اس مہلک وباء پر بڑی آسانی کے ساتھ قابو پالے گا۔ لیکن جیسے جیسے دنیا کے مختلف حصوں میں اس وائرس کی خطرناکی کے اثرات ظاہر ہو نے لگے ہر طرف ایک دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا۔

لیکن اس کے باو جود حکومتیں اپنی عوام کو یہ باور کر نے کی کوشش میں لگی رہیں کہ اس مرض سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے سدّ باب کے لئے ملک میں ساری طبّی سہو لتیں دستیاب ہیں۔ حکومتوں کے دعوے فضاء میں بکھر کر رہ گئے۔ تین، چار مہینے میں اس وباء نے ایسی شدّت اختیار کر لی کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ چھ لاکھ کے قریب افراد کی موت ہو چکی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ترقی یا فتہ ممالک میں یہ مرض تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ اب بھی امریکہ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ بر طانیہ، روس، فرانس، اٹلی اور برازیل جیسے ملکوں میں کورونا نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ ہندوستان میں بھی اس وباء کا پھیلاو بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک مر حلہ پر ہندوستان متا ثرہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گیا تھا۔ ملک میں متا ثرہ افراد کی تعداد میں ہر دن اضافہ کے ساتھ مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن حکومت کے ذ مہ داروں کا دعویٰ ہے کہ آ بادی کے لحا ظ سے ہندوستان میں کورونا وائرس سے متا ثر افراد کی شرح اموات دیگر ممالک سے کم ہے۔ اعداد و شمار کے گھورکھ دھندے میں عوام کو الجھا کر حکومت اس معا ملے میں اپنی عدم کار کردگی پر عوام کو سوال اٹھانے کے حق سے محروم کر نا چا ہتی ہے۔ ملک میں اچانک لاک ڈاؤن نا فذ کر کے عوام کو یہ جتلایا گیا کہ اس وباء پر قا بو پا نے کے لئے یہ ضروری تھا۔ حکومت کے اس جلد بازی کے فیصلے سے عوام کو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں اس کا اقتدار پر فائز افراد کو ذرہ برابر ا حسا س نہیں ہے۔ کتنی جا نیں اس دوران ضا ئع ہوئیں اس کا بھی کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھپ ہو نے سے ہزاروں لوگ پیدل چلنے پر مجبور ہو گئے۔ کئی اپنے وطن کو وا پس بھی نہیں ہو سکے۔ راستے میں دم توڑ دئے۔ کورونا کے پھیلاو کو روکنے کے لئے میڈ یکل سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بجائے تھالی بجانے اور دیا جلانے کی فرسودہ رسموں کو ادا کر کے عوام کو اوہام پرستی کی طرف راغب کر نے کا حکومت نے کام کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا ایک نا قابل علاج مر ض بنتا چلا گیا۔ اس وقت ملک کے دواخانوں کو دیکھنے سے یہ حقیقت سا منے آ تی ہے کہ لوگ دوا خانوں کو جا نے سے ڈر رہے ہیں۔ اچھا خا صا انسان بھی وہاں جا کر صحت یاب ہو نے کے بجائے موت کی آ غوش میں چلا جا رہا ہے۔ اس ہولناکی کو دیکھتے ہوئے اب حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ مرض اگر شدّت اختیار کر جائے تب ہی مر یض کو دواخانہ لے جایا جائے۔ دواخانے اس وقت مقتل کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرس، دواؤں اور طبی عملہ کی کمی ہے تو خانگی اسپتالوں کے لئے یہ دولت کمانے کا زرین مو قعہ ہے۔ طب کا پیشہ جو ایک مقدس ترین پیشہ تصور کیا جاتا ہے اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس گئی گذری حالت میں بھی بہت سارے ڈاکٹرس اپنی جان جوکھم میں ڈال کر کورونا کے مر یضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ایسے دل خراش منظر بھی سا منے آ ئے کہ ڈاکٹرس اور خانگی دواخانوں کے ذ مہ داروں نے مرنے والے کا بھی علاج کر نے کے نام پر لاکھوں رو پئے بٹور لئے ہیں۔
اب جو خبریں کورونا وائرس کے حوالے سے آ رہی ہیں وہ عام لوگوں کے لئے انتہائی پر یشان کُن ثا بت ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں 32 ملکوں کے 250کے قریب سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس، ہوا کے ذر یعہ پھیلتا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کو ایک کھلا مکتوب روانہ کرتے ہوئے ماہرین طب و سا ئنس نے مختلف سائنسی حوالوں سے عالمی ادارے کو یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ کورونا وائرس کے ذرات ہوا میں بھی پائے جا تے ہیں اس لئے اختیاطی تدابیر کو اختیار کر نے کے بارے میں نظرثانی ہو نی چا ہئے۔ اب تک یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ فضاء میں یہ وائرس موجود نہیں ہے اس لئے اس تعلق سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ نیو یارک ٹا ئمز میں شائع ہو نے والی اس رپورٹ کے بعد انسانی جانوں کیلئے خطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہوا میں اس وائرس کی موجودگی سے اس کے پھیلاؤ میں کئی گنا ا ضافہ ہو سکتا ہے۔ اب تک یہ بات بھی کہی جا رہی تھی کہ کورونا سے متاثرہ شخص سے رابطہ میں آ نے پر ہی یہ مرض دوسروں کو لا حق ہوتا ہے۔ اب اگر وائرس ہوا سے پھیلتا ہے تو ہر شخص اس سے متا ثر ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھیکنے سے دوسرے لوگ بھی مثاتر ہو جا تے ہیں۔ عوام کو یہ تا کید کی جارہی تھی کہ وہ جب بھی باہر نکلیں ماسک لگا کر نکلیں لیکن اب اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ ہوا کے ذریعہ یہ مرض پھیل سکتا ہے تو پھر انسان اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ گھر میں بھی اُ سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔ حالیہ عرصہ میں کورونا کیسس میں جو ا ضافہ ہوا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ لوگوں نے سماجی فاصلہ کا خیال نہیں رکھا۔ بازاروں اور دوکانوں میں بھیڑ جمع ہو جا نے سے اس وباء کے پھیلاؤ میں اضا فہ ہوا۔ عوام کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ آپس میں کم از کم چھ فِٹ کی دوری رکھیں تاکہ وہ انفکشن کا شکار نہ ہوں۔ یہ ساری با تیں طبی لحاظ سے درست ہو سکتی ہیں۔ لیکن مرض جس انداز میں پھیلتا جا رہا ہے اسے روکنے کے لئے حکومتوں کو اپنی تر جیحات بد لنی ضروری ہیں۔ ایک طرف حکومت لاک ڈاؤن کر دیتی ہے اور عوام کو متنبہ کیا جا تا ہے کہ وہ اگر اپنے گھروں سے نکلیں گے تو ان کی زندگی کو خطرہ لا حق ہو گا۔ مختلف ممالک میں عوام نے حکومت کے اس انتباہ پر پوری طرح سے عمل کیا۔ اس کے باوجود وباء کی بڑھتی ہوئی رفتار میں کو ئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ اب اچانک یہ بات سامنے آ تی ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے متا ثر ہو سکتا ہے کیو نکہ ہوا میں ہی وائرس پا یا جا تا ہے تو پھر عوام کی پریشانی کا بڑھ جانا انسانی فطرت کا تقا ضا ہے۔ اب کسی بھی ملک کی حکومت کو اس مہلک مر ض سے چھٹکارا پانے کے لئے دوررس اور ٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے۔ اگر سائنس دانوں کی اس تحقیق کو تسلیم کرلیا جائے کہ ہوا کے ذریعہ کورونا وائرس پھیلتا ہے تو پھر دنیا، قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرے گی۔ انسانی آبادیوں میں لاشے ہی لاشے نظر آنے لگیں گے۔ دنیا کی ایک بڑی آبادی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے جو بات سائنس دانوں نے تحقیق کے نام پر پیش کی ہو وہ ایک محض مفروضہ ہو۔ آج کل کورونا وائرس کو لے کر اندیشوں اور مفروضوں کی بھر مار ہے۔ ہر ایک اپنی عقل اور تجربہ کو اس معاملے میں پوری دریا دلی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ سائنس اور طب سے دور کا تعلق نہ رکھنے والے بھی کورونا سے بچنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ وہ ڈاکٹرس جو اس وباء کی خطرناکی سے عوام کو واقف کرا رہے ہیں بعض کم عقل لوگ اُ سے ڈاکٹروں کی دہشت گردی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ موت کے خوف سے مرض کی حقیقت کو نہ جا ننا سب سے بڑی نا دانی ہے۔مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ موت اپنے وقت پر آئے گی تو پھر کورونا کا خوف اپنے اوپر مسلط کر لینا اور ماہرین طب کو کورونا کے بارے میں کچھ کہنے سے روکنے کی کوشش کرنا کونسی عقلمندی ہے
دنیا کے 32ممالک کے 250کے قریب سائنس دانوں کی رائے یکلخت مسترد بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔انہوں نے اپنی تحقیق کو صیحح ثابت کرنے کے لئے شواہد بھی پیش کئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او ان کی تجاویز پر کس حد تک غور و فکر کرکے دنیا کے مختلف ملکوں کو اس وباء کو روکنے کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دیتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا کو ختم کرنے کی فوری کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دنیا بھر میں جو کچھ کو شش ہو رہی ہے وہ محض وباء کو مزید پھیلنے سے روکنے میں کچھ حد تک ممدد و معاون ثا بت ہو رہی ہیں۔ ماہرین طب نے کہہ دیا ہے کہ 2021تک اس کا ویکسین نہیں بن سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقفے وقفے سے کچھ آوازیں اٹھتی ہیں کہ بہت جلد کورونا پر قا بو پا لیا جا ئے گا اور اس کی دوا مارکٹ میں آجائے گی۔ اس وباء کو عام ہو ئے چھ ماہ سے زیادہ عر صہ ہو چکا ہے لیکن کوئی ملک پورے یقین کے ساتھ یہ کہنے کے موقف میں نہیں ہے کہ وہ اس موذی مرض کو ختم کر نے کے لئے کوئی دوا ایجاد کرنے میں کا میاب ہو چکا ہے۔ ہر روز کورونا وائرس سے اموات میں ا ضافہ سے صورت حال بد ترین ہو تی جا رہی ہے۔ اگر ہوا کے ذریعہ یہ مرض پھیلتا ہے تو حالت اور ابتر ہو جائے گی۔ ایک طرف وباء بڑی تیزی سے پھیلنے کے آ ثار بڑ ھتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف علاج معالجے میں لا پرواہیاں بھی ہر طرف دیکھی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان میں عام لوگوں کی زندگی اند یشوں اور خطرات کی نذر ہو چکی ہے۔ ان دنوں معمولی سردی، بخار کا آنا بھی ایک وحشت طاری کر دیتا ہے۔ اڑوس پڑوس اور خاندان کے لوگوں کو شک ہو نے لگتا ہے کہ کہیں یہ کورونا وائرس تو نہیں ہے۔ ڈر اور خوف کا یہ ماحول اس قدر چھا گیا ہے کہ امراضِ کہنہ کے شکار افراد بھی اپنے آ پ کو صحت مند باور کرانے لگے ہیں۔ یہ محض اس لئے ہو رہا ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ بعض مر تبہ بد بختانہ واقعات پیش آ رہے ہیں۔ جو کورونا کا مریض نہیں ہے اُ سے کورونا کا مریض بتا کر پریشان کیا جارہا ہے۔ دواخانوں میں علاج کی سہولتیں برائے نام رہ گئی ہیں۔ اس وباء نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ حکومت اپنی ذ مہ داری کو نبھانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کورونا کے معائنوں کے نہ ہو نے کی وجہ سے بھی ہزاروں جانیں جا رہی ہیں۔ جب تک بڑی تعداد میں معا ئنے نہیں کئے جا ئیں گے مریضوں کی شناخت ممکن نہ ہو گی۔ اس سے یہ وائرس مزید پھیلتا جا ئے گا۔ اس تشویشناک صورت حال کو ختم کر نے کے لئے حکومتوں کو اپنے سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر ٹھوس اقدامات کرنا لازمی ہے۔ اس ضمن میں نیوزی لینڈ کے وزیر صحت مسٹر ڈیوڈ کلارک کے مثالی کردار کو ہمارے ملک کے حکمران سا منے رکھیں۔ مسٹر ڈیوڈ نے گزشتہ دنوں یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کہ نیوزی لینڈ میں لاک ڈاؤن کو ختم کر نے کے بعد کورونا وائرس کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے وہ اخلاقی طور پر اس ذ مہ داری کو قبول کر تے ہوئے وزارت سے مستعفیٰ ہو رہے ہیں۔ وا ضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ملک میں کورونا وائرس کے مر یضوں کی تعداد صفر ہو چکی تھی۔ اور کئی دن کے انتظار کے بعد حالات کا جائزہ لے کر وہاں کی حکومت نے لاک ڈاؤن بر خواست کر نے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب لاک ڈاؤن کی برخواستگی کے ساتھ ہی کورونا کے کیسیس سامنے آ نے لگے تو متعلقہ وزیر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس قسم کی مثال کیوں ہمارے ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسے میں کورونا وائرس ہوا کے ذریعہ پھیلنا شروع ہو جائے تو ایک ایسا انسانی بحران پیدا ہو جائے گا کہ اس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

Share
Share
Share