قربانی کی فضیلت اور کچھ مسائل :- مفتی محمد ضیاءالحق قادری

Share
محمد ضیاءالحق قادری

قربانی کی فضیلت اور کچھ مسائل

مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی
اسلامک ریسرچ اسکالر ،
رابطہ نمبر9721009708

قربانی اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے، جس کی بہت فضیلت و اہمیت ہے۔ اس کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،جو اس امت کے لئے باقی رکھی گئی اور
رسولِ پاک ﷺ کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ عزوجل نے رشاد فرمایا:

فصل لربك وانحر
ترجمہ تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو
(سورۂ کوثر، آیت: ۲)
حدیث شریف میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اس کے کرنے پر ثواب اور ترک پر عذاب ہے۔
اس کے متعلق پہلے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ)میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے )سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ اے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہونچ جاتا ہے لہذا اس کو خوش دلی سے کرو۔(جامع ترمذی کتاب الاضاحی باب ما جاء فی فضل الاضحیة الحدیث ١٤٩٨ج٣صفحہ١٦٣ )
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔(المعجم الکبیر "الحدیث”١٠٨٩٤جلد ١١صفحہ۱٤-١٥)
حضرت ابو ہریرہ رضي الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آۓ(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبة ھی ام لا الحدیث ۳۱۲۳جلد ۳صفحہ ۵۲۹)

قربانی کے مسائل :
(۱)قربانی واجب ہونے کے شرائط یہ ہیں( ۱) مسلمان ہونا ،(۲) مکلف ہونا ،(۳) اقامت یعنی مقیم ہونا ، ( ٤) تونگری یعنی مالکِ نِصاب ہونا، (٥) حریت یعنی آزاد ہونا۔(الدرالمختار”کتاب التضحية جلد ٩ صفحہ ۵۲٤)
(٢)صاحبِ نِصاب وہ ہے جس کے پاس حاجتِ اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ (٦٥٣.١٦٤گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولہ (٩٣.٣١٢گرام) سونا یا اتنی قیمت کی کوئی چیز ہو۔
(٣) حاجتِ اصلیہ سے مراد وہ چیز ہے، جو زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہو ۔جیسے رہنے کے لئے مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ان کی سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائدہ ہیں الفتاوی الهندية كتاب الاضحية جلد۵ صفحہ ۲۹۳)
(٤)قربانی واجب ہونے کے لیے مرد ہونا شرط نہیں عورتوں پر بھی واجب ہے۔ (الدرالمختار کتاب الاضحية جلد ۹ صفحہ ۵۲٤)
(٥) گھر میں جتنے افراد مالک نصاب ہیں سب پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے۔ (بہار شریعت )
( ٦)صاحبِ نصاب اگر کسی دوسرے کے نام سے جیسے رسولِ پاک ﷺ یا کسی بزرگ یا کسی مرحوم کے نام سے کرنا چاہے تو اس کے لیے دوسری قربانی کرنی ہوگی۔
(۷)مالک نصاب جب تک نصاب کا مالک ہے اس پر ہر سال قربانی واجب ہے ۔ (بہار شریعت )
(۸)مالک نصاب نے اگر قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانیاں واجب ہو گئیں۔ ایک وہ جو اس پر واجب ہوتی ہے اور دوسری منت کی وجہ ہے۔ اور دو یا دو زیادہ کی منت مانی تو جتنی کی منت مانی سب واجب ہیں۔ (بہار شریعت)
(۹)بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو ان سے اجازت لینی ہوگی۔ بغیر اجازت کرنے سے ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا۔
(۱۰)قربانی کے دنوں میں قربانی ہی ضروری ہے ، اس کی جگہ کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی، یعنی قربانی کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہوگا۔واللہ واعلم
(۱۱)قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق صبح سے بارہویں کی غروب آفتاب تک (بہار شریعت جلد ۱۵صفحہ ۳۳٦)
(۱۲)نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے (بہار شریعت جلد ۱۵ صفحہ ۳۳۷)
(۱۳)قربانی کے جانور کے لیے ضروری ہے کہ اونٹ : پانچ سال، گاے، بیل، بھینس: دو سال اور بکرا ایک سال کا اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (الدرالمختار کتاب الاضحیةجلد ۹صفحہ ۵۳۳)
( ١٤)قربانی کا جانور بے عیب ہو، ورنہ اگر کان ، دُم ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوں ، سینگ جڑ سے ٹوٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی جانور اتنا کم زور ہے کہ قربان گاہ تک خود نہیں پہنچ سکتایا لنگڑا ہے یا کھجلی کی بیماری ہے، جو گوشت تک پہنچ چکی ہے تو ان کی قربانی نہیں ہوگی۔ و اللہ واعلم
(١٥)قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اگر لنگڑا ہوا یا کوئی قابلِ اعتبار عیب پیدا ہو گیا تو اگر جانور خریدنے والا اب بھی مالک نصاب ہے تو اس پر نیا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے۔ (بہار شریعت)
(١٦)قربانی کا جانور اتنا بیمار ہو اس کی بیماری ظاہر ہو تو قربانی جائز نہیں ہے (ہدایہ )
(۱۷)ایک جانور میں جتنے لوگ شریک ہیں سب کا عقیدہ صحیح ہونا ضروری ہے، اگر ان میں کوئی گمراہ بدمذہب ہے تو قربانی جائز نہیں ہے( الدرالمختار کتاب الاضحية جلد ٩صفحه ٥٤٠)
(١٨)اگر کسی شخص نے قربانی کی منت مانگی تو اس کا گوشت نہ خود کہا سکتا ہے نہ ہی اغنیاء کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس گوشت کا صدقہ کرنا واجب ہے چاہیے منت ماننے والا فقیر یا غنی ہی کیوں نہ ہو دونوں کا حکم ایک ہے خود نہیں کہا سکتا ہے نہ ہی غنی کو کھلا سکتا ہے (تبیین الحقائق کتاب الاضحیة جلد ٦ صفحه ٤٨٦)
(١٩) گاے یا بھینس یا اونٹ کے شرکاء میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی کرنا نہیں بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔(الدرالمختار الرد المختار کتاب الاضحية جلد ٩صفحه ٥٤٠)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ مولی تمام ملت اسلامیہ کو مسائل شرعیہ سیکھنے کی توفیق عطاء فرما امین یا رب العالمین

Share
Share
Share