ناول گراں : پوٹھوہاری تہذیب کی شکست وریخت کا نوحہ :- ڈاکٹر عبدالعزیز ملک

Share
عبدالعزیز ملک

ناول گراں : پوٹھوہاری تہذیب کی شکست وریخت کا نوحہ

ڈاکٹر عبدالعزیز ملک
شعبہ اردو،جی سی یونیورسٹی،فیصل آباد

اردو ناول نے جوسفر انیسویں صدی میں شروع کیا تھا وہ کٹھن اور دشوار گزاررستوں سے ہوتا،اکیسویں صدی کے مابعد جدید دور میں داخل ہو چکا ہے۔نئی بیانیہ تکنیکوں،ادبی پیرایوں اور اُسلوب و ہئیت کے تجربات نے اسے مابعد جدید دور میں وقار اور اعتباربخشا ہے۔

یوں ناول کی صنف اس سطح پر آن پہنچی ہے کہ اس کا موازنہ بین الاقوامی سطح کے فکشن سے کیا جا سکتا ہے۔ عصرِحاضرمیں مرزا اطہر بیگ،شمس الرحمان فاروقی، خالد جاوید،مشرف عالم ذوقی،سید محمد اشرف،شموئل احمد،خالدہ حسین،خالد فتح محمد،اختر رضا سلیمی،حسن منظر،عاصم بٹ،سید کاشف رضا،حمید شاہد،مرزا حامد بیگ اورریاظ احمد ریاظ ایسے فکشن نگار اس صنف کو تخلیقیت کے زورسے مستحکم کر رہے ہیں۔ان ناول نگاروں کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کے ناول میلان کنڈیرا کی اصطلاح میں کچ (Kitsch)کے زمرے میں آتے ہیں جن کو زیرِبحث نہ لایا جائے تو بہتر ہوگا۔عصرِحاضر میں فکشن کے منظر نامے میں ایک نام طاہرہ اقبال کا بھی ہے جنھوں نے محنت،ذہانت اورلگن سے اپنانام اور مقام پیدا کیا اور اردو ادب میں افسانوں کے چار مجموعوں (سنگ بستہ،ریخت،گنجی بار اور زمیں رنگ)کے ساتھ ساتھ ”نیلی بار“ اور ”گراں“ جیسے اہم ناول تحریرکر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منوایا۔
ناولوں میں تہذیبی و ثقافتی عناصر کی پیش کش کاسلسلہ ناول کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہو گیا تھاجس میں رتن ناتھ سرشار کے ناولوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا۔اس سلسلے کو پریم چند، کرشن چندر،بیدی اورقاضی عبدالستار نے آگے بڑھایااور دورِ حاضر میں شمس الرحمان فاروقی نے ”کئی چاند تھے سرِآسماں“ اور سید محمد اشرف نے ”آخری سواریاں“ میں اس تسلسل کوبرقرار رکھا۔طاہرہ اقبال کے ناول بھی تہذیبی اور ثقافتی عناصر کے آئینہ دار ہیں جن میں انھوں نے مقامی ثقافتی اقدارکی ٹوٹ پھوٹ اور جاگیرداری نظام کی منافقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ان کاتازہ ناول ”گراں“بھی پوٹھوہاری تہذیب کا عکاس ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی نے تہذیبی شکست و ریخت کا کام کیا ہے۔قیامِ پاکستان کے فوراًبعد کی تہذیب اور پھر اَسی کی دہائی کے بعد کی تہذیب میں واضح اور بیّن فرق موجودہے جسے مختلف کرداروں کے ذریعے،ناول نگار نے نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ناول کا پہلا حصہ”چوا پاک“ کے عنوان سے مرقوم ہے،جو پوٹھوہار کے اس دور کا نمایندہ ہے جو تقسیمِ ہندوستان کے فوراً بعد کا زمانہ ہے۔اس دور میں پرانی تہذیب رو بہ زوال ہے اور نئی تہذیبی اور ثقافتی اقدار ابھی نمایاں نہیں ہوئیں اورکردار بٹوارے اور بٹوارے سے پہلے کے واقعات کو یاد کر کے گزرتے وقتوں سے جذباتی لگاؤ کا اظہار کررہے ہیں۔ان کے ذہنوں پر ابھی وہ ماحول اور صورتِ حال نقش ہے جو تقسیم سے قبل موجود تھی۔اس ضمن میں ”گراں“ کی عورتوں کا مکالمہ ملاحظہ ہو:
”ہائے خزان سنگھ کی ہٹی! چھ ماہی ادھار پر سودا چلتا،شادی بیاہ پر گُڑ پتاشوں کے تھال مفت بھیجتا۔ہائے لوٹیاں پڑیں۔ساگری لٹی،پنڈی سڑی۔ہائے لوٹی۔۔۔ہائے لوٹی۔۔۔کیسی کیسی پھلکاریاں،ہندوانیوں کے ہاتھ کی ریشم کی کڑھائی والی،اتنی پیٹھ دار کہ کپڑا نظر نہ آتاہو۔سوسو پھلکاری،ایک ایک گھر سے نکلی”تھلے“اور”گڑھے“ کے ظلمی لوگ لوٹ کر لائے۔پیتل کی گاگریں، کھیس،دریاں،ریشم اور کھدر کی ساڑھیاں۔۔۔ہائے بیٹھے بٹھائے صدیوں کے جمے جمائے وسیب میں کیساواہڑا وگیا(ہل چل گیا)عمروں کے سنگی ساتھی ایک دوسرے کو کاٹنے وڈنے لگے۔ہائے ہائے ظلمی۔۔۔ہائے ہائے لوٹی۔۔۔“(گراں:ص۲۲)
اسی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے،مصنفہ نے ماہر مصور کے مانند،شوخ اور تیکھے رنگوں سے پوٹھوہاری تہذیب کے مرقعوں کو پیش کیا ہے۔اس باب کا تجزیہ،قاری پر واضح کرتا ہے کہ ”گراں“ کی تہذیب ایک بند تہذیب تھی،جو خوراک،لباس،اقدار اورزندگی کے دیگرپہلوؤں میں خود کفیل ہونے کے باعث دیگر علاقوں پر انحصار نہیں کرتی تھی۔ چاروں اطراف ایستادہ پہاڑوں کے درمیان زندگی گزارنے والی عورتیں،ان ہی کے اندر سمٹی ہوئی اور محدود تھیں۔یہاں کی عورتیں بیاہ کر باہر نہیں جاتی تھیں اور نہ کوئی جوان باہر سے کوئی عورت بیاہ کر لاتا تھا۔گاؤں کی تاریخ بھی سادہ اور مختصر تھی جو دو چار واقعات کے گرد گھومتی جنھیں گاؤں کی عورتیں بار بار ایک دوسرے کوسنا کر اگلی نسلوں کو منتقل کرتی رہتیں۔اس سماج کی عورت معاشرتی جبر کا شکار تھی جس کے قسمت کے تمام تر فیصلے خاندانی بزرگ کیا کرتے تھے،خاندان کے مردوں سے وفاداری اس کے لاشعور کا حصہ تھی۔ایک دفعہ جس سے منسوب کردی جاتی،پھر تمام عمر وہ اسی کی ہو رہتی۔زرینہ جان، جھلی میرن،شکیلہ جان اور فاطمہ کے کردار اس کی مثالیں ہیں جنھوں نے زندگیاں موہوم امیدوں کے سہارے گزار دیں اور خود کو کسی اور مرد سے منسوب کرنا گالی خیال کیا۔ایک نسل کے تفاوت کے بعد غزل جان بھی بغاوت کے باوجوداسی جبر کا شکار ہوئی۔وہ تعلیم یافتہ،حساس اور ذہین لڑکی ہے جو زرعی نظام کی ان کھوکھلی اقدار کو بدلنے کی خواہاں ہے لیکن صدیوں کے اس نظام کو بدلنا معصوم اور کمزور لڑکیوں کے بس سے باہر ہے۔وہ اس سماج میں مرد سے زرینہ جان، شکیلہ جان اور فاطمہ کے ان دکھوں اور اذیتوں کا بدلہ عثمان خان سے لینا چاہتی ہے جو ان کے اندر ہی اندر پروان چڑھتا رہاتھا،جس کا اظہار بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ اپنے دکھوں اور پریشانیوں کا انخلا مرغیوں، بھیڑ بکریوں اور دیگر جانوروں کو پَلُوتے دے کر کیا کرتیں مگر مرد کے خلاف آواز اٹھانا ان کی سوچ سے باہر تھا۔غزل جان نے پہلی بار اس جبر کو توڑے کی کوشش کی اور انجام کار اپنے حصے کا دکھ اور کرب سمیٹا۔مصنفہ نے ان کرداروں کے ذریعے پوٹھوہاری تہذیب و ثقافت کا نوحہ بیان کیا ہے اور اس میں موجود جبر کے کھانچوں کی یوں نشان دہی کی ہے کہ ان سے نفرت کے بجائے ہمدردی کا احسا س ابھرتا ہے۔ ”گراں“ میں مرد کرداروں کی نسبت نسائی کردار زیادہ نمایاں،واضح اور پر تاثیرہیں جن کی پیش کش میں مصنفہ نے خاصی محنت صرف کی ہے بعض جگہوں پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ عورتوں کی پکچر گیلری ہے۔شکیلہ جان، صنوبر جان، محمد جان، میرن، فاطمہ،تائی بختو،رحمت جان،غزل جان،ساریہ جان اور جسبیر کور وغیرہ کے کردار اصغرخان،اکبر خان، عثمان خان،حکم داد،اظہار الحق،مختار،چودھری نذیر،چودھری محمد اکرم اورتاج کے کرداروں کی نسبت مضبوط اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پوٹھوہار کی وہ تہذیب ہو سکتی ہے جس میں عورتیں گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ زراعت کی دیکھ بھال میں بھی حصہ لیتی ہیں اور ان کے مردغربت سے چھٹکارا پانے کی خاطر فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں یا ڈالر کمانے دساور چلے جاتے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم جس افراتفری اور جلد بازی میں ہوئی اور یہاں لوٹ مار کے سلسلے شروع ہوئے، اس نے اس ”گراں“ کے لوگوں کوجس طرح متاثر کیا وہ بھی مصنفہ نے اس ناول میں کہیں بین السطورتو کہیں واضح انداز میں پیش کیاہے۔بٹوارے کے وقت جو لوٹ کھسوٹ ہوئی اور نہتے انسانوں پر ظلم و بربریت کے جوپہاڑ ڈھائے گئے اس کی جڑیں نو آبادیاتی نظام میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔انگریز جو تجارت کے بہانے، مزید وسائل کی تلاش اور اقتدار کی ہوس میں ہندوستان وارد ہوئے انھوں نے برِصغیر کی تہذیب وثقافت پر ان مٹ اثرات مرتسم کیے۔انگریزوں کی آمد سے قبل،یہاں مسلمانوں کی زبان اورثقافت نمایاں تھی، لیکن ۷۵۸۱ء کی جنگ،درحقیقت مقامی اور فرنگی تہذیب کی کشمکش تھی جس میں فرنگی تہذیب فتح یاب ہوئی۔یہی وہ زمانہ تھا جہاں تاجری نے تاجوری کا روپ اختیار کیا۔اب فرنگی تہذیب حکمرانوں کی تہذیب تھی،اس لیے اس تہذیب کو اتنی طاقت حاصل ہو گئی کہ وہ لوگوں کے گھروں اور ذہنوں میں سرایت کرنے لگی۔ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ مقامی لوگ انگریزوں سے مرعوب ہونے لگے اور اپنے آقاؤں کی نقل کرنے میں تسکین محسوس کرتے۔سیاست،معاشرت،معیشت،مذہب،ثقافت اورنظریات پر مغربی رنگ جھلکنے لگااور مقامی لوگ انگریزوں کے قریب ہوکر تفاخر محسوس کرنے لگے۔انگریز افسر جب گاؤں کے دورے پر آتا تو پہلے پٹواری کے ہاتھ مقامی لوگوں کو چٹھی بھیجی جاتی جس میں انگریزافسروں کو کھانا کھلانے اور ان کی آؤبھگت کا سرکاری حکم ہوتا۔اس حکم کی تعمیل عزت اور اعزاز کا باعث خیال کی جاتی:
”پہاڑی بکرا ذبح ہوتا،چنگا تری والا شوربہ بنتا،بانگی مرغ بھون کر پکاتیں،ساتھ میوے کھوپے ڈال کر سوجی کا حلوہ بنتا۔گوروں کے تو منہ سے نہ اترتا۔چینی کے برتن،پیلے لال،دسترخوان،پانی صراحیاں،جھلنے کو گھنگھرو والے پنکھے،دریاں اور چاندنیاں،چھکڑے پرلد کر جاتیں۔تین تین دن میزبانی ہوتی۔جاتے وقت انگریز (تعریفی سند)چٹھی دے کر جاتے۔۔۔“(گراں:ص۰۴)
انگریزدور کے ہی اثرات ہیں جس کے باعث پوٹھوہار کے نوجوان فوج میں بھرتی کیے گئے اور انھیں جنگوں میں جھونک دیا گیا۔ان کی بیوائیں گھروں میں ان کا انتظار کرتی رہ گئیں۔زرینہ جان کا میر حسن لام سے تو بچ کر آگیا لیکن کراچی کی سڑکیں اسے نگل گئیں۔یوں وہ سہاگ کی رعنائیوں سے ہمکنار نہ ہو سکی۔میرن کا عبدل صوبے دار کشمیر کے محاذ پر مارا گیا،اس کی خبر ہی نہ مل سکی اور میرن بے چاری جھلی ہو گئی جو ہر روز چادر کا گھونگھٹ اوڑھ کرکلعام ریلوے سٹیشن پر اپنے فوجی کا استقبال کرنے جاتی اور بے مراد ”گراں“ کولوٹتی رہی۔شکیلہ جان کا کپتان اکبرخان اسے چھوڑ کر چلا گیا،کسی اور سے شادی کر لی لیکن اس نے عمر اسی کے نام پر گزاردی۔ امیر جان کا امجد خان فوج میں لانس نائیک اور حکم داد صوبیدار تھا۔صوبیدار حکم داد بندوق اپنے پاس رکھنا ایسے سمجھتا تھا جیسے عورت زیور سینے سے لگا کے رکھتی ہے۔ پوٹھوہار کے ہر گھر میں فوجی بندوق اور تمغے مہمان خانے میں سجا کر رکھے جاتے ہیں جس پر یہاں کے مرد فخر محسو س کرتے ہیں۔
ناول کا دوسرا حصہ ”تاج محل“ کے عنوان سے لکھا گیا ہے جس میں پوٹھوہار کی بدلتی تہذیب اور نئی اقدار کے نمودار ہونے کے عمل کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انگلینڈ میں مقیم ہندوستانیوں کی ثقافتی اور تہذیبی صورت حال کو اجاگر کیا گیاہے۔ ستر کی دہائی میں ہر مردپوٹھوہار سے پاسپورٹ بنوا کربیرون ملک کمائی کرنے چلاگیا۔پوٹھوہار مردوں سے یوں خالی ہو گیا جیسے جنگ کا زمانہ ہو۔عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کے سوا کوئی مرد دکھائی نہ پڑتا تھا۔بچوں کی مائیں بین کے انداز میں ہجر کے گیت گاتیں اور آنسووں سے تکیے بھگوتیں۔بچے روات، سہالے اور پنڈی کے انگریزی سکولوں میں پڑھنے لگے۔”گراں“ کے گھروں میں نل لگ گئے،باتھ رومز بن گئے اور وہ لَڑی ویران ہو گئی جہاں گراں کی عورتیں پانی بھرنے اور کپڑے دھونے جایا کرتی تھیں۔پتھروں سے اسارے گئے مکانات کوٹھیوں میں بدل گئے جن میں گیزر اور ہیٹر نصب تھے۔فریج اور کولرنے گھڑے کی جگہ لے لی۔جدت اور امارت کے باعث، ندی پر کپڑے دھلنے کے بجائے واشنگ مشین میں دھلنے لگے۔دیسی صابن کا استعمال ختم ہو گیا اور اس کی جگہ واشنگ پاؤڈر رواج پا گیا۔ مونگ پھلی،مکئی،باجرہ اور جوار کے کھیت ویران ہونے لگے اورگندم کی گہائی کے موسم میں لگنے والے میلے ٹھیلے خواب و خیال ہو ئے۔کسوں اور پہاڑیوں پر جانے والے راستوں پر گھاس اُگ آئی۔گھروں کی دہلیز تک پختہ سڑکیں بن گئیں اور ان پر بیرون ملک کمائی سے امپورٹڈ گاڑیاں چلنے لگیں۔اسلام آباد کی جدید کالونیوں میں نئی نئی کوٹھیاں تعمیرہونے لگیں جنھیں سفارت کار اوربیوروکریٹ اونچے اونچے کرایوں پر اٹھانے لگے۔ان کے کرائے اگلی نسل کے نوعمر لڑکے وصولنے لگے اور شہر کے مہنگے ترین ہوٹلوں اور ریستورانوں میں پیسے کی نمایش ہونے لگی۔وقت کے تغیر نے عورتوں کی تعلیم سے پابندی اُٹھا لی اور اَن پڑھ ماؤں کی بیٹیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے لگیں۔کوئی وکیل بن رہی تھی تو کوئی فیشن ڈیزائنر۔۔۔انھیں اپنے حقوق کا ادراک ہونے لگا تھا،دولت اور تعلیم نے ان میں خودمختاری اورحوصلہ کی صفت پیدا کر دی تھی۔تعلیم اور دولت کی خودمختاری اور جرأت ہی تھی جس نے غزل جان کو بغاوت پر اکسایااو روہ پوٹھوہار سے شادی کے روز انگلینڈ پہنچ گئی۔نئے دور کے نئے تقاضوں نے ہر شے کو نگل لیا۔
یوں غزل جان،جسبیر کور اوراس کی بیٹی ہاٹ کور کے کرداروں کے ذریعے مصنفہ نے انگلینڈ میں ہندوستانیوں کی تہذیب و ثقافت اور ان کے سماجی اور نفسیاتی مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ہندوستانیوں نے خود کو تو انگلینڈ میں منتقل کرلیا تھا لیکن وہ اس ثقافت سے جان نہ چھڑا سکے جس میں صدیوں رہتے چلے آئے تھے۔انھیں یورپی ثقافت میں انضمام کا خوف اورشناخت کے گم ہونے کا شدیدخدشہ لاحق تھا۔کمیونٹی کے اُصولوں، رفاعی مراکز اور مذہبی حدبندیوں کی پختہ دیواروں سے وہ اپنی تہذیبی اقدار کو بچانے کی کوشش میں مگن تھے۔ جس دور اور جس سال میں کوئی خاندان یہا ں منتقل ہوا اسی دور اوراسی عہد کے حصار میں مقید ہو گیا۔وہی لباس، وہی زبان،وہی سوچ اور وہی الفاظ جو اس دہائی سے منسوب تھے،ہندوستانی اپنے ساتھ چپکائے ہوئے تھے۔زمانہ آگے کاسفر طے کر گیا تھا لیکن ہندوستانی کمیونٹی کے لیے وقت منجمدہو گیا تھا۔اس ماحول میں غزل جان خودکو مانوس نہ بنا سکی۔وہ تنہائی کے لمحوں میں جسبیر کور کاموازنہ اپنی ماں سے کرتی رہتی جس میں جسبیر کور ظالم اور اس کی ماں اسے مظلوم محسوس ہوتی۔غزل جان کے برعکس جسبیر کورکی بیٹی ہاٹ کور نے خود کویورپ کے اس نئے ماحول کاعادی بنا لیا تھا۔وہ بنٹی سنگھ کے ساتھ زندگی کے سارے لطف بھی کشید کرتی تھی اورلڑائی جھگڑا بھی کرلیتی تھی۔اب یورپ کی نئی تہذیب میں محبت کاوہ تصور نہیں تھا جو پوٹھوہاری تہذیب میں غزل جان بچپن سے دیکھتی آئی تھی:
”محبت کو احترام کا تعویذ بناکر گلے میں پہننے کا زمانہ لدگیا تھا۔اب محبت فطرت کی روانی کے تابع تھی۔وہ سوچتی شاید محبت بھی اپنے Fundamentalحقوق حاصل کر چکی ہے۔وہ بھی اب یکطرفہ ٹریک سے اتر جاتی ہے۔استحصالی ہاتھوں سے پھسل نکلنے کی چالاکی حاصل کرلیتی ہے،جب محبت چالاک ہوجائے تو پھر تاج محل پر کیاگزرتی ہے،لیکن آج وہ خود ہی انقلابی احساس کے ساتھ اُٹھ کر اس اجنبی کے ہمراہ چل دی،جیسے وہ مہندی کی تقریب میں دلہن کی جگہ خالی چھوڑ کر چل پڑی تھی۔“(گراں:ص۹۲۱)
محبت کے اس تصور کے ساتھ وہ سمجھوتہ نہ کر سکی،وہ تو مرد کے کھونٹے سے بندھی گائے کی طرح کی محبت اور وفاداری کی قائل تھی۔ایک ایسی گائے جو بکنے کے بعد مالک کے ساتھ چل پڑتی ہے وہ چاہے تواُسے ذبح کرے یا پالے پوسے۔یورپ میں تو محبت کے کئی درمیانی مراحل ختم کر دیے گئے تھے جو مشرق میں لازمی خیال کیے جاتے تھے۔خط،گیت،میٹھی باتیں،،شعر،غزلیں اورہجرو فراق کے لمحات وغیرہ مگریہاں تو سارے مرحلے ایک ہی جست میں طے ہو جاتے تھے۔ اسی لیے اس نے تاج سے محبت کرنے کے باوجود اس کے قرب کو جھٹلا دیا اور الٹے قدم لوٹ آئی اور خود کوجسمانی طور پر عثمان خان کے حوالے کرنے پر راضی ہو گئی۔عثمان خان سے پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام اس نے تاج کے نام سے رکھا اور یوں جس سے اس نے محبت کا روحانی تعلق قائم کیاتھااس کی وفاداری کا ثبوت دیا جو پوٹھوہار کی عورت کا خاص حوالہ بنتا ہے۔
ناول کا تیسرا حصہ“چودھری محمد اکرم NZD Vs“ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔اس میں ان دو کرداروں کی مدد سے جدید تہذیب اور دیہی تہذیب کا موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔چودھری محمد اکرم دیہی تہذیب کا نمایندہ کردار ہے،جبکہ نذیر احمد جدید تہذیب کوپیش کر رہا ہے،ان دو کرداروں کے بین السطورمصنفہ اس بات کی قائل نظر آتی ہے کہ دیہی معاشرت کے تضادات معاشرے کے لیے اور انگلستانی معاشرے کے تضادات فرد کے لیے نقصان دہ ہیں۔غیریت اور منافقت کہاں اور کیسی ہے اس کو نذیر احمد کی کہانی سے نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشرقی لوگ سالہا سال سے انگلینڈ میں رہنے کے باوجود یہاں کی تہذیب کو نہ اپنا سکے اور نہ انھیں مقامی تہذیب نے خود میں ضم ہونے کی اجازت دی۔مقامی باشندے انھیں قابلِ نفرین،کم ترنسل اورحقیر ذات خیال کرتے رہے ہیں۔معاشرت،اطوار،رسم ورواج،ان کی شکلیں،جسامتیں،زبان کے لہجے اور تلفظ،ہر چیز کمتر اور حقیر خیال کی جاتی رہی ہے۔وہ اگر اپنی بولی،شناخت،مذہب اور تہذیب بھی چھوڑ دیں،تو بھی انھیں یہاں مرکزی مقام نہیں ملے گا اور وہ حاشیے پر ہی موجود رہیں گے۔ معروف ناول نگار حسن منظر کے بقول ”یورپی تہذیب کے لوگ ایک ایسے پودے کے مانند ہیں جو ہر آب و ہوا اور زمین میں لگ جاتے ہیں اور وقت آنے پرپھول اور بیج دینے لگتے ہیں۔اس کے برعکس مشرق کے باشندے ہیں جواپنا بستربند صرف رات کے وقت کھولتے ہیں اورکسی بھی لمحے بستر سمیٹ،لوٹ جانے کو تیار رہتے ہیں۔“اسی رویے کی غمازی ہمیں نذیر احمد کے ہاں نظر آتی ہے۔اس نے فزکس میں پی ایچ ڈی کی،یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوا۔ایک آزاد خیال عورت کیرن سے شادی کی جو اپنے بوائے فرینڈ کو چھوڑ آئی تھی،شادی چرچ کے عیسائی رواج کے مطابق ہوئی اور پھر مسجد میں بھی نکاح پڑھا گیا یوں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو مطمئن کیا گیا۔دونوں اپنے اپنے مذاہب کے معاملے میں آزاد خیال تھے۔کیرن نے کچھ عرصے بعد یہ کہہ کر علاحدگی اختیار کر لی کہ میں اب تمھارے ساتھ رہ کرFed upہو گئی ہوں۔وہ نذیر احمد کے مشرقی خدوخال،جی حضوری اوروفاشعاری سے تنگ آچکی تھی اور آزاد فضاؤں میں سانس لینے کو چلی گئی۔ نذیر احمد نے اپنے بچوں پر بھی یہ جبر نہ کیا کہ وہ اس کی مرضی کامذہب قبول کریں۔اس نے انھیں فطرت کے اُصولوں پر پروان چڑھنے دیا۔کچھ عرصے بعد وہ بھی نذیر احمد سے اکتا گئے،اس لیے کہ ان کی انگریزیت پر شک کیاجا رہاتھا۔بالآخر وہ گاؤں جسے خیر باد کہہ کر وہ یورپ میں آن بسا تھا عمر کے آخری حصے میں اس کی یادوں کا حصہ بن گیا۔ نذیر احمداب ماضی پرستی(ناسٹلجیا) کا شکار ہو گیاتھا اور گاؤں پلٹنے کی خواہش کے باوجود گاؤں نہ جا سکا۔نذیر احمد کے المیہ کا ناول نگار نے کچھ یوں تجزیہ کیا ہے،اقتباس ملاحظہ ہو:
”نذیر احمد NZDریٹائرڈ پروفیسر فزکس جو اپنی پنشن پر خوشحال زندگی جیتے ہیں لیکن خوش نہیں۔تنہا بیمار،نرسیں،ہسپتال،ٹی وی،خودکلامی،کتابیں،نیٹ ورک،ساری دنیا گھر کے باہر،گھر کے اندر تنہا ویران،گھر سے باہر بینچ پر اونگھتے ہوئے منہ پر ہیٹ گرائے کسی گورے کی شبیہ بنائے لیکن گورا انھیں خود میں سمونے کو تیار ہی نہ ہوا۔“(گراں:ص۷۰۲)
نذیر احمد کے برعکس چودھری محمد اکرم کا کردار تشکیل دیاگیا ہے تاکہ نذیر احمد کے کردارکی بے بسی،کرب اور باطنی اذیت کو نمایاں کیا جاسکے۔محمد اکرم اپنے ماحول اور ثقافت میں اطمینان بھری زندگی گزار رہا ہے۔اس نے میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی،وہ گاؤں میں آبائی زمینوں پر کام کرتا ہے، اس نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی شادی کرلی تھی،اس کی اولاد اس کی وفا شعار ہے،گاؤں والے اس کی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ نذیر احمد کا بچپن کا دوست ہے اور دوستی کے تعلق کو نبھانا جانتا ہے۔ اس لیے وہ ہر ہفتے اس کو خط لکھتا ہے اور گاؤں کی صورتِ حال سے آگاہ کرتا ہے مگر اس کے بھیجے گئے خطوط کو نذیر احمدذاتی مصروفیات اور کچھ گاؤں میں عدم دلچسپی کے باعث اہمیت نہیں دیتا۔دونوں کرداروں کا تقابل یہ ظاہر کرتا ہے کہ نذیر احمد کا وقت کے ساتھ کتابی علم بڑھتا رہا اور محمد اکرم کاسماجی تجربہ۔وہ گاؤں کے تنازعات کو حل کرنے لگا۔اس کی رائے مستحکم اور قابلِ قبول ہوتی گئی اور وہ سماجی سطح پہ اپنے گاؤں میں مضبوط شخصیت بن گیا۔ گاؤں کی تمام برادریاں اس کے فیصلوں کی تائید کرنے لگیں کیوں کہ وہ رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا تھااور غیر جانب دارہو کر لوگوں کو فایدہ پہنچا رہا تھا۔اس کی اپنی تہذیب، ثقافت اور مذہب سے خاص جڑت تھی جس نے اسے اطمینان اور سکون دیا تھا۔وہ اپنے چھ بیٹوں،چار بیٹیوں،دامادوں،بھانجوں،بھتیجوں،عزیر و اقارب،دوست احباب اور ہمسایوں کے ساتھ خوش تھا،ذرا ذرا سی خوشیاں،نسل انسانی کی ارتقائی فطرت اور وجود سے پھوٹنے والے سچے جذبات اس کا مقدر تھے۔اس کے برعکس بیگانی اور اجنبی تہذیب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نذیر احمد اندرونی خلفشار اور بے اطمینانی کا شکار ہوا۔نہ بیوی سے مضبوط تعلق استوار کر سکا اور نہ اولاد سے وہ لگاؤ پیداہوا جو خاندان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہوتا ہے،کیوں کہ یورپی تہذیب جدید ٹیکنالوجی اورنئے مشینی آلات کے توسط سے خودکوطے کر رہی تھی اوراس سے ہم آہنگ ہونا نذیر احمد کے لیے ناممکن تھا۔یہی صورتِ حال انگلینڈ میں مقیم باقی تمام ہندوستانیوں کی تھی جو اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں پہنچ تو گئے تھے لیکن خود کو جدید یورپی تہذیب سے ہم آہنگ کرنااُن کے لیے ممکن نہ تھا۔غزل جان بھی لمحہ بہ لمحہ اس المیے کی جانب سفر کررہی تھی۔ خود کو اس کرب سے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے واپسی کا سوچا اور زندگی کے بقیہ ایام اپنے گراں میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔
ناول کا آخری حصہ”میری کالی مرغی کھو گئی“کا عنوان لیے ہوئے ہے۔اس حصے میں مشرقِ وسطیٰ اور سعودی عرب کی ثقافت اور یہاں مقیم پاکستانیوں کی صورتِ حال کو اجاگر کیا گیاہے۔ کئی پاکستانی یہاں عمرے یا حج کا ویزہ لے کر آتے ہیں اور پھر ادھر ادھر چھپ جاتے ہیں،اس طرح کئی غیر قانونی تارکینِ وطن یہاں مقیم ہیں جو سستی اجرت پر کام کرنے پہ مجبور ہیں۔پولیس چھاپے مارتی ہے،پکڑے جاتے ہیں، جیل میں پڑے رہتے ہیں یا انھیں اپنے ملک بھیج دیاجاتا ہے۔دوسرا یہاں کفیل کا تصور موجود ہے جو کسی جونک سے کم نہیں ہوتا،اقامے کے انتظار میں وہ اپنی خوب خدمت کراتا ہے لیکن پھر بھی ہر لمحہ خوف کا بھوت سر پر سوار رہتاہے کہ کب نکال باہر کیا جائے۔اس کا اظہار ناول میں کچھ یوں ہوا ہے:
”بھاوی برکت تو بہت ہے پریہ کفیل! کسی جلم کی طرح لہو چوس لیتے ہیں،یاد ہے نا بھاوی! کسوں کے پانیوں میں کتنی جلمیں (جونکیں) ہوتی تھیں جو بھینسوں کے تھنوں سے چمٹ جاتی تھیں۔جب تک لہو چوس چوس کر پیٹ پھولا نہ لیتیں الگ نہ ہوتی تھیں،جتنا کھینچو،دھورو۔۔۔بالکل اسی طرح یہاں عربی کفیل بھی ہے۔“(گراں:ص۰۳۲)
دوسرا یہاں کے ممالک میں شہریت کے سخت قوانین ہیں۔یہاں آپ نسلیں گزار دیں لیکن آپ کو شہریت ملنا مشکل ہے اس کے برعکس یورپی ممالک میں شہریت آسانی سے مل جاتی ہے۔وہ سر زمین جو صحرا ہے اور اُگانے کے قابل نہیں لیکن وہاں خوراک وافر مقدار میں موجود ہے۔غور کیا جائے تواشیائے صرف کی سب سے بڑی منڈی یہی علاقے ہیں جہاں ہر موسم میں ہر چیز موجود ہے۔ مسلمانوں کااس سر زمین سے اِن سختیوں اور تنگیوں کے باوجود، روحانی تعلق موجود ہے۔وہ اس خطے کااحترام کرتے ہیں اور باہم اتفاق و محبت سے رہتے ہیں۔درحقیقت یہ اتفاق عدم تحفظ کا نتیجہ ہے جوکسی بھی ملک میں رہنے والی اقلیتیں محسوس کرتی ہیں جہاں مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کیاجاتاہے۔مذہبی تہوار اورثقافتی سر گرمیاں اکٹھا ہونے اور رابطہ قائم کرنے کے لیے منعقدکی جاتی ہیں۔قانونی،سیاسی،معاشرتی اور مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے فنڈزجمع کیے جاتے ہیں۔محبتیں اور قربتیں بڑھائی جاتی ہیں جو غالب ثقافت اور تہذیب کے خلاف حصار کاکام دیتی ہیں۔غیر ممالک میں اقلیتیں روایتوں،مذہبی اور ثقافتی تہواروں اورمعبدوں میں محصور رہ کر ہی احساسِ تحفظ سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ساریہ اور عثمان خان کا بھائی یہاں مقیم ہیں اور اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کرداروں کے توسط سے ناول میں اس خطے میں غیر ملکیوں کی صورتِ حال اور ان کے دوہرے رویوں کا فنکارانہ چابک دستی سے پردہ چاک کیا گیا ہے۔مشرقِ وسطیٰ اور عرب میں بسنے والے پوٹھوہاری بھی یورپ میں مقیم پوٹھوہاریوں کے مانند اس تہذیب میں ضم نہیں ہوسکے انھیں صرف اور صرف آبائی وطن کی تہذیب وثقافت ہی خود میں سموسکتی ہے۔دیگر ثقافتیں جب چاہیں آپ کو مہاجر، پناہ گیر، باہری یا خارجی کہہ کر خود سے الگ کر دیں۔
ناول”گراں“ میں مصنفہ نے پوٹھوہاری تہذیب و ثقافت کی بھر پور وکالت کی ہے اور آبائی خطے سے تعلق استوار رکھنے کو نفسیاتی اور ذہنی آسودگی سے موسوم کیا ہے،وہ کردار جو اپنی جڑوں سے جڑے رہے ان میں سرسبزی اور شادابی ہے اور وہ جنھوں نے خود کو اپنی ثقافت سے الگ کرلیا وہ مرجھا گئے۔ زرد رنگ کا ذکر ناول میں بار بار ملتا ہے جو علامتی طور پر استعمال کیا گیاہے۔پوٹھوہاری تہذیب کی اقدار جب ستر اور اسی کی دہائی میں شکست و ریخت کا شکار ہو رہی تھیں تو مصنفہ کو پوٹھوہار کا پوراخطہ زرد رنگ میں نہایا نظر آتا ہے۔زرد رنگ جو فصلوں کے پکنے کی بھی علامت ہے اور فصلیں جب پک کر تیار ہو جاتی ہیں تو پھر انھیں کاٹ دیا جاتا ہے اور ان کی جگہ نئی فصلیں لے لیتی ہیں۔یہاں بھی صورتِ حال کچھ اسی طرح ہے۔پرانی اقدار مرجھا گئی ہیں اور نئے زمانے کی نئی اقدار اپنی جڑیں پکڑ رہی ہیں۔اقتباس ملاحظہ ہو:
”زرد پتوں پر جماکہرا پگھل کر موٹے موٹے آنسوؤں کی صورت ڈبڈبانے لگا۔چوے کی سطح پر جمی باریک کانچ سی برف کی تہ پھٹ گئی تھی۔برساتی جھیل کے کنارے گول گیٹیاں اور نوکیلے پتھر سفیدپھو(کہر)میں لپٹے پگڈنڈیوں سے لڑھکے اور بارش کے پانیوں میں بہنے لگے۔“(گراں:ص۱۲)
یہاں ناول میں ریل گاڑی کو بھی بطور علامت استعمال کیا گیا ہے جس کی جگہ اب جہاز نے لے لی ہے۔ جہاز اور ریل گاڑی یہاں امید اورانتظار کی علامت ہیں۔ کسی کے آنے کا انتظار،کسی سے ملنے کا انتظار،کسی سے وصل کا انتظار،کسی سے تعلق کی استواری کی امید،فوج اور بیرون ملک مقیم اُس کردار کی آمد کی اُمید جس کے نام پر یہاں کی عورتیں عمریں گزار دیتی تھیں۔ ریل گاڑی ہی وہ واحد شے تھی جس نے ”گراں“کا بیرونی دنیا سے تعلق استوار کیاہواتھا۔میرن جھلی ہو یا شکیلہ جان ریل کی آمد و رفت پر زندگی کی سانسیں گزار تی رہیں ”کَد مُڑ سو،کیڑی گڈی تو لَہسو“(کب واپس آؤ گے،کس گاڑی سے اترو گے) کا وِرد ان کے لیے موہوم امید بنا رہا۔صرف یہی نہیں ریل گاڑی”گراں“ والوں کے اوقات کار متعین کرنے میں بھی کردار ادا کرتی تھی۔صبح چار بجے والی گاڑی سے یہاں کے سارے مرد بیدار ہو جاتے۔اپنے کام کاج کے لیے تیار ہوتے۔چھ بجے والی عوامی ایکسپریس اُنھیں پنڈی اور دیگر شہروں میں لے جاتی۔بارہ بجے والی گاڑی کے گزرنے کے ساتھ عورتیں کپڑوں کی پَنڈیں اٹھا کسوں میں دھونے نکل جاتیں۔جب ڈھائی بجے والی گاڑی گزرتی تو ڈھلانی ندی میں نتھار رہی ہوتیں۔چار بجے والی پشاور ایکسپریس مونگ پھلی اور مکئی کے دانے بھٹی میں بھوننے کا وقت بتاتی۔مغرب کے وقت کوئٹہ ایکسپریس کے گزرنے کے ساتھ مرغیوں کوڈربوں میں بند کیا جاتا۔یوں یہ ریل گاڑی ”گراں“ کے لوگوں کی زندگیوں میں دخیل تھی۔ریل گاڑی،جہاز،زرد رنگ،قبر،پہاڑی سلسلے، فصلیں،بارشیں،روئیدگی اور بندوقیں ناول کے علامتی نظام کا حصہ ہیں جنھیں مخصوص معنوں میں استعما ل کیاگیا ہے۔طوالت کے خوف سے یہاں ان کا محض ذکرکر دیا ہے جس پر تفصیلی بحث ممکن ہے جو الگ مضمون کی متقاضی ہے۔مختصراً طاہرہ اقبال کا ناول”گراں“ پوٹھوہاری تہذیب و ثقافت کا نمایندہ ناول ہے جس میں تغیر پذیر پوٹھوہاری تہذیب کو موضوع بنایا گیا ہے۔

Share
Share
Share