افسانہ : قیدی :- ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : قیدی

ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ

”میں نے پولیس کو بہت سمجھایا کہ میں بے قصور ہوں۔“
”میں نے کچھ نہیں کیا۔“
”میرے آنے سے قبل یہ کام تمام ہو چکا تھا۔‘ میں تو اس شوروم میں آج سب سے لیٹ آیا۔“

”پولیس نے میری بات پکڑ لی اور پوچھنے لگے کہ کیا وجہ تھی تم لیٹ آئے؟“
”میں نے کہا دراصل میری بیوی نندنی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسی لیے میں آج لیٹ آیا اور ہاں میں نے یہاں فون بھی کیا تھا۔
” شوروم میں سونے کی تسکری ہوگئی اور اب شوروم میں ایک شخص سے پوچھ تاچھ کی جا رہی تھی۔ منوج روما تمہیں شک کی بِنا پر حراست میں لیا جاتا ہے۔ شو روم کے مالک نے بھی اس وقت کچھ نہ کہا۔میری ایمانداری اس وقت کوئی ثبوت نہ دے سکی۔ ایمانداری وہ غریبی ہے جس کے رشتہ دار اور طرف دار بہت کم ہوتے ہیں۔ شوروم کے باقی ملازموں میں سے کسی نے میرے خلاف سازش رچی اور وہ کامیاب ہوگیا۔اس نے سارے ثبوت میرے خلاف بیان کر دیے اور میں شوروم کے ملازم نمبر تیرا سے قیدی نمبر تیرا بن گیا۔
3 (تین)مارچ 2019ء کو مجھے شوروم میں سونے کی تسکری کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور میرا نصیب بھی کیسا تھا۔ جس شوروم میں میرا ملازم نمبر تیرا تھا اور اب جیل میں تیرا نمبر کا قیدی ہوں۔یہ اتفاق ہی سہی مگر غلط اتفاق تھا۔مجھے آج احساس ہوا کہ دنیا بے ایمانوں سے بھری پڑی ہے جہاں نہ ایمانداری کی قدر کی جاتی اور نہ ہی ایماندار شخص کی۔پہلے میں مہاراشٹر کے نندوبار علاقائی جیل میں تھا اور اب مجھے باندرا لایا گیا۔میرے سیدے سادھے رہن سہن پر سب کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ میں تسکری جیسا جرم کر ہی نہیں سکتا۔ میرے خلاف ثبوت بار بار مجھے مجرم قرار دے رہے تھے۔ میں بار بار اپنے آپ کو کوش رہا تھا۔کاش میں نے اپنی بیوی نندنی کی بات مان لی ہوتی۔اس نے مجھ سے کئی بار کہا کہ اب تم اپنا کوئی بزنس شروع کرو۔ میں نے سوچا بزنس تو لاکھوں کمانے والوں کا کام ہے میں تو چھوٹا سا ملازم ہوں۔ میری بیوی نندنی مجھ سے مہینے میں ایک بار ضرور ملنے آیا کرتی۔ وہ روتی اور مجھ سے کہتی تم ہمت مت ہارنا۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھے مجرم قرار کیوں دیا گیا۔ کیوں پولیس نے جانچ پڑتال صحیح سے نہیں کی؟
کورٹ میں میرے خلاف مقدمہ چلا۔میرے خلاف ثبوتوں نے مجھے مجرم ثابت کردیا۔مجھے تین سال کی سزاسنائی گئی۔مجھے جو کام چلاؤ قیدی نمبر دیا گیا تھا اب وہ پرمننٹ کر دیا گیا۔ اس بات کو ہوئے چھ ماہ گزر گئے۔ مجھ جیسے قیدی سے جیل کی رونق بڑھ گئی لیکن میری گھریلوں زندگی بے رونق ہوگئی۔ میرے کام کاج سے وہاں کے بڑے پولیس آفیسر نے میری رہائی کی سفارش بھی کی جس کے تحت میری سزا کم کر دی گئی۔ مجھے جو بھی نیا کام دیا جاتا میں وہ کام نہ صرف جلدی کر لیتا تھا بلکہ ہر نیا کام بہت جلدی سیکھ جاتا تھا۔ اس روز اچانک پولیس والوں میں ہڑ بڑی مچی ہوئی تھی۔ میں نے حوالدار سے پوچھا بھئی آج سبھی پولیس والے کیوں اتنی افراتفری میں ہے؟ اس نے جواب دیا ہندوستان میں کوڈ نانٹین نامی وبا پھیلی ہے اور ہندوستان بھر میں لوک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کونسی دبا ہے؟ حوالدار نے ڈنڈا بجا کر کہا ایک بار کہہ دیا نہ،اور ویسے بھی تم کو کیا کرنے کا ہے ابھی سب کو گھر کا قیدی بن کر رہنا ہوگا۔ اس بیماری کا علاج نہیں ہے یہ ابھی لا علاج بیماری کے مافق ہے۔ اے تو تیرا کام کر ابھی تیرے کو اتنا بتا دیا نہ۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میری بیوی نندنی کیسی ہوگی؟ مجھے فکر ہونے لگی کیا ہوگا؟ اگر وہ گھر میں قید ہوجائے گی تو گھر کا گزارا کیسے ہوگا؟ اس نے میرے قید ہونے کے بعد ٹفن سروس شروع کی تھی۔اب کیا ہوگا؟ جب سے یہ خبر سنی میرا نہ تو کام میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی مجھے کھانے پینے کی سُد رہی۔ پچیس مارچ ۰۲۰۲ ء کو ہندوستان بھر میں پہلا لاک ڈاؤن نافذ ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیسرا لوک ڈاؤن بھی آگیا۔ میں دو ماہ سے اپنی بیوی نندنی کی صورت نہیں دیکھ پایا بلکہ میں اس سے ملتا تھا تو حوصلہ بڑھتا تھا کہ برا وقت بھی کٹ کی جائے گا۔ کالی رات کے بعد سویرا ضرور آئے گا۔حالات دن بہ دن بگڑ تے جا رہے تھے۔ اب ہمیں سیلائی کام سیکھایا گیا تاکہ ہم پی پی کٹ اور ماسک بنا سکے۔ اچانک ہمارے کام میں بدلاؤ آگیا۔بڑے پولیس آفیسر نے مجھے اس کام کی ذمہ داری سونپی اور مجھے شاباشی دینے لگے۔میں اپنا کام خوب ایمانداری اور سیوا بھاؤ سے کرنے لگا تھا۔ میرا کام کاج ٹی وی پر دکھایا گیا۔ مجھے لگا اس خبر کو میری بیوی نندنی نے ضرور دیکھا ہوگا اور وہ بہت خوش ہو رہی ہوگی۔ میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا تھا۔ اس روز دو اپریل تھا اور مجھے ہلکا سا بخار آگیا۔شاید رات پہر بارش کی ٹھنڈک سے اور کام لگا تار کرنے کی تھکن سے ہوا ہو۔ میرا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ہسپتال لے جانا بھی بڑا خطرہ تھا کورونا وبا نے سب کو وحشت میں ڈال رکھا تھا۔مجھے ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں جانے کے بعد جیسے میں واپس لوٹ کرکبھی آؤں گا ہی نہیں آیا۔مجھے یاد ہے اس ایکتا ہسپتال کی چوتھی منزل پر مجھے رکھا گیا تھا۔میرے سارے ٹیسٹ کیے گئے۔ کوڈ نائیٹن بھی ٹیسٹ کیا گیا۔میرا نتیجہ پوزیٹیو آیا۔ اس چوتھی منزل پر الگ الگ کمروں کا انتظام کیا گیا تھا یہاں بھی میرے ساتھ اتفاق ہوا کہ مجھے کمرہ نمبر تیرا میں رکھا گیا۔میری طبیعت میں ہر پل بدل رہی تھی مجھے جس دن داخل کیا گیا بس اس روز ڈاکٹر نے دور سے ہی مجھے پوچھ تاچھ کرکے میرا معائینہ کیا،اس کے بعد اس کمرے میں کوئی نہیں آیا۔ کمرے میں اس وبا کے احتیاط کیسے رکھے اپنا اور اپنوں کا خوبصورت تصویریں تھی۔ دو روز تک میں لگا تار ان تصویروں سے دل بہلاتا رہا۔ کھانا پینا ایک شخص آتا اور ٹیبل پر رکھ کر چلا جاتا۔ یہ سلسلہ دو تین روز تک برابر چلا۔اس کے بعد نہ تو اس کمرے میں آنے کی کسی ڈاکٹر کو سُد ہوئی اور نہ کوئی شخص کھانا دانا پانی دینے کوآیا۔ میں نے سوچا کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھ کر جی بہلا لوں گا،لیکن اس کمرے میں صرف روشن دان کھڑکی تھی وہ اتنی اونچائی پر تھی کہ میں نے یہ تمنّا کی چھوڑ دی کہ کسی ہم انسان کو دیکھ کر جی بہلاؤ۔ ان تصویروں کو دیکھ کر اکتاہٹ محسوس کرنے لگا۔ وقت پر کھانا پینا نہ ہونے کے سبب مجھے کمزوری محسوس ہونے لگی۔مجھے دو دن بھوکے رہنے پر اتنی کمزوری ہوگئی کہ میرا اس بیڈ سے اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ میں نے کمرے کے باہر آواز دینے کی بہت کوشش کی مگر نہ تو وہاں کوئی انسان نظر آرہا تھا اور نہ ہی انسان کا بچہ۔ میں تڑپ رہا تھا۔میں نے کوشش کی کہ دوسرے کمروں کو کھٹکٹاؤ لیکن اس وقت میری ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں دو قدم چلتا میری سانس پھولنے لگتی تھی۔
اچانک اس روز صبح وہی پولیس آفیسر ڈاکٹر کے ساتھ میرے کمرے میں آئے۔ میری حالت اتنی خراب ہوچکی تھی کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر نے میری حالت دیکھ کر مجھے آئی سی یو میں لے جانے کا حکم دیا۔ میری سانس اکھڑ رہی تھی۔مجھے اس ٹھنڈک والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ٹھنڈک سے میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر میری حالت مجھے کچھ کہنے نہیں دے رہی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے فوراً آکسیجن ماسک میرے منہ میں رکھا۔ میری طبیعت سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ میری سانس اب زیادہ اکھڑنے لگی۔ڈاکٹر نے جس آکسیجن کا ماسک میرے منہ میں ڈالا تھا وہ آکسیجن کا باٹلہ مجھے لانے سے قبل خالی ہوچکا تھا۔ میری طبیعت اتنی بگڑی کہ ڈاکٹر کی آخری کوشش بھی ناکامیاب رہی۔میری موت ہوگئی۔ڈاکٹر نے اس پولیس آفیسر کو بتایا کہ تمہارے اس قیدی کی موت ہوچکی ہے۔
—-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share