مرزا غالب کے کلام میں صوفیانہ تصویر

Share

ظفر مصطفی
ریسرچ اسکالر جواہر لعل یونیورسٹی، نئی دہلی

ظفر مصطفی

تصوف کی ابتدائی تاریخ پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں تصوف محض سنجیدگی، تہذیب نفس، گوشہ نشینی اور اللہ کی طرف محویت کا نام تھا۔ کوئی عالمانہ تحقیق اس کا مقصد نہ تھا لیکن عرصہ بعد صوفیانہ طرز زندگی اور تصوف کے مباحث اور مسائل کا حکیمانہ جائزہ لیا جانے لگا اور رفتہ رفتہ عرب، عراق، شام اور مصر کا ابر بہاری ہر چمن کی آبیاری کرتا ہوا ایران و ترکی اور خاص طور پر خراسان پہنچا جس کی سرزمین اس کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوئی اور بے شمار صوفیا اور صوفی شعرا پیدا ہوئے۔ تصوف کی مہک ہندوستان تک پہنچی توخوشنوایان ہند اس کی خوشبو سے مست و مدہوش ہوئے اور میٹھے سروں میں اس کے راگ الاپنے لگے۔


اردو شاعری میں تصوف بہر زاویہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اردو میں ٹھیٹ صوفی شعرا کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن شاعرانہ تصوف کس کے یہاں نہیں ملتا۔اردو کی ابتدائی شاعری سے لے کر مرزا غالب سے قبل تک سبھی شاعروں کے یہاں صوفیانہ تصویر نظر آئے گی لیکن مرزا غالب سے قبل اردو شاعروں میں تصوف کو جس انداز میں میردردؔ نے بیان کیا، متقدمین میں سے ان سے بہتر کسی نے بیان نہیں کیا(اردو کی مختصر تاریخ، عظیم الحق جنیدی، ص۰۸) اور دردؔ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اسے فن بنایا(تذکرے و تبصرے، سید سراج الاسلام، ص۰۶)دردؔ نے شعر کو صوفیانہ لب و لہجہ خیال کی صداقت اور بیان کو سادگی عطا کی اور صوفیانہ روایات کو دبستان شعر و ادب میں فن کی حیثیت سے ابھارا اور نمایاں کیا(اردو کے دس عظیم شاعر، محمد اقبال جاوید، ص۲۳۹) بقول عبدالسلام ندوی: ”جس زمانے میں اردو شاعری ہوئی خواجہ میر دردؔ نے سب سے پہلے اس زبان کو صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا“(شعرالہند، حصہ دوم، عبدالسلام ندوی، ص۲۲۱)۔
مرزا غالب فارسی کے مشہور شعرا کے طرز پر نہ صرف اپنے فارسی اشعار میں صوفیانہ تصویر پیش کی ہے بلکہ اردو کلام میں بھی انھوں نے بہترین صوفیانہ تصویر کے نمونے پیش کیے ہیں۔غالب کے کلام میں فلسفہ، حکمت، تصوف، سوز و ساز، دل نشینی، دعوت فکر، بلندی، فصاحت و بلاغت، گہرائی و گیرائی، ندرت بیان، آفریدگار کے وجود کی شدت احساس، خالق کی وہبی عنایتوں اور بیکراں بخششوں کے بیان کا سلیقہ، منعم کی فیاضی پر اعتماد سبھی کچھ ملتا ہے۔ غالب کی شخصیت ہمہ گیر تھی وہ شاعروں کی محفل میں مسند صدارت پر نظر آتے ہیں، صوفیوں کی صحبت میں شاہد و مشہود کے راز بیان کرتے ہیں۔ مولانا حالی ”یادگار غالب“ میں لکھتے ہیں کہ:

”علم تصوف جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ ’برائے شعر گفتن خوب است‘ اس سے مرزا غالب کو خاص مناسبت تھی، حقائق ومعارف کی کتابیں اور رسالے کثرت سے ان کے مطالعے سے گزرے تھے اور سچ پوچھیئے تو انھیں متصوفانہ خیالات نے مرزا کو نہ صرف اپنے ہم عصروں میں بلکہ بارہویں صدی کے تمام شعرا میں ممتاز بنا دیا تھا“ (یادگار غالب، ص۵۴)۔
ادب میں شاعری ہو یا نثر ہو ہر موضوع چاہے حسن و عشق ہو، ہجر و فراق ہو یا کوئی فلسفیانہ، ان تمام موضوعات کی نادر مثالیں اردو و فارسی ادب میں موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تصوف جیسے خشک موضوع کو اردو اور فارسی کے شعرا نے بہت سادگی و سلاست سے بیان کیا ہے۔ ادب اور شاعری کے لیے تصوف کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ تصوف کی تبلیغ و ترجمانی کا ذریعہ ادب و زبان رہا ہے۔ انسان حالات و کیفیات سے متاثر ہوجانے والی مخلوق ہے مگر یہ تمام تاثر فرد کی ایک انفعالی کیفیت ہے اور ماتحت ہے فرد کی اس فاعلی قوت کے جو اس کے قلب میں کام کر رہی ہوتی ہے اگر قلب میں سوز و گداز کی کیفیات موجود ہوں تو زندگی کے ہر حال کی تفسیر و تعبیر میں وہی کار فرما رہے گا۔ یہ سوز و گداز قلبی ہی ہے کہ رذایل اخلاق سے انسان کو پاک کردینے کا عمل کرتا ہے۔ قساوت قلبی، تکبر، خودبینی، خودستائی، حرص وغیرہ انسان میں مطلب پرستی کو جنم دیتے ہیں اور سوز و گداز ان کی بیخ کنی کردیتا ہے۔ حسن تمام آلودگیوں سے پاک، آفتاب کی طرح روشن، پھول کی طرح شاداب اور بہار کی طرح وجدآفرین ہے پھر کس طرح ممکن ہے کہ متذکرہ قلبی کثافتوں کے ساتھ انسان حسن کی پاکی اور نزہت اپنی ذات میں پیدا کرسکے اس لیے مرزا غالب نے اپنے فارسی شعر میں اول گداز قلبی کا ہی ذکر کیا ہے اور پھر اسی کو ساری زندگی میں نفس گرم کہہ کر جاری و ساری کردیا ہے لیکن یہاں ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ کسی حسن کی طرف رغبت مقاصد کی حامل ہوا کرتی ہے اور ان مقاصد پر آرزو اور تمنا کا اطلاق ہوتا ہے حتی کہ بندہ کے دل میں جب خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے تو اس میں بھی آرزو اور تمنا کارفرما ہوتی ہے کبھی اپنے معاصی اور غفلتوں کے لیے عفو و در گذر اور کبھی قرب و وصال کی طلب اور پحر آخری منزل یہ ہوتی ہے کہ ذات واجب الوجود میں ہیم ضم ہوکر رہ جائے جس کو صوفیانے فنا فی اللہ کا مرتبہ کہا ہے۔
کائنات میں حسن اور انسان میں اس کے لیے آرزو اور تمنا کو معرض وجود میں لانے کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے تصورات میں حسن کی نورانیت پیدا کردی جائے اور چونکہ انسان کو ارادہ اور عمل کی طاقتوں سے بھی نوازا گیا ہے اسی لیے اپنے ارادہ کو کام میں لاکر اپنی جولانگاہ عمل یعنی زمین کو اسی طرح اپنے تصورات کے پیدا کردہ حسن سے مزین کردے جس طرح ایک مالی باغ میں مختلف طریقوں سے حسن کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ مرزا غالبؔ کہتے ہیں:
عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسد

جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے
اشتیاق انگیز یعنی آرزو اور تمنا پیدا کرنے والی اور یہ اشتیاق انگیزی ہی ہے جو ایک مبتلائے عشق کو اس کے محبوب سے قریب تر کرتی چلی جاتی ہے۔ چونکہ تمنا کی بقا ایک امید پر ہے اور اپنے تصورات میں اپنی امیدوں کے مرکز سے واصل رہنے میں جو لذت وسرور ہے انسان اسی میں گم ہوکر رہ جاتا ہے اور اگر اس گمشدگی کو فراموشی کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا یعنی فرد اپنی ذات کو بھول کرصرف محبوب کے تصور ہی میں مستغرق ہوکر رہ جاتا ہے اور محبوب کے لیے اس کی تمنائیں درجہ بدرجہ ترقی کرتی چلی جاتی ہے اسی کی ایک تصویر غالب نے اپنے ایک شعر میں یوں پیش کی ہے:
ہمچو رازی کہ بمستی ز دل آید برون

در بہاراں ہمہ بویت ز صبا می آید
غالبؔ کا زمانہ ایک عظیم تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی کشمکش کا دور تھا۔ ایک قدیم اور عالشان تمدن جس کی بنیاد بڑی گہری تھی لیکن جس نے مغرب کی علمی، مشینی اور انتظامی برتری کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ مغرب سے آنے والے تمدن سے برسر پیکار تھا۔اس قسم کی کشمکش اندرونی و بیرونی فضا میں جاری تھی اسی طرح کی کرب و کشمکش غالب کو ذاتی طور پر در پیش تھی۔ مرزا غالبؔ کی شاعری کے جو عمیق اور حکیمانہ پہلو ہیں ان میں عارفانہ توازن کا سراغ ملتا ہے جو انھوں نے شکست اندوہناک احساس اور ہمت کی عزم آفرینی کے مابین حاصل کیا۔ نفی اثبات کی کشمکش کا مستقل فلسفیانہ حل مرزا غالب نے وحدت الوجود میں تلاش کیا۔ غالب لکھتے ہیں: ”زبان سے لاالہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ لا موثر فی الوجود الااللہ سمجھتے ہوا ہوں“ (خطوط غالب، غلام رسول مہر، ص ۷۹ و ۸۰)۔ اس مجموعے موجودات کو کہ افلاک و انجم و بحار و جبال اسی میں ہیں۔ نیست و نابود محض جان لے اور تمام عالم کو ایک موجود مان لے:
اے کردہ بآرایش گفتار بسیج
عالم کہ تو چیز دیگرش می دانی

دنیا ہیچ است و شادی و غم ہیچ است
رو دل بہ یکی دہ کہ دو عالم ہیچ است

در زلف سخن کشودہ راہ خم و پیچ
ذاتیست بسیط ضبط دیگر ہیچ
(خطوط غالب، ص۶۲۸ و۶۲۹)
ہنگامہ شور و بزم ماتم ہیچ است
این نیز فرد گزار کایں ہم ہیچ است
(عود ہندی، مرزا غالب، ص۸۲)
شیخ محمد اکرام یوں رقمطراز ہیں: ”لاموجود الااللہ اور لا موثر فی الوجود غیراللہ لیکن جب لا کے ذکر میں غالب حد سے گزرنے لگتے ہیں تو فورا الا کی خواہش ابھر آتی ہے اور وہ اپنے آپ کو روک لیتے ہیں“:
مدہوش رہ و رسم فنایم خبرم نیست
بیخویشن قدح می زنم از خمکدہ لا

ایمان من اے لذت دیدار کجائی
در کام مذاقم بہ چکان رشحہ الا
حکیم فرزانہ، شیخ محمد اکرام، ص۱۰۷ تا۱۱۱)
مرزا غالب وحدت الوجود کے قائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کی وہ ذات مقدس کہ صفات اس کی عین ہے اور عالم اس سے اس طرح پیوستہ ہے جس طرح روشنی آفتاب ہے وہ ہر عالم میں ممکن سے واقع تک اپنے سے اپنے پر جلوہ گر ہے (غالب ایک مطالعہ، ممتاز حسین، ص۹۱ و۹۲):
جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روز

آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
غالبؔ کے بارے میں حالی تحریر کرتے ہیں کہ: ”انھیں متصوفانہ خیالات نے مرزا کو نہ صرف اپنے ہم عصروں میں بلکہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے تمام شعرا میں ممتاز بنا دیا“ (یادگار غالب، الطاف حسین حالیؔ، ص۷۵)۔
وحدت الوجود کے عقیدہ کو غالب کے تفکر میں بڑی اہمیت ہے۔ اس عقیدے کا اصل اصول یہ ہے کہ کائنات خدا سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتی، وجود صرف ایک ہے یہ وجود جب تشخصات اور تعینات کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے تو ممکنات کے اقسام پیدا ہوتے ہیں۔ وجود حقیقی اور کائنات میں ذات و صفات کی نسبت ہے چونکہ عین ذات ہے اس لیے حق تعالیٰ سے ممیز نہیں۔ اصل حقیقت صرف ایک ہے جو موجودات کے تعداد اور کثرت میں اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے موجودات اضلال اور عکس ہیں۔دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے سب اسی کے ایما سے ہو رہا ہے جن میں اسی کی دلکشی اور تصویر ہے۔ عشق و محبت اسی کی صفات کے آئینہ دار ہیں، صنم کدے بھی اسی کے جلوؤں سے لبریز ہیں، نشاط و انبساط کی ہر کیفیت، غم و اندوہ کا ہر احساس اسی کے ذوق جستجو سے پیدا ہوتا ہے۔ ایسے مضمون کو مرزا غالب نے بڑے ہی خوبصورت اور صوفیانہ انداز میں تصویر کشی کی ہے:
نشاط معنویاں از شراب خانہ تست
بجام و آئینہ حرف جم و سکندر چیست
فریب حسن بتاں پیشکش اسیر تو ایم
ہم از احاطہ تست اینکہ در جہان مارا

فسوں بابلیاں فصلی از فسانہ تست
کہ ہرچہ رفت بہر عہد در زمانہ تست
اگر خطت دگر خال دام و دانہ تست
قدم بہ بتکدہ و سر بر آستانہ تست

اس کی راہ میں ہر چیز سالک سے گفتگو کرتی ہے لیکن منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے حوصلہ بے سود ہے۔ جمال الہی کی بجلی پروانہ مثال محبت کا تقاضہ کرتی ہے اسی کے عشق کا راز افسردہ اور پژمردہ زاہدوں کے سینوں میں نہیں بلکہ انا الحق کہنے والوں کے دل میں ہے:
پیوستہ دہد بادہ و ساقی نتوان خواند
از حوصلہ یاری مطلب صاعقہ تیز است
آں راز کہ در سینہ نہان است نہ وعظ است

ہموارہ ترا شد بت و آذر نتوان گفت
پروانہ شو این جا ز سمندر نتوان گفت
بردار تواں گفت و بہ منبر نتوان گفت
اسی کا حسن دنیا پر کچھ اس طرح چھا گیا ہے کہ ہر چیز سرشار معلوم ہوتی ہے:
آفتاب عالم سرگشتگی ہائے خودیم
اے تو کہ ہیچ ذرہ را جزیرہ تو روئے نیست

میرسد بوئے تو از ہر گل کہ می بوئیم ما
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
غالب کے لیے خدا کا جمال کائنات کے ذرے ذرے میں پوشیدہ ہے وحدت وجود کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیا میں اس کے سوا کچھ اور موجود ہی نہیں، ایک ہی آفتاب حقیقت ہے جس کی شعاؤں سے کائنات کا گوشہ گوشہ منور ہوگیا ہے وہ ایک بحر بیکراں اور پیکر ناز ہے:
جس کے جلوہ سے زمیں تا آسمان سرشار ہے
وجود مطلق کے وحدت وجودی اور وحدت شہودی میں اصل، فرق کا نہیں فروع کا ہے۔ آخری تجربے میں دونوں ایک ہیں۔ قطرہ موج، حباب کی حقیقت کچھ نہیں صرف خارجی مظاہر ہیں جیسے مرزا غالب اس مضمون کی کچھ اس طرح تصویر پیش کرتے ہیں:
ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر

یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
(دیوان غالب، ص۸۰)
کتاب نقد غالب میں تحریر ہے کہ:”غالب کے دل میں وحدت الوجود کا عقیدہ اتنا راسخ ہے کہ وہ بعض اوقات مشاہدہ اور کشف و الہام کی ضرورت پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔ وحدت میں پختہ یقین عالم اور معلوم کے امتیازات کو ختم کردیتا ہے جب ہر شی کی حقیقت ایک ہی ہے اور تمام اشیا ایک ہی ذات کا مظہر ہیں تو پھر ہم عرفان حق کی مختلف منزلوں پر یقین کیوں رکھیں وہ سالک جو فنا فی الذات ہوجائے اس کے لیے راہ معرفت کے مدارج اور مراتب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ عالم لاہوت کا راستہ وادی حیرت میں سے ہوکر گزرتا ہے۔ مدام حیرت و استغراق کا عالم ہی ذوق عرفان کا آئینہ دار ہے“ (نقد غالب، مرتبہ مختار احمد، ص۲۳۶)۔
یعنی بہ حسب گردش پیمانہ صفات

عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے
(دیوان غالب، ص۱۰۸)
اور جب بندہ اپنی ذات میں مست ہوتا ہے تو پھر اس کے لیے ہو نا نہ ہونا دونوں برابر ہوتے ہیں اور اس کو یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ کچھ نہ بھی ہو تو حق ضرور ہوگا جیسے غالب عاجزانہ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ذبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
(دیوان غالب، ص۲۷)

کتاب نقد غالب کے مولف لکھتے ہیں کہ: ”وحدت الوجود کے عقیدہ کی اصل روح اور آخر غایت تزکیہ اور تصفیہ باطن ہے۔ غالب نے اسے اپنی عملی زندگی میں نہیں برتا“ (نقد غالب، ص۳۸۹) میرزا غالب کہتے ہیں:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستان نہیں

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم غیر اٹھائے کیوں
(دیوان غالب، ص ۹۳ و۱۷۰)
دیر و حرم کے درمیان ذات کا تصادم ہی بنیادی موضوع ہے۔ایک اس کشمکش میں دیوانہ ہوگیا ہے اور لوگ اسے پتھر مارتے ہیں، اپنی دیوانگی کا راز کھل کر بیان نہیں کرتا لیکن دیر و حرم کے درمیان اس کی یہ حالت دیکھ کر ہم اس راز تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرا اپنے باطنی تصادم کو ایک انتہائی وسیع تناظر میں نقش کردیتا ہے اور ’پیچھے‘ اور ’آگے‘ سے سچائی تک لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور دیر و حرم کو آئینہ تکرار تمنا کی صورت عطا کرکے شدت شوق کی وسعت اور پہچان اور اس کی عظمت کا حسی ادراک عطا کردیتا ہے۔ دیر و حرم کو منزل نہیں بلکہ پڑاؤ سے تعبیر کرکے واماندگی شوق کی قدر و قیمت کا احساس دے دیتا ہے۔ دیر و حرم پناہ گاہیں ہیں، شوق کی شدت تجسس کی ایک عجیب و غریب تصویر کا حسی شعور دیتی ہے:
مقصود ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

ہر جا کنیم سجدہ بدان آستاں رسد
تجھے ہم ولی سمجھتے ہیں جو نہ بادہ خوار ہوتا
(دیوان غالب، ص۷۳)
وحدت وجود و شہود جیسے مسائل کے علاوہ مرزا غالب نے تصوف کے مختلف مسائل پر بھی اشعار کہے ہیں جس کے ذریعہ صوفیانہ تصویر بڑی خوبصورت اور ندرت بیان کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس تعلق سے مرزا غالب کے اشعار ملاحظہ کیجیے:
تخلیق و ابداع:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اخلاق:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
خیر و شر:
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
تقدیر:
توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سے

آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
خلوص:
طاعت میں تا رہے نہ مئے انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دو کوئی لیکر بہشت کو
ظاہر و باطن:
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

عالم مثال:
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
تنزیہہ و تشبیہ:
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
قرب و معیت:
برآورد بے کلفت و سمت و سو

بہ نور السموات والارض رو
عقل و مذہب:
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
استعداد و تکلیف:
گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
بہرحال مرزا غالب کے فارسی اور اردو اشعار کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ غالب کے اشعار میں موجود صوفیانہ تصویر میں فکری عنصر کم اور احساسی عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ خود ان مسائل کا اور تصوف کی اصل تعلیمات ان کی فطرت پر کبھی کوئی گہرا اثر نہیں پڑا یہ مسائل ان کے دماغ میں جاگزیں ضرور ہیں لیکن کبھی وہ ان کے دل تک اترنے نہیں پائے۔ اصل میں ان مسائل کا تعلق براہ راست تصور سے ہے جو دل کی دنیا کی چیز ہے اور چونکہ مرزا غالب اس سے بہت دور ہیں اس لیے وہ صرف تقلیدی طور پر اس کے مدعی ہیں۔

Zafar Mustafa Jafri

Research Scholar JNU
+917866811786

Share
Share
Share