رخسانہ نازنین کے افسانوی مجموعہ ” پس دیوار "

Share

رفعت آسیہ شاہین
وشاکھاپٹنم آندھراپردیش
9515605015

زمانہ جاہلیت میں عورتوں کا کوئی خاص مقام نہیں تھا مگر قربان جاؤں حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک پر جن کی بدولت دین اسلام میں عورتوں کو مقام و عزت جیسی دولت سے سرفراز کیا مسلم معاشرہ میں جتنی عزت اور مقام خواتین کا ہے وہ کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ہے لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ بے دینی کی وجہ سے غیر مسلم رسم و رواجوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اس لئے معاشرہ ذلت اور رسوائیوں کے گہرے کھائیوں میں گر رہا ہے ہمارے مذہب میں شادی بیاہ کی تقریب رسم و رواجوں سے پاک سیدھی سادھی ہنسی خوشی مسرت اور شادمانی کی علامت ہوتی ہے لیکن اس تقریب کو لڑکی دیکھنے کے مرحلے سے لیکر بچوں کی ولادت تک دھوم دھام اور فضول خرچیوں میں شامل کرلیا گیا ہے ان ہی رسم و رواجوں ،سماجی برائیوں پر قلم اٹھا کر محترمہ رخسانہ نازنین نے معاشرے کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کی ہے محترمہ رخسانہ نازنین ایک خوش اخلاق ،باصلاحیت ،ملنسار اور باہمت خاتون ہیں آپ کا ادبی حلقہ میں ایک معیار ہے ایک معیاری افسانہ نگار کی حیثیت سے ملک اور بیرون ملک میں جانی پہچانی جاتی ہیں شہر بیدر کی معزز خواتین میں آپ کا شمارہوتا ہے آپ کے افسانے ملک بھر کے اخبار اور جرائد میں شائع ہوتے رہتےہیں آپ کا افسانوی مجموعہ “پس دیوار “کو کرناٹک اردو اکیڈمی سال 2019میں شائع کیا ہے محترمہ رخسانہ نازنین نے مختصر اور دلچسپ افسانے لکھے ہیں آپ کے افسانوں کے کردار معاشرہ کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے آپ کے افسانوں میں گھر کی چاردیواری سے لے کر نئے زمانے کی آزاد فضامیں سانسیں لیتی بے چین زندگیوں کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے آپ کے افسانوں میں انسانی قدروں کی پامالی پر گہری سوچ و فکر کا زوایہ بناہوا ملتا ہے محترمہ رخسانہ نازنین کسی بھی ایک موضوع کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر افسانوی انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں جس کی وجہ سے افسانہ خوبصورت لب و لہجہ اور روانی سے شروع ہوکر اختتام پذیر ہوتا ہے افسانوی ماحول پر آپ کی گرفت مضبوط ہے کچھ افسانے ملے جلے جذبات کے ساتھ یکسانیت بھی رکھتے ہیں مگر چند افسانے منفرد اندازمیں بھی لکھے گئے ہیں 

ایک لمحے کی خطا، اجلے خواب تاریک تعبیر،ثبوت،ٹوٹے پتوار ،کرائے کی کوکھ ،رسموں کے شکنجے میں ،سہارے ،ٹوٹی کہاں کمند ،لفظوں کے گھاؤ،سراب تمام افسانے قابل داد و تحسین ہے
محترمہ رخسانہ نازنین کے افسانوں میں سماج سے کشیدہ کئے ہوئے ایسے رواج ہیں جو دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر اس کو سر انجام دینا اتنا ہی دشوار اور مشکل ہے آپ کے افسانوں میں ایک طرف عورت کے استحال کے ساتھ اس کی خوشیوں کو مجروح کرنے روندھنے جیسی حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف تعلیم یافتہ مرد ہو یا بے روزگار دونوں قسم کے مردوں اناپرست اور خود غرض نظریہ سے دیکھا گیا ہے مردانہ فطرت کے حق میں لکھے گئے عورت کے دکھ درد کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے “ایک لمحے کی خطاء “افسانے میں بہت خوبصورت نظر آنے والے رسم و رواج کس طرح کبھی کبھی کسی معصوم کی زندگی اجاڑدیتے ہیں ماں باپ کس طرح ذلت و رسوائی کا سبب بنتے ہیں نکاح سے پہلے دلہن کی چھوٹی بہن کا دلہے کے گھر مہندی کی رسم کے لئے جانا اور دلہے کا دلہن کی جگہ اس کی چھوٹی بہن سے نکاح کی فرمائش کرنا غیر معیارانہ توہے مگر اس طرح کی رسمیں ہی نہیں ہونی چاہئے جہاں زندگیاں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں
افسانوی مجموعہ “۔ پس دیوار “ میں خوشی و غم کے ملے جلے جذبے ،انتظار کے لمحے ؀بے جا رسم و رواجوں پر چیختی آوازیں ،کھوکھلے اصولوں پر خاموشیوں میں ڈوبے چہرے جو ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں ضرور پائے جاتے ہیں آج کل کے دور کی جھوٹی محبت ،فیس بک کی دوستی اور دھوکہ بازی ،پولیس کی زیادتی ،جنسی استحال کے ساتھ افسانہ “انتظاز”بے گناہی میں سزا کاٹنتے ہوئے نوجوان جن کے گھر والے انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں مگر انہیں واپس نہیں لاسکتے کورٹ کچھریوں کے چکر لگاتے لگاتے بوڑھی ہوتی زندگی کی الم ناک کہانی ہے “سہارے “ایک ایسا افسانہ ہے جس میں بوڑھے باپ کے عقد ثانی پر اعتراض اٹھاتی ہوئی شادی شدہ بیٹیاں ہیں جنہیں اپنے بوڑھے باپ کی تکلیف اور اکیلے پن کا احساس نہیں بلکہ اپنے سسرال میں عزت کی فکر زیادہ ہے
“ رسموں کے شکنجے میں “ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ستواسے جیسی غیر مذہبی رسم کو اداکرتے کرتے والدین کتنے مقروض ہوتے ہیں اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں ہوتا “احساس کے نشتر “میں افسانہ نگار نے بظاہر چھوٹی چھوٹی نظر آنے والی باتوں کو غور طلب نظروں سے دیکھا ہے کس طرح لڑکی دیکھنا اور انکار کرنا عام سی بات بن گئی ہے لیکن جب یہی مسئلہ اپنی خود کی ذات کے ساتھ پیش آتا ہے تو کیسی تکلیف محسوس ہوتی اس کی بہترین عکاسی کی گئی ہے نادان ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے جذبات کو کچلتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کبھی وہ بھی ان حالات سے گزر سکتے ہیں رسم و رواج ،انا اور آہنکار کی دیواریں اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ ایک عام انسان اس کے پیچھے کا منظر کبھی نہیں دیکھ سکتا ونہیں افسانہ نگار محترمہ رخسانہ نازنین اپنے افسانوں کے ذریعے ان کے درد کو قارئین تک پہچانے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کے لئے میں انہیں تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔

Share
Share
Share