نئی قومی تعلیمی پالیسی — ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ !

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

نئی قومی تعلیمی پالیسی۔2019کے متعلق جو خدشات پائے جا رہے تھے اب وہ حقیقت بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے جن عزائم کے ساتھ اس قومی تعلیمی پالیسی کو ملک میں روبہ عمل لانے کا فیصلہ کیا تھا اب وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہے۔ تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیا ں لانے کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اس نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی تیاری بی جے پی حکومت کی جانب سے کی گئی۔

لیکن حکومت کے اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کے میدان میں اصلاحات کے نام پر ایک سیکولر اور جمہوری ملک کو ہندوراشٹر کی طرف ہانکنے کا منظم منصوبہ بنالیا گیا ہے ا ور اس کی جانب پیشرفت بھی ہو چکی ہے۔ ہندوستان کے کثیرالاشاعت انگریزی روزنامہ "ٹائمز آف انڈیا ” کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مرکزی وزارتِ تعلیم کے زیر نگرانی کام کرنے والے ایک اداراہ ” نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ” کو یہ ذ مہ داری دی گئی ہے کہ وہ فا صلاتی تعلیم کے ذریعہ اسکول کے طلباء کے لئے رامائن، گیتا، سنسکرت اور یوگا کی تعلیم کا بندوبست کرے۔ ٹائمز آف انڈیا کی اس رپورٹ کی اشاعت کے فوری بعد وزارتِ تعلیم کے عہدداروں نے اس بات کی وضاحت کی کہ این آئی او ایس کو جو احکامات دئے گئے ہیں اس میں یہ لازمی قرار نہیں دیا گیا کہ ہر اوپن اسکول میں رامائن، گیتا، سنسکرت یا یوگا کو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جائے بلکہ یہ اختیاری مضا مین رہیں گے۔حکومت کے کارندوں کی یہ وضاحت اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ آخر کیوں حکومت کے امداد یا فتہ مسلمانوں کے دینی مدارس کو اس میں شامل کیوں کیا گیا؟ اس اسکیم کو ملک کے چنیدہ 100 مدرسوں میں شروع کیا جارہا ہے جہاں 50ہزار طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔ اگرچیکہ مذکورہ مضامین کی حیثیت ابھی اختیاری نوعیت کی ہے لیکن مستقبل میں یہ سب مضامین لازمی کر دئے جائیں گے۔ اس بات کے بھی پورے امکانات ہیں کہ جو مدارس ان مضامین کو اپنے نصاب میں شامل کرنے سے گریز کریں گے ان کی سرکاری امداد روک دی جائے گی۔ این آئی او ایس (NIOS) مرکزی وزارتِ تعلیم سے منسلک وہ ادارہ ہے جو غیر رسمی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے حصولِ تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے لاکھوں طلباء مستفید ہو رہے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اسکول اور کالج میں با ضابطہ تعلیم حا صل نہیں کر سکے۔ مسلمانوں میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کا رجحان زیادہ تر اسی ذریعہ تعلیم کی طرف ہوتا ہے۔ اس سے ایک طرف وہ دینی علوم سے بھی آراستہ ہوجاتے ہیں اور عصری علوم کی ڈگریاں بھی انہیں مل جاتی ہیں۔ چناچہ ملک کے بہت سارے دینی مدارس کے ذ مہ داروں نے مستقبل کے خطرات کو نہ محسوس کر تے ہوئے اپنے مدارس کو این آئی او ایس سے ملحق کرلیا اور حکومت کی امداد بھی لینی شروع کردی۔ دینی مدارس کے یہ سربراہ شاید اس خام خیالی کا بھی شکار ہوگئے کہ ہندوستان جیسے "آزاد”اور "جمہوری” ملک میں تمام شہریوں کو "مذہبی آزادی "کا حق حاصل ہے، وہ حکومت کی امداد لے کر پورے زور وشور سے اپنی قوم کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں سرخرو ہو جائیں گے۔ لیکن دینی مدارس کے یہ ذ مہ دار حکومت کے خفیہ ایجنڈے کو سمجھنے میں شاید ناکام ہوگئے۔اس حکومت کا تو یہ حال ہے کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آ تے ہیں کچھ : دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ملک کے کسانوں کی مثال سامنے ہے۔ 100دن سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا، دہلی کی سرحد پر کسان حکومت کی جانب سے بنائے گئے تین زرعی قوانین سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کے بارے میں موجودہ حکومت کا رویہ کس قدر افسوناک ہے۔ ایسے میں اگر دینی مدارس کے چلانے والے چند ٹکوں کے لئے اپنے مدرسوں کے دروازے ہر ایرے غیرے کے لئے کھول دیتے ہیں تو اس کے جو خطرناک نتائج نکلتے ہیں اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک پڑتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی امداد سے چلنے والے دینی مدارس کے نصاب میں جن مضامین کو شامل کیا گیا ہے اس کا مقصد یہاں پڑھنے والے طلباء کو سو فیصد "ہندوستانی”بنانا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اب تک جو طلباء ان دینی مدارس سے فارغ ہوئے ہیں کیا وہ سو فیصد ہندوستا نی نہیں تھے؟ حکومت کی کوئی تحقیقاتی ایجنسی یہ ثابت کر سکتی ہے کہ ان دینی مدارس کے طلباء نے کوئی ایسی حرکت کی ہے جس سے ملک بدنام ہوا ہو یا انہوں نے کبھی ملک کے خلاف سازش رچائی ہو؟ ہندوستان کے مدارس کی دو سو سالہ تاریخ میں ایسا کوئی بد نما واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد کا آغاز ان دینی مدارس سے ہی ہوا۔ اب انہیں سو فیصد ہندوستانی بنانے کی بات بڑی مضحکہ خیز ہو گی۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ اس کے ذریعہ دینی مدارس کے طلباء کو "مین اسٹریم”میں لایا جائے گا۔ آیا قوم کے یہ بچے کیا اس وقت ہندوستانی سماج کا حصہ نہیں ہیں؟ یہ مین اسٹریم یا قومی دھارا آخر کس چیڑیا کانام ہے؟ کسی طبقہ کو پوری طرح سے "قومی ثمرات”سے محروم کر کے حاشیہ پر لادینا اور پھر اس قوم کے بچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں کرنا کچھ عجیب لگتا ہے۔ این آئی او ایس کے صدرنشین سروج شرما کا کہنا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ہندوستان کے روایتی علوم اور ہندوستانی ثقافت کو یکجا کرکے نئی نسل تک پہنچانے کے لئے 100مدرسوں کا انتخاب کیا گیا اور آ ئندہ مزید500مدرسوں میں یہ نصاب شامل کیا جائے گا۔ رامائن، گیتا، سنسکرت اور یوگا ہی کیا ہندوستانی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر ہندوستانی ثقافت کی ترقی و ترویج ہی مقصود ہے تو پھر ملک کے تمام مذاہب کی تعلیمات اور ان کے بنیادی اصولوں کو نصاب میں شامل کرنا ضروری ہے بجائے اس کے ایک مخصوص مذہب کی روایات کو نصاب میں داخل کرکے بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا نہ ملک کے مفاد میں بہتر ہے اور نہ اس سے ملک میں کوئی تعلیمی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ ملک کے تعلیمی نظام کو بد لنے کی تیاریاں اس وقت سے ہی ہورہی ہیں جب سے بی جے پی کو مرکز میں اقتدار ملا ہے۔ 2014سے تعلیمی محاذ پر جو کچھ کارستانیاں کی گئیں اس کے نتائج 2019میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کی شکل میں سامنے آ گئے۔باخبر حلقے جانتے تھے کہ ملک میں اس تعلیمی پالیسی کو نا فذ کرنے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ تعلیم کو زعفرانی رنگ دے دیا جائے۔ تعلیم، جو شہریوں کا ایک بنیادی حق ہے، اسے بھی حکومت اپنے کنٹرول میں لے کر ہندوتوا کے سانچے میں پوری طرح ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ کوویڈ۔ ۹۱ سے پورے ملک میں تعلیمی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے پریشان کن دور میں حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر ملک کے مختلف طبقوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کرکے تعلیم کے نام پر ان کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کا منصوبہ بناتی ہے تو اس سے ملک ایک اور بحران کاشکارہو جائے گا جس سے سماجی ہم آ ہنگی کے تانے بانے بھی ٹوٹ جائیں گے اور ملک کی یکجہتی بھی متاثر ہوجائے گی۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔
2019 میں جب نئی قومی تعلیمی پالیسی منظرعام پر آئی اس وقت سے ہی یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اس تعلیمی پالیسی کا مقصد ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کو ڈھا کر قوم پرستی کے نام پر ایک مخصوص مذہب اور تہذیب کی طرف طلباء کو راغب کرنا ہے۔ اس کے لئے خاص طور پر مسلمانوں کے دینی مدارس پر کڑی نظر رکھی گئی۔ اور اب موقع ملتے ہی مرکزی حکومت وزارتِ تعلیم کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو آ گے بڑھارہی ہے اور ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی بر سرِ اقتدار ہے وہاں نِت نئے قوانین لاکر حکومت سے امداد پانے والے دینی مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 2020کے ختم ہوتے ہوتے آسام کی بی جے پی حکومت نے سرکاری امداد سے چلنے والے دینی مدارس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس ضمن میں قانون ساز اسمبلی میں ایک قانون بھی منظور کرلیا گیا۔ اسی طرح اب دیگر ریاستوں میں بھی بی جے پی اس قسم کے قوانین بناکر دینی مدارس کا قلع قمع کردے گی۔ یہ بات زیادہ تشویشناک نہیں ہے کہ حکومت دینی مدارس کو ملنے والی سرکاری امداد مسدود کردینا چاہتی ہے۔ حکو مت اپنی گرانٹ روک بھی دے تو مسلمانوں میں ابھی اتنی دینی حمیت باقی ہے کہ وہ اپنے دینی مدارس کو اپنے ذرائع آمدنی سے چلاسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے دینی مدارس کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ علم و دانش کے یہ گہوارے مسلمانوں کے چندوں سے ہی پھلے پھولے ہیں اور کبھی مسلمانوں نے ان مدارس کو چلانے کے لئے حکومت کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھیں۔ یہ حالیہ دور کی ذہنی بیماری ہے کہ بعض مدارس کے ذ مہ دارحکومت کی امداد کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب سے مدارس کے سربراہوں کو سیاستدانوں کی صحبت کا مزہ لگ گیا اور حکومت کے ایوانوں میں ان کی چلت پھرت بڑھ گئی، دینی مدارس کا روحانی ماحول ختم ہوتا چلا گیا۔ اللہ پر توکّل سے زیادہ حکمرانوں کی نظر التفات پر بھروسہ بڑھ گیا۔ یہ محض الزام نہیں ہے بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ ابھی حکومت نے این آئی او ایس کے ذریعہ دینی مدارس میں گیتا، رامائن، سنسکرت اور یوگا کی تعلیم دینے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کی تائید و حمایت اتر پردیش کے بعض دینی مدارس کی جانب سے کی جارہی ہے۔ مبینہ طور پر ملک کی ایک دینی جماعت بھی حکومت کی چالاکیوں کو سمجھنے میں ناکام ہو گئی ہے یا اسے نظر انداز کرتے ہوئے حکو مت کے ارادوں میں رنگ بھررہی ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے ملک کے طول و عرض میں "اوپن اسکول”کھولے جارہے ہیں۔ یہ اقدام قابلِ ستائش ہے لیکن اگر ان اسکولوں میں بی جے پی حکومت کا نصاب بھی قرآن و حدیث کے ساتھ پڑھایا جا تا ہے تو یہ ملت کی خدمت نہیں ہو گی بلکہ بد خدمتی ہوگی۔ امید ہے کہ اس تنظیم کے ذ مہ دار تعلیم کے نام پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کہ جس سے مسلمانوں کی نوخیز نسل مشرک و مرتد ہوجائے اور وہ تاریخ میں مجرم قرار دئے جائیں۔آ نے والے دنوں میں یہ مسئلہ صرف حکومت سے امداد پانے والے دینی مدارس تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہر دینی مدرسہ میں گیتا، رامائن اور یوگا کی تعلیم لازمی ہوجائے گی۔ اس لئے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کو اسلام پر قائم رکھنے کے لئے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ تعلیم کے نام پر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ آل انڈیا مسلم پر سنل بورڈاور تمام مسلم تنظیمیں حکومت کو مجبور کریں کہ وہ وزارتِ تعلیم کی جانب سے دئے گئے احکامات کو واپس لے اور اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ سرکاری امداد سے چلنے والے یا دیگر مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ مشرکانہ تعلیم کو عام کریں۔ اگر اس موقع پر مسلمان ہر قسم کے جزوعی و فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کراس چیلینج کا مقابلہ نہیں کریں گے تو حکومت نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے میں کا میاب ہو جائے گی۔ اور اس وقت کفِ افسوس مَلتے ہوئے یہی کہنا پڑے گا کہ: یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے : لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share