کالم : بزمِ درویش ۔ اخلاق حسنہ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش ۔ اخلاق حسنہ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اللہ عبادت کے بعد حالت استغراق میں مراقبہ الہی میں دنیا و مافیا سے بے خبر غرق تھے، بزرگ نشے، سرور، وجد اور کیف کی اس حالت میں تھے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ تراب نامی شخص کب ان کو قتل کرنے کی غرض سے ان کے حجرہ مبارک میں داخل ہوا ہے، تراب نے جب یہ دیکھا کہ بزرگ مراقبہ میں اِس قدر غرق ہیں کہ انہیں اس کے آنے کی بلکل بھی خبرنہیں ہوئی بدنیت بہت خوش ہوا کہ آج اس کی دشمنی کی آرزو پوری ہو جائے گی، آج بزرگ کی جان لینے کا بہترین موقع ہے کیونکہ بزرگ حالت مراقبہ میں تھے اِس لیے ان کی طرف سے مزاحمت کا بھی خطرہ نہیں تھا، ظالم نے موقع غنیمت جانا اپنا خنجر نکالا اور نیک بزرگ پر حملہ کر دیا۔

ظالم نے پوری طاقت سے معصوم فرشتہ صفت بزرگ پر مہلک وار کئے، بزرگ زخموں سے چور ہو کر بے ہوش ہو گئے ظالم سمجھا کہ اس کا مقصد پورا ہوگیا ہے اِس لیے اب یہاں سے بھاگ جانا چاہیے، لہذا وہ باہر کی طرف دوڑا حملے کے دوران اس کے کپڑے بھی خون آلود ہو چکے تھے گلی میں لوگوں نے جب اسے خون آلود کپڑوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے دیکھا تو اس کو پکڑ لیا ظالم نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی، لیکن لوگوں نے مل کر اس کو پکڑ لیا لوگوں کو شک ہورہا تھا کہ یہ کسی کو قتل کرکے بھاگ رہا ہے اب لوگوں نے اس سے پوچھنا شروع کردیا کہ تم کس کو قتل کرکے بھاگ رہے ہو پہلے تو اس نے بلکل بھی نہ بتایا لیکن جب لوگوں نے سچ اگلوانے کے لیے اس کو خوب مارا تو اس نے سچ اگل دیا کہ میں آپ کے مرشد کریم کو قتل کرکے آرہاہوں۔مریدین پر سکوت مرگ طاری ہو گیا وہ سناٹے میں آگئے، چند لمحوں کے لیے ان کے دماغ مفلوج ہوگئے درو دیوار پر ماتمی کیفیت طاری ہوگئی لیکن فورا ہی انہیں احساس ہو اکہ مرشد کریم کے پاس جانا چاہیے، اب چند لوگوں نے ظالم کو پکڑا باقی مرشد کریم کے حجرہ مبارک کی طرف دوڑے حجرہ مبارک کا فرش معصوم بزرگ کے خون سے لال ہو چکا تھا اور بزرگ بے ہوش پڑے تھے خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ان کی طبعیت بہت تشویشناک تھی فوری انہیں طبیب کے پاس لے جایا گیا آپ کو بہت ساری دوائیں دی گیئں لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا، بہت کوششوں کے بعد آپ تھوڑا ہوش میں آئے شدید زخمی دکھ تکلیف اور کرب کے باوجود آپ کے ہونٹوں پر ازلی تبسم نمودار ہوا اور آپ بولے تراب کدھر ہے؟ لوگوں نے پوچھا حضرت آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آپ کی جان لینے کی کو شش تراب نے کی ہے، صاحب کشف بزرگ گویا ہوئے بے شک مجھے پتہ ہے میرے اوپر جان لیوا حملہ تراب نے کیا ہے لیکن میں نے اس کو اِس لیے نہیں روکا کہ ابھی میری موت کا وقت نہیں آیا اور میں اس کے حملے سے مروں گا نہیں۔جب یہ حجرے میں آیا تو مجھے پتہ تھا لیکن میں نے اِس کی دل شکنی نہیں کی اور اِس کو حملہ کرنے دیا، معالج آپ کی نازک حالت سے ڈر رہا تھا اس لیے آپکو بولنے سے منع کیا کہ اِس طرح آپ موت کے منہ میں جا سکتے ہیں بولنا آپ کے لیے جان لیوا ہو سکتا ہے تو آپ نے جواب دیا میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ابھی مرنے کا وقت نہیں آیا تو خوف یا ڈر کس بات کا آپ فوری طور پر تراب کو میرے پاس لا، میں اس سے چند باتیں کرنا چاہتاہوں لوگوں نے سمجھا کہ آپ کو تراب پر بہت غصہ ہے اور آپ اس کو سزا دینا چاہتے ہیں، لہذا انھوں نے کہا حضرت آپ مطمئن رہیں وہ کہیں نہیں بھاگا وہ ہماری قید میں ہے جیسے ہی آپ ٹھیک ہوں گے تو اس کو آپ کے سامنے پیش کر دیا جائیگاآپ جو بھی اس کو سزا دیں گے اس پر پورا عمل کیا جائے گا۔اب محترم نے سختی سے کہا تراب میرا مجرم ہے اس کے بارے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ یا سزا میں ہی دونگا آپ فورا اس کو میرے سامنے پیش کرو، لوگوں نے آپ کے حکم کی تکمیل کی اور تراب کو آپ کے سامنے پیش کردیا ظالم تراب بہت پریشان اور خوفزدہ تھا موت اس کو سامنے نظر آرہی تھی، محترم بزرگ نے شفقت بھرے لہجے میں تراب سے پو چھا اے تراب تو نے مجھ پر کتنے وار کئے تراب کی نظریں شرمندگی اور خوف سے جھکی ہوئی تھیں آپ نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا لیکن تراب چپ رہا وہ سوچ رہا تھا کہ حضرت یہ سوال اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ میرے جرم کے مطابق سزا کا تعین کریں بزرگ نے پھر اپنا سوال دہرایا تم بتاتے کیوں نہیں کہ تم نے مجھ پر خنجر کے کتنے وار کئے، میں تمھیں سزا نہیں بلکہ انعام دونگا تم بلکل نہ ڈرو اور بتا تم نے مجھ پر کتنے وار کئے تراب کا جسم خوف اور شرمندگی سے کانپ رہا تھا رنگ ایسا کہ کاٹو تو بدن میں خون کا ایک قطرہ نہ ہو۔ آخر تراب نے کانپتے ہونٹوں اور لرزتے جسم کے ساتھ بولنا شروع کیا حضرت آپ کی شہرت اور لوگوں کا آپ سے دیوانہ وار پیار اور عقیدت نے مجھے آپکا حاسد بنا دیا تھا میں سوچتا تھا کہ میں بھی بہت عبادت و ظائف کرتا ہوں لوگ میری عزت کیوں نہیں کرتے میری مقبولیت اتنی کیوں نہیں اِسی جلن اور حسد کی وجہ سے میں نے آپ کی جان لینے کی کوشش کی کہ جب آپ نہیں ہونگے تو لوگ میری طرف رجوع کریں گے میرے مقام کو جانیں گے، بزرگ بولے میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے میرے اوپر حملہ کیوں کیا میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم نے میرے اوپر کتنے وار کئے یہ سن کر مجرم حیران ہو کر بولا حضرت میں نے آپ پر11 وار کئے، حضرت نے پوچھا وار آرام سے کئے کہ طاقت اور زور سے تراب حالت شرمندگی کے سمندر میں غرق تھا اشکِ ندامت کی برسات جاری تھی حضور پوری طاقت سے وار کئے تھے حضرت بولے اِس طرح تو تمھارے ہاتھوں اور بازوں کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔خیر ہم تمھاری اِس تکلیف کا مداوا کرنے کے قابل تو نہیں مگر اِس تکلیف کاصلہ تمھیں ضرور دیں گے، آپ نے اپنے خادم کو حکم دیا جا میرے کمرے سے نئی پوشاک اور اشرفیوں کی تھیلی لے کر آ خادم لے آیا تو حضرت نے پوشاک اور اشرفیاں تراب کے حوالے کیں اور کہا اِس وقت میرے پاس یہی تھا اور ہوتا تو وہ بھی دے دیتا، اِس کے بعدخدام کو حکم دیا تراب کو چھوڑ دیا جائے یہ جہاں چاہے چلا جائے اب یہ آزادہے، مجھے اِس سے کوئی گلا نہیں اورنہ ہی میرے دل میں اِس کے لیے کوئی غصہ اور ملال ہے، اخلاق حسنہ ایثار اور عفودر گزر کی عظیم مثال اِن کا نام حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی تھا آپ حسنی سید تھے، ایسے ہوتے ہیں اللہ کے بندے جن کے قدموں سے اٹھنے والی خاک کے ذرات اگر کسی گناہ گار پر پڑ جائیں تو وہ گناہ گاروں کی لسٹ سے نکل کر اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share