مسلمانوں کی بڑھتی آبادی – کتنی حقیقت کتنا فسانہ :- ڈاکٹر سحد اسلام الدین مجاہد

Share

مسلمانوں کی بڑھتی آبادی – کتنی حقیقت کتنا فسانہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

کسی جمہوری ملک میں جب فسطائی ذ ہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں اقتدار آ جاتاہے تو وہاں اقلیتوں کی زندگی کو دوبھر کر نے کے لئے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ ان میں خوف اور دہشت کے سائے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں جب سے ہندوتوا کے علمبرداروں کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوا اس وقت سے آج تک جھوٹ اور غلط پروپگنڈا کی ذریعہ اقلیتوں اور خا ص طور پر مسلمانوں کو بدنام کر نے کے وہ سارے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جس سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی جائے تا کہ فسطائی قوتوں کے عزائم کی تکمیل ہو سکے۔

ہجومی تشدد اور لو جہاد کے بعد اب ایک نیا الزام مسلمانوں پر لگایا جا رہا ہے کہ ان کی وجہ سے ملک کی آ بادی میں بے تحا شا اضا فہ ہو تا جا رہا ہے۔ آ سام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا سرما نے ایک ہفتہ میں دو متنازعہ بیانات دیتے ہوئے آسام کے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ آ بادی پر کنٹرول میں حکومت سے تعاون کر تے ہوئے کم بچے پیدا کریں۔ آسام کے مسلمانوں سے اس قسم کا مطالبہ کرنا آیا ریاست کے چیف منسٹر کو زیب دیتا ہے؟ ہیمنت بسوا سرما کا مسلمانوں سے کہنا کہ وہ آ بادی بڑھنے سے روکیں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست کے چیف منسٹر آسام میں آ بادی کے اضافہ کے لئے مسلمانوں کو ذ مہ دار قرار دے رہے ہیں۔ کسی ٹھوس ثبوت اور کوئی مستند اعداد و شمار کے بغیر اس قسم کی باتیں کہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے دل میں مسلمانوں کے لئے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ آسام کی حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ ریاست میں دو بچہ پالیسی پر عمل کیا جا ئے گا۔ سرکاری مراعات سے وہی لوگ مستفید ہو سکیں گے جن کے دو ہی بچے ہیں۔ جن کے دو سے زیادہ بچے ہوں گے وہ خاندان سرکاری منصوبوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ یہ ریاستی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ شہریوں کے مفاد میں کوئی بھی قانون و ضع کر سکتی ہے۔ لیکن بڑھتی آ بادی کو مسلمانوں سے جوڑنا یہ فرقہ پرستی کی انتہا ہے۔ جب بھی ملک میں بڑھتی آ بادی کے مسئلہ پر گفتگو ہو تی ہے اس کی تان اسی پر جا کر ٹوٹتی ہے کہ مسلمان اس کے ذ مہ دار ہیں۔ حالانکہ یہ بات سراسر جھوٹ ہے۔ آسام کی بات کی جا ئے تو یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ ریاستِ آ سام کی جملہ موجودہ آ بادی تین کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان آسام میں چند سالوں کے اندر اکثریت میں آ جائیں گے؟ یہ بات سچ ہے کہ جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلمان آ سام میں ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ آسام میں اکثریت میں ہیں۔ قومی ہیلت سروے کے رپورٹس تو یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مسلمانوں کی شرح پیدائش میں کمی ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود ہیمنت بسوا سرما کا ادعا ہے کہ مسلمانوں کی آ بادی میں 29 فیصدکی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے طو پر یہ سمجھ لینا کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، اس سے ان کی فرقہ پرستی صاف طور پر ظاہرہو تی ہے۔ لیکن انہوں نے ملک کی عوام کو گمراہ کر نے کے لئے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ مسلمانوں کی تیز رفتار آ بادی خود اس طبقہ کے لئے نقصان دہ ثا بت ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ان میں نا خواندگی بڑھ رہی ہے۔ ان کے لئے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لئے آ بادی پر کنٹرول ضروری ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ اب تک آ بادی کے تناسب سے ان کے ساتھ انصاف کیا گیا؟ حقائق ثابت کر تے ہیں کہ کوئی انصاف نہیں ہوا۔
آ سام میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کو جس انداز میں تنگ کیا جا رہاہے اس سے ساری دنیا اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔ ایک منظم سازش آسامی مسلمانوں کیخلاف رچائی گئی اور اسی منصوبہ کے تحت وقفے وقفے سے انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔ پہلے تو آسامی مسلمانوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ آ سام کے شہری نہیں ہیں۔ انہیں غیر ملکی تارکینِ وطن قرار دے کر ملک سے نکالنے کی تیاری کی گئی۔ نِت نئے قوانین اس ضمن میں بنائے گئے۔ این آر سی کے نام پر چالیس لاکھ شہریوں کو شہریت سے محروم کر نے کی کوشش کی گئی۔ اب بھی این آر سی کی تلوار آسام کے مسلمانوں پر لٹک رہی ہے۔ پورے ملک میں 2019سے مارچ2020تک سی اے اے، این آ ر سی اور این پی آر کے خلاف جو احتجاج ہوا اس کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ دوسری مر تبہ بر سر ِ اقتدار آ نے کے بعد بی جے پی کے عزائم اور بڑھ گئے ہیں۔ اب وہ آ سامی مسلمانوں سے سیاسی انتقام لینے پر اُ تر آ ئی ہے۔ پہلے ان کو ان کی شناخت سے محروم کر نے کا منصوبہ بنا یا گیا۔ پھر ان سے شہریت چھیننے کے لئے این آ ر سی تیار کی جا رہی ہے اور اب آ بادی پر کنٹرول کے نام پر ان کو سرکاری فوائد سے محروم کر نے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہیمنت بسوا سرما، سابق میں کانگریس میں رہ چکے ہیں اور اب بی جے پی سے اپنی وفا داری ثا بت کر نے کے لئے وہ مسلمانوں کو تنگ کر نے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کر لئے ہیں۔ کیا کوئی ریاست ایسا قانون بنا سکتی ہے کہ جس کے دو سے زائدبچے ہوں گے انہیں سرکاری اسکیمیوں سے مستفید ہونے کا موقع نہیں رہے گا۔ قبل ازیں آسام کی حکومت نے ریاست میں دینی مدارس کو بند کر دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اس سے حکومت کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ آسام کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی آ دتیہ نا تھ بھی اس نوعیت کا قانون یوپی میں لا نا چاہتے ہیں۔یوپی میں آ ئندہ سال الیکشن ہو نے والے ہیں، یہ عین ممکن ہے کہ انتخابی ما حول کو گرمانے کے لئے وہاں بھی اس متنازعہ مسئلہ کو چھیڑا جا ئے گا۔ یوپی اسمبلی انتخابات میں کا میابی کے لئے یہ ایک زبردست ہتھیار ہو سکتا ہے۔ ابھی تبدیلیِ مذہب کے قانون کا سہارا لے کر یوپی میں فرقہ وارانہ زہر گھولا جا رہا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی آ بادی کا مسئلہ چھیڑ کر ریاست میں نفرت کی سیاست کا کاروبار چلایا جا ئے گا اور اس کے ذ ریعہ دوبارہ بی جے پی کو حکومت سازی کا موقع مل سکتا ہے۔ یوگی آ دتیہ ناتھ نے اپنے پانچ سالہ دور میں کوئی مثبت ایجنڈے پر عمل نہیں کیا۔ کوویڈ۔19کے بحران کے دوران ان کی نا اہلی کھل کر سامنے آ گئی۔ ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اسپتالوں میں کورنا کے مریض تڑپ تڑپ کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ کورونا کی دوسری لہر نے بھی اپنا قہر جاری رکھا۔ یوگی حکومت اسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ البتہ یوپی کے چیف منسٹر نے سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر نے کا کام منظم انداز میں کیا۔ حکومت سے سوال کر نے والوں کو غدار قرار دے کر انہیں جیلوں میں بند کر دیا۔ دلت خواتین کی عصمتیں لٹتی رہیں لیکن یوگی حکومت نے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ ہاتھرس کا بدبختانہ واقعہ ہوا، جہاں ایک عورت کی نہ صرف عصمت تار تار کی گئی بلکہ درندہ صفت انسانوں نے اسے زندہ جلادیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ کیرالہ کے جس صحافی نے اس واقعہ کی رپورٹنگ کرنے کی ہمت کی اسے جیل میں بند کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی یو گی دورِ حکومت میں جس قدر ہوئی شاید اس کی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ ان تمام کارستانیوں کی وجہ سے یوگی آ دتیہ ناتھ عوام کے درمیان جا نے سے کترارہے ہیں۔ اس لئے جذباتی اور حساس موضوعات ان کے لئے آکسیجن ثابت ہوں گے۔ بڑھتی آبادی کا متنازعہ نعرہ ان کی انتخابی جیت کا زینہ بن سکتا ہے۔ اس لئے وہ اسے بہت گرمائیں گے۔
آسام یا یوپی میں دو سے زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی کا جو قانون بنایا جا رہا ہے اس کی کوشش بی جے پی کی جانب سے بہت پہلے سے ہورہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اب سے ٹھیک 20سال پہلے ہندو راشٹرا کی ماڈل ریاست "گجرات”میں 2001میں اس نوعیت کا قانون لانے کی پوری تیاری کی گئی تھی۔اس قانون کے تحت کوئی شخص گجرات میں دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ جو کوئی اس پابندی کی خلاف ورزی کر ے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسے حکومت سے ملنے والی تمام سہولتوں سے محروم کر دیا جا ئے گا۔ گجرات کے اسی تجربہ کو آسام اور یوپی کے علاوہ ان ریاستوں میں آزما یا جائے گا جہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہے۔ یہ قانون کسی نیک نیتی سے نہیں بلکہ اپنی نااہلی کو چھپانے اور ہندتوا کی گِرتی ہوئی دیوار کو بچانے کے لئے لایا جا رہا ہے۔ کوویڈ۔19کی غیر معمولی قہر سامانی کے دوران ہوئی جانی ہلاکتوں نے مودی حکومت کے ساتھ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی بد انتطامی کا بھی پردہ فاش کر دیا۔ اس سے بی جے پی کے قائدین تلملا اٹھے ہیں۔ اس ایک سال کے دوران جو کچھ انسانی جانیں گئیں اور ملک میں جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے اس پر سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لئے یہ شو شہ چھوڑا گیا ہے۔ اپنی بد اعمالیوں سے سبق لینے کے بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرنا فسطائی طا قتوں کا شیوہ رہا ہے۔ ہندتوا کے علمبرداروں کو یہ نہیں دیکھائی دے رہا کہ "دیو داسی "نظام سے ہندوستانی سماج میں کتنی خباثتیں دَر آ ئی ہیں۔ شکم ِ مادر میں آج بھی بچیوں کو مار ڈالنے کا رواج عام ہے۔ ایسے میں تیسرے بچے کی آ مد پر پابندی لگانا قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ اس اندیشہ کے پیچھے دراصل یہ خوف لاحق ہے کہ مسلمانوں کی آ بادی اتنی نہ بڑھ جائے گی کہ وہ اکثریت میں آ جائیں۔ یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان چار، چار شادیاں اور بیس، بیس بچے پیدا کرتے ہیں۔ اگر ان کی آبادی پر کنٹرول نہ کیا جائے تو ہندو اقلیت میں آ جائیں گے۔ اس قسم کا زہریلا پر چار کر کے ہندوؤں کو متا ثر کیا جاتا ہے۔ اگر قومی سطح پر بھی مسلمانوں کی شرح پیدائش دیکھی جائے تو اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر جناب ایس۔ وائی۔ قریشی نے اپنی حالیہ تصنیف "the population Myth "میں بڑے معروضی اور تحقیقی انداز میں سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت کردیا کہ مسلمان ہرگز ملک میں بڑھتی آ بادی کے لئے ذ مہ دار نہیں ہیں۔ 1951سے 2011تک کی مردم شماری کو پیش کر تے ہوئے انہوں نے فسطائی طاقتوں کے اس پروپگنڈا کو مسترد کر دیا کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہوئے مستقبل میں اکثریت میں آ جائیں گے۔ ایس۔ وائی۔ قریشی نے اس الزام کو بھی اعداد و شمار کے حوالے سے غلط قرار دے دیا کہ عام طور پر مسلمان چار شادیاں کر تے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں اسلامی اصولوں کی وضاحت کر تے ہوئے بتایا کہ یہ مشروط اجازت ہے تا کہ انسان ناگہانی حالات میں حرام کام سے بچ سکے۔ چار شادیاں کرنا یا زیادہ بچے پیدا کرنا نہ اسلام میں فرض ہے اور نہ اس میں مسلمانوں کو بے لگام آ زادی دی گئی ہے۔ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ان کی بہتر تعلیم اور تر بیت کی ذ مہ داری بھی والدین پرڈالی گئی ہے۔ وائی۔ ایس۔ قریشی صاحب کی یہ کتاب خود مسلمانوں اور خاص طور پر تعلیم یا فتہ دانشور طبقہ کو پڑھنا چا ہئے تا کہ پہلے ہم اس پروپگنڈا کا شکار ہونے سے بچ سکیں جو فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں پر لگاتی ہیں۔ افسوس اور المیہ کی بات یہ ہے کہ بعض مسلمان اس واہمہ کا شکار ہیں کہ واقعی مسلمانوں کی آ بادی ہندوستان میں بہت بڑھ رہی ہے۔ یہ غلط اطلاعات ہم کو نہ صرف مطمئن کر دیتی ہیں بلکہ بعض وقت ہمارا سینہ فخر سے پُھل بھی جاتا ہے۔ اسی سے فرقہ پرستوں کو اپنے مذموم ارادوں میں کا میابی ملتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان حالات پر نظر رکھیں۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share