کالم : بزمِ درویش – کنول کا پھول :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش – کنول کا پھول

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میں حیران پریشان شل دماغ بکھرے اعصاب کے ساتھ اپنے ساتھی اور سامنے بیٹھی بوڑھی طوائف کو دیکھ رہا تھا میں اپنے ساتھی اور بوڑھی طوائف کی جرات پر حیران تھا کہ وہ عورت کتنے آرام سے بات کر رہی تھی کہ ہمارے گھر اب جسم نوچنے والے درندے گاہک نہیں آرہے ہیں کوئی دم چلہ وظیفہ کروں کہ گاہک آنا شروع ہو جائیں جسم فروشی کا دھندہ جو بند ہو چکا ہے وہ پھر سے چلنا شروع ہو جائے میر ی رگوں میں خون کی جگہ بچھو دوڑ رہے تھے‘ غصے سے میری کنپٹیوں میں آگ دہک رہی تھی کہ مجھے کیا سمجھ کر یہ یہاں لے کر آیا ہے اور یہ بوڑھی عورت جس کی ٹانگیں قبر میں ہیں اِس کو جوانی کے بعد بڑھاپے میں بھی آخرت کی فکر نہیں اور یہ جسم فروشی کی پرموشن کے لیے دعا کا کہہ رہی تھی۔

پہلے تو میرا دل کیا کہ خوب غصہ نکالوں کہ آپ لوگوں نے مجھے سمجھا کیا ہے آپ کو جرات کیسے ہوئی ایسے مطالبے کی لیکن پھر بزم تصوف کا طالب علم ہونے کے ناطے اولیاء کرام کی رحم دلی مخلوق پروری یاد آئی کہ میں مولوی بن کر تقریر جھاڑ کر اِن کو ٹھیک نہیں کر سکتا میں مولوی بن کر خطاب کروں گا اچھائی برائی روز محشر کی سختیاں بتاؤں گا تویہ کسی اور عامل بابے کو بلا لیں گے یہاں مجھے عقل مندی صبر شفقت سے کام لینا ہو گا اِن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اِن کوراہ راست پر لانے کی کو شش کرنی چاہیے یہ سوچ کر میں نے خود کو نارمل کر نا شروع کر دیا میرے بکھرے اعصاب نارمل ہونے لگے اب میں آنے والے وقت کے بارے میں سو چ کر دل ہی دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اِن کو راہ راست پر کس طرح لانا ہے اب میں نے خود کو نارمل کر کے آنٹی کو دیکھا اور کہا آپ لوگوں کو رزق کی تنگی ہے تو اللہ تعالی آپ کے لیے رزق کے دروازے ضرور کھولے گا ساتھ اُس نیک بیٹی کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ آپ کے گھر میں مولوی کس طرح پیدا ہو گئی تو ماں بولی اِس کو ہمارے جدی پشتی کام سے سخت نفرت ہے پتہ نہیں اِس کے کان کس نے بھرے ہیں یہ دن رات ہمیں توبہ کے لیکچر دیتی ہے اب اِس کے بھی دھندے کی عمر ہے لیکن یہ دھمکی دیتی ہے کہ اِیسی کوئی کو شش اِس کے ساتھ کی گئی تو یہ خود کشی کر لے گی یا گھرسے بھاگ جائے گی پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتی ہے روزے رکھتی ہے راتوں کو اُٹھ کر لمبی لمبی نمازیں اور دعائیں کر تی ہے اِس نے تو ہمارا جینا حرام کر دیاہے اِس کے دماغ سے نیکی کا بھوت نکالیں ورنہ ہم تو بھوکے مر جائیں گے اب میں نے غور سے اُس بیٹی کی طرف دیکھا تو آنکھوں کے حلقے بتا رہے تھے کہ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر اپنی باطنی اذیت کو کم کرنے کی کوشش کر تی ہے اب میں اُس کی طرف دیکھ کر بولا بیٹی تم کو لگتا ہے اللہ تعالی سے بہت پیار ہے تو گلو گیر لہجے میں بولی جی سر اللہ میرا دوست میرا ساتھی ہے یہ میری ہی دعائیں ہیں تو ہمارے گھر میں گاہک آنا بند ہوئے ہیں‘ میں ساری ساری رات رو رو کر اللہ کے حضور دعا کرتی ہوں کہ میرا خاندان اِس جسم فروشی کے جہنم سے جلدی نکل جائے اور پیارے اللہ جی نے میری دعائیں قبول کر لی ہیں بیٹی کی باتیں سن کر ماں کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی اُس نے بیٹی کو گالیاں اور بد دعائیں دینی شروع کر دیں کہ تم مر جاؤ ہماری زندگیوں اور رزق کے پیچھے پڑ گئی ہو جب ماں نے بہت ڈانٹا تو بیٹی نے رونا شروع کر دیا میں قدرت کی کرشمہ سازی پر حیران تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی کی ذات مجھے اِس نیک لڑکی کی مدد کے لیے لائی تھی ساتھ ہی میں نیک لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ خدا نے گندگی کے ڈھیر گندے پانی کے تالاب میں کنول کا پھول کھلارکھا تھا کنول کا پھول پوری پاکیزگی طہارت اور مہک سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اب میں نے ماں کے ساتھ ڈرامہ شروع کر دیا کہ آپ پر واقعی ہی جادوہوگیا ہے حاسدین مخالفین کی وجہ سے آپ کا دھندہ بند ہو کر رہ گیا ہے مجھے پتہ تھا اگر میں نے ماں کی ہاں میں ہاں نہ ملائی تو یہ دوبارہ میرے پاس نہیں آئی گی نہ ہی میری بات سنے اور مانے گی اب میں نے ماں کے نفسیاتی علاج کی خاطر اُس کااور اُس کے گھر کا علا ج شروع کر دیا اُس کومختلف وظائف اور پانی کے چھڑکاؤ میں مصروف کر دیا۔ یہ مختلف کام تو چلتے رہے لیکن ہماری اِن کو ششوں کے اچھے اثرات برآمد نہ ہوئے جو نہ ہو نے تھے اب جب دو ماہ بعد بھی گاہکوں کی آمد نہ شروع ہوئی تو میں نے اسے ماں سے کہا دیکھیں زمانہ بدل گیا ہے لوگوں کا ذوق بد ل گیا ہے ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے لیکن ہمیں ساتھ میں کوئی اور کا م بھی کر نا چاہیے کیونکہ میں پچھلے دو ماہ میں کئی بار اِن کے گھر آکر مختلف مصنوعی عمل کر چکا تھا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا تھا اِس لیے ماں اب میری عزت بھی کرتی تھی باقی نیک وظائف نے بھی کام شروع کر دیا تھا اب بولی بیٹا اب تم ہی مشورہ دو کہ میں گھر کے معاملات کیسے چلاؤں ابھی تو ڈاکٹر صاحب کا سہارا ہے اگر اِس کا بھی دل بھر گیا تو ہم تو بھوکے مر جائیں گے اب میں نے اپنے منصوبے کے مطابق مشور ہ دیا کہ آپ کی بیٹیوں کو میک اپ کا فن آتا ہے میں ڈاکٹر صاحب سے کہتا ہوں کسی اچھی جگہ پر کرائے کی جگہ پر اچھا سا بیوٹی پارلر کھول دیں آپ کی بچیاں کام کریں گی تو اللہ رزق بھی کھول دے گا بوڑھی کو میرا مشورہ بہت پسند آیا اب ڈاکٹر صاحب سے بات کی شروع میں تو ڈاکٹر صاحب نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن پچھلے دو ماہ سے میرے ساتھ رہ رہ کر تھوڑی بہت عزت کرنا شروع ہو گئے تھے میں نے کہا آپ جس لڑکی کو پسند کرتے ہیں اُس سے نکاح کر لیں اور اُس کو پارلر کھول دیں اِس طرح وہ صرف اور صرف آپ کی ہو کر رہے گی اِس بات پر ڈاکٹر صاحب مان گئے اب ڈاکٹر صاحب نے اچھے علاقے میں اُن کو پارلر کھول دیا جہاں پر پانچوں بہنوں نے کام شروع کر دیا شروع میں مشکلات آئیں لیکن آخر کار اللہ تعالی نے رزق کے دروازے جائز طریقے سے کھول دئیے میں ایک سال تک اِن لوگوں سے رابطے میں رہا اِس دوران ماں کو عمرہ کرا یا گیا جس کی وجہ سے وہ توبہ کر کے حقیقی نیکی کے راستے پر آگئیں جب میں نے دیکھا یہ گھرانہ اب برائی سے نیکی کی ڈگر پر آگیا ہے تو میں اپنی زندگی میں مصروف سے مصروف ہوتا گیا آج کئی سالوں بعد اُسی مولوی بیٹی کا فون آیا تو مجھے سالوں پہلے ڈاکٹر اور آنٹی کا جسم فروشی کا اڈا یاد آگیا جو دھڑلے سے کہہ رہی تھی دعا کریں جسموں کے سوداگر ہمارے گھر زیاد ہ سے زیادہ آئیں اور ساتھ ہی خدا کی قدرت کے طوائف کے کوٹھے پر اللہ تعالی نے کنول کے پھول کو کھلا دیا جو نیکی کی چنگاری تھی لیکن جل کر اُس نے ساری گندگی کو راکھ میں بدل ڈالا گناہ برائی کے اڈے کو برائیوں سے پاک کر دیا میرا رب جب کسی پر مہربان ہو تا ہے تو ایسے ہی کر تا ہے۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share