افغانستان میں ” مجاہدین ” کا اقتدار یقینی :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

افغانستان میں ” مجاہدین ” کا اقتدار یقینی
دنیا کی ساری نظریں افغانستان پر
اسلام کے علمبرداروں کے لئے کڑی آزمائش

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدراآباد)
9885210770

افغا نستان کی غّیور اور حریت پسند قوم اکیسویں صدی کے دو دہے گزرنے کے بعد اپنی ایک نئی تاریخ رقم کر نے جارہی ہے۔ چشمِ فلک ایک ایسا منظر دیکھ رہی ہے کہ استعماری طاقتیں اپنے پاس ساری عسکری قوت و طاقت رکھنے کے باوجود رات کے اندھیرے میں افغانستان کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ چشمِ تصور میں اب سے ٹھیک بیس سال پہلے کے واقعات لا یئے کہ کس طرح امریکہ بہادر نے نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بنا کر افغانستان پر جارحانہ حملہ کر کے اپنی بربریت اور سفاکیت کا بدترین ثبوت دیا تھا۔دنیا کی بیشتر حکومتوں نے بھی سُپر پاور طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے افغانیوں کو تہس نہس کر نے میں ا س کی بھر پور مدد کی تھی۔

آج امریکہ سمیت اس کے حواریوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا عصر ی تاریخ کا وہ منفرد واقعہ ہے جس کے عالمی سیاست میں بڑے دور رس اثرات پڑ نے والے ہیں۔ 20سال تک مختلف سازشوں کے جال بننے کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اسے افغانیوں کے آ گے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ساری دنیا پر اپنی مرضی چلانے کا خواب دیکھنے والے ملک، امریکہ کی افغانستان سے 20سال بعد بے نیل و مرام واپسی دنیا کی دیگر قاہر اور جابر حکومتوں کے لئے نمونہ عبرت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکہ کے سابق صدر جارج بش نے 11/ ستمبر 2001کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگن پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے فوری بعد بغیر کسی تحقیق کے اسامہ بن لادن اور طالبان کو اس کا ذ مہ دار قرار دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ امریکہ کی اس کھلی جارحیت کے نتیجہ میں افغانستان میں خونریزی کا ایک ایسا دور چلا کہ ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ امریکی فوج کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق (جو اگرچکہ صحیح نہیں ہیں) اس فوجی یلغار کی وجہ سے 47ہزار افغان شہری، 70ہزار افغان سپاہی، 2,500امریکی فوجی اور اتحادی افواج کے ہزاروں فوجی مارے گئے۔ جانوں کے اس قدر اتلاف کے باوجود امریکی حکمرانوں ن کا نشہِ اقتدار نہیں اُ ترا۔ کسی نہ کسی بہانے سے امریکہ افغا نستان میں اپنی یکطرفہ جارحانہ کاروائیوں کوجاری رکھتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانے میں لگا رہا کہ افغانستان میں اس کی موجودگی عالمی امن کے لئے لازمی ہے۔ اپنے ناجائز قبضہ کو جواز بخشنے کے لئے طالبان کے خلاف یہ جھوٹا پروپگنڈا کر تا رہا کہ یہ دہشت گرد گروہ، اگر افغانستان میں کا میاب ہو جاتا ہے تو ساری دنیا کا امن تہہ و بالا ہو جائے گا۔ دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ نے اپنی سامراجیت کے پنجے گاڑنے کے لئے افغانستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر دھاوا کر دیا لیکن 20سال بعد بھی وہ افغانیوں کو زِ یر نہ کر سکا اور بہ حالتِ مجبوری اسے افغانستان چھوڑنا پڑا۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں افغانستان کے 85%علاقہ پر طا لبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ طالبان اب پہاڑوں اور صحراؤں سے نکل کر شہروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ اب طالبان کے لئے "مجاہدین "کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان میں مجاہد ین کی حکومت تشکیل پانے جا رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے جو کٹھ پتلی حکومتیں ان بیس سالوں کے دوران قائم کیں تھیں اب ان کا اقتدار ختم ہو رہا ہے۔ بیرونی افواج کا جس تیزی سے افغانستان سے انخلا ہو رہا ہے، یہ پروپیگنڈا بھی بڑے زور و شور سے کیاجارہا ہے کہ ان افواج کی واپسی کے بعد وہاں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ اور امن درہم برہم ہوجا جائے گا۔
افغانستان جیسے معاشی طور پر کمزور اور غیر ترقی یا فتہ ملک پر ایک نا قابلِ یقین الزام تھوپ کر امریکہ نے اس پر حملہ کیوں کر دیا۔ اس پسِ منظر میں جب ہم امریکہ کے آ مرانہ طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو افغانستان پر امریکی حملہ کے عوامل اور اسباب واضح ہوجاتے ہیں۔ امریکہ کے ملک گیری کے عزائم کا اندازہ تو دو عالمی جنگوں کے دوران ہی دنیا کو دیکھنے کو ملا۔ اپنی شطرانہ روش سے امریکہ عالمی سیاست میں اپنی بساط بچھانے میں اس وقت تک کامیاب ہو تا رہا جب تک کہ دنیا دو دھڑوں میں تقسیم نہیں ہو گئی۔ لیکن جب سوویت یونین کا زوال شروع ہو گیا تو پھر ایک بار امریکہ کی چودھراہٹ دنیا میں قائم ہو گئی۔ یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے میں بھی افغا نستان کابڑا رول رہا۔ افغانستان میں 1979میں سوویٹ یونین کی فوج داخل ہوئی تھی۔ کیمونسٹوں نے بھی افغانستان پر قبضہ کی پوری کوشش کی۔ لیکن سوویٹ یونین کا حال امریکہ سے بُرا ہوا۔ 1991میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ بھی دنیا کا سپر پاور ملک تھا لیکن افغانستان میں روسی فوجیوں نے اپنی جس بر بریت کا مظاہرہ کیا اس کا خمیازہ اس طرح بھگتنا پڑا کہ ان کا ملک ہی ٹوٹ گیا۔ اب کیمونزم بھی صرف کتابوں میں ایک سیاسی فلسفہ بن کر رہ گیا۔ افغانیوں کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت ان سے ٹکرا نہیں سکی۔ بیسویں صدی کے اواخر میں سوویت یونین کی عبر تناک شکست ہوئی۔ 1842میں افغانیوں نے برطانیہ جیسے طاقتور ملک کو اپنی اوقات بتادی تھی۔ جب کہ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں برطانیہ کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔اب 2021میں دنیا کے نام نہاد ٹھیکیدار امریکہ کو افغانستان کو خیرآ باد کر نا پڑا۔ قدرت کا یہ کرشمہ ہے کہ افغانستان میں کوئی بیرونی طاقت اپنا قبضہ نہیں جما سکی۔ امریکہ نے جس وقت افغانستان پر یلغار کی تھی اس وقت امریکہ کے صدر جارج بش نے اپنی اس فوجی یلغار کو "صلیبی جنگ "(Crusade)سے تعبیر کیا تھا۔ امریکی صدر ہونے کے ناطے یہ کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ اصطلاح بہت سوچ سمجھ کر استعمال کی ہو گی۔ لیکن بعد میں انہوں نے اسے اپنی زبان کی لغزش(Slip of toungue) کہہ کر دنیا کو گمراہ کر نے کی کوشش کی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ افغانستان پر فوجی یلغار کا مقصد ” اسلامی دہشت گردی "کوختم کرنا ہے۔ انہوں نے پوری دنیا کو یہ کہہ کر اپنا ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ اس وقت اسلامی دہشت گردی ہی دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ امریکی صدر کا غرور اور تکبر اس وقت اپنے شباب پر تھا اور اسی کا مظاہرہ کر تے ہوئے جارج بش نے دنیا کے ممالک سے کہاتھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں وہ اگر ان کے (امریکہ) ساتھ نہیں ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک وارننگ تھی جو امریکہ کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک کو دی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے اکثر ممالک امریکہ کی تائید و حمایت میں آ گئے۔ ان کے سامنے ظالم اور مظلوم کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ دھونس اور لالچ نے بھی اپنا اثر دکھایا۔ غریب اور پسماندہ ممالک بھی امریکہ سے مالی امداد اور تعاون کی امید پر "اسلامی دہشت گردی”کا پاٹ پڑھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ہو گئے۔ اس میں ہمارا ہردلعزیز ملک بھارت بھی شامل ہو گیا۔ جب کہ بھارت کی دیرینہ پالیسی بیرونی مداخلت کے خلاف رہی ہے۔ دنیا کے حکمران یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ سے ٹکرانا ان کے بس میں نہیں ہے اس لئے بِلا چوں وچرا سب ایک صف میں کھڑے ہو گئے لیکن آج ان ممالک کو بھی اندازہ ہورہا کہ افغانستان میں ایک لمبے عرصہ تک اپنی فوجیں رکھنے کے باوجود امریکہ اور اس کے حلیف افغانستان میں کوئی کا میابی حاصل نہیں کر سکے۔ اپنی تمام تر سرکشی اور استکبار کے باوجود امریکہ افغانیوں کو سرنگوں نہیں کر سکا اور اسے واپس لوٹنا پڑا۔
امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو جنگی کاروائی کی اس کاکوئی جواز امریکہ کے پاس نہیں ہے۔نائن الیون کا واقعہ محض ایک بہانہ تھا۔ اس دہشت گردانہ حملہ کا افغا نستان، طالبان یا اسامہ بن لادن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان پر کیوں یلغار کی گئی اور گزشتہ بیس سال سے وہاں کُشت و خون کا با زار کیوں گرم کیا گیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان ایک غریب اور عصری ٹکنا لوجی سے تہی دست ملک ہے۔ اس کے پاس ایسے مزائل کہاں سے آ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کے سپر پاور کے اہم شہروں پر بمباری کر سکے۔ امریکہ کے مضبوط سیکوریٹی نظام کو توڑنا کیا اس کے لئے ممکن تھا۔کیا آن واحد میں پنٹاگن اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی فولادی عمارتوں کو زمین بوس کر دینے کی طاقت افغانستان کے پاس تھی۔ اس صر یح جھوٹ پر کوئی اعتبار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ جھوٹ امریکہ نے پھیلادیا تھا کہ یہ سب کارستانی طالبان نے کی ہے۔ اس لئے سارے ہی ممالک امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے میں اپنی عافیت سمجھنے لگے۔ جب کہ شک کی سوئی اسرائیل اور اس کی خفیہ تنظیم موساد کی جانب بھی جا رہی تھی۔ لیکن بڑی عیاری کے ساتھ اسرائیل کو بچالیا گیا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ افغانستان کے بعد امریکہ نے عراق کو تباہ و برباد کر دیا۔ صدام حسین کو ایک ڈکٹیٹر کی شکل میں پیش کر کے عراق پر حملہ کا جواز فراہم کرلیا گیا۔ اپنے استعماری ایجنڈے کو روبہ عمل لاتے ہوئے آج امریکہ واحد عالمی قوت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر رہا ہے۔ دنیا کے سارے ممالک کو اپنے تابع کرنا اس کا مقصد ہے۔ اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی بنانے کے جنون میں آزاد اور خودمختار ملکوں پر قبضہ جمانا اس کی پالیسی رہی۔ قوت کا نشہ اور کسی کو خاطر میں نہ لانا ان کا مزاج رہا۔دوسری قوموں کو غلام بنانے کی پالیسی پر آ ج بھی امریکہ گامزن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمرانی کا انداز بدل گیا ہے۔ امریکہ کے ان اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہی حقیقت سامنے آ تی ہے وہ دنیا کو پھر نو آ بادیاتی نظام کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔ لیکن افغانستان میں اس کی پسپائی کے بعد عالمی سیاست ایک نیا رخ اختیار کر ے گی۔ اس کی بہادری کے چرچے بہت جلد ختم ہوجائیں گے اور بین الاقوامی سیاست میں نئی صف بندی کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ سوویت یونین کے خا تمہ کے بعد جو خلا پیدا ہو گیا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اپنی من مانی کر رہا تھا۔ اس بات کے آ ثار و قرائن ہیں کہ اب دنیا کے دیگر ممالک بھی عالمی سیاست میں اپنا سر گرم رول ادا کر نے کے موقف میں آ گئے ہیں۔ لیکن اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ افغانستان کی صحیح صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار آ زادانہ طور پر ادا کریں۔ امریکہ کی طرح دیگر ممالک بھی طالبان کو دہشت گردوں کے روپ میں دیکھنے کا مزاج بنا لیں گے تو اس سے طالبان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن امن اور یکجہتی کا خواب پورا نہ ہوگا۔ اب جب کہ وہاں سے بیرونی افواج نکل چکی ہیں افغانیوں کو اپنی پسند کی حکومت بنانے کا موقع دینا انصاف کا تقاضہ ہے۔ ان پر کوئی بیرونی ملک اپنی مرضی مسلط کر تا ہے تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ عصری دور میں دنیا کا ہر ملک آ زاد اور خود مختار ہے۔ افغانی عوام ایک اسلامی حکومت بنانے کا عزم رکھتے ہیں تو اس میں کسی ملک کو مداخلت کر نے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ طالبان شدت پسند ہیں۔ ان کو حکومت بنانے کا موقع ملے گا تو عورتوں کی آ زادی ختم ہوجائے گی۔ لڑکیوں کو پڑھنے نہیں دیا جائے گا و غیرہ۔ اس سارے پروپیگنڈاکا مقصد طالبان کو بدنام کرنا ہے۔اس کاجواب طالبان کو بڑی حکمت سے دینا ہوگا۔ اس لئے ان کے لئے سب بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ ایک مثالی اسلامی حکومت کے نقیب بنیں۔ افغانیوں کا یہ سبق ساری امت یاد رکھے کہ دنیا طاقت کی زبان جا نتی ہے۔ کمزوروں کی سزا مرگ مفاجات ہے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share