شعر کے پردے میں : مصنف – ڈاکٹر محمد دانش :- مبصر – ڈاکٹر صفیہ ہارون

Share

شعر کے پردے میں
تنقید میں کمال و رفعت کا موجب بنی ہے

ڈاکٹر صفیہ ہارون
شعبہ اردو، منہاج یونیورسٹی، لاہور (پاکستان)

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تحقیق و تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تنقید کا اہم کام کسی ادب پارے یا فن پارے کے حسن و قبیح کا جائزہ لینا ہے اور تحقیق کا کام کھوجنے، پرکھنے یا دوبارہ تلاش کرنے کا ہے۔ تنقید ہوگی تو تحقیق کے در وا ہوں گے۔ اگر تنقید نہیں ہوگی تو تحقیقی عمل ناپید ہو کر رہ جائے گا۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ تنقید بھی تحقیق کے بغیر ایک قدم تک نہیں چل سکتی۔ بعض نقاد کسی بھی فن پارے کے صرف محاسن پر توجہ دیتے ہیں اور قبائح کو نظر انداز کر جاتے ہیں، یوں تحقیق کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی رک جاتا ہے۔ یہ عمل کسی بھی صورت قابلِ قبول اور درست نہیں ہے۔

تنقید کتنی ضروری ہے اس کے لیے ٹی ایس ایلیٹ کا ایک قول دیکھیے:
”تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی نا گزیر ہے جتنی کہ سانس۔“
ایک نقاد کو تنقید نگاری کے تمام اصول و ضوابط کا خیال رکھنا چاہیے۔ جہاں تنقید کارِ دشوار ہے وہیں تحقیق بھی صبرطلب کام ہے۔ ان دونوں کے ملاپ سے ادب کے راستے پر چلنے والے کی راہیں دشوار ہوجاتی ہیں مگر جو محققانہ و ناقدانہ ذوق و شوق رکھتے ہیں وہ اس مشکل گھاٹی سے بآسانی گزر جاتے ہیں۔ تنقید و تحقیق کی صبر طلب اور دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرنے والی ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر محمد دانش غنی کی بھی ہے جن کا تعلق بھارت کی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ ان کی جائے ولادت ناگپور ہے لیکن وہ رتناگری کے ایک ڈگری کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
زیرِ نظر کتاب مختلف تنقیدی و تحقیقی مضامین اور چار مکتوبات پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر محمد دانش نے کلاسیکی و عصرِ حاضر کے معروف شعرا کے فن پر بات کی ہے۔ یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر ادیب و شاعر یا فنکار اپنے فن کا پہلا نقاد ہوتا ہے۔ شاعر اپنے کلام کو پہلے ناقدانہ نظر سے دیکھتا ہے اور پھر وہ اسے دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن پھر بھی کچھ پہلو ایسے ہوتے ہیں جو شاعر کی نظر سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔ ان پہلوؤں کو پھر نقاد سامنے لاتاہے۔ ایک اچھا نقاد وہ ہوتا ہے جس کا فنی شعور پختہ ہو۔ اگر وہ شعر پر تنقید کر رہا ہے تو وہ شاعری کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو۔ اگر وہ نثر پر تنقید کر رہا ہے تو اسے نثری فن پاروں کے جملہ پہلوؤں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے اپنے لیے تنقید جیسے پر خطر راستے کا انتخاب کیا۔ انھوں نے زیرِ نظر کتاب میں ۱۲ / تنقیدی مضامین، ۳ / تحقیقی مضامین اور چار تنقیدی نوعیت کے خطوط کو شامل کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا رجحان تنقید کی جانب زیاہ ہے۔ ان کے تمام مضامین اور خطوط اصلاحی پہلو لیے ہوئے اور تنقید وہی کار گر ہوتی ہے جس میں اصلاح کا پہلو پوشیدہ ہو۔
کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ تنقید، دوسرا حصہ تحقیق اور تیسرا حصہ مکتوبات کا ہے۔ تنقید کے زمرے میں مشمولہ ہر ایک شاعر کے فن کو کمالِ خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ حالی بطور اصلاحی شاعر نظر آتے ہیں تو محسن کاکوروی، جنھوں نے اپنی ساری زندگی نعت کے لیے وقف کردی تھی، اپنی نعت گوئی سے جذبہئ ایمانی کو تر و تازہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کو بطور شاعرِ اطفال پیش کیا گیا ہے تو محمد علی جوہرؔ کی شاعری کو روح پرور بتایا گیا ہے۔ حسرت موہانی کو جمالیات کا شاعر کہا گیا ہے تو جگر مراد آبادی کو دنیائے حسن و عشق کا سفیر کہہ کر متعارف کروایا گیا ہے۔ ساحر کی عشقیہ و انقلابی شاعری پرروشنی ڈالی گئی ہے تو غنی اعجاز کی غزل کے آہنگ کو چھیڑا گیا ہے۔ بشر نواز کے شعری پیکر پر بات کی گئی ہے تو خضر ناگپوری کو زبان و بیان کا شاعر کہا گیا ہے۔ قاضی فراز احمد کی شاعری پر گفتگو کی گئی ہے تو شریف احمد شریف کی شعری آواز کو تنقید کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔ شمیم طارق کے ضرب المثل اشعار سے متعارف کرایا گیا ہے تو ساحر شیوی کے شعری سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ نذیرؔ فتح پوری کی غزلوں پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے تو ظفر کلیم کی غزلوں کا لہجہ اور اسلوب زیرِ بحث آیا ہے۔ شکیب غوثی کی غزل گوئی قلم کے نوک تلے آئی ہے تو سعید کنول کو غزل کے حوالے سے متعارف کرایا گیا ہے۔ تاج الدین شاہد کو نوکلاسیکی شاعری کی ابھرتی ہوئی آواز کہا گیا ہے تو حیدر بیابانی کو بچوں کا شاعر کہا گیا ہے۔ اقبال سالک کی شاعری کے پہلے قدم پر بھی ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے کمالِ خوش اسلوبی سے مذکورہ شعرا کے فن پر تنقیدی نظر ڈالنے کے ساتھ تحقیق کے میدان میں بھی اپنی موجودگی کو یقینی بنایا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں ”کوکن کے اردو لوک گیت“، ”ودربھ میں جدید اردو غزل“ اور ”رتناگری کی شعری روایت“ کے عنوان سے تین تحقیقی مضامین کے علاوہ چار مکتوب بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ وہ مکتوبات ہیں جو انھوں نے رسائل و جرائد کے مدیران کو لکھے جن میں عصرِ حاضر کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے اور صریح اغلاط و غلط فہمیوں کا تدارک بھی کیا گیا ہے۔ ایسا وہی کرسکتا ہے جس کا مطالعہ وسیع ہو اور جس نے ایک لمبا عرصہ ادب کی گھاٹیوں میں رہ کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے مراد ہر صنف کو ناقدانہ و تحقیقانہ زاویے سے پرکھتے ہوئے گزارا ہو۔
دراصل شاعری پر تنقیدی مضامین لکھنے سے قبل نقاد کا وسیع المطالعہ ہونا اشد ضروری ہے۔ ”شعر کے پردے میں“ میں شامل مضامین کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ نگاہ بھی گہری رکھتا ہے۔ زیر نظر کتاب سے ڈاکٹر محمد دانش غنی کی محققانہ جستجو تنقید میں کمال و رفعت کا موجب بنی ہے جو ایک حد تک تحقیق و تنقید دو الگ الگ دائروں میں سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے مگر بعض اوقات دونوں ہی ایک مرکز پر جمع بھی ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد دانش غنی کی تحقیقی صلاحیتیں بہت حد تک ان کے تنقیدی شعور پر اثرانداز ہوتی ہوئی دکھائی پڑتی ہے۔ انھوں نے محض تنقیصی یا تخریبی انداز نہیں اپنایا اور نہ ہی بے جا تحسین و توصیف سے شاعری کی اصل روح کو مجروح کیا ہے بلکہ انھوں نے شاعر کی بلندی کو دیکھتے ہوئے اس کی خامیوں کو بھی قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے نہ ماضی کو یکسر فراموش کیا اور نہ ہی مستقبل کو اوجھل ہونے دیا۔ انھوں نے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ ماضی اور مستقبل کا حسین امتزاج ہی تنقیدی تخلیق کی پہچان ہے۔ اس لیے ڈاکٹر محمد دانش غنی کی تحریر میں علمیت اور فکر میں ادبی جاذبیت موجود ہے۔ ان کا یہ سفر ایسے ہی جاری رہا تو کئی تشنگانِ علم و ادب فیض یاب ہوں گے۔
—–

ڈاکٹر دانش غنی
Share
Share
Share