کالم : بزمِ درویش – من کے کالے :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش – من کے کالے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میرے سامنے میاں شہزاد بیٹھا تھا جس کو دوست یا ر شہزادہ کہہ کر پکارتے تھے میری اِس سے پہلی ملاقات آج تھی چند دن پہلے میرے پرانے دوست کے حوا لے سے اِس کا فون آیا کہ میرے شہر میں فلا ں سرکاری آفیسر ہے جو آپ کا جاننے والا ہے اُس نے میری زندگی حرام کر رکھی ہے آپ اُس کو میری سفارش کر دیں میں آپ کے ریفرنس سے اُس سے جا کر مل لوں گا میرے دوست نے کہا تھا یہ میرا بہنوئی ہے بہن کا معاملہ ہے تگڑی سفارش کر دو تا کہ میری عزت بن جائے بہن کا نام آیا تو میں نے اچھی طرح سے سرکاری آفیسر کو درخواست کر دی پھراِس سرکاری افسر نے اس سے ملاقات کر کے وعدہ کیا کہ اب تمہیں تنگ نہیں کروں گا

جب سرکاری آفیسر نے یہ کہا تو یہ شکرانے کے طور پر تحائف کے ساتھ میرے گھر آیا تھا مہنگے تحائف لایا تو میں نے کہا آپ میرے دوست کے بہنوئی ہیں میرے لیے بھی بہت زیادہ قابل احترام ہیں اِن تحفوں کی بالکل ضرورت نہیں تھی آپ نے کیوں یہ ساراتکلف کیا تو شہزادہ بولا جناب آپ میرے محسن ہیں لہٰذا آپ کا شکریہ تو بنتا ہی تھا جناب مجھے اپنے دوستوں کی لسٹ میں شامل کر لیں مجھے بہت وفادار تابعدار پائیں گے میں نے پھر بھی منع کیا کہ آئندہ آپ نے یہ تحائف کا تکلف نہیں کر نا باتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے قریب ہو نا چاہتا ہے گفتگو کا آرٹ خوب جانتا تھا اپنے اعلیٰ افسران کے ساتھ تعلقات بتانے شروع کر دئیے اور یہ بتانا شروع کر دیا کہ کس طرح وہ اپنے بااثر دوستوں سرکاری افسران کا خیال رکھتا ہے سالانہ بنیاد پر اناج فروٹ جانور دیسی گھی مختلف قسم کی سوغاتیں دوستوں کو دیتا ہے اِسطرح ووہ مجھے بھی ترغیب دے رہا تھا اُس کی شاطر گفتگوکے بعد میں نے اُس کا بغور جائزہ لینا شروع کیا کیونکہ پتلا خاکستر انسان کا مطالعہ میرا فیورٹ مشغلہ ہے اس کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی شاندار خوبصورت مہنگے کپڑے مہنگی گھڑی مہنگے پالش شدہ چمکتے جوتے مہنگی بڑی جہازی گاڑی نوکر سیکورٹی گارڈ کے ساتھ سفر کرنا لچھے دار گفتگو مہنگے تحائف کی برسات کرنے کا آرٹ بخوبی جانتا تھا اِس کی صحت رنگ چمک دمک بتا رہی تھی کہ یہ اپنی صحت لبا س کا خاص خیال رکھتا ہے اپنے شاہانہ لائف سٹائل کی وجہ سے ہی دوستوں میں میاں شہزادہ کے نام سے مشہور تھا وہ کافی دیر تک میرے پاس بیٹھا رہا میری خوب تعریفیں بھی کرتا رہا لیکن مجھے بلکل بھی متاثر نہ کر سکا میں خوب جانتا تھا کہ یہ صرف اور صرف اُس سرکاری آفسر کی وجہ سے مجھے متاثر کر نے کی یا قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے پھر یہ چلا گیا لیکن چند دن بعد بھی تحفوں کے ساتھ حاضر تھا اب میں نے پھر منع کیا لیکن یہ تیسری بار پھر آدھمکا تو پہلی بار میں نے اِس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچھا پھر دو دن بعد جا کر اُس میرے دوست سرکاری آفسر سے بات بھی کرائی اُس کو جا کر بتایا کہ میں ریگو لر پروفیسر صاحب کے پاس جاتا ہوں اُس کی یہ بات مجھے بلکل اچھی نہ لگی دوسری بات میں نے یہ بھی محسوس کی کہ یہ تین چار مرتبہ میرے پاس آچکا تھا ہر بار مجھے اِس سے عجیب الجھن بے زارگی اوررزدگی کوفت سی محسوس ہوتی میں جو رات دن انسانوں سے ملتا ہوں اور میری خوشگواری آخر تک قائم رہتی ہے میرے پاس ہر رنگ نسل مزاج کے لوگ آتے ہیں میں سب سے خوشی اور شائستگی سے ملتا ہوں لیکن یہ چار ملاقاتوں کے بعد بھی میرے قریب نہ آسکا ظاہر ی طور پر خوبصورت گورا چٹا بھر پور شخصیت کا مالک اچھے کپڑوں اور گفتگو کے ساتھ آتا لوگوں میں شہزادے کے نام سے مشہور اِس کا بہت وسیع حلقہ احباب لوگ اس کی کمپنی کو بہت پسند کرتے تھے یہ وہ معاشرہ کا ہر دلعزیز شخص جو محفلوں کی جان ہر بندے کا پسندیدہ انسان لیکن میرے پاس جب بھی آتا یا موبائل سکرین پر اِس کا نام آتا میری بے زارگی کو فت شروع ہو جاتی میں اِس سے کتراتا تھا کہ میرے پاس نہ آئے لیکن یہ تومیرے پیچھے پڑ گیا تھا ظاہری طور پر خوبصورت لیکن اِس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی جو مجھے الجھن میں مبتلا کرتی تھی میری کھوجی حسیا ت آن ہو چکی تھیں کہ شہزادے سے بے زارگی کی وجہ کیاہے اب میں نے اپنے دوست کو فون کیا وہ بہت خوش تھا کہ شہزادہ میری بہت تعریفیں کر تا ہے اِس طرح اُس کی بھی بہت عزت اور شکریہ شروع کر دیا تھا گپ شپ کے بعد میں اپنے اصل مطلب کی طرف آیا کہ یار یہ شہزادہ کیسا انسان ہے تو وہ کہتا کبھی کبھی عیاشی وغیرہ کی خبریں آتی ہیں ویسے تو بہت کامیاب سمجھ دار انسان ہے ساتھ ہی وہ بولا شہزادے کی بیوی اور میری بہن بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے میں نے اُس کو تمہارا نمبر دیا ہے وہ تم سے بات کرے گی اب میں شہزادے کی بیگم کے فون کا انتظار کر نے لگا پھر جلد ہی شہزادے کی بیوی کا فون آگیا میں نے تعارفی گفتگو کے بعد تُکا مارا بہن جی یہ شہزادہ کیسا آدمی ہے مجھے تو اِس کے کردار میں گڑ بڑ نظر آتی ہے یہ آپ کے ساتھ کتنا وفا دار ہے دوسری عورتوں کے چکر میں تو نہیں ہے وہ تو شاید میرا انتظار ہی کر رہی تھی پھٹ پڑی بولی آپ میرے بھائی کے دوست ہیں وعدہ کریں اُس کو یا کسی کو نہیں بتائیں گے یہ میرا خاوند جو معاشرے میں بہت کامیاب نیک سمجھ دار چالاک بن کر پھرتا ہے ایک جنسی درندہ ہے اِس کی جنسی ہوس کے سامنے کسی رشتے کا تقدس نہیں ہے یہ جنسی درندہ ہے اپنی ناپاک جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے یہ کچھ بھی کر گزرتا ہے یہ ظاہر سے بہت خوبصورت شہزادہ نظر آتا ہے اندر سے بہت کالا ہے یہ من کا کالا انسان ہے جس نے اپنی سالی میری چھوٹی بہن کو نہیں چھوڑا میں لوگوں کو بتاؤں کہ یہ میری چھوٹی بہن کو پامال کر چکا ہے تو میرے بھائی اس کو مار دیں گے یہ بہت چالاک ہے ہمیں گھر میں پورا خرچہ دیتا ہے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دیتا لیکن گھرکی نوکرانیوں کو بھی نہیں چھوڑتا شراب اور زنا اس کی غذا ہے جس کے بغیر یہ نہیں رہ سکتا اس کو جو عورت پسند آجائے اُس کو یہ ہر قیمت پر حاصل کرکے چھوڑا ہے یہ رشتوں کا احساس نہیں کرتا یہ ظاہر کا گورا اندر سے کالا جنسی درندہ ہے پھر اُس بیچاری نے اِس کی زنا کاری کی طویل داستان مجھے سنائی جو اُس بیچاری کو پتہ تھا پھر اُس نے مجھ سے مدد مانگی کہ آپ سے بہت متاثر ہے خدا کے لیے اِس کو راہ راست پر لائیں میں نے بیچاری سے وعدہ کیا پھر جب شہزادہ میرے پاس آیا تو میں نے جھوٹ بولا کہ میرے پاس ایک جن ہے جس نے مجھے تمہارے سارے کالے کرتوتوں کے بارے میں بتایا ہے اب بہتر یہی ہے کہ تم تو بہ کر لو میری بات سن کر شہزادے کا رنگ زرد پڑ گیا ڈر سا گیا لیکن کوئی بات کئے بغیر اٹھ کر چلا گیا ایک مہینہ گزر گیا میرے پاس نہیں آیا تو میں نے فون کر کے کہا شہزادے تم نے توبہ کی کہ نہیں تو بولا جناب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں شریف انسان ہوں تو میں بولا مجھے تو دھوکا دے لو گے خدا کی گرفت آئے گی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے پھر میں نے فون بند کر دیا ایک سال گزر گیا جب بھی شہزادے کی بیوی کی یا دآتی دعا ضرور کرتا اور قدرت کے فیصلے کا انتظار کرتا رہا پھر قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئی مجھے بہت مہینوں بعد شہزادے کا فون آیا خوب رو رہا تھا اقرار کیا کہ آپ ٹھیک تھے میں غلط تھا زنا کاری میں غرق تھا آپ نے روکا تو آپ سے بھی پیچھے ہٹ گیا چند ماہ بعد میں نے کسی لڑکی کی عزت تار تا ر کی تھی اُس کے بھائیوں نے مجھے اغوا کر کے کپڑے اتار کر میرے ساتھ ایسی جنسی تصاویر اور ویڈیو بنائی اور پھر سوشل میڈیا پر وائر ل کر دی اب میں منہ چھپا تا پھر رہا ہوں گھر سے شہر سے دو ماہ سے غائب ہوں داڑھی رکھ لی ہے مزاروں پر بھیس بدل کر وقت گزارتا ہوں پتہ نہیں کب بدنامی کے خوف سے خود کشی کر لوں مجھے آپ معاف کردینا اللہ سے بھی میری معافی کی دعا کر نا پھر اُس نے رو رو کر فون بند کر دیا اور میں قدرت کے انصاف پر حیران کہ ہمارے معاشرے میں جنسی درندے کس طرح ظاہری خوبصورتی کے بل بوتے پر جنسی زنا کاری کرتے ہیں جب کہ یہ من کے کالے ہو تے ہیں پھر خدا کے عذاب کا چلتا پھرتا اشتہار بن جاتے ہیں۔
——

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
Share
Share