کتاب:ایک زندہ عقیدہ -از: ڈاکٹراصغرعلی انجینئر-مبصر: دیپک بدکی

Share

budki
نام کتاب: ایک زندہ عقیدہ ( خود نوشت۔اردو ترجمہ)
مصنف : ڈاکٹر ا صغر علی انجینئر
ترجمہ نگار: قدیر زماں
مبصر : دیپک بدکی
اشاعت: ۲۰۱۲ء- ضخامت : -۳۳۰- صفحات قیمت : ۳۰۰؍ روپے
ناشر : ادارہ جدید فکر و عصری ادب ،16-10-49 ،حیدرآباد، اے پی۔500036

ڈاکٹر اصغر علی انجینئر موجودہ دور کے سیکولر فکر و نظر کی علامت ہیں اور یہ اردو کی خوش نصیبی ہے کہ قدیر زماں نے ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی خود نوشت سوانح عمری کا ترجمہ آسان اور سلیس زبان میں کرکے اردو قارئین کو فیض پہنچایاہے۔ ترجمہ کرتے وقت قدیر زماں نے کہیں کہیں پر کچھ تفاصیل کو حذف کیا ہے یا پھر ان کی تلخیص پیش کی ہے کیونکہ اردو کے قارئین ان تفاصیل سے پہلے ہی واقف ہیں اور ان کو تحریر میں لانا نہ صرف طوالت کا باعث بن جاتا بلکہ ثقالت کا سبب بھی بن جاتا۔اردو ترجمے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدیر زماں نے کتاب کی روح کو اپنی
گرفت میں لے لیا ہے اور اس پر اوریجنل ہونے کا گماں ہوتا ہے۔

خود نوشت سوانح حیات کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس دور کے اہم واقعات پر بھی حتی المقدور روشنی ڈالے تاکہ قاری ایسے واقعات پر سوانح نگار کی معروضی رائے جان سکے جو کسی حد تک تاریخ کا کام بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اختصار و ایجاز، فضول باتوں سے اجتناب، خود ستائی و تعلّی سے پرہیزاور خوشنما اسلوب سوانح کی مبادیات میں شامل ہیں۔ اصغر علی انجینئر نے اپنی سوانح میں ان بنیادی ضرورتوں کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے اپنی زندگی سے وابستہ ان واقعات و حادثات کا ذکر کیا ہے جن کا سامنا انھیں وقتاً فوقتاً کرنا پڑا ۔ باوجودیکہ کئی بار ان کی جان پر بھی بن آئی لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور غیر مساعد حالات سے لڑتے رہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اصغر علی کی حیات مسلسل جہد زیست کی کہانی ہے ۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے اقربا کی پریشانیوں کی پرواہ نہ کرکے ہمیشہ حق کے لیے لڑتے رہے اور اسلام کا صحیح پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلاتے رہے۔ ان کا پیغام امن و آشتی اور انسانی اخوت و بھائی چارے کا پیغام ہے۔چنانچہ اس بارے میں لکھتے ہیں ’’ میں نے سات بنیادی قدروں کا ذکر کیا۔ مساوات، سچائی، انصاف ، امن ، عدم تشدد، خلوص اور انسانی وقار۔ دنیا کا کوئی مذہب انھیں جھٹلا نہیں سکتا۔‘‘ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے انھوں نے آئے دن اپنے خیالات کا اظہار ملکی اور غیر ملکی اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھ کر کیا۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور آسٹریلیا کے کئی ملکوں کا دورہ بھی کیا جہاں انھوں نے تقاریر کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر معتبر دلائل کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کیا جن کو سن کر کئی قدامت پسند عالم بھی ان سے اتفاق کرنے کے لیے مجبور ہوگئے۔ اکثر مقامات پر ان کے نظریات کی خوب پذیرائی ہوئی اور انھیں کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بار بار بلایا گیا۔ ان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ’دی رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘ (The Right Livelihood Award) ، جو نوبیل پرائز کے برابر مانا جاتا ہے ،سے بھی نوازا گیا ۔
پیشہ ورانجینئر ہونے کے باوجود اصغر علی سماج سدھار کے میدان میں کود پڑے اور ابتدا میں اپنے ہی بوہرہ فرقے کے سربراہ’ سیدنا‘ کی، جن کا دبدبہ ساری دنیا میں ہے، آمریت اور استحصال کے خلاف آواز اٹھائی۔ نتیجے میں کئی بار ان پر ہندوستان اور بیرونی ممالک میں جان لیوا حملے ہوئے مگر وہ بچ نکلے اور اپنی اصلاحی تحریک جاری رکھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے فرقہ واریت کے خلاف بھی مہم چھیڑی اورہندوستان میں جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جائے واردات پر جا کر ان کی خود تفتیش کی تاکہ سچ کو سامنے لایا جا سکے۔ اس طر ح انھوں نے سیاست دانوں ، پولیس اور پیشہ ور مجرموں کی آپسی ملی بھگت کا پردہ فاش کیا ۔ ان کی ان کوششوں میں کئی ترقی پسند ادیبوں ، انسانی حقوق کے پاسبانوں اور صحافیوں نے پر خلوص حمایت کی ۔ زیر نظر سوانح میں اصغر علی انجینئر کی زندگی کے دوران رونما ہوئے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد ات کی مختصر روداد بھی ملتی ہے جن میں بابری مسجد کا سانحہ بھی شامل ہے۔ہندوستان کی جمہوریت اور تکثیریت کو بچانے کے لیے اصغر علی ہمیشہ پا بہ رکاب رہے اوراپنے ہم منصبوں سے مدد لیتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے پولیس کے لیے ورکشاپس کا بھی انعقاد کروایا۔
اصغر علی اقبال اور مارکس سے بہت متاثر تھے۔ اس عقیدے کا مظاہرہ انھوں نے خاص طور سے روس میں کیا۔انھوں نے اپنی سوانح میں کئی ہم عصر ادیبوں ، شاعروں ، فلمی ہستیوں ،سیاسی رہنماؤں اور مذہبی علماکی شخصیت پر اپنے تلخ و شیریں تاثرات درج کیے ہیں۔اپنے اسفار کے دوران پیش آئے دلچسپ واقعات کا ذکر بھی انھوں نے انہماک کے ساتھ کیا ہے جیسے سعودی عرب میں کیرلا کے باشندوں کے ساتھ نسلی امتیاز کا مظاہرہ، اپنی میراث کو منہدم کر کے وہابیوں کی تنگ نظری اور انتہا پسندی ، ازبکستان میں مسلمانوں کی قرآن سے ناواقفیت اورانڈونیشیا میں ہندو اساطیر کا اسلامی روایات کے ساتھ خلط ملط ہونا اور پیغمبر اسلام کو ’مولانا وشنو‘ کے نام سے یاد کیا جانا و غیرہ۔اس کے علاوہ انھوں نے سفر کے دوران جو دلچسپ مقامات دیکھے ان کی منظر کشی کرنا نہیں بھولے تاکہ قاری کے ذہن میں تجسس کی جوت جگا سکیں۔ظاہر ہے کہ ان کی یہ سوانح حیات صرف ان کی زندگی کی روداد بن کر نہیں رہی ہے بلکہ اس میں دین و دنیا کی معلومات، دلچسپ واقعات،مختلف فلسفہ جات ونظریات اور دلکش مناظر کا جائزہ بڑی خوبی کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے جس کے باعث اس میں رنگا رنگی پیدا ہوچکی ہے۔
بقول مشیر الحسن ’’ اصغر علی انجینئر کو اس حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ وہ اسلام کے ایسے مبصر ہیں جو تخلیقی توجیہات پیش کرنے میں ماہر ہیں اور دستور ہند میں جو آزاد خیالی اور سیکولر اقدار کی تدوین ہے اس کی تشہیر کے رستم زماں۔ ان کی زندگی شاہد ہے کہ انسان اپنی اپنی روایتوں سے بندھا رہ کر بھی لبرل اوربرگزیدہ ہوسکتا ہے۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ یہ
سوانح حیات نہ صرف سوانحی اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے بلکہ موجودہ دور کی اس تاریکی میں مشعل راہ کا کام بھی کر سکتی ہے۔
******
IMG_20150214_111315

Share
Share
Share