بچوں کی نفسیات اورادبِ اطفال@ڈاکٹر سید اسرارالحق

Share

بچوں کی نفسیات

ڈاکٹر سید اسرارالحق

لیکچرر‘گورنمنٹ جونیر کالج‘شادنگر۔تلنگانہ
بچوں کی نفسیات اور ادبِ اطفال:

بچوں کی نفسیات اور ادبِ اطفال میں گہرا رشتہ ہے‘ بچوں کی نفسیات ہی بچوں کے ادب کو جنم دیتی ہے‘ بچو ں کے پڑھنے کی عادت اور بڑھتی ہوئی دل چسپی ہی نے بچوں کے لئے ایک الگ ادب کو جنم دیا جس کو ’’بچوں کا ادب‘‘ کہا جاتا ہے‘ بچوں کے ادب کی تعریف میں بھی نفسیاتی امور سے بحث کی جاتی ہے‘ اور کہا جاتا ہے کہ وہ نظم و نثر جن میں مفید معلومات‘ سلیس الفاظ اور دل پذیر اسلوب میں اس طرح بیان کی جائیں جن سے بچوں کو مسرت حاصل ہو اور انکی نفسیاتی تسکین بھی ہو، ’’بچوں کا ادب‘‘ کہلاتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کے لئے لکھنے والا ماہر نفسیات ہو‘ یا علم نفسیات کی کتابیں پڑھ کر ہی وہ ایسا ادب تحریر کرسکتا ہے‘ بلکہ اگر ہم اپنے مشاہدات و تجربات کو سامنے رکھیں‘ اپنے ذہن میں جھانکیں اور اپنے بچپن کی مختلف یادوں کے گنجینے کو کریدیں تو ہم پر وہ نفسیات واضح ہوجائیں گی جن کی روشنی میں ہم بچوں کی نفسیاتی تسکین کا سامان فراہم کرسکتے ہیں۔

جیسے جیسے تہذیب و تمدن میں تبدیلیاں ہوئیں‘ بچوں کی نفسیات بھی متاثر ہوتی رہی ہیں‘ صرف سو سال قبل کی بات کریں تو آج کے اور اس وقت کے ماحول‘ سماجی اور سیاسی حالات‘ نیز اخلاقی و مذہبی رجحانات میں زمین و آسمان کا فرق بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے‘ آج دنیا تیز رفتار ترقی کی طرف گامزن ہے‘ جدید سائنسی آلات‘ ایجادات‘ انکشافات اور ٹکنالوجی نے بچوں اور بڑوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے‘ آج کے بچے پہلے جیسے نہیں رہے‘ وہ بہت ہوشیار اور سمجھ دار ہوگئے ہیں‘ ان کی قوت متخیلہ بہت تیز ہوگئی ہے‘ ان سب کے پیچھے نفسیات کا بڑا ہاتھ ہے۔
بچوں کو ایسی کتابیں پسند آتی ہیں‘جو ان کے مستقبل کو بنانے میں معاون ثابت ہوں‘ نہ کہ ایسی کتابیں جو ان کے تصورات کے اڑن کھٹولے کو ان کے مستقبل تک نہ لے جاسکیں‘ اسی وجہ سے مافوق الفطرت کردار اور واقعات اب اپنی دل چسپی کھوتے جارہے ہیں‘ بچے ایسی کہانیں سن کر پری سے ملنا چاہتے ہیں‘ ’’جن‘‘ کو دور سے دیکھنا چاہتے ہیں‘ دیو کو سزا دینا چاہتے ہیں‘ جب بچوں کو حقیقی دنیا کا پتہ چلتا ہے‘ تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں‘ اب بچے ہوائی جہاز‘ راکٹ‘ میزائیل اور مصنوعی سیارے وغیرہ میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں‘بچوں میں زبردست نفسیاتی تبدیلی خود بہ خود آرہی ہے۔
مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے حامل بچوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ نہایت ضروری ہے‘ بچوں کی نفسیات کوئی ایسا مشکل موضوع بھی نہیں ہے‘ جس کو عام والدین اور فن کار نہ سمجھ سکتے ہوں‘ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی حرکتوں‘ عادات و اطوار‘ مزاج‘ پسند اور رجحانات کا صحیح پتہ لگانا اور مستقبل کے لئے ان کی صحیح رہ نمائی کرنا ہی بچوں کی نفسیات کی شناخت ہے‘ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بچہ اچھی اچھی حرکتیں کرتا ہے‘ عقل مندی کا کام کرتا ہے اور صحیح سوالات کا صحیح جواب دیتا ہے تو بڑے بہت خوش ہوتے ہیں‘ لیکن اگر وہ توڑ پھوڑ کرتا ہے‘ تو اس پر غصہ کرتے ہیں‘ حالاں کہ ان دونوں افعال کے پیچھے بچے کے دل میں اچھے ‘ برے کا کوئی احساس کارفرما نہیں ہوتا‘ وہ تو معصوم ہے‘ اچھے اور برے کا فیصلہ تو بڑوں نے کیا ہے‘یہ افعال تو محض بچے کے دل کے احساسات اور جوش کو مطمئن کرنے والے ہیں۔
بچہ ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے‘ وہ ان تمام حالات کا اپنے طرز پر مقابلہ کرتا ہے‘ جو اس کے سامنے آتے ہیں‘ اس کے برتاؤ کی یہ منزل خاص طور پر قابل توجہ ہے‘ بچے کی یادداشت‘ اس کے مطالعہ کی دل چسپی‘ ا سکے جذبات سب ہی کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے‘ بچہ ایک ایسے ماحول میں رہتا ہے جو اس کے مزاج‘ برتاؤ اور اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کو برابر متاثر کرتا ہے‘ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ اسی ماحول سے پیدا ہوتا ہے‘ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسی ماحول سے اپنے مستقبل کے لئے راہیں منتخب کرتا ہے‘ بچوں میں سارے کام کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن وہ بڑوں کے بتانے اور سکھانے سے ہی ابھر کر سامنے آتی ہیں۔
نیپولین نے ایک بار انسانی نفسیات کو جاننے کے لئے بیس بچوں کو جن کی عمریں چند ماہ کی تھیں‘ دوسال تک اکیلے رکھا‘ ان بچوں سے کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں تھی‘ صرف انہیں غذا فراہم کی جاتی تھی‘ تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے بیش تر گونگے ہوگئے‘ اور کچھ بچوں کا یہ گونگا پن دائمی ہوگیا‘ لہٰذا اگر ہم بچوں کو کوشش کرکے زبان نہ سکھائیں تو وہ بولنا بھی نہ سیکھیں گے۔
انسان میں سیکھنے کی فطرت سب سے زیادہ ہوتی ہے‘ اور بچپن ہی سے اس کے تمام فطری رجحانات آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں‘ مگر یہ فطرت اور رجحانات توجہ نہ دینے پر تبدیل بھی ہوتے جاتے ہیں‘ ان تبدیلیوں پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے‘ ورنہ بچے گمراہ ہوسکتے ہیں‘ بچوں کی فطری صلاحیتوں کو اس طرح ابھرنے دینا چاہئے کہ بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں کوئی رکاوٹ نہ آئے‘ بچے کی نشوونما کے دوران اس کی فطری صلاحیتوں اور رجحانات پر نظر رکھنا اور ان کی مناسب تہذیب کرنا بڑوں کاکام ہے۔
۱۔خواہش اضطراب:
جس طرح اس دنیا کے لئے بچے نئے ہوتے ہیں‘ اسی طرح یہ دنیا بھی بچوں کے لئے نئی اور عجوبہ ہوتی ہے‘ بچے اس عجائباتی دنیا کی ہر چیز کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش کو الٹ پلٹ کر اور توڑ پھوڑ کر اپنی خواہش اور اضطراب کو آسودہ کرلیتے ہیں‘ اور جب ان کو زبان آجاتی ہے تو وہ بڑوں سے الٹے سیدھے سوالات کرنا شروع کردیتے ہیں‘ کیوں‘ کیسے‘ کب اور کہاں؟ جیسے سوالات کا ایک ذخیرہ بچوں کے پاس ہوتا ہے‘ زیادہ تر ماں باپ اس کے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے‘ یا جواب دینے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے‘ تو بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کرادیتے ہیں‘ اگر اس جذبہ کو بچپن میں دبادیا جائے تو بچے کی معلومات محدو ہوکر رہ جائیں گی‘ اگر بچہ کی ہرچیز کے بارے میں جاننے کی خواہش کی ہمت افزائی کی جائے اور اس کی صحیح رہ نمائی کی جائے تو بچے کا ذہن تیزی سے ترقی کرتا ہے‘ اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوتا ہے۔
۲۔عملی رجحانات( کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت):
کچھ نہ کچھ کرتے رہنا بچوں کی عادت میں شامل ہے‘ وہ خاموش بیٹھ نہیں سکتے‘ کچھ نہ کچھ تعمیری یا تخریبی کام میں لگے رہتے ہیں‘ توڑ پھوڑ اور برباد کرنے سے بہ ظاہر سراسر نقصان ہے‘ ابتداء میں صرف اس نکتے کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور بچوں پر سختی نہیں کرنی چاہئے‘ کیوں کہ اس سے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت کی نشوونما ہوتی ہے اور انہیں تعمیر اور تخیل کی طرف لے جاتی ہے‘ تعمیری افعال اور تخیل میں بڑا گہرا تعلق ہے‘ مشینوں کے الگ الگ پرزے بنانے والے پلاسٹک کے کھلونے‘ ریت کے گھروندے ‘ مٹی کے گھر‘ گڑیا گڈے کی سجاوٹ ‘ حروف کو جوڑ کر لفظ تیار کرنے والے کھلونے او ر تعلیمی و لسانی کھیلوں کے ذریعہ اس رجحان فروغ دیا جاسکتا ہے‘ اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی جاسکتی ہے۔
۳۔خودنمائی کی عادت:
یہ عادت نہ صرف بچوں میں بلکہ بڑوں میں بھی ہوتی ہے‘ بچوں میں یہ فطرت شروع سے ہوتی ہے‘ وہ اچھے کپڑے پہن کر سب کو دکھاتے ہیں‘ اگر کوئی تصویر بنائی تو اسے دکھا کرداد حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ خصوصاً بچیوں میں یہ عادت زیادہ ہوتی ہے‘ بچہ کسی کے بھی مقابلہ میں خود کو کمزور تصور نہیں کرتا‘ یہ فطرت بڑا ہونے پر بچے کو باہمت اور بہادر بناتی ہے‘ تعلیم‘ کھیل کود اور خدمت کے میدان میں یہ عادت بڑے کام انجام دیتی ہے‘ اس فطرت کی صحیح نشوونما ضروری ہے‘ ورنہ بچہ باغی اور سر پھرا ہوجائے گا۔
کچھ والدین دوسروں کے سامنے اپنے بچے کی برائی کرتے ہیں‘ اس سے بچے کی انا کو ٹھیس لگتی ہے‘ اس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں‘ اور اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے‘ اسی طرح کچھ والدین بچے کے سامنے اس کی بہت زیادہ اور بے جا تعریف کرتے ہیں‘اس سے بچے میں خواہ مخواہ احساس برتری پیدا ہوجاتی ہے‘ لہٰذااس فطرت پر بہت زیادہ احتیاط سے نظر رکھنی چاہئے‘ تاکہ بچہ نہ تو احساس کمتری کا شکار ہو اور نہ احساس برتری کا‘ کیوں کہ یہ دونوں ہی چیزیں بچے کے مستقبل کے لئے نہایت نقصان دہ ہیں۔
۴۔چیزوں کو جمع کرنا:
بچے اپنی پسندیدہ چیزوں کو جمع کرتے ہیں‘ اور انہیں بڑی حفاظت سے چھپاکر رکھتے ہیں‘گرچہ وہ چیزیں بڑوں کی نگاہ میں معمولی اور بے قیمت ہوں‘ مگر بچوں کے نزدیک بہت اہم اور قیمتی ہوتی ہیں‘ اس لئے بڑوں کو ان کی پسندیدہ چیزیں جمع کرنے پر روک نہیں لگانا چاہئے‘ اگر بچوں کی اس فطرت کو دبانے کی کوشش کی گئی تو وہ لاپرواہ اور غیر ذمہ دار ہوجائیں گے‘ اور قیمتی چیزوں کی حفاظت میں بھی غفلت کریں گے‘لیکن اس فطری رجحان کی یہ عادت حدِ اعتدال سے بڑھ گئی تو بچے لالچی‘ کنجوس اور خود غرض ہوجائیں گے‘ اس عادت کو مفید بنانے کے لئے بچوں سے خوب صورت اور نادر تصاویر‘ ڈاک کے ٹکٹ کے البم تیار کروانا چاہئے‘ اور بڑے بچوں سے گھر میں اخبارات‘ میگزین‘ کتب اور نادر اشیا کا چھوٹا سا میوزیم تیار کروانا چاہئے۔
۵۔احترام اور فرماں برداری:
ہر بچہ میں اپنے بڑوں کے تئیں احترام اور فرماں برداری کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ اور یہ بچوں کے روشن مستقبل کی خاطر مطلوب بھی ہے‘ اگر بچے میں یہ فطرت نہ ہو تو سماج میں اس کا جینا مشکل ہوجائے‘ اس لئے اخلاقی اور سماجی دونوں اعتبار سے بچوں میں اس عادت کو فروغ دینا ضروری ہے‘ بچے ان کا احترام اور فرماں برداری زیادہ کرتے ہیں جن سے انہیں محبت و عقیدت ہوتی ہے‘ اور جن سے وہ متاثر ہوتے ہیں‘ اس لئے بڑوں کو محبت اور پرتاثیر انداز میں ہدایات و احکام دینا چاہئے‘ حاکمانہ اور جارحانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہئے‘ اگر بڑوں کی نصیحت کا انداز جارحانہ ہو تو بچے بے ادب‘ نافرمان اور باغی ہوجائیں گے۔
۶۔نقل اور تقلید:
انسان کا تقریباً نوے فی صد عمل نقل اور تقلید پر مبنی ہوتا ہے‘ بچوں میں یہ فطرت بہت زیادہ ہوتی ہے‘ وہ آسانی سے ہر ایک کی نقل کرلیتے ہیں‘ اسی فطری رجحان کے باعث بچے بڑوں کی طرح مہذب زندگی گزارنے کے لائق ہوتے ہیں‘ پاکی‘ صفائی ‘ سلیقہ‘ وقت پر اپنا کام کرنا‘ صبح سویرے اٹھنا‘ عبادت کرنا‘ مطالعہ کی عادت‘ دوسروں کے ساتھ ہمدردی و خوش اخلاقی یہ سب بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں‘ اگر گھر کا ماحول خوش گوار ہے‘ پاس پڑوس کے رہنے والے مہذب ہیں‘ تو بچہ بھی مہذب بن جائے گا‘ اس کے برخلاف اگر گھر اور پا س پڑوس میں انتشار ‘ لڑائی جھگڑے اور گندگی ہے تو بچہ غیر مہذب ہوجائے گا۔
۷۔مقابلہ:
بچوں میں مقابلہ اور مسابقت کا جذبہ بہت ہوتا ہے‘ تعلیم‘ کھیل کود‘ محنت اور خدمت کے کاموں میں بچے ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘ اس لئے اس جذبہ کو فروغ دینا چاہئے‘ اگر بچے میں صحیح طور پر مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ بہت عقل مند‘ سمجھ دار‘ تیز‘ بہادر اور باہمت بنے گا‘ لیکن مقابلہ میں بچوں کو حسد سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے‘ انہیں انصاف کا سبق سکھانا چاہئے کہ مقابلہ میں جو آگے بڑھ گیا اسے تسلیم کرنا چاہئے‘ اس کی تعریف اور اسے مبارک باد پیش کرنا چاہئے‘ اور اس سے جلنا نہیں چاہئے‘ بلکہ آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لئے مسلسل کوشش میں لگے رہنا چاہئے‘ تاکہ ایک دن ضرور کامیابی ملے۔
۸۔ہم دردی کا جذبہ:
بچوں میں ہم دردی کا فطری جذبہ پایا جاتا ہے‘ لیکن اپنے مزاج کے خلاف ہونے پر وہ دوسروں کو اذیت بھی دینے لگتے ہیں‘ بچوں میں ہم دردی کے جذبہ کو اس طرح فروغ دیا جائے کہ وہ صبر‘ برداشت اور ایثار سے کام لیتے ہوئے ہر حال میں ہم دردی کا دامن تھامے رہیں‘ جس بچے میں ہم دردی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے‘ اس کے کردار اور زبان میں مٹھاس پیدا ہوجاتی ہے‘ اور اس کی شخصیت پرکشش ہوجاتی ہے۔
۹۔قوتِ تخیل:
چار پانچ سال کی عمر کے بعد بچے کے تخیل کی پرواز بہت تیز ہوجاتی ہے‘ اس کا ذہن تیزی سے کام کرنا شروع کردیتا ہے‘ وہقدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے‘ وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے متاثر ہو کر مختلف چیزوں کے بارے میں سوال کرتا ہے‘ وہ اپنے بڑوں سے جو کچھ سنتا ہے‘اس کا تخیل کرتا ہے‘ کہانی سنتے سنتے بچے کے ذہن میں اچانک‘ ایک منظر ابھر آتا ہے‘ اور جیسے جیسے کہانی بڑھتی ہے‘ بچے کا تخیل بھی بچے کو اس منظر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھاتا ہے‘ اس طرح بہت سی غیر متعین اور ان دیکھی چیزوں اور باتوں کی ایک تخیلی شکل بن جاتی ہے‘ کہانیوں کے ذریعہ اس کی قوتِ تخیل بڑھتی ہے‘ مگر آج کے دور میں خیالی کہانیوں کا تاثر بہت محدود ہوگیا ہے‘ جدید سائنسی انکشافات نے ہمارے بہت سے نظریات کو متاثر کیا ہے اور ان کو بدل کررکھ دیا ہے‘آٹھ‘نو سال کی عمر کو پہونچتے پہنچتے بچہ حقیقی دنیا کو سمجھنے لگتا ہے‘ اور بے بنیاد باتوں کا تخیل اب بچوں کو پسند نہیں آتا۔
بچوں کے تخیل کی نشوونما کے سلسلہ میں کہانی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے افلاطون نے کہا تھا کہ گھر کی عورتوں کو اچھی اچھی کہانیاں یا کرائی جائیں جو وہ اپنے بچوں کو سنائیں ‘ بچوں کو ایسی کہانیاں ہرگز نہ سنائی جائیں جو ان میں غیر اخلاقی باتوں کو جنم دیں۔ بچوں کے ادب کی خصوصیات میں سادگی اور سادہ اسلوب بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ بہت سی اچھی نظمیں‘ کہانیاں اور ڈرامے بچوں کی دلچسپی کو ابھارنے میں اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ ان کا انداز بیان بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے غیر دل کش ہوتا ہے‘ یا بچوں کی اپنی زبان میں نہیں ہوتا۔
غرض بچوں کا ادب اور بچوں کی نفسیات دونوں میں گہرا ربط و تعلق ہے‘ بچوں کی نفسیات کا بھرپور مطالعہ و مشاہدہ کئے بغیر کوئی ادیب اور شاعر ان کے لئے اچھی کتب نہیں لکھ سکتا‘ ادبِ اطفال کے لئے خود بچے ایک کسوٹی ہیں‘ کیوں کہ وہ اپنی دل چسپی اور شوق سے ہی کتابیں پسند کرتے اور پڑھتے ہیں‘ بچوں کی نفسیات کا عمیق مطالعہ ہی بچوں کے ادب کی بنیاد ہے۔

ڈاکٹرسید اسرارالحق
ڈاکٹرسید اسرارالحق


Written by : Dr Syed Asrarul Haque
Mob: +919346651710

Share
Share
Share