شاعراوردوست ۔۔۔ ناممکن!@نعیم جاوید

Share
شاعر اور دوست
نعیم جاوید

شاعر اور دوست۔۔۔ناممکن!

نعیم جاوید ۔۔۔ دمام


مشاعرے اردوزبان کی تہذیبی پیش رفت کا حسین اظہار ہوتے ہیں۔ مشاعرے ہماری تہذیب کے امین بھی ہیں۔ اس ادبی پڑاو پرادب اشنا روحوں کاحسین سنگم دیکھنے کو ملتا ہے۔ شعرا مشاعروں کے وساطت سےسخن شناسوں کی سماعتوں کو سیراب کرتے ہوئے مدتوں ذہن دل میں رچ بس جانے والے اشعارسے سامعین کے ذوق کا سامان کرتے ہیں۔ ایسے میں نئے سننے والوں کی تربیت ہوتی ہے۔ اور اعلی ذوق رکھنے والوں کی روح بھی آسودہ ہوجاتی ہے۔ مشاعروں میں کبھی ترنم کا جادو جاگتا ہے۔ کہیں منفرد طرز میں پڑھے جانے والے شعر وادئ جاں میں اتر جاتے ہیں۔ کبھی کسی نازک سے خیال کو تمثیلی الفاظ ملتے ہیں۔ کبھی نظم کاسحر اور کبھی شاعری کی دلہن ’’غزل‘‘ کا بانکپن اپنا جادو جگاتا ہے۔ جس میں گل و بلبل جیسے پامال استعارے بھی معنی کی ایک نئی دنیاآباد کرجاتے ہیں۔۔اخلاق کے منتروں سے اوبی ہوئی دنیا بھی شعر کے جمال آفرین رنگ میں رنگ جاتی ہے۔مصلحین کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ اللہ اللہ کتنے مضامین ہیں جو شعر کے شانوں پر سوار پورے آفاق میں سفر کرتے ہیں۔

مشاعروں کے تئیں مذکورہ احساسات؛ ادارے اور عوام رکھتے ہیں۔ میں صرف زندہ دلوں کی بات کررہا ہوں۔۔ اردو سے نا بلد بیمار ذہنوں کی ہذیان گوئی کو چھوڑئیے۔
منتظم کی مشکل جب آتی ہےجب ایک زبردست مشاعرہ کروانے کی آرزو میں وہ وسائل اکھٹا کرتا ہے۔ اور مشہور شعرا کو بلا کر عوام کو ایک اچھی تفریح فراہم کرتا ہے۔۔ مقامی شعرا کی ایک بڑی تعداد ناراض ہوجاتی ہے جب انھیں نہیں پڑھایا جاتا ہے۔جانے کیوں شعرا ایسے شعلہ پوش، سریع الاشتعال ہوجاتے ہیں۔سبب واضح ہے کہ مشاعرے میں ان کے نام کی شمولیت نہ ہونے پر چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر کسی نے ایک شعر لکھ کر یا چند کتابیں لکھ کر شاعر کے منصب پر فائز ہوا تو سماج کی ہر مہذب سرگرمی سے وہ پوری طرح کٹ جاتا ہے یا مشروط تعلق جوڑ لیتا ہے۔۔ اس کا نیا تعارف یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کے بعد ’’سامع نہیں رہا، قاری نہیں رہا، دوست نہیں رہا، معاون اور منتظم نہیں رہا‘‘۔ وہ صرف وہاں وہاں جاتا ہے جہاں اس کو بحیثیت شاعر بلایاجارہا ہو۔ اگر نہ بلایا جائے تو اس ادبی سرگرمیں سے وہ کٹ جاتا ہے۔ ایک غیر سماجی فرد کی طرح تنہا جینے اور مر نے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔۔اگر اس کی بستی میں کوئی مشاعرہ ہورہا ہواور اس کو نہ پڑھایا جائے تو اس کی عزت پر حملہ اوراس کے خلاف علمِ بغاوت اور اس کے ادبی مسلک سے انحراف یا ادبی ارتداد کا مجرم گردانا جائے گا۔ چاہے منتظم مشاعرہ اس شاعرکے ساتھ ایک عمر بسر کی ہو۔۔مشاعرے میں نہ بلانے پر دوستی داو پر لگ چکی ہوگی۔ قربتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ وقت کی تنگی، وسائل کی تنگی اور عوامی پنسدیدگی کا بھی اس کو پاس نہیں ہوگا۔۔حالانکہ یہی شاعر اپنی نجی زندگی میں کوشش کرکے ولیمہ کھانے کی دعوت نہیں مانگتا لیکن مشاعرے میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔مشاعرے میں پڑھنا اس کےلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
کیا من وعن یہی رویہ کسی اور کھیل کا کھلاڑی بھی کرتا ہے۔ ہم نے دنیا بھر کےمہذب کھیل دیکھے ہیں جہان اسڈیڈیم میں جہاں بھر کے فعال کھلاڑی بھی بیٹھ کر مزہ بھی لیتے ہیں اور کسی صحافی کے سوال کرنے پر اپنی تنقیدی بصیرت کے اعتبار سے اپنی رائےبھی دیتے ہیں۔ لیکن شاعرتو اپنے مخالف اور دوستوں کی محفل میں قطعی نہیں جاتا۔ نہ چندہ دیتا ہے(اگردینے کی حیثیت میں ہو) نہ اس پر خوش ہوتا ہے۔
میں اس غم کا قطعی ذکر نہیں کررہا ہوں جہاں نوآموز شاعر کی فکری اور فنی ایذا رسانیوں سےادبی دنیا پناہ مانگتی ہے۔ جہاں وہ اپنے پہلے ہی شعرکی قئے کرنے کے لئے کسی غسل خانے کے گوشے کے بجائے ’’مشاعرہ گاہ کی شہہ نشین ‘‘ کو منتخب کرتا ہے۔ بلکہ میں ان اچھے بھلے شعرا کا ذکر کررہا ہوں جو فکر و فن سے واقف ہوں اور اپنی بستی میں مہمان شعرا کے محفل میں اپنی شرکت کو لازمی سجمھتے ہیں۔ مصیبت جب آن پڑتی ہیں جب کسی بستی میں ایک درجن شعرا ہوں اور سب شعرپڑھنا چاہتے ہوں تو منتظم مشاعرہ کیا کرے۔
ہم نے سو طرح سے سوچا بلکہ آزمایا ۔۔۔ شعرا ناراض ہی رہے۔کبھی باری باری سے موقعہ دیا پھر بھی ناراض۔۔۔۔سب چاہتے ہیں سب یکبارگی مشاعرے میں ہلہ بول دیں۔۔کسی کو اپنے عروضی ہونےکا غرور۔۔۔ کسی کو اپنی کہنگی پر ناز اور کسی کو کچھ ۔۔۔ اب عوام جو 500 رنگین ٹی وی چیانلس چھوڑ کر مشاعرے میں آئی ہے وہ کئی نئے صدمات سے گذرتی ہے۔
میراتجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک مشاعرہ کرواو اور تمام مقامی شعرا سے ناطہ توڑ لو۔اور اپنی ماہانہ ادبی محفل ویران کردو۔ کوئی کھلاخط لکھے گا۔ کوئی اس مشاعرے کو حقیر گردانے گا۔۔کوئی سازشی مہم قراردے گا۔۔کوئی علاقائی تہمت لگائے گا۔ اس سلسلے میں ثقات ادب سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے درخواست کرنا چاہوں گا جو بڑے مشاعرے کرنا اور کروانا جانتے ہوں۔ لیکن خواص کے ادبی اجلاس اور تجزیاتی محفلوں کو میں ادب کی سنجیدہ خدمت سمجھتا ہوں۔۔ان معیارات کو میں عوامی مشاعرے میں بہ وجوہ شامل نہیں کرنا چاہتا ہوں۔

Share
Share
Share