افسانہ : بے وفا ۔۔۔:۔ شاہ نواز شاہ

Share
  شاہ نواز شاہ
Shahnawaz shah

بے وفا

از۔ ۔ شاہ نواز شاہ
Cell:+919949204759

جوزف اپنے ماں باپ کا اکلوتا ہونے کے باوجود شریف النفس ، ایماندارومحنتی نوجوان تھا۔وہ پرائیوٹ کمپنی میں ملازم تھا۔زندگی خوب مزہ سے گذر رہی تھی۔ لیکن جوزف کی ماں ان دنوں اکثر بیمار رہا کرتی۔اس لئے ماں باپ سوچ رہے تھے کہ کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر بیٹے کی شادی کردیں۔ایک دن ماں کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اُسے ہاسپٹل لیجاناپڑا‘ ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور جوزف سے کہا۔
’’پریشانی کی کوئی بات نہیں ‘بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہے‘ انہیں آرام کی سخت ضرور ت ہے۔‘‘
اسی لئے انہیں دو چار دن ہاسپٹل میں رہنا ہوگا۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیں بھی لکھ دیں۔
ڈاکٹر نے نرس سے کہا۔ ’’ماریہؔ ‘ پیشنٹ کوروم میں لیجاؤ۔ ‘ ‘

ماریہ ایک اوسط گھرانے کی لڑکی تھی ‘بہت ذہین اور بلا کی خوبصورت ‘ جوزف کی ماں نے دل ہی دل میں سوچا ‘ لڑکی اچھی ہے۔ اگر میرا بیٹا راضی ہوجائے تو اس کی شادی ماریہ سے ہوسکتی ہے۔جوزف کی ماں نے اس سے دریافت کیا۔
’’بیٹی تمہارے گھر میں کون کون رہتے ہیں۔‘‘ماریہ نے بڑی خوش اسلوبی سے جواب دیا۔’’ماں جی میرے ماں باپ کے علاوہ میری تین چھوٹی بہنیں ہیں‘ اور میرا گھر پاس ہی ہے۔‘‘جوزف کی ماں نے اس سے گھر کا پتہ پوچھ لیا۔
ہاسپٹل سے ڈسچارچ ہونے کے بعد جوزف کے ماں باپ نے آپس میں مشورہ کیا اور بیٹے سے کہا ’’ہم ماریہ کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں‘‘ تمہارا کیا خیال ہے۔اس نے شرماکر حامی بھر لی‘دوسرے ہی دن جوزف کی ماں نے ماریہ کے گھر اطلاع پہنچادی کہ رشتہ کی بات چیت کے لئے آنا چاہتے ہیں۔ جوزف کے کچھ رشتہ دار اور ماں باپ ماریہ کے گھر رشتہ طئے کرنے کے لئے پہنچے۔ماریہ کے گھر والے فوراً راضی ہوگئے۔ماریہ کی بھی مرضی معلوم کی گئی تو اس نے اپنی نگاہیں نیچی کرلی مگر حیاء وخوشی کے آثار اس کے چہرہ پر صاف نظر آرہے تھے اور اس کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا تھا۔سب لوگ بہت خوش تھے۔ ماریہ کی چار بہنیں تھیں اور یہ سب سے بڑی تھی۔ اس کاکوئی بھائی نہیں تھا۔
پھر وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا‘ یعنی جوزف اور ماریہ کی شادی۔ دونوں ہنی مون پر چلے گئے چند ہی دنوں میں جوزف کا تبادلہ دوسرے شہر کی برانچ میں ہوگیا۔جوزف اور ماریہ وہیں رہنے لگے۔ہفتہ دس دن میں دونوں اپنے اپنے گھر کو فون کرلیا کرتے۔ اس سے گھر کی کیفیت معلوم ہوجاتی تھی۔ اسی اثناء میں ماریہ کو ایک لڑکا تولد ہوا‘یہ خوشخبری سن گھر والے بہت خوش ہوئے۔جوزف نے اپنے کمپنی کے ڈائرکٹر سے بات کی اور اپنا تبادلہ واپس پُرانی جگہ پر کروالیا۔اس سے جوزف اور ماریہ کے والدین بہت خوش ہوئے‘جوزف کے والد کہنے لگے ۔
’’ میرے بہو اور بیٹے کے ساتھ ساتھ میرا پوتا بھی گھر آگیا ہے۔‘‘
ماریہ سوچ رہی تھی کہ ایک لڑکے کے بعد اگر ایک لڑکی ہوجائے تو اچھا تھا مگر ماریہ کا یہ خیال غلط ہوا اسے دوسرا بھی لڑکا ہی ہوا۔جوزف نے اپنے بڑے بیٹے کو گورنمنٹ اسکو ل میں داخل کروادیا۔ دوسرا لڑکا ابھی چھوٹا تھا۔
گھر کے اخراجات دن بدن بڑھتے ہی جارہے تھے اور جوزف کی آمدنی محدود تھی۔ دونوں میں اس بات کو لیکر چٹ پٹ جھگڑے بھی شروع ہوگئے تھے۔جوزف کی تنخواہ میں گھر تو اچھی طرح چل پاتا۔ مگر ماریہ کی شاہ خرچی ‘ہر مہینہ میک اپ کا سامان‘ہاسپٹل کے دوستوں کی دعوتیں‘سیر وتفریح اور ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی نئی فلم۔ جوزف چاہتا تھا کہ بے جا اسراف کے بجائے اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکول میں داخل کروائے اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ رہے۔لیکن ماریہ اپنی اس رنگین دُنیا میں مست تھی۔
ایک دن جوزف کو اچھے موڈ میں دیکھکر ماریہ نے کہا۔
’’جوزف ! اگر تم اجازت دو تو میں پھر سے ہاسپٹل میں کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ جوزف کچھ دیر کے توقف کے بعد بولا۔
’’ماریہ اگر تم ہاسپٹل چلے جاوگی تو ماں اور بچوں کی دیکھ بھال کون کریگا‘ نہیں، نہیں تم گھر پر رہو ‘میں ہی کچھ کرتا ہوں۔‘‘
لیکن ماریہ نہیں مانی ‘اپنی ضد پر اڑی رہی‘دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا اور ماریہ اپنے میکے چلی گئی ۔
جوزف کے ضعیف ماں باپ بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے۔جوزف کو بہت سمجھایا کہ ’’بیٹا جاؤ بہو کو سمجھاکر گھر لے آؤ۔ اس کے بغیر گھر سونا سونا لگ رہا ہے۔
ادھر ماریہ کے ماں باپ بھی پریشان تھے کہ اچھے بھلے گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔بیٹی کو سمجھانے لگے ‘ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا‘ کیونکہ جوزف بے حد شریف انسان ہے‘ جاؤ اُس سے معافی مانگو‘ لیکن ماریہ نہیں مانی۔
اسی طرح کئی دن گذر گئے، ایک دن جوزف کو اچانک حلق میں درد ہونے لگا۔اس نے اسے معمولی سمجھ کر ٹال دیا ‘ جب درد حد سے بڑھ گیا تو ایک حلق کے ڈاکٹرسے رجوع ہوا۔ڈاکٹر نے تفصیلی جانچ کے بعد کئی قسم کے معائنے لکھے‘ اس نے معائنے کروائے اور رپورٹ کا انتظار کرنے لگا‘ پھر رپورٹ لیکر ڈاکٹرکے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر جوزف سے کہا۔
’’ تمہیں بہت پہلے آنا چاہیئے تھا ‘ اب بہت دیر ہوچکی ہے‘ تمہیں …حلق کا کینسر ہے!!‘‘
جوزف ایکدم گھبرایااور ڈاکٹر سے کہنے لگا۔
’’کیا اس بیماری کا کوئی علاج نہیں؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا۔ ’’ہاں! علاج توہے…. لیکن تھوڑا مہنگا ‘لیکن تمہارا کینسر تو آخری اسٹیج پر ہے‘ اب کوئی فائدہ بھی تو نہیں….‘‘
اِدھر ماریہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بھی پریشان ہوئی مگر جوزف کی بیماری کو لیکر نہیں۔اپنے بارے میں سوچ کر کہ اس کی موت کے بعد میرا کیا ہوگا؟
ماریہ گھر واپس آئی اور جوزف سے کہنے لگی۔
’’ مجھے ابھی اسی وقت طلاق چاہیئے! ورنہ میں قانونی چارہ جوئی کرونگی۔‘‘
یہ الفاظ سن کر جوزف پر سکتہ طاری ہوگیا‘اُس کے منہ سے آواز نہیں نکل پارہی تھی‘وہ ماریہ کو کتنا چاہتا تھا اور ماریہ اس کا یہ صلہ دے رہی تھی۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے سوال کیا۔’’تو بچے کس کے پاس رہینگے۔‘‘ ماریہ نے کہا تمہارے بچے ہیں تم ہی رکھ لو۔
جوزف نے کہا ۔’’کیوں کیا وجہہ ہے کہ تم آج اچانک طلاق کے لئے اصرار کررہی ہو‘‘
ماریہ نے کہا ۔’’تمہیں تو کینسر ہوگیا ہے‘ تمہاری زندگی کا کیا بھروسہ!‘‘جوزف نے ماریہ کی ضد کے آگے مجبور ہوکر طلاق دے دی ۔
کچھ دنوں بعدجوزف ڈاکٹر سے رجوع ہوا تو ڈاکٹر نے کہا۔
’’مبارک ہو جوزف! تمہیں کینسر نہیں ہے‘ وہ رپورٹ تو کسی اور کی تھی۔ غلطی سے اُس پر تمہارا نام لکھ دیا گیا تھا۔‘‘
یہ سن کر جوزف بہت خوش ہوا اور سیدھا گھر آیا اور یہ خوشخبری ماں باپ کو سنایا۔ماں باپ بھی بہت خوش ہوئے۔ اسی طرح کئی دن گذر گئے۔
جوزف کے ماں باپ نے پھر سے اس کی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔کیوں کے بچوں کی پرورش کا مسئلہ تھا‘ دونوں بچے اب اسکول کو جانے لگے تھے۔ان کی دیکھ بھال ‘ڈریس کی صفائی وغیرہ۔
کئی دنوں کی کوشش اور چھان بین کے بعدجوزف کی شادی ایک اچھے گھرانے میں طئے پائی‘ اور سادہ انداز میں اس کی دوسری شادی ہوگئی۔اس کی دوسری بیوی نہایت شریف‘خوش اخلاق‘ملنسار باکردار عورت تھی۔ جوزف کو بھی ایسی ہی شریک حیات کی ضرورت تھی۔وہ اپنے شوہر اور دونوں بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی اورساس سسر کی خدمت بھی دل سے کرتی تھی۔اس لئے گھر کے سارے لوگ اس سے بہت خوش تھے۔
اُدھرماریہ ہاسپٹل میں کام کرنے لگی تھی۔لیکن اب اُس کی وہاں پہلے جیسے عزت نہیں تھی کیونکہ سماج میں ہوس کے بھوکے درندوں کی کوئی کمی نہیں ۔ ماریہ کو ہر کوئی غلط نظر سے دیکھتا تھا‘ اس پر گندے فقرے کستے تھے ان سب باتوں سے تنگ آکر ماریہ نے نوکری چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔وہ دوسرے ہاسپٹل میں نوکری کے لئے درخواست دی‘ وہاں اس کی درخواست منظور ہوگئی ۔لیکن یہاں بھی اسے تنگ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی کیونکہ ماریہ ایک طلاق شدہ عورت تھی۔ ویسے بھی وہ بہت خوبصورت تھی‘گداز جسم، رنگ گورا،غلافی آنکھیں،ہونٹ شربتی، سیاہ گھنے لمبے بال اور گال گلابی …..کوئی بھی اسے دیکھ کر فریفتہ ہوجاتا ۔
ماریہ بہت پریشان تھی ایک تو گھر والے اسے طعنے دیتے تھے کہ اچھے بھلے شریف النفس آدمی کے ساتھ تم نے ایسا سلوک کیا‘ تم جب تک اس گھر میں رہوگی تمہاری بہنوں پر اس کا بُرا اثر پڑیگا‘ان کے لئے اچھے رشتہ نہیں آئینگے ۔ماریہ پریشان تھی کہ اب کیا کیا جائے؟ کس کے پاس جائے؟ کون ہے جو اسے سہارا دے۔؟ ماریہ اب بے سہارا ہوگئی تھی‘ اُسے اس محاورے کے مصداق ’’نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔ آخر کار مجبور ہوکر ماریہ نے ایک چرچ کے یتیم خانہ میں پناہ لی۔
ایک دن جوزف اُسی چرچ میں پرئیر کے لئے آیا۔ اتفاق سے ماریہ کی نظر جوزف پر پڑی۔ماریہ دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئی اورخَجالَت کیساتھ کہنے لگی۔
’’جوزف میں اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہوں مجھے معاف کردو۔‘‘
جوزف نے کہا ۔’’ ماریہ تم بے وفا ہو… خیر اب بہت دیر ہوچکی ‘ میری دوسری شادی ہوگئی ہے میں بہت خوش ہوں‘ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ۔‘‘
یہ سن کرماریہ گم صم کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ماریہ کے کانوں میں یہ جملہ بار بار گونج رہا تھا۔ ’’تم بے وفا ہو‘ تم بے وفا….. بے وفا……‘‘
***

SHAHNAWAZ SHAH
H. No. 9-10-241, Risalabazar,
Golconda Fort, Hyderabad-500 008. (India. )
Cell: 9949204759 , 8341707561 (Office: 040-66329588
E-mail:

Share
Share
Share