غزلیات کا مجموعہ’رَمِ آہو،ایک مطالعاتی نشست‘‘کا انعقاد

Share

رمِ آہو

حسنین عاقب

رمِ آہو ۔

حسنین عاقب ؔکے غزلیات کا مجموعہ ’رَمِ آہو،

پوسد: مہاراشٹرا (ثاقب شاہ، پوسد)
نئے زمانے کی ایجادات اور اپنی زبان کے تئیں ہمارے تغافل نے ہمارے طلباء کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زندگیوں سے بھی مطالعہ کی اہمیت اور روایت ختم ہوگئی ہے۔ اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نئی نسل کے کچھ نوجوانوں نے باہم مل کر اپنے استادِ محترم ، معروف شاعر، ادیب، نقاد، مترجم اور ماہرِ تعلیم جنا ب خان حسنین عاقبؔ کی کتاب ’رَمِ آہو‘ کے مطالعے کی نشست منعقد کی تاکہ سامعین کو کسی اردو کتا ب کے مطالعے کی طرف راغب کیا جاسکے۔ حسنین عاقبؔ کی کتاب ، رَمِ آہو، ان کا مجموعۂ غزلیات ہے جس نے بہت ہی کم عرصے میں شمس الرحمن فاروقی ؔ سے لے کر ظفر ؔ گورکھپوری اور پھر نئی نسل کے بہت سے نقادوں، شاعروں اور ادیبوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جناب شمس الرحمان فاروقی صاحب نے رَمِ آہو، کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حسنین عاقب ؔ کی شاعری اعلیٰ معیار کی حامل اور اوریجنل شاعری ہے۔ رَمِ آہو، عہدِ حاضر کی ان چند کتابوں میں ایک ہے جن کی بے حد پذیرائی کی جاتی ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رَمِ آہو کا پہلا ایڈیشن نہایت قلیل عرصے میں نایاب ہوگیا۔ اب اس کے دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں چل رہی ہیں۔

۲/ مئی ۲۰۱۵ ؁ کو غلام نبی آزاد ایجوکیشنل کامپلکس ، پوسد میں حسنین عاقب ؔکے شاگردانِ خصوصی محمد مزمّل، عبدالرازق، محمد صادق، محمد شہباز ، نذیر آفتابؔ کے ساتھ شہر کی نئی نسل کی نمائندگی کرنے والے محمد صدیق، محمد رضوان ، محمد نفیس اقبال و دیگر معززینِ شہر کی معاونت سے رَمِ آہو، ایک مطالعاتی نشست کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت محترم مفتی کلیم رحمانی صاحب نے فرمائی۔ مہمانِ خصوصی جناب شہاب الدین شیخ، پرنسپل، اور جناب گو وردھن موہتے، موظف افسرِ تعلیمات، رونقِ محفل تھے۔ حافظ مبین کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے نشست کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد رَمِ آہو، پر تبصرہ خوانی ہوئی۔ اہم مبصرین میں ذاکراللہ بیگ صاحب، دلاور خان ساحلؔ ، ایڈوکیٹ اظہر احمد خان، پروفیسر پرویز شاہ، شہاب الدین شیخ صاحب نے رَمِ آہو پر اپنے اپنے تجزیاتی مقالے پیش کئے۔ پرنسپل شہاب الدین شیخ نے حسنین عاقبؔ کی ہمہ جہت شخصیت کو پوسد شہر کے لئے ایک تحفہ قرار دیتے ہوئے کہا یہ کہ ہمارے شہر کی خوش قسمتی ہے کہ حسنین عاقبؔ ہمارے درمیان موجود ہیں اور رَمِ آہو کی عالمی سطح پر پذیرائی کی وجہ سے ہمارے شہر کا نام بھی روشن ہوا ہے۔ شری گووردھن موہِتے نے اعتراف کیا کہ میں ایک طویل عرصے سے حسنین عاقبؔ کی شخصیت اور شاعری ، دونوں کا مداح ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کی کتاب ’رَمِ آہو‘ دیوناگری میں شائع ہو تاکہ مجھ جیسے تمام اردو نہ جاننے والے لوگ بھی ان کی شاعری پڑھ کر محظوظ ہوسکیں۔اپنے صدارتی تبصرے میں مفتی کلیم رحمانی صاحب نے نہایت پُر مغز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسنین عاقبؔ کی کتاب ’رَمِ آہو‘ کوئی اول کتاب نہیں ہے جس کا مطالعہ کیاجائے بلکہ مطالعہ کے لائق کتابوں میں یہ چوتھے نمبر پر آتی ہے۔ یعنی سب سے پہلے کتابِ الہٰی کا مطالعہ افضل ہے، پھر احادیث کی کتابوں کا اور تیسرے نمبر پر سیرت پر تحریر کردہ کتابوں کا مطالعہ ہونا چاہیے اور پھر ا س کے بعد چوتھے نمبر پر شاعری کو کوئی کتاب آتی ہے جیسے رَمِ آہو۔ مفتی کلیم رحمانی صاحب نے مزید فرمایا کہ ہمارے شہر میں یہ اپنی نوعیت کی اولین نشست ہے یعنی کسی کتاب کی مطالعاتی نشست اور ہم نے اس صحت مند ادبی روایت کو بر قرار رکھنا چاہیے۔ بات رَمِ آہو سے شروع ہوئی ہے اور اسے ایک نکتۂ آغاز سے تعبیر کیاجانا چاہیے۔ بعد ازاں ’رمِ آہو ‘پر امریکہ میں مقیم مشہور شاعرہ ، افسانہ نگار اور ادیبہ محترمہ نور العین ساحرہؔ کا تحریر کردہ مقالہ ثاقب الدین شیخ، اشفاق اصفی(نظام آباد) کا تحریر کردہ مقالہ اسرار دانشؔ اور علامہ ڈاکٹر عرفان رومانیؔ (سابق صدر شعبۂ انگریزی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی) کا تحریرکردہ مقالہ محمد صادق نے پڑھ کر سنایا۔ مطالعاتی نشست کے بعد شعری نشست کا اہتمام کیاگیا جس میں موجود مقامی شعراء نے اپنی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔ دونوں نشستوں میں اہلِ ذوق حضرات کی کثیر تعداد موجود تھی جنہوں نے اس قسم کی کسی نشست کے انعقاد کے اولین ہونے کی شہادت دی اور کہا کہ اس طرح کی نشستوں سے نئی نسل کو کتابوں کے مطالعے کی طرف راغب کیا جانا بہت آسان ہوسکتا ہے ۔ مطالعاتی نشست کی نظامت محمد مزمّل نے اور شعری نشست کی نظامت محمد رضوان نے کی۔

Share
Share
Share