اقبال کی شاعری کے تخلیقی تیوراورفکری ماخذ -از۔ ڈاکٹرقطب سرشار

Share

136th-birth-anniversary-of-poet-philosopher-Dr.-Allama-Mohammad-Iqbal

اقبال کی شاعری کے تخلیقی تیور اور فکری ماخذ

از۔ ڈاکٹر قطب سرشار
موظف لیکچرر ۔محبوب نگر ۔تلنگانہ
موبائل : 09703771012

اقبالؔ ؒ کا شعری اظہار بے پناہ شعریت سے معمور تلازموں کا اثر انگیز ارتکاز ہے۔ متقدمین کے دور سے عصر حاضر کی شعریت کی مختلف متعین تعبیرات ہوتی رہی ہیں ان تعبیرات کے حوالے سے اقبالؔ ؒ اپنی ادبی شناخت کے لئے حرفِ شاعر سے اعراض کرتے رہے ہیں وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا کرتے تھے کہ انھوں نے فلسفہ کو بھی وسیلۂ اظہار بنایا ہے کلام اقبال کے تخلیقی تیور ان کی شاعرانہ شبیہ کو اُبھارتے ہیں لیکن انھوں نے شاعری نہیں کی ہے۔ بلکہ شعریت وتخلیقت کے متنوع رنگوں میں ایک مخصوص آفاقی وابدی نظریۂ حیات اور ادراک حق کی تعبیرات وتشریحات رقم کی ہیں۔ یہاں ہم ایک نہایت اہم اور توجہ طلب کے نُکتے کی جانب توجہ مبذول کروایا نا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ شاعری کو اگر کسی مخصوص مکتب فکر یا کسی ازم کا ترجمان یا وسیلۂ اظہار بناتے ہیں تو وہ شاعری نہیں رہ جاتی بلکہ نعرہ بازی‘ پندو نصیحت رُشد وہدایت کا منظوم اظہار ہوکر رہ جاتی ہے۔ جبکہ اقبال نے قرآن وحدیث کی روح کو شاعری کا وسیلہ اظہار بنایا ہے ۔اس کے باوجود اقبالؔ کا لہجۂ شعر نعرہ بازی پندو نصیحت کے روکھے اور بے مزہ طرز اظہار سے مبّرا ہے۔ انھوں نے پُل صراط فن سے خود کو نہایت احتیاط کے ساتھ گذارا ہے کہ کہیں بھی افراط وتفریط اور عدم توازن بیان کا شکار نہیں ہوئے۔ اگر اقبالؔ پُل صراط فن سے کٹ کر گرگئے ہوتے تو نرے شاعر ہوتے یا پھر مرُشد ومولانا‘ اقبالؔ اپنے خطوط میں اعتراف کرتے ہیں کہ انھیں شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ نہ ہی خود کو شاعر باور کرواتے ہیں ۔اس حوالے سے علامہ اقبالؔ کے خطوط کے چند اقتباسات ملا حظہ کریں۔

(۱) ’’فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں مقاصد خاص رکھتاہوں اس ملک کے حالات و روایات کی رُو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا۔ (اقبال نامہ ۱/ ۱۹۲)‘‘
(۲) ’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کبھی میرا مطمح نظرنہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں ہے مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتاہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجیب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں اس واسطے کہ آرٹ غایت درجے کی جانکا ہی چاہتا ہے اور یہ بات میرے حالات میں میرے لئے ممکن نہیں‘‘ (اقبال نامہ ۱۰۸؂ /۱ )
محولہ دونوں خطوط کے علاوہ اقبال کا یہ شعرا میں بات کا انکشاف ہے انھوں نے منظوم پیرائے میں اہم ترین مضمرات کی گرہ کُشائی کی ہے نہ کہ شاعری۔
؂ مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ : کہ میں ہوں محرم رازِ دُردنِ مئے خانہ
نوائے پریشان‘ رازِ دردن مئے خانہ اس شعر کے کلیدی الفاظ ہیں ۔اقبال’ فساد معاشرہ سے بیزاروپریشان ہیں حرف نوائے پریشاں اقبال کے اصلاحی رُجحان کا نمائندہ ہے اور مئے خانہ استعارہ ہے قرآن وحدیث اور تربیت گاہِ تصوف کے حوالے سے فسادزدہ نسلِ انسانی کے قلب ونظر کی تربیت اقبال کا مقصود ہے۔
انسانی معاشرے میں تو ازن پیدا کرنے سدھارنے سنوارنے اور رُوئے زمین پر قیام امن کو یقینی بنانے‘ افکار ونفسیات کی منفی محرکات کے ضررسے فرد اور معاشرے کو محفوظ ومامون رکھنے کے لئے پائیدار علم اور صحت مند آگہی درکار ہے۔ حصول علم کے بعد ذہنی تربیت اور تدّبُرسے ادراک وآگہی کا القا ہوتا ہے شاعرانہ وحکیمانہ اظہارکے وسیلے سے علم حقیقی کی آگاہی اور ذہنی تربیت کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مذاہب کے وہبی پیامات کی ترسیل شاعرانہ وحکیمانہ پیرائے میں ہوئی ہے۔ ہمیں قرآن مجید کا لسانی طرز اظہار بھی شاعرانہ وحکیمانہ امتزاج لگتا ہے۔ چنانچہ کہیں قرآن مجید پر طرز اظہار سے قاری پر شاعری کا گمان غالب نہ ہوجائے متکلم قران نے خود اپنے اسلوب بیان اور حقیقت معنیٰ کی وضاحت کرتا ہے۔
’’ وَمَا عَلْمْنٰہْ الِشّعْرَ وَمَا ینْبَغِی لَہ اِنْ ھُوَ لاَّ ذِکْرُ وَّ قُراٰنُ مْبِیْنُ
ہم نے آپ کو شاعری کا علم نہیں دیا اور وہ آپ ؐ کے شایان بھی نہیں یہ تو بس نصیحت کا مضمون ہے (سورہ یسینٰ آیت ۶۹)
علامہ اقبال ؔ نے قرآن وسنت کی رُوح کو اقوام عالم کے ذہنوں میں جذب کے لئے شعری اظہار کے وسیلے کا انتخاب کیا ہے۔ کلام اقبالؔ کا پیام ان کے اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کا چربہ ان کی اپنی سوچ کا ماخذ نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت کی روح وتدّبُرفی القرآن کا تحقیقی ماخذ ہے۔ اس انکشاف کے بعد کلام اقبال کی آفاقیت وابدیت اور وہبی حقیقت کی فہم سہل ہوجاتی ہے۔ شاعری میں ادراک حق یا ادراک حق کا شاعرانہ اظہار جیسی اصطلاحوں کے زینے طے کرتے ہوئے کلام اقبال کی رفعتوں تک رسائی کے مراحل بآسانی طے کئے جاسکتے ہیں۔ تفہیم وترسیل کے مرحلے میں اک سوال بدستور حائل نظر آتا ہے کہ اقبال خود کو شاعر باور نہیں کرواتے ہیں تو ان کے کلام کو فن کے کس خانے میں رکھا جائے؟ فنی اعتبار سے کلام اقبال کے شاعری ہونے میں کسی تردد کی گنجائش نہیں البتہ اس کے معنوی البعاد ادراک حق کے گرہ کُشا اور تحریک قلب ونظر کے موجب ہیں۔

ڈاکٹرقطب سرشار
Dr.Qutub Sarshar
مکمل مضمون پی ڈی ایف میں پڑھیں

Click to access iqbal-ki-saheri-4_convert-Notepad.pdf

Share
Share
Share