افسانہ : آٹو گراف پلیز- – – چوہدری محمد بشیرشاد

Share

بشیر شاد

افسانہ : آٹو گراف پلیز

تحریر : چوہدری محمد بشیر شاد
ایتھینز ۔ یونان

دروازہ کھولو صوفیہ ، کب سے گھنٹی بجا رہی ہوں ۔۔۔
آ رہی ہوں، کیوں شور مچا رکھا ہے ۔۔ ؟ اندر آ جاو ، ہر وقت جلدی ۔۔
بات جلدی کی نہیں ، ابھی جولی کو بھی ساتھ لینا ہے ،وہ پہلی بار ہمارے ساتھ جا رہی ہے
اسے فون پہ میں نے بتا دیا ہے کہاں جانا ہے اور کس وقت تک وہاں پہنچنا ہو گا
تم تو ابھی تیار بھی نہیں ہوئی ہو،یار بہت لا پرواہ ہو تم ۔۔

میں تمہاری طرح نہیں گھنٹوں آئینہ کے سامنے سج دھج میں وقت ضائع کروں ،دیکھنا پانچ دس منٹوں میں تیار ہو کے تمہارے آگے آگے ۔۔۔
ہاں ہاں لیڈری کا شوق جو ہوا ، آگے آگے تو چلو گی۔ چلو باتیں کم کرو اور جلدی تیار ی پکڑو
نادیہ۔۔
ہاں کہو ۔۔
پروگرام کی ٹکٹوں کا بندوبست ہو گیا
ہاں ہو چکا ،لیکن بڑی مشکل سے ملی ہیں ،پچھلی سیٹوںکی ضرورت تو مجھے تھی نہیں ۔۔
ہاں جی پچھلی سیٹوں پر سے اسٹیج تو نظر آتی نہیں اور آپ ہیں مس نادیہ دی گریٹ۔۔
ہم گریٹ کہاں ، گریٹ تو وہ ہے جسے ہم سب دیکھنے جا رہے ہیں ، دیکھو صوفیہ تم مجھے باتوں میں لگا کے دیر کر دو گی ۔۔
یار تم بھی بڑی عجیب ہو ، جب تینوں فرسٹ کلاس کی ٹکٹیں او کے ہیں اور سیٹوں پر نمبر بھی تحریر ہیں پھر خوف کیسا ، کوئی دوسرا ہماری سیٹوں پر براجمان نہیں ہو گا۔
بات تو تمہاری ٹھیک ہے صوفیہ لیکن وقت سے قدرے پہلے جانے میں کیا قباہت ہے
ہائے رے جلدی ۔۔نجانے کیا جادو کر دیا ۔۔۔۔۔
آگے مت بولنا ، تمہیں سوائے کوسنے کے اور آتا ہی کیا ہے،آخر سیاسیات کی طالبہ ہو ناں ۔۔
اور تم جو ٹھہری ثقافت کی چہیتی۔۔
بس اٹھ جاو، پکڑو اپنا چرمی بیگ اور باہر نکلو بی بی لیڈر۔۔
یار میری کلائی تو چھوڑو ، چل تو رہی ہوں۔۔
ٹیکسی تلاش کرنے میں بھی وقت لگے گا ۔۔
لو اور سن لو ، تین سو یوروز کی تین ٹکٹیں اور اس پہ مزید ٹیکسی کا خرچہ، بس یا ٹرین ۔۔
بس بس بی بی کم خرچ ، وہ آ رہی ہے ٹیکسی اسے ہاتھ دو نا یار۔۔۔
صوفیہ نے ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہوئے ٹیکسی رکوائی اور ٹیکسی کے پہیوں نے اسٹیڈیم کی راہ ناپنی شروع کر دی ، سفر جاری رہا اور کچھ مسافت طے کرکے ٹیکسی ڈرائیور نے بائیں جانب مڑتے ہی پوچھا کہ اسٹیڈیم کے کس دروازے کی جانب جانا ہے۔
مین گیٹ پر اتار دیجیئے گا ۔
یہاں آج کیا ہو رہا ہے ؟
ایک ثقافتی پروگرام ہے ، جس میں مختلف ممالک کی فنکارائیں و فنکاررقص و موسیقی کے جوہر دکھائیں گے ، خاص کر ایشیائی ماحول اس پروگرام کی جان ہے۔
یہ لیں جی آپ دیکھیئے پروگرام اور ہم چلے اپنی روزی کمانے ۔۔۔ !!
نادیہ کی نظریں جولی کو تلاش کر رہی تھیں ، اس کی ا ضطراری حالت نے کانوں کی لوئیں تک سرخ کر دیں، وہ صوفیہ پہ برس پڑی ، دیکھا ساتھ اسے لے آتے تو ابھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔
دم لے یار آتی ہی ہو گی ، ابھی پروگرام میں کافی وقت ہے،ویسے ایک بات تو بتا ۔۔
ہاں پوچھو ؟
اب کیا پوچھنا ۔ مڑ کے پیچھے تو دیکھو ، کون آرہا ہے
او جولی ، فنٹاسٹک،ویل ان ٹائم ۔۔
دیکھا جولی تھوڑی دیر پہلے میری شامت آئی ہوئی تھی ۔میری اچھی خاصی کلاس لی ہے مس ثقافت نے۔
چلو چھوڑو گلے شکوے ، ہاں جولی چلیں اندر ۔
گیٹ پر ٹکٹیں او کے کروا کے نادیہ اسٹیج کے بالکل سامنے والی سیٹوں پر دائیں بائیں صوفیہ اور جولی کو لیئے بہت خوش نظر آ رہی تھی۔
اب تو چہرے کی رنگت بھی بدل گئی ہے نادیہ کی ، جولی سچ سچ بتانا ۔
وہ تو اس کے ہشاش بشاش چہرے کی پر رونق رعنائیوں سے نکھرتی بکھرتی قوس قزح کی شعاوں سے واضح ہو رہا ہے ، لیکن یہ موصوف ہیں کون ، جن کی گرفت میں لاابالی طبیعت کی شہزادی نادیہ جکڑی ہوئی ہیں۔۔
میں نے دیکھا ہے اسے ، جولی تم بھی آج دیکھ لینا،اتنا ہینڈ سم تو نہیں جتنا نادیہ ۔۔۔
کیا کہا صوفیہ کی بچی ، پھر سے دھرانا ذرا ۔۔۔
آ بیل مجھے مار ، غلطی ہو گئی بابا ۔۔۔
اتنے میں اسٹیج سجانے والوں نے ہر طرف ہیلو ہیلو ٹسٹنگ ون ، ٹو ، تھری ۔۔ ون ٹو تھری کے راگ الاپنے شروع کر دیئے۔ اسٹوڈیو کی چھت اور اطراف کو خوب سجایا گیا تھا ، تاجروں کے اشتہارات بھی ہر جانب اپنی اشیا کی دھوم مچائے ہوئے تھے ، ہلکی ہلکی موسیقی بھی ہال کے ماحول کو دلکش بنا رہی تھی ۔ پروگرام کو دیکھنے والے جوق در جوق آتے جا رہے تھے ۔ ہال بھرتے دیر نہ لگی ، ہر طرف چاہنے والے موجود تھے ۔ ایک عرصے بعد ایک بہترین ثقافتی پروگرام عوام الناس کو میسر آ رہا تھا جس کی کمپیرنگ ایک ایسے شخص کے حوالے کی گئی جو ثقافتی پروگراموں کو بام عروج تک لے جانے میں یکتا تھا۔ اپنے اس فن میں سب سے منفرد تھا ، پروگراموں کی ترتیب میں عوام کی دلچسپی کے عنصر کو مقدم رکھتے ہوئے وہ فنکاروں کے ساتھ ان کے ماحول میں خود کو بھی ڈھال کر عوام کی خوشیوں کی نشو و نما اس طرح کرتا کہ تمام تالیوں کی گونج میں فنکاروں کی پذیرائی دل کھول کے کرتے نظر آتے۔
نادیہ بڑی بے چینی سے پہلو بدل بدل کے صبر آزما گھڑیوں کو شمار کر رہی تھی۔
جولی نے نادیہ کی حالت دیکھ کر انتظامیہ کے ایک نوجوان سے پوچھا بھی کہ پروگرام کب شروع ہو گا
ہاں جولی کیا بتایا اس نے ۔۔ ؟
پندرہ بیس منٹس کی بات کر رہا تھا
چلو انتظار کر لیتے ہیں ۔۔۔
ہاں صوفیہ انتظار تو کرنا پڑے گا ہی، لندن سے اس پروگرام کو دیکھنے کے لیئے تو آئی ہوں۔
ویسے نادیہ کی بڑی ہمت ہے، اتنے سالوں سے ایک ہی مدار کے گرد گھوم رہی ہے ، جولی نے صوفیہ کی جانب ایک آنکھ بند کرکے فقرہ چست کیا۔
اس مدار کا جلدہی تمہیں بھی پتہ چل جائے گا مس جولی،ذرا ہیڈ سم کو آنے تو دو اسٹیج پر ، اس کے انداز کا جادو تمہارے سر چڑھ کے بھی بولے گا ۔
صوفیہ ،،، جولی پہلی بار آئی ہے ہمارے ساتھ ، پروگرام چلنے تو دو یہ خود ہی تسلیم کرئے گی کہ نادیہ کی پسند کیا ہے ۔
وہ وقت آن پہنچا جس کا انتظار کیا جا رہا تھا ۔ تالیوں کی گونج میں نپے تلے قدم اٹھائے اسٹیج کی جانب بڑھنے والا سب کا جانا پہچانا چہرہ تھا جو آج کے اس عظیم الشان پروگرام کی کمپیئرنگ پر مامور کیا گیا تھا، اس نے مائک سنبھالتے ہی آداب و تسلیمات،تعظیم و تکریمات سے ابتدا کی اور پروگرام میں شامل تمام فنکاروں کا ہلکا سا خاکہ پیش کرکے عوام سے داد وصول کی ۔ وہ جوں جوں بولتا جا رہا تھا ہر پردہ سماعت میں میٹھے رس گھول رہا تھا ، اس کی ٓواز میں جادو تھا ، اردو بولتے ہوئے وہ اسی زبان کو مد نظر رکھتا تھا ، وہ ہر زبان کی لذتوں کو اس کے الفاظ سے سنوارنے کا ہنر جانتا تھا ۔
جگمگ روشنیوں میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ہر سو مسرتوں کا پیغام دیتی پروگرام کو چار چاند لگا رہی تھی ۔ اس کی ترتیب اس قدر شاندار نتائج مہیا کر رہی تھی کہ کسی کو بوریت جیسا احساس نہیں ہو رہا تھا ، ہر فنکار کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے اسٹیج پر بلاتا اور پھر تالیوں کی گونج میں اسے رخست بھی کرتا ۔ کبھی کبھی شرارتی انداز اپنائے رقاصاوں کے ساتھ خود بھی محرک ہو جاتا جو کہ نادیہ کو ایسے محسوس ہوتا کہ رقص وہ کر رہی ہے اور فرط جذبات میں وہ اس کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے ، نئے فنکاروں کو منظر عام پر لانے کے لئے وہ ایڑی جوٹی کا زور لگا دیتا تھا ۔
اسی پروگرام مین ایک نئی لڑکی کے بارے اس نے اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے ہال میں موجود سب سے درخواست کی کہ اس کا پر جوش استقبال کیا جائے ۔۔۔۔ نادیہ بار بار پہلو بدل بدل کے آنے والی فنکارہ کا شدت سے انتظار کر رہی تھی جسے اعلی پیمانے پر سراہتے ہوئے اس نے خوش آمدید کہنے کی استدعا کی تھی ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے نادیہ ،،، تم تو ایسے پریشان ہو رہی ہو جیسے پہلی بار اس کے پروگرام میں شرکت کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ جولی تم پہلی بار اس کے پروگرام میں شمولیت کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو وہ کس طرح مودب ہو کے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسٹیج پر لا رہا ہے ، کس قدر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کو چوما ہے جیسے کسی خوبصورت شہزادی کی آو بھگت میں محو خود کو بھول بیٹھا ہو ۔۔۔۔۔ ہاں نادیہ تم سچ کہہ رہی ہو ، اس سے پہلے میں کئی پروگراموں میں تمہارے ساتھ آئی ہو ں ا س قدر چاہت نہیں دیکھی ،، صوفیہ نے تصدیق کرتے ہوئے اسٹیج پر نئی آنے والی فنکارہ کے خد وخال پر نظر ڈالی ، جولی بھی برابر سب کچھ دیکھے جا رہی تھی ۔
یہ ایک نیا گانا تھا ، قدرے تیز ، شاعری کافی منجھی ہوئی اورموسیقی پر بہترین سازندے بہت پیاری دھن بجا رئے تھے اس کے ساتھ ہی نئی فنکارہ نے بڑی سریلی آواز میں شروعات کیں اور ساتھ ساتھ رقص بھی رنگ بکھیرتا گیا ، مزے کی بات یہ بھی تھی کہ کمپیئر نے اس دو گانے میں نہ صرف اپنی آواز کا جادو جگایا بلکہ رقص میں بھی نئی فنکارہ کو بازووں میں تھامے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔۔۔۔ دیکھا جولی اسے کہتے ہیں فنکار جو ہر نئے آنے والے کی ہمت افزائی کرتے ہوئے اسے متعارف کرواتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اتنے میں وہ دونوں گاتے مسکراتے اسٹیج کے نیچے پہلی قطار میں بیٹھنے والوں کے سامنے والی جگہ پہ آ کے عوامی شاہکار بن گئے ۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ ہر کوئی چاہ رہا تھا کہ وہ ان کے قریب تر آ کے گائیں تا کہ نزدیک سے ان کا دیدار بھی ہو سکے ۔ کچھ منچلے چاہت کی معراج تک ان کے پاس آنے میں کوشاں ہوئے لیکن وہاں پہ موجود سیکورٹی نے انہیں ایک قدم آگے نہ بڑھانے دیا ۔ جب وہ دونوں نادیہ کے قریب سے گذرے تو نادیہ نے کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر داددی اور صوفیہ تصاویر بناتی رہی ۔ ۔۔
اسٹیج پہ ان کی واپسی اس قدر دلکش تھی کہ ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں ،، دوبارہ سنایئے ،،، پلیز دوبارہ ،، پروگرام کو اسے آگے بڑھانا تھا ، نئی فنکارہ کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اوپ اٹھایا اور عوام سے وعدہ کیا کہ پروگرام کو چلنے دیں وقت ملا تو ضرور آپ سب کی خواہش کو پورا کیا جائے گا ، ایک بار پھر تالیوں کی گونج میں اس نے عوام سے بہت پیارے انداز میں گانے والے کا نام متعارف کرواتے ہوئے اتنا ضرور کہا کہ کہ ٓپ آنے والے سے دو گانے سنیئے گا ، پھر ایک منجھی ہوئی آپ سب کی جانی پہچانی رقاصہ آپ کی امنگوں کے مطابق اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی ، آپ سب کا یہاں آنا ہمارے لئے قابل صد ستاعش ہے ، تو آیئے خوش الہانی اور انتہائی اچھے پہرایئے میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے آپ کے سامنے آرہئے ہیں ، استقبال کیجیئے گا ۔ ہال سے تالیوں کی گونج استقبال کر رہی تھی اور اسی گونج میں وہ نئی فنکارہ کا ہاتھ پکڑے اسٹیج سے اتر رہا تھا ۔
صوفیہ ، جولی ، اٹھو آ جاو میرے ساتھ ۔۔۔۔ !!
ارے نادیہ کہاں جا رہی ہو ۔۔ !۱
خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے آتی جاو ۔۔۔ !!
نادیہ آگے آگے اور دونوں سہیلیاں پیچھے پیچھے ۔۔۔۔۔۔ جس طرف وہ جوڑی جا رہی تھی ، ان تینوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا ، نئی فنکارہ میک اپ اور ریہرسل روم میں چلی گئی اور کمپیئر موسوف بیت الخلا کی جانب بڑھے ۔ رک جاو یہیں پر ۔۔ نادیہ صوفیہ اور جولی سے ہمکلام ہوئی ۔۔۔ !!
لیکن ہمیں ادھر کیوں لے آئی ہو ۔۔ !۱ صوفیہ برابر نادیہ کا منہ دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔
اس لیئے تاکہ آج آٹو گراف ادھر ہی لے لیں ، پروگرام ختم ہوتے ہی کوئی ہمیں موقع نہیں دے گا ، کتنی بار ایسا ہو چکا ہے ۔۔
لیکن یہاں آٹو گراف لینا ۔۔۔۔۔
ارے پگلی جولی اس سے بڑھ کے اور کوئی وقت ہمیں نہیں مل سکے گا ۔۔۔۔
ہاں جولی نادیہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ اس کی عرصہ دراز کی خواہش آج پورے ہو لینے دو ۔۔۔ صوفیہ کو نادیہ پر والہانہ پیار آ گیا ۔
صوفیہ ، جولی تم دونوں اپنے اپنے سیل فون سے آٹو گراف کی تصاویر دھڑا دھڑ بنا لینا ۔۔۔
صوفیہ اور جولی نے یک زبان ہو کر نادیہ کو تسلی دی ۔
اتنے میں مردانہ بیت الخلا کی جانب دو جوان اور بھی کھڑے ہو گے جن کی شکل و شباہت اور ڈھیل ڈھال سے ایشیائی رنگ ٹپک رہا تھا ۔
نادیہ کہیں یہ دونوں نوجوان بھی آٹو گراف کے لیئے ۔۔۔۔۔
صوفیہ چھوڑو ان کو ، تم ادھر دھیان دو ، جونہی وہ باہر آئیں تو آٹو گراف پلیز کی آواز لگا دینا ۔۔
لو کر لو بات ۔۔ آٹو گراف تمہیں چاہئیں اور آواز میں لگاوں ۔۔۔۔ صوفیہ کےاس جواب اور بھولی شکل پر جولی کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔
جولی تم کس بات پہ ہنسی جا رہی ہو ۔۔۔ نادیہ کالہجہ غصیلہ تھا
نادیہ ذرا دوسرے جوان کی قمیض پر ایک نظر ڈال ،، تمہاری ہنسی بھی رکنے کا نام نہیں لے گی
صوفیہ اور نادیہ کی نظریں اس جوان کی قمیض کا جائزہ لینے لگیں ، جس پر دل ہی دل بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ہاتھ صاف کرتے ہوئے کمپیئر باہر نکلے ہی تھے کہ پہلے نوجان نے پچاس یوروز کا کڑکتا ہوا بنک نوٹ سامنے کرتے ہوئے ،، آٹو گراف پلیز ،، کہہ کے قلم بھی تھما دیا ۔۔۔
کرنسی پر آٹو گراف ۔۔۔۔ یہ کیا معاملہ ہے ، یہ تو سراسر اس ملک کے قوانین کے خلاف ہے ۔۔ بھئی آپ کسی کاغذ پہ میرے آٹو گراف لے لیں ۔۔۔۔۔۔ میںنے اپنی محنت سے یہ دولت کمائی ہے مجھے اسی پر ۔۔۔۔۔۔ رکیئے صاحب یہ اس ملک کی ملکیت ہے ۔۔۔۔ جی نہیں یہ کرنسی نوٹ میرے پاس ہے ، میں اسے سنبھال کے رکھوں ، اشد ضرورت پڑنے پر بھی اسے استعمال نہیں کروں گا ۔۔۔۔ وقت میرے پاس تھوڑا ہے ، میں ابھی پروگرام کر رہا ہوں ۔۔ لایئے جناب ۔۔۔۔ جلدی جلدی کرنسی پر آٹو گراف دے کر آگے بٹھنے ہی والا تھا تو دل کی قمیض پہننے والا ،، آٹو گراف پلیز ،، کہہ بیٹھا ۔۔۔۔ جلدی کیجئے میں پروگرام پہ ہوں ، کس پہ لینے ہیں آٹو گراف ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ جی میرے دل پہ ۔۔۔۔ اتنا کہنا ہی تھا کہ تینوں لڑکیوں کی ہنسی نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب بات ہے دل پہ ۔۔۔۔۔۔ ہاں جی اس قمیض پر نظر دوڑایئے عین دل کے اوپر قمیض پر جو بڑا دل بنا ہوا ہے اس پر آتو گراف دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔ بہتر جناب لیکن ایک جگہ رک تو جایئے آپ اگر اسی طرح ہلکے ہلکے اپنا جسم ہلاتے رہئے تو بہت ممکن ہے قلم کی نوک آپ کے جسم میں چبھن پیدا نہ کر دے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی چبھن کو مٹانے کے لیئے آٹو گراف لینے ضروری ہیں ۔۔۔۔۔ ہاں سمجھ گیا ہوں ۔۔۔ یہ لیجیئے اب اس دل کو سنبھال کے رکھیئے گا ۔۔۔ دو قدم بھی نہ چل پایا تھا کہ نسوانی آواز ابھری ،،، آٹو گراف پلیز ،،، اور اس کے ساتھ ہی ایک جواں سال دوشیزہ کا ہاتھ آگے بڑھا ۔۔۔۔۔
آپ دونوں کو بھی اگر آٹو گراف لینے ہیں تو پروگرام ختم ہونے کے بعد لیجیئے گا ۔۔۔
صوفیہ اور جولی نے یک زبان ہو کر اس بات کی نفی کر دی ۔۔۔
جی آپ ہاتھ پہ ہی آٹو گراف کیوں لے رہی ہیں ۔۔۔۔ ؟
جی میری یہ دیرینہ خواہش ہے ۔۔۔ اگر پوری ہو جائے تو ۔۔۔
چلیئے دیں اپنا قلم ۔۔۔
قلم بھی آپ اپنا استعمال کیجیئے ۔۔
میرے پاس تو اس وقت با ل پوانٹ ہے اور اس کی نوک تو آپ کے ہاتھوں پہ بہت چبھن پیدا کرئے گی ، بہت ممکن ہے اتنا نرم و نازک ہاتھزخمی ہو جائے اور میں اپنے ہاتھوں یہ ظلم نہیں کر سکتا ۔۔۔ !!
آپ بلکل فکر نہ کریں ،،، آٹو گراف پلیز ،،،
ا بڑی عجیب سی بات ہے کہ آپ کے ہاتھ پر میرے دیئے گئے آٹوگراف زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیں گے ، پسینہ آیا یا آپ نے ہاتھ کو صاف کیا تو ختم ۔۔۔۔!!
آپ اس کی فکر نہ کیجیئے ، اس کی حفاظت کرنے کا کلیہ ہے ہمارے پاس ،،، آٹو گراف پلیز ،،،
بال پوانٹ کی نوک نے اگرچہ اپنے حروف نمایاں کھردرے طریقے سے کیئے لیکن کیا مجال جو ہاتھ نے حرکت کی ہو ۔۔۔ اسی وقت سیل فون چلے اور ٹھکا ٹھک تصاویر بن گئیں ۔
یہ دیکھیئے جناب آپ کے دیئے ،، آٹو گراف ،، ہم نے محفوظ کر لیئے ، بے حد شکریہ ، آپ کو اسٹیج کی فکر تھی لیکن ابھی دو تیں منٹس باقی ہیں ، بہت اچھا پروگرام چل رہا ہے اور آپ مبارکباد کے مستحق بھی ہیں۔۔
بہت بہت شکریہ کہہ کے وہ اسٹیج کی جانب چلنے ہی والا تھا کہ نادیہ نے اس بال پوانٹ کی فرمائش بھی کر دی
یہ بال پوانٹ آپ لے کے کیا کریں گی اور ویسے بھی جس قلم سے میں ایک بار لکھنا شروع کر دوں اسے ختم ہونے پر اپنے پرانے صندوق میں رکھ دیتا ہوں ۔
یہ قلم تو تھا نہیں ، بال پوانٹ تھا ، جس کی چبھن ہم نے محسوس کی ہے یہ اب ہمارے پاس رہے گا ۔
فنکارانہ مسکراہٹ دیتے ہوئے اس نے بال پوانٹ نرم و نازک ہاتھ میں تھماتے ہوئے اسٹیج کی راہ لیا اور نادیہ کا کھلا کھلا سا چہرہ سرخ و سپیدی کا مرقع بن گیا ، اسے جیسے لامتناہی مست و شادمانیاں میسر آ گئی ، سمندر میں طوفانی لہروں میں جمود آ گیا تھا ، وہ بار بار آٹو گراف اور بال پوانٹ کو دیکھ رہی تھی ، گلابی ہونٹوں پہ ہلکی ہلکی جنبش ہونے لگی ، اس سے دل کی پوشیدہ بات نہ چھپائی جا سکی ، فرط جذبات سے آٹو گراف کو چومتے ہوئے بال پوانٹ کو بھی لبوں سے مس کر لیا ، عالم مدہوشی کا یہ عالم کہ نزدیک کھڑی سکھیوں کا بھی خیال نہ رہا ۔۔۔۔۔ صوفیہ نے جولی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چلنے کا اشارہ کیا ہی تھا تو نادیہ کو احساس ہوا کہ ہو کیا کر رہی ہے ، کھسیانی سی ہنسی اور چہرے پر ضبط طاری کرکے وہ ہال کی جانب قدم تو اٹھا رہی تھی لیکن ان لمحات کو کسی صورت فراموش نہیں کر سکتی جو اس کی مدتوں کی تمنا تھی ۔۔۔
ہال میں پھر سے ہلچل مچ گئی گائک اپنے دو گانے عوام کو سنا کر ڈھیروں داد وصول کر چکا تھا ، اس کو اچھے پیرائے میں الوداع کہتے ہوئے آج کا رقص آیٹم عوام کی فرمائش تھی ، رقاصہ کا نام لیتے ہی ہجوم پر جیسے جادو سا طاری ہو گیا ، وہ رقاصہ کا نام لے لے کر نعرے بازی کرتے رہے ۔ ایشیائی پروگرام کے بعد دوسرے ممالک کے فنکاروں کا پروگرام بھی اسی ہال مین ہونے والا تھا ، اس لیئے وہاںکی انتظامیہ اس رقص کو آخری پرفارمنس کا اعلان کر چکی تھی ، رقاصہ باریک کپڑے کا لبادہ تن زیب کیئے گھونگھٹ نکالے کمپیئر کے ہاتھ کا بظاہر سہارا لیتے ہوئے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئی اوردھیرے دھیرے اس نے اپنا گھونگھٹ ہٹا کر چہرے کی رونمائی اس طرح کی کہ پورے کا پورا ہال اس کی اس ادائے دلربانہ پر مر مٹا ، چھن چھن کرتی پائل اور گھنگھروں کی کھنک نے اس کے بدن کی لچک کو اس قدر دلکش بنا دیا کہ دیوانے دیار غیر میں جھومنے لگے ، ہر ایک ادا پر فریفتہ ہونے والے ایک بار امڈ کر اسٹیج کے بالکل قریب آگئے ، نوٹوں کی اڑان شروع ہو گئی ، بڑی مشکل سے سیکورٹی والوں نے اس جم غفیر پر کنٹرول کیا ، بلکہ ایک منچلے نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ ہمارے فنکار ہیں ہمیں ان کے نزدیک آنے سے کیوں روکا جا رہا ہے ، اس وقت کمپیئر کی عقل کام کر گئی تو اس نے اعلان کر دیا کہ پروگرام ختم ہو لینے دیں ، ملاقات کی خواہش جسے بھی ہے وہ پوری کی جائے گی ، رقاصہ اپنے فن میں بہت کامیاب جا رہی تھی ، عوام کے پر جوش اصرار پر بھی مزید وقت نہیں بڑھایا جا سکا کیونکہ دوسرے فنکاروں کا بھی وقت معین تھا ، پروگرام کا اختتامیہ کرتے ہوئے اور سب کا شکریہ صدق دل سے اد کیا گیا ، ان کی مزید فرمائشوں کو پورا نہ کر سکنے کا افسوس تو ہوا لیکن دیار غیر میں اپنی ثقافت کو اجاگر ہوتے دیکھ کر کمپئیر کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو امڈ آئے ۔ سب کو الوداعی سلام پیش کرتے ہوئے یہاں کی انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کیا گیا۔۔!!
گھر واپس آ کے اس نے کپڑے بدلے اور آج کے کامیاب پروگرام پر سکون کی سانس لی ، اسی اثنا میں اس کا خیال آتو گراف لینے والے ایک ایک چہرے کی طرف گیا ، جس میںکرنسی بنک نوٹ پر آٹو گراف کا طریقہ عجیب لگا جو کہ اس کی زندگی میں پہلا واقعہ تھا ، ممکن ہے اس جوان نے پی رکھی ہو، اور اس دل پہ ہنسی بھی آنے لگی جوان کم اور تیسری جنس کی عکاسی کر رہا تھا لیکن ایک لڑکی کا ہاتھ پہ آٹو گراف لینا اس کے لیئے بہت بڑی بات تھی ، اس کا بھولا بھالا سا معصوم چہرہ ا ور ہاتھ پہ بال پوانٹ کی چبھن کو برداشت کرنا بڑی ہمت والا لازوال معاملہ تھا ۔ جونہی آٹو گراف کی لکیریں اس کے ملائم ہاتھ پہ ثبت ہو رہی تھیں اس کا چہرہ موسم بہار کی تازگی جیسا تصور پیش کر رہا تھا ، چند لمحے ایسے بھی آئے کہ میں از خود سب کچھ بھول کر اس کی مسکان میں جذب ہونے لگا تھا ۔ پرستاری کا یہ عالم بخدا ایک انمول تحفہ تھا ۔اس کی مژگاں کا پیار بھری مد میں جھکاو اس کے لبوں پہ آنے والے شکریئے کی غمازی کر رہا تھا ، ہرنی سی چال ، صراحی دار گردن اور تھوڑی پہ تل کا ابھار دلکشی کا موجب تھا ۔ مسکان میں دنیا کی تمام تر مسرت و شادمانیاں سمٹ آئی تھیں ، کولوھوں تک بکھرے گھنے طویل گھٹاوں جیسے ریشمی بال اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے ۔ بات کرنے کا سلیقہ دھیما دھیما سا مقناطیسی کھنچاو سی کشش کا حامل تھا ، ہاتھوں کی مخروطی انگلیاں اس قدر ملائم کہ انہیں مس کرنے میں زندگی کی رمق کا بھرپور تاثر ملتا تھا ، کتابی چہرے کی ساخت جس میں ایک عجب طرح کی راحت کا وجود پنپتا دکھائی دیتا تھا ، کوئی بھی ان لمحات کو فراموش نہیں کر سکتا ۔اس کا ،، آٹو گراف پلیز ،، کہنے کا انداز میری زندگی بھر کی سماعتوں کا ایک منفرد اور انتہائی شیریں دقیقہ ہے جو دل و دماغ پر سدا حکمرانی کرئے گا ۔
شب بھر کروٹیں بدل بدل کے دیکھ لیا ، کسی کروٹ چین نہیں آ رہا تھا ، زندگی ساری پروگرام کرتے گذری ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے بے چینی کا اس قدر سامنا کرنا پڑے ، اس کی نیم باز آنکھیں ، مژگاں کا بہت خوبصورت جھکاو ، نرمی گفتار ، ادب و آداب کی دیوی میرے حواس پر شب بھر راج کرتی رہی ، میں باتیں کرتا جا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک سے سنتے سنتے جیسے نیند کی آغوش میں سکون کی متلاشی ہو گئی ہو ، مجھے بھی نیند کی وادی میں لے گئی ۔ نیند میں بھی سہانے خوابوں نے اپنا تسلط قائم کیئے رکھا اور صبح دس بجے کے قریب آنکھ کھلی ، ناشتہ کر چکاتو سوچا جمعہ کی نماز سے پہلے پہلے گھر کے لیئے مارکیٹنگ کر لوں تو بہتر ہو گا ۔ اتنے میں گھنٹی بجی ۔۔۔ کون ہو سکتا ہے ۔ میں نے بیرونی دروازے کو بٹن دبا کے کھول دیا اور بالکونی سے باہر جو جھانکا تو پولیس فورس کے ساتھ ٹی وی چینلز بھی نیچے موجود تھے۔ ابھی انہیں سوچوں میں مستغرق تھا کہ میرے گھر کے دروازے پر بھی گھنٹی کے بٹن پر دباو کچھ کرختگی کا تاثر دے رہا تھا ۔ میں نے دروازہ کھولا تو دو پولیس کمانڈوز نے ،، ہینڈز اپ ،، کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ انتہائی پشیمانگی کے عالم میں میں نے ہاتھ اوپر اٹھا لیئے اتنے میں دو اور پوعلیس کمانڈوز دروازے پر آ پہنچے ، سب نے اپنی شناخت کے کارڈ دکھائے اور مجھے بتایا گیا کہ آپ کے وارنت گرفتاری یہ ہمارے پاس ہیں لہذا آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے ، آپ یہیں کھڑے رہیں گے کے ساتھ ہی دو کمانڈوز اندر گھسے اور ٹی وی چینلز کے نمائندے اپنے اپنے کیمرے محرک کیئے ریکارڈنگ پہ لگ گئے ۔ تلاشی لینے والے کمانڈوز کو گھر سے جرم کے مطابق کوئی مطلوبہ اشیا نہ ملیں اور مجے حکم ہوا کہ فورا اپنے شناختی کاغذات ہمراہ لے کر ان کے ساتھ چلوں ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور سب محلے والے مجھے آج عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔
کل تک جو شخص محلے بھر میں ایک عزت مند شخصیت تھا وہ آج یکلخت سب کی نظروں سے کیسے گر گیا ۔ میرے سر کو دبائے گاڑی میں بٹھا کر انجانے راہوں پر پولیس کی گاڑی خطرے کا سائرن بجاتے ہوئے لے جا رہی تھی اور اس مقام پر لے گئی جہاں کسی مجرم کو مقید کیا جاتا ہے ۔ مجھے ایک کمرے میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ بند کر دیا گیا ۔ میں ناکردہ گناہ کے اس سانحہ پر بہت دلبرداشتہ سوچوں میں گم تھا کہ کمرے کے چند ایک اشخاص نے قریب آ کر چہ میگوئیاں شروع کر دیں ۔۔۔
کافی نوٹ کما چکے ہو ، اچھا کیا گھر والوں کی زندگی تو بنا لی ۔۔۔۔۔ میں اس کا منہ تکتا رہ گیا کہ دوسرا بولا ۔۔۔۔ مجھے امید کہ تم نے رقم اپنے نام پہ بنک میں نہیں رکھی ہو گی ۔۔۔۔۔ اب اس کو میں کیا جواب دیتا ۔۔۔۔۔ کوئی معشوق بھی ہے یا ابھی تک اکیلے ہی بھٹک رہے ہو ۔۔۔۔ اس کی اپنی ادا تھی جسے سننا پڑا ۔۔۔۔۔۔ نارکوٹس کا دھندا بھی کرتے رہے ہو یا ۔۔۔ اس کے ایک ساتھی نے ٹوکتے ہوئے کہا ۔۔۔ ابے الو اگر نشہ آور اشیا کا دھندا کرتا پکڑا جاتا تو یہاں کی بجائے دوسرے بلاک میں ہوتا ۔۔۔ میں ان دونوں کی گفت و شنید پر غور کر رہا تھا کہ میری تازہ ترین خبر بریکنگ نیوز میں میری نمایاں تصویر میں چل رہی تھی ۔۔۔ پوری دنیا میرے بارے کیا سوچ رہی ہو گی ۔ دوپہر سے شام تک کا وقت سوچوں میں اور الجھتا گیا ۔۔۔ رات کا کھانا آ چکا جناب ۔۔۔۔ آ جا ہمارے پیچھے پیچھے قطار میں ۔۔ اا جاو ۔۔ آ جاو کھانا تو پڑے گا ہی ۔۔ ہفتہ اتوار دو دن گذار لو ممکن ہے سوموار تمہیں عدالت لے جایا جائے اور پھر جتنی قید سنائی جائے گی وہ ہم سب اکھٹے گزار لیں گے ، اب جرم کیا ہے تو ہمت سے کام لو ۔۔۔۔۔ سنو میں نے کوئی ایسا ویسا جرم نہیں کیا جس کی پاداش مین مجھے یہاں تک لایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں آتے ہی سب یہی کہتے ہیں ۔۔ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا ۔۔ اتنے میں نمبردار کی شی شی کی آواز پر سب خاموشی سے قطار میں سیدھے کھڑے ہو گئے اور اپنا اپنا دال دلیہ لے کر کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔ تم بھی زہر مار کر لو ۔ رزق سے منہ نہین موڑتے ، ارے پگلے اس روٹی کی خاطر ہی تو ہم مجرم بنے ہیں ، تمہیں کیا معلوم یہاں سے باہر کی دنیا مین کیا کیا ظلم نہیں ہوتے ، تم کیا سمجھتے ہو ہم عادی مجرم ہیں ۔ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہین ہمیں عادی مجرم دن بدن بنایا جائے گا ۔۔ چلو کھا لو جو نصیب میں ہے وہ تو کھانا ہی پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے لقمہ لقمہ جو جیل کا کھانا منہ میں ڈالا تو ایسے محسوس ہوا کہ یہ نوالے کہہ رہے ہوں کہ ہمیں کھا کے اپنے قلم سے ان کا ادھار چکا دو ۔۔۔۔ !!
بتی غل کرنے کا حکم صاڈر ہو گیا اور ملگجی اندھیروں میں نوک قلم صفحات پہ اپنی محنت کرنے سے قاصر رہی لیکن سوچوں کے انبار میں کبھی قید با قلم کے پلاٹ پر حروف ابھرتے دکھائی دیئے تو کبھی ناول ،، شکار ،، کے مرکزی کردار کی کہانی دھرانے میں لگ گیا ۔ جرم اور سزا کا تعلق گہرا ہوتا گیا ۔ جیلوں میں کتنے ایسے ہوں گے جو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بگھت رہے ہیں ۔ جھوٹی شہادتوں کے ستائے آہنی سلاخوں کے پیچھے دن گذار رہے ہیں کیا ان کی بے گناہی ثابت ہونے پر ان کی جیل میں کٹنے والی ہر گھڑی کو واپس کیا جا سکتا ہے ؟ اسی ایک سوال نے پوری شب اپنی سوچوں کا جال بچھائے رکھا جو کہ مکڑی کے جال کی مانند اور بھی الجھتا گیا ۔ رات بھی کی بے چینی میں نیند نہ پوری ہونے کے سبب چکر سے آ رہے تھے کہ ایک ساتھی نے آنکھیں ملتے ملتے پوچھ لیا کیا بات ہے کہیں نشے کے عادی تو نہیں ہو ، اگر ایسی بات ہے تو بتا دوں تھوڑے پیسوں میں نشہ یہاں تک آ جائے گا ۔۔۔ میری پشیمانی اور بڑھ گئی ۔ جیل میں نشہ فروخت ہوتا ہے ؟ یہاں کے قوانیں کے مطابق ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے ۔۔۔۔ کیوں کس سوچ میں پڑ گئے ہو ۔ اتنی دولت تم نے کمائی ہوئی ہے اس میں سے اپنے نشے کے لیئے کچھ سرف کر لو ۔۔۔۔۔۔ میں نشہ نہیں کرتا۔۔۔۔ تو پھر اور کیا کرتے ہو ؟ پان ، نسوار ، سگریٹ ۔۔۔۔ مجھ میں کوئی ایسی ویسی عادت نہیں ہے ۔۔۔۔ بس تھوڑے دنوں کی بات ہے تم یہاں بہت سی پریشانیوں کو بھول جانے کے لیئے کسی نہ کسی نشے کا سہارا ضرور لو گے۔۔ ہونہہ میں نشہ نہیں کرتا ہوا کا طنزیہ فقرہ کہتے ہوئے کندھے پہ تولیہ رکھے وہ چلا گیا لیکن ایک سوالیہ نشان میرے روبرو رکھ گیا جس کا تجزیہ وقت کے سانچے میں ڈھلے گا ۔
جیل میں آئے مجھے سولہ گھنٹے ہو چکے تھے اور خبروں میں بار بار میرا تذکرہ ہو رہا تھا ، میرے بلاک کے سب قیدی میری اس کہانی کو میرے منہ سے بھی سننا چاہ رہے تھے لیکن میں کیا بتاتا ، جرم کی ڈحینگ مارنا بھی جرم کی جھوٹی پرورش ہے اور یہ گناہ میں اپنے سر کیون لوں ، اسی کھینچا تانی میں وہ نازک اندام لڑکی جس نے اپنے ہاتھ پہ میرے آٹو گراف لیئے تھے ایک بزرگ پر کشش شخصیت کے مالک کے ساتھ میری خیریت دریافت کرنے کے لیئے جیل تک رسائی کی ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ یہان کیسے ؟
آپ کو ملنے لندن سے آ گئی ہوں ۔۔۔ خبریں چل رہی تھیں ، اخبار کی شہ سرخیوں میں آپ نمایاں نظر آرہے تھے لیکن یہ طریقہ ہمیں بالکل پسند نہیں آیا ، آیئے باہر اس آہنی جنگلے سے ، یہاں آپ کی جگہ نہیں ہے ۔ پولیس والے کو بزرگ ہستی نے کاغذ اور اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو اس نے پھٹ سے سلیوٹ مار کر دروازہ کھول دیا ۔ دوسرے قیدی اس شان تفاخری سے مجھے باہر جاتے دیکھتے رہ گئے اور سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں قدم رکھتے ہی میں نے دیکھا کہ دہی اس کی دونوں سہیلیاں بھی وہاں موجود تھی ۔ ہمیں بڑی عزت سے دفتر میں بٹھایا گیا اور تھوڑی ہی دیر میں دو باوردی پولیس والوں کے ہمراہ اس مجرم کو ہتھکڑیاں لگائے ہیش کیا گیا جس نے پروگرام میں مجھ سے پچاس یوروز کے بنک نوٹ پر ،، آٹو گراف ،، لیئے تھے ۔ معاملہ اب میری سمجھ میں کچھ کچھ آ گیا تھا ۔
تفتیش شروع ہوئی ، نادیہ نے اپنے بیان قلمبند کرواتے ہوئے یہ کہا کہ یہی ہو وہ شخص جس نے پچاس یوروز پر آٹو گراف لیئے ، آٹو گراف دینے سے قبل محترم کمپیئر نے یہاں تک کہا کہ یہ بنک نوٹ یہاں کی حکومت کا جاری کردہ ہے اس کی بجائے آپ کسی آتو گراف ڈائری پہ آٹو گراف لیجیئے لیکن یہ مجرمانہ طور طریقوں کا مالک بضد رہا اور یہ معاملہ در پیش آیا اس وقت ایک دل پر آتوگراف لینے والا بھی وہاں موجود تھا اور آخر میں اپنے دائیں ہاتھ پہ ان کے آٹو گراف کی درخاست کی جس کا ثبوت میری ان دونوں سہیلیوں صوفیہ اور جولی کے سیل فونز میں موجود ہے ۔ یہ لیجیئے دونوں فونز اور اس مجرم کے نوٹ پر آتو گراف کی تصدیق آپ خود کر لیجیئے ۔۔۔۔ !!
فنگر پرنٹس اور خطاطی کے ماہرین نے اس کی تصدیق کر دی کہ یہ آٹو گراف ایک ہی ہاتھ کے ہیں ۔۔۔۔۔ یوں مجھے آزاد کرکے اصل مجرم کی شناخت پر اس کے دوسرے ساتھیوں کی تلاش شروع ہو گئی اور میں اپنی اس بے گناہی کو اب دنیا بھر مین کیسے ثابت کر سکوں گا اس کا خیال آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ میں سرنگوں کیئے سوچ رہا تھا کہ کیمروں کی چندھیا جانے والی روشنیوں نے اس کا جواب بھی مہیا کر دیا ، ہر کوئی میری بے گناہی کے راگ الاپ رہا تھا اور پرنٹنگ و الیکٹرونک میڈیا اپنی دی گئی خبروں میں مجھے بام عروج تک پہنچاتے ہوئے مزید تفتیش جاری ہے پر دوسری خبروں میں مصروف ہو گیا ۔ میری ساری زندگی کی آزادی نادیہ کی مرہون منت تھی جس نے کوئی لمحہ ضائع کیئے بغیر میرے ماتھے پہ لگنے والے دھبے کو صاف کیا ۔۔ ۔ !!
چلیں ۔۔۔ ہیں کہاں ؟ وہ بزرگ اور آپ کی دونوں سہیلیاں ۔۔۔۔ کہاں گئے سب ؟
وہ سب تو آپ کوگڈ بائی کہہ کے جا بھی چکے ہیں ۔۔۔۔۔ ہیں میں نے تو سنا تک نہیں ۔۔۔۔ آپ جس دنیا میں تھے وہ شرافت کا خیال تھا اور سب اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ آپ انہیں سوچوں میں ہیں ، ہم دونوں کو یہاں چھوڑ کر جا چکے ہیں ، اب آیئے میرے ساتھ ۔۔۔۔ کہاں ؟ مجھے ائیر پورٹ تک الوداع نہیں کہیں گے ۔ مجھے واپس لندن جانا ہے ۔۔۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔!!
نادیہ نے ایک ٹیکسی وہیں سے لی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر سفر شروع کر دیا ۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔
ارے آپ تو اچھی خاصی اردو بول رہی ہیں ۔
یہ سب آپ کی مہربانی ہے ۔
وہ کیسے ؟
میں آپ کو سات سال سے سن رہی ہوں ، ریڈیو ، ٹی وی ، مختلف پروگراموں میں شمولیت کرکے مجھے شوق پیدا ہوا اردو سیکھنے کا اور جب کوئی کسی زبان کو سیکھنا چاہے تو سیکھ سکتا ہے ، آج مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے کہ میں آپ کے ساتھ اردو میں بات کر رہی ہوں ۔
میں ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے جیل کی سراسیمگی میں گم سم تھا اور جونہی آپ کی زباں سے اردو کی شیرینی میری سماعت میں رس گھولنے لگی تو جیل میں کٹی ساعتوں کی رنجش کا اختتام ہوا ۔
آپ کو بتاتی چلوں کہ آپ کے تمام ریڈیو ، ٹی وی ، اسٹیج ڈرامے اور سب پروگراموں کی آڈیو ، ویڈیوز میرے پاس موجود ہیں ، آکسفورڈ میں میرے کئی ساتھی بہت پیاری اردو بولتے ہیں اور میرا زیادہ تر وقت انہی کے ساتھ گذرتا ہے ان میں سے کئی آپ کے مداح بھی ہیں ۔
بے حد شکریہ ۔ آپ نے اتنی ساری محبت کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ مجھے ناکردہ گناہ کے چنگل سے بھی آزاد کروا دیا ۔
ہاں یاد آیا ۔ وہ بزرگ جو جیل میں میرے ساتھ تھے وہ میرے ڈیڈی ہیں اور آپ کو عدالت جانے کی اب ضرورت نہیں ہے ، انہوں نے تمام مقدمے کی سماعت خود کر لی ہے اور سوموار کو عدالت میں اس اصل مجرم کو لے جایا جائے گا جو کہ نمبر دو کرنسی کے گھناونے جرم کے مرتکب ہیں ، وہی کیفر کرداد تک پہنچیں گے اور آپ کی بے گناہی کا پروانہ عدالت عالیہ سے آپ کے گھر تک پہنچ جائے گا ۔
میرے پاس الفاظ نہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کر سکوں
ہمیں آپ اس معاملے میں مزید شرمندہ مت کیجیئے ۔۔۔ لو باتوں باتوں میں ائیر پورٹ بھی آ گیا ہے ، وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔ اور ویسے بھی آپ کے ساتھ سفر کرنے کا الگ مقام ہے ۔۔۔۔ آیئے ایک ایک سینڈوچ ہو جائے تاکہ ۔۔۔۔ رہنے دیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔۔ جانتی ہوں جیل کے کھانے کا کچھ دنوں تک آپ پر گہرا اثر رہے گا اسی کو زائل کرنے کے لیئے کچھ کھا پی لیتے ہیں ۔ اگر اور کچھ کھانا ہے تو بتایئے ۔۔۔
کیوں تکلیف کر رہی ہیں ۔۔۔
اور آپ تکلف کیوں کر رہے ہیں ، سینڈوچ کے ساتھ کولڈ ڈرنک چلے گا کہتے ہوئے نادیہ نے دو سینڈوچ اور کولڈ ڈرنک لے کر ویٹنگ روم کے کارنر صوفے پر بیٹھے ہلکی ہلکی مسکراہٹوں کے تبادلے میں بات چیت جاری رکھی ، باتوں باتوں میں جولی اور صوفیہ کی دوستی کو بھی سراہتی رہی ۔ وہ کمپیئر جو ہر وقت مائک لیئے دنیا کے ساتھ باتیں کرتا تھا آج نادیہ کی گفتگو سے تسکین لے رہا تھا ۔۔
اٹنشن پلیز نے سارے ماحول کو درہم برہم کر دیا ۔۔۔ یہ لندن جانے والی فلائٹ کی آخری کال تھی
نادیہ نے بڑی لجاجت سے اپنا بایاں ہاتھ بڑے پیار سے آگے بڑھاتے ہوئے ،،، آٹو گراف پلیز ،،، کہتے ہوئے قلم پیش کیا
یہ آج آپ بائیں ہاتھ پہ آٹو گراف کیوں لینا چاہتی ہیں
اس لیئے کہ بائیں ہاتھ کا رابطہ دل سے ہے اور قلم اس لیئے پیش کر رہی ہوں کہ یہ قلم اب آپ کی ملکیت ہو گی ۔
میں جونہی آتو گراف دے چکا تو اس نے ہنستے ہنستے کہا کہ جس نے دل پر آٹو گراف لیئے تھے کبھی کبھی اسے بھی یاد رکھیئے گا
یہ لیں اس قلم کا خول اس میں اسے سنبھال کے رکھیئے گا ۔۔۔۔ وہ ویٹنگ روم سے لاونج تک جاتے جاتے مجھے آخر تک دیکھتے بھی جارہی تھی اور میں اس کی بے لوث محبت کا مقروض بھی تھا ، قلم کا خول جو اس نے جاتے ہوئے میرے ہاتھ میں تھمایا تھا اس میں قلم رکھنے کے لیئے اسے کھولا ہی تھا کہ ایک کاغذ کی دو تہوں میں پچاس یوروز کا نوٹ میرا استقبال کر رہا تھا ۔۔۔ کاغذ پہ تحریر اگرچہ اب میرا معاملہ نہیں رہا آپ کے ساتھ بھی اس کی شراکت کرتا ہوں ،،، اس پچاس یوروز کے بنک توٹ کو ٹیکسی ڈرائیور کو دیتے وقت اس پر ،، آٹو گراف ،، مت دیجیئے گا ۔
میری آنکھوں میں آئے آنسو مجھ سے سنبھالے نہ گئے ، باہر نکلا تو دیکھتا ہوں وہی ٹیکسی والا ہنستے ہوئے مجھ سے کہہ رہا تھا چلیں اور میں اس کے ساتھ دور خیالوں میں کھویا کسی کے ساتھ ہم سفر تھا ۔ گھر تک لانے والے تیکسی ڈرائیور کو پچاس کا نوٹ دیتے ہوئے مجھے نادیہ کی تحریر یاد
آ گئی اور میں ہنستے ہوئے اسے الوداع کہتے ہوئے چل دیا اوروہ کہتا ہی رہا آپ کا بقایا ۔۔۔۔۔ یہ سب تمہارا ہے تم رکھ لو ۔۔ !!
اخبار

Share
Share
Share