تفسیراشرفی کا لسانی جائزہ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمجید بیدار

Share
پروفیسر مجید بیدار
پروفیسر مجید بیدار

تفسیر اشرفی کا لسانی جائزہ

از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ ۔ حیدرآباد
موبائل : 09441697072

شعر و ادب ، علم و فن ، سائنس و ٹکنالوجی او رجدید علوم پر لکھی جانے والی ہر قسم کی کتاب اور تحریر کا لسانی جائزہ ممکن ہے۔ بلاشبہ لسانیات کے علم میں وہ جادوئی کیفیت ہے کہ جس کی وجہ سے یہ علم علومِ السنہ کے تمام شعبوں کو اپنی گرفت میں شامل کر لیتا ہے۔ بلاشبہ شعری اصناف کا لسانی تجزیہ ہی ممکن نہیں، بلکہ نثری اصناف اور علمی و فنی تحریروں کے تجزیے کے لیے بھی لسانیات کا عمل قابل قبول ہے۔ جس طرح نثر کی بے شمار اصناف میں افسانوی نثر جیسے فکشن Fiction اور غیرافسانوی نثر Non Fiction کی شناخت وجود میں آچکی ہے۔ علمی و ادبی موضوعات پر لکھی جانے والی تمام کتابوں کو غیرافسانوی نثر میں شمار کیا جاتا ہے۔ غیرافسانوی اصنافِ نثرکے دورا ن شفاف، دلچسپ اور توضیحات و تشریحات سے مالامال اُسلوب اختیار کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاایسی صنفِ نثر تفسیر کی حیثیت سے شناخت رکھتی ہے عام طور پر تفسیرکو انگریزی زبان میں commentary کی حیثیت سے قبول کیا جاچکا ہے۔ تفسیرلکھنے کا عمل انتہائی دلچسپ اور حد درجہ شفافیت سے وابستہ ہے ۔ کئی علوم و فنون میں مہارت کے بعد ہی تفسیر کی صنف پر اظہارِ خیال ممکن ہے۔ ’’سید التفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی‘‘ کی ترتیب کے دوران اِس

حقیقت کا انکشاف بذاتِ خود کیا جاچکا ہے کہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کم سے کم آٹھ علوم پر مہارت لازمی ہے۔جس کے مطابق یہ بتایا گیا ہے: (۱) علمِ لغت (۲) صرف و نحو (۳) معانی (بیان و بدیع) (۴) علمِ حدیث (۵) اصولِ فقہ (۶) علمِ کلام )(۷) علمِ قرأت (۸) ناسخ و منسوخ کا علم۔ جیسے علوم سے واقفیت کے علاوہ آیاتِ قرآنی کے وضعی معنی ، اعراب و حرکات، فصاحت و بلاغت ، حقیقت و مجاز، شانِ نزول ، عام و خاص ، مطلق و مقید ، اوامر و نواہی کے علاوہ آدابِ بارگاہِ الوہیت اور بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی وابستگی کے بعد ہی تفسیر کی نمود ممکن ہے۔ بعض اوقات ان علوم سے ناآشنائی کے باوجودبھی کوئی تخلیقی عمل سے وابستہ شخص قرآن کا ترجمہ یا تفسیر لکھنے کی گمراہ کن کوشش کرتا ہے تو بلاشبہ اس کا یہ عمل قارئین کو گمراہی میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ غرض قرآن کریم کو پوری طرح سمجھنا اور ہر جزو کے صریح حکم سے مطلب نکالنا ہی ایسے دو مبارک اور مسعود اصول ہیں جن کو بنیاد بناکر قرآنی احکامات اور قوانین کی نمائندگی کرتے ہوئے قرآنی لفظیات کو معنویت کا پیراہن دیا جائے تو تفسیرلکھنے کا حق ادا ہوتا ہے۔ غرض تفسیر کے دوران نہ صرف احادیث کو بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے، بلکہ آثارِ صحابہ اور اقوالِ تابعین اور متقدمین کی تفسیروں سے حوالے پیش کرکے ذاتی رائے کو اہم اور باوضع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح تفسیر لکھنے کا علم کئی اہم تقاضوں سے وابستہ ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کی تفسیر لکھنے والا اشرف المخلوقات کی عمدہ صلاحیتوں کا نمائندہ ہوتا ہے جو مختلف علوم و فنون کا ماہر ہونے کے باوجود تفسیر کے دوران توازن اور خداترسی کا رویہ اختیارکرنے میں کامیاب ہو جائے تو بلاشبہ مفسر کے ذریعہ کسی بھی غلط رویہ کی وجہ سے عالمِ انسانیت کو نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ باقی نہیں رہتا ،اس لیے مفسر کی ذمہ داری دیگر تخلیق و تصنیف کا رویہ اختیار کرنے والے عام انسانوں سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔
ہردور میں وقت اور زمانہ کے لحاظ سے قرآن کریم کی توضیحات و تشریحات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ قرآن مجید جیسی امّ الکتاب کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا اور اس کی تفہیم کے لیے عالمی زبانوں میں ترجمے اور تفاسیر کا سلسلہ شروع ہوا تو بلاشبہ قرآنی احکامات اور فقہی مسائل کی توضیح و تشریح کے علاوہ مفہوم کی ادائیگی کے سلسلہ میں بے شمار دشواریاں درپیش ہوئیں، کیوں کہ قرآنی لفظیات اور اس کے متبادلات کا دوسری زبانوں میں وجود نہ ہونے کی وجہ سے کیفیاتی فضا کو نمائندگی دینے پر اکتفا کیا گیا۔ غرض ہر دَور کے تقاضوں کے مطابق تفسیر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ علوم و فنون کی ترقی اور ایجادات و اختراعات کا بڑھتا ہوا سمندر جب ٹھاٹھیں مارنے لگا اور ساری دنیا یوروپی علوم و فنون کی گرویدہ ہونے لگی تو ایسے وقت قرآن کے مفسرین کے لیے کئی مسائل پیدا ہوئے ، جن کی توضیح و تشریح کے معاملہ میں آج بھی سخت دشواریوں کا سامنا نظر آتا ہے۔ غرض مفسر آیاتِ قرآنی کی تفسیر و تشریح اور اس کے شانِ نزول کے علاوہ مفہوم کی نمائندگی کے معاملہ میں عقل و دل کی پیشکشی ہی نہیں بلکہ سچائی کی دل گرفتگی کو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کے ترجمہ کا عمل کچھ اور تقاضے رکھتا ہے، جب کہ تفسیر لکھنا بذاتِ خود مفسر کی زبان اور اظہار کو تسنیم و کوثر سے دھوکر سچائی کی بازیافت کے لیے زبان کی عمدہ صلاحیتوں کا استعمال کرنا ہے۔ غرض تفسیر ایک مکمل فن ہے جس میں حقیقت بیانی ، راست گوئی ، تفہیم و ترسیل اور فکری شکوک و شبہات کے ازالہ کے علاوہ مفہوم کی گہرائی و گیرائی کو حقائق کی روشنی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ قرآن مجید کے لفظی ایجاز اور اختصار کو اس کی حقیقت کے مطابق سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو تو تفسیر کا حق ادا ہونا سخت دشوار ہے۔ غرض تفسیر کے ذریعہ سوائے سچائی کے کسی قسم کی ملمع کاری یا بے ساختگی کو روا نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لیے تفسیر کا فن فکر و فراست کی طہارت ہی نہیں بلکہ اظہار اور بیان کی مطہر خصوصیت کا علمبردار ہوتا ہے۔ خدا نے جن اشخاص کی فطرت میں ان خوبیوں کو شامل کیا ہے وہی قرآن کی تفسیر پیش کرنے کے سزاوار قرار پاتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی علوم ہی نہیں بلکہ روحانیات، وحدانیت اور دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے عقائد کے علاوہ اپنے مذہب اور اس کے عہد بہ عہد ارتقائی مراحل سے وابستگی کے ساتھ ساتھ احادیث اور ان کے لکھنے والوں کے ادوار سے واقفیت اور ہر دور میں پیش ہونے والی تفاسیر کے امتیازات سے آگاہی کے بعد ہی تفسیر لکھنے کا فن کسی شخص کی فطرت کا حصہ بن سکتا ہے۔ عصر حاضر میں دنیا کی بے شمار زبانوں میں تفاسیر لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عربی ، فارسی اور ترکی زبان کے بعد اردو زبان ہی ایک ایسی عالمی سطح پر مقبول زبان ہے جس میں لکھی جانے والی بے شمار تفاسیر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف ان تفاسیر کا عالمی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ، بلکہ ایسی تفاسیر کی حقانیت اور واقعیت کو بھی عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ عصر حاضر میں قرآن کریم کی اصلیت، حقیقت اور اس کی آیات کی حقانیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید تقاضوں سے وابستہ حضرت سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی کی مرتب کردہ تفسیری خصوصیات سے مالامال تصنیف ’’سید التفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی‘‘ کو چھ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے، جسے شیخ الاسلام ٹرسٹ نے شائع کرکے ہندوستان کے مختلف گوشوں میں ہی نہیں بلکہ انگلستان، امریکہ، پاکستان اور دنیا کے خطہ خطہ میں پھیلانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ’’تفسیر اشرفی‘‘ کو بلاشبہ ’’سید التفاسیر‘‘ قرار دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔ چوں کہ حضرت علامہ شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مد ظلہ العالی نے اس تفسیر کے ذریعہ عصر حاضر تک لکھی جانے والی تمام تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جانب تو تفسیر کے فنی خصائص کا حق ادا کیا ہے تو اس کے ساتھ ہی تفسیر کی ان چھ جلدوں میں روحانیات کی ترجمانی کرتے ہوئے مادّیت اور مادّیت کے فائدے و نقصانات کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ ’’سید التفاسیر‘‘ کو اس لیے بھی متوازن تفسیری کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے کہ اس تفسیر کے ذریعہ حضرت علامہ نے قرآن کی روح اور خدا کی سنت کو منظر عام پر لاتے ہوئے عصر حاضر کے عالمی سطح پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کو سچائی اور راست گوئی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر سختی سے پابند رہنے اور اسلامی شعار کو اپنی زندگی کا نمونہ بنانے کا سبق دیا ہے۔ بلاشبہ اس تفسیر کو مقصدی اور انسانی زندگی کو خدا کے حکم کے تابع بنانے والی تفسیر سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس تفسیر کی بے شمار خصوصیات ہیں اور ان خصوصیات کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا جائے گا۔
عصر حاضر میں اس حقیقت کو محسوس کیا جانے لگا ہے کہ دینی علوم سے فارغ عالم و فاضل شیوخ کے توسط سے جس زبان کو فروغ حاصل ہورہا ہے وہ درحقیقت اردو زبان تو ہے ، لیکن اس قسم کی زبان کو ’’مولویانہ نثر‘‘ کی حیثیت سے قبول کیا جارہا ہے۔ دینی مولوی اور عالم عام طور پر اپنی نثر میں معرب اور مفرس الفاظ کے استعمال کے ذریعہ نثر کی سادگی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ فقہی موضوعات اور عنوانات کی پیشکشی کے دوران عربی اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے دینی عالموں کی زبان سادگی سے بے نیاز اور عام فہم نثر کے زمرے سے مختلف ہوتی جارہی ہے۔ بلاشبہ کسی بھی نثر کی تحریر کا مقصد ہی تفہیم و ترسیل ہے، لیکن دینی مدارس میں عربی اور فارسی کے علم سے وابستہ افراد اسی زبان کو اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں جو ان کی تدریسی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی زبا ن اگر چہ اظہار کی خوبیوں سے تو مالامال رہتی ہے، لیکن عام فہم اور ترسیل کی خصوصیات سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ عصر حاضر میں اردو املا کا تعین ہوچکا ہے اور پیچیدہ تراکیب کے بجائے عام فہم تراکیب کو رواج دینے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں جب کہ برصغیر کی مختلف زبانوں میں اردو کو اس لیے اہمیت حاصل ہوتی جارہی ہے کہ یہ زبان تیزرفتاری کے ساتھ تفہیم و ترسیل کا حق ادا کررہی ہے تو لازمی طور پر دینی عالم اور مولوی حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے اسی اردو زبان کو وسیلہ کے طور پر استعمال کریں، جو ترسیل و تفہیم کا حق ادا کرتی ہے۔ اس پس منظر میں جب ’’تفسیر اشرفی‘‘ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی نے سادہ ، عام فہم اور رواں تحریر کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ تحریر کی یہ بڑی خوبی ہے کہ جو عربی الفاظ قرآنی آیت میں مستعمل ہیں انہیں واوین میں درج کرکے اس کی تفہیم کا حق بھی ادا کیا گیا ہے۔ اس قسم کا ترسیلی انداز پہلی مرتبہ ’’تفسیری اشرفی‘‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علامہ نے چوں کہ بیشتر تفاسیر کا مطالعہ و مشاہدہ کیا اور ان تفاسیر میں موجود ترسیلی استدلال پر غور و فکر فرمایا اور اِس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا کہ صرف دانشور طبقہ کو تفسیر کے مطالعہ کا حق حاصل نہیں ، بلکہ عام فہم انسان بھی تفسیر کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت کا علمبردار ہوجائے۔ اسی بنیادی خصوصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’سید التفاسیر‘‘ یعنی ’’تفسیر اشرفی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ سادہ اور عام فہم زبان کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ نے قرآنی آیات کا ترجمہ بھی حد درجہ سادہ اور ہلکا پھلکا کیا ہے۔ قرآن کریم کو نبیؐاور ان کی امت کے لیے صحیفۂ ہدایت کا درجہ دے کر حضرت علامہ نے کسی ایسے لفظ کے استعمال پر توجہ نہیں دی جو زبان و ادب کے معیار سے غیرمتعلق ہو، یعنی حضرت علامہ نے سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں غریب الفاظ سے پرہیز برتا ہے، جو کسی لکھنے والے کی عمدہ صلاحیت کی دلیل ہے۔ نثر نگاری کا رواں انداز اور ترتیب و ترسیل کا منفرد اسلوب ’’تفسیر اشرفی‘‘ کی خصوصیت میں شامل ہے۔ جس طرح پھولوں اور تسبیح کے دانوں کو کسی دھاگے میں پرویا جائے تو پھول اور تسبیح کے دانوں میں جس قسم کا حسن پیدا ہوتا ہے ، اسی قسم کا حسن حضرت علامہ کی تفسیر میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ عصر حاضر میں طرزِ تحریر یا لکھنے کے انداز کے لیے لسانی پس منظر میں خصوصی اصطلاح کا رواج ہوا ہے ، جسے ’’ اسلوب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر زبان اپنے دور کے عصری اسلوب سے وابستہ ہوتی ہے۔ بلاشبہ پچاس سال پہلے کا اسلوب آج سے بالکل مختلف ہوگا اور سو دو سو سال پہلے کا اسلوب آج کے طرزِ تحریر سے بالکل جداگانہ قرار پائے گا۔ وقت اور زمانوں کے تقاضوں کے مطابق ہر دور کی انسان کی تفہیمی و ترسیلی ضرورت کے اعتبار سے اسلوب میں بھی تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے۔ حضرت علامہ نے ’’تفسیر اشرفی‘‘ میں متروک الفاظ کے استعمال سے پرہیز برتا ہے اور جن لفظیات کی عصر حاضر میں استعمال کی گنجائش ہے اور اس کے توسط سے ترسیل و تفہیم کا حق ادا ہوتا ہے ان الفاظ کی ادائیگی کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے۔ بلاشبہ عربی اور فارسی الفاظ کے بجائے ’’تفسیر اشرفی‘‘ میں ہندی الفاظ کو روانی کے ساتھ استعمال کرنے میں حضرت علامہ کا کوئی ثانی نہیں۔ ہر کیفیت کو بیان کرنے کے لیے حضرت علامہ نے تفسیر اشرفی کے دوران تمثیلی رویہ کو بروئے کار لایا ہے، تاکہ تفہیم میں آسانی پیدا ہوجائے۔ اسلوب میں تازگی پیدا کرنے کے لیے ’’تفسیر اشرفی‘‘ کا انداز حد درجہ فطری ہے۔ حضرت علامہ نے فطری اسلوب کو تفسیر اشرفی میں جگہ دینے کے لیے بھاریبھرکم فارسی اور عربی الفاظ کے استعمال سے پرہیز برتتے ہوئے مقامی اور ہندی الفاظ کو رواج دیا ہے جن کے استعمال سے اسلوب میں تنوع اور اظہار میں تازگی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر تفسیر اشرفی کے جملے اور فقرے پیش کردیے جائیں تو خود اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علامہ نے اس اہم تفسیر کے دوران خالص فطری اسلوب کی نمائندگی فرمائی ہے جس میں فارسی اور عربی تراکیب سے پرہیز اور عصر حاضر کے مروّجہ الفاظ کے استعمال کا سلیقہ از خود موجود ہے۔ سادہ زبان اور ترسیل کا حق ادا کرنے والی تحریر کو سمجھنے کے لیے تفسیر اشرفی کی پہلی جلد کے ایک پیراگراف سے چند مثالیں پیش ہیں، جس سے حضرت علامہ کی اسلوبی خصوصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’کپڑے کا رنگ اِس میں گِھستا ہے، مگر دھوتے دھوتے ہلکا پڑجاتا ہے‘‘ ۔ اسی طرح اسی صفحہ پر یہ بھی لکھتے ہیں : ’’دنیا میں ہر چیز اب رسمی ڈھکوسلا ہے‘‘ ۔ اردو نثر میں رواں ہندی الفاظ کے استعمال اور ان کے توسط سے تفہیم و ترسیل کی خصوصیات کو اُجاگر کرنا تفسیر اشرفی کی امتیازی خصوصیت ہے۔ انھوں نے بے شمار ہندی محاوروں کو اپنی تفسیر میں شامل کرکے عصر حاضر کی بھرپور نمائندگی فرمائی ہے۔ ہندی محاوروں میں نبوت کا ٹھیکہ لینا، کٹ حجتی پر اُتر آنا، نعمت چھین لینا ، حقیقت کو چھپانا اور ایسے ہی بے شمار محاورے ہر صفحہ کی زینت بڑھانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ بلاشبہ حضرت علامہ نے ’’تفسیر اشرفی‘‘ میں واحد اور جمع کی کیفیت کو نمایاں کرنے کے لیے عربی اور فارسی رویہ کو اختیار کیا ہے، لیکن کوئی بھی ثقیل عربی لفظ یا عام ذہن سے ہٹ کر لفظ استعمال بھی فرمایا ہے تو اس لفظ کے ساتھ ہی قوسین میں اس کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ جب وہ ’’بکواس کریں گے‘‘ تحریر کرتے ہیں تو قوسین میں (بکیں گے) کا اندراج بھی ضروری سمجھا گیاہے۔ جس کا مقصد ہی یہی ہے کہ تفسیر اشرفی کے ذریعہ حضرت علامہ نے عام انسان کو قرآنی آیات کی تفہیم و ترسیل سے قریب کرنے کے لیے فطری اسلوب کا سہارا لیا ہے۔ اسلوب کا یہ انفرادی انداز ’’تفسیر اشرفی‘‘ کی شناخت بن جاتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے عہد کے فطری اسلوب کو تفسیر میں جگہ دیتے ہوئے حضرت سید محمد اشرفی جیلانی نے وقت کے تقاضوں کی تکمیل کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔
اسلوب کا بنیادی مقصد حرف و صوت ہی نہیں بلکہ مفہوم کی ادائیگی کے دوران گہرائی اور گیرائی اور ان کی حقیقت سے آگاہی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ سادہ لفظوں میں پتہ کی بات کوادا کرنا حد درجہ دشوار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ تفسیر لکھنے والے کی فکر اور سوچ پر علوم و فنون کے سمندر اپنی خصوصیات کو نمایاں کرتے ہیں اور مفسر کے لیے یہ عمل دشوار گذار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اظہار کو کس کیفیاتی فضا اور لفظیات کی بندش سے وابستہ کرے، جس کی وجہ سے نہ صرف ترسیل کی تکمیل ہوجائے ۔ اس کے علاوہ مفہوم ادا ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر میں گہرائی اور گیرائی کا وصف بھی شامل ہوجائے۔ اس معاملہ میں صاف طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک خدا کی نصرت مفسر کے شامل حال نہ ہو ،اس کی تحریر میں گہرائی و گیرائی کا وصف پید ہونا ممکن نہیں۔ حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی کی ذات پر خدا کا فضل اور عنایتوں کا ظہور ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر اشرفی کے ایک ایک جملے اور ایک ایک فقرے میں نہ صرف گہرائی و گیرائی کا اثر کارفرما ہے، بلکہ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بندہ کی لکھی ہوئی تحریر میں خدا نے تاثیر کی کیفیت کو اس طرح پیوست کردیا ہے کہ ہر جملہ اور فقرہ اظہار کی قوت سے مالامال ہے اور گہرائی و گیرائی کی تمام خصوصیات سے وابستہ ہوکر آسان ترسیل کا حق ادا کرتا ہے۔ گہرائی سے مراد کسی بھی لفظ کی تہہ میں اتر کر اس کی معنوی کیفیت کو ہمہ گیر بنا دینا ہے۔ اسی طرح گیرائی سے مراد کسی لفظ کے اطراف و اکناف میں موجود ماحول کو اس طرح متاثر کرنا کہ وہ لفظ خود کیفیت کو سمولینے کا علمبردار ہوجائے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو من جانب اللہ کسی کی تحریر کا وصف بنتی ہیں۔ چوں کہ حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی نے خدا کی نصرت اور بندوں کی تربیت کو پیش نظر رکھ کر اس تفسیر کی تحریر کا ارادہ فرمایا اس لیے اس تفسیر کی لفظیات میں نہ صرف قوتِ تاثیر ہے ، بلکہ معنویت کا دریا ٹھاٹھیں مارتا ہواترسیل کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے ساتھ ہی گہرائی و گیرائی کی ایسی خصوصیت نمایاں ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے لفظ و معنی میں اشتراک اور اظہار میں مثالیت شاملہوکر ہر جملے اور ہر فقرے سے معنویت کا یکساں عمل نمایاں ہونے لگتا ہے۔ غرض تفسیر اشرفی کے اسلوب میں جہاں سادہ اور عام فہم الفاظ جلوہ گر ہیں وہیں لفظوں کی صوتی خصوصیات اور ان کی گہرائی و گیرائی سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ کو تحریر کا وصف من جانب اللہ حاصل ہوا تھا، اس لیے ان کی تفسیر میں کیفیاتی فضا جلوہ گر ہے ۔جس سے دل متاثرہوتے اور ذہن کے دریچے کھلنے کے علاوہ گہرائی و گیرائی کی وجہ سے عقل و فراست کے بہترین نمونے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اس قسم کاتحریری منفرد رویہ اردو کی بہت کم تفسیروں میں دکھائی دیتا ہے، اسی لیے تفسیر اشرفی کے اسلوب کو حد درجہ رواں اور عصر حاضر کا علمبردار قرار دیتے ہوئے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ برسوں تک اس تفسیر کے اسلوب کو حد درجہ پسند کرتے اور اپنی زندگی کو سنوارنے کا وسیلہ بناتے رہیں گے۔
فنی اعتبار سے تفسیر کو غیرافسانوی نثرمیں شمار کیا جاتا ہے۔ قصہ ، کہانی اور واقعہ کے اظہار کے لیے اختیار کی جانے والی نثر میں بیانیہ کا وصف شامل ہوتا ہے۔ اس کے بجائے دنیا کی حقیقتوں کو نمایاں کرنے کے لیے جس اندازِ تحریر کو اظہار کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اسے وضاحت کی حیثیت سے نمائندگی دی جاتی ہے۔ تفسیر ایک ایسا نثری کارنامہ ہے جو غیرافسانوی نثر کا وسیلہ ہے۔ اس لیے تفسیر کے توسط سے کوئی بھی مفسر بیانیہ انداز کے بجائے وضاحت کے طریقہ کو اختیار کرتا ہے۔ خدا کی ودیعت کردہ دو اہم صلاحیتوں کی وجہ سے بیان اور وضاحت کا عمل تکمیل پاتا ہے۔ ساری دنیا میں بسنے والے ذی روحوں میں انسان ہی وہ اشرف المخلوقات ہے جسے قدرت نے قوتِ متخیلہ اور قوتِ آخذہ کی نعمت سے مالامال کیا ہے۔ یہ نعمت دنیا کی کسی اور مخلوق میں موجود نہیں۔ خیال کرنے کی قوت کو پیش کرنے کا انداز تخیل کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے توسط سے قصہ کہانی کا وجود ہوتا ہے، جب کہ دنیا میں موجود حقیقتوں کو دیکھ کر اس سے نتائج اخذ کرنے کا انداز قوتِ آخذہ کی دلیل ہے، چوں کہ تفسیر کے ذریعہ قرآنی آیات اور اس کی لفظیات پر غور و خوض اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا عمل تکمیل پاتا ہے، اس لیے تفسیر جیسی غیرافسانوی صنف کو قوتِ آخذہ کی دلیل اور اس کے توسط سے وضاحتوں اور تشریحات کی تکمیل کا حق ادا ہوتا ہے۔ کسی بھی مفسر کی تحریر میں بیانیہ کا عمل تفسیر کی حیثیت سے شامل ہو تو حقائق اپنی وضاحت کے بجائے خیالی قصہ و کہانی کے اظہار کی دلیل بن جائیں گے ۔اس لیے تفسیر لکھنے کے دوران کہیں بھی قصہ کہانی کی روایت کو استعمال نہیں کیا جائے گا، بلکہ حقائق کی وضاحت اور سچائیوں کی تشریح کا عمل ہی کسی بھی تفسیر کی اہم خصوصیت میں شامل ہے۔ تفسیر اشرفی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی نے اِس تفسیر کے دوران محدثِ اعظم حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کے رویے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اسلوب کی حقانیت کو نمایاں کیا ہے۔ غیرافسانوی نثر کی مؤثر نمائندگی کے ذریعہ تفسیر اشرفی میں وضاحت کا فطری انداز اور مبالغہ سے حد درجہ پرہیز کا طریقہ اختیارکیا گیا ہے۔ عام طور پر بیانیہ نثر کے دوران قصے کہانی کی ترتیب و ترسیل پر توجہ دی جاتی ہے ، اس لیے افسانوی نثر مبالغہ، قیاس آرائی ، فسانہ طرازی اور بے حقیقت ماورائی خصوصیات کی علمبردار ہوجاتی ہے، جب کہ تفسیر لکھنے کے دوران اس قسم کے رویے کا استعمال فن تفسیر سے ناانصافی کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر اشرفی کا اسلوب غیرافسانوی ہونے کے علاوہ وضاحت سے مالامال اور تشریحات کا دامن تھام کر فکر و فہم کو ترسیل کا آئینہ دکھانے کا علمبردار ہوجاتا ہے۔ توضیحات اور تشریحات ہی نہیں بلکہ تفسیر کے دوران تحقیقی و تنقیدی رویے کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ یہ تحقیقی اور تنقیدی رویے اسی وقت تفسیر کا حصہ بنتے ہیں جب کسی تاریخی حقیقت یا گزرے ہوئے واقعہ کو قرآن مجید نے بطورِ اشارہ پیش کردیا ہو تو مفسر کے لیے یہ لازمی ہے کہ اُس اشاراتی تاریخی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے داستانوی ، ماورائی یا قیاسی رویہ اختیار کرنے کے بجائے خالص تحقیقی و تنقیدی رویہ اختیار کرکے تاریخی اشارات کی عقدہ کشائی پر خصوصی توجہ دے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مفسر کا ذہن تمام واقعات و حالات سے کماحقہ واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت سے وابستہ ہو۔ جیسا کہ ابتداء ہی میں بتایا جاچکا ہے کہ تفسیر لکھنے کے لیے کئی علوم و فنون پر دستگاہ ضروری ہے۔ اس کا اظہار تفسیر اشرفی کے مدوّن نے خود اپنے پیش لفظ میں واضح کردیا ہے۔ ایک عام تدوین متن سے بالکل مختلف طریقہ تفسیر کے دوران اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی قدیم مواد کو ترتیب دیتے ہوئے اُس کی حقیقت اور تفصیلات کی عقدہ کشائی تدوین کہلاتی ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر کو تدوین متن کا موقف اس لیے نہیں دیا جاسکتا کہ قرآن مجید کی آیات میں چھپے ہوئے معنی اور مفہوم کی رسائی انسان کے ذہن سے ممکن نہیں بلکہ روحانی فیوضات اور خدا کی جانب سے جب تک اکتشاف کا معاملہ نہ ہو کسی بھی آیت کی تفسیر لکھنا ممکن نہیں۔ اس اعتبار سے تدوین متن سے الگ رویہ تفسیر کے دوران اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر اسے خود اپنا کارنامہ تصور کرتا ہے تو بلاشبہ وہ غلط فہمی کا شکار ہے، کیوں کہ قرآنی آیات میں چھپے ہوئے مفہوم کی گرہوں کو کھولنا اور اس کی وضاحت و تشریح کے رویے کو فطری انداز سے نمایاں کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ تفسیر لکھنے والے پر خدا کی جانب سے کشف کا دروازہ کھلنا ضروری ہے۔ غرض تفسیر کی ادبی حیثیت دوسری نثری اصناف سے بالکل مختلف ہے ۔ یہ غیرافسانوی نثر کی دیگر فنی خصوصیات سے بالکل مختلف طرزِ تحریر ہے جس میں حقائق کے سوا کسی بھی مبالغہ کو شامل نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی تفسیر لکھنے کے دوران من مانی اور اپنی طرف سے لفظ و معنی کی دنیا سجانے کی طرف مائل ہوجائے تو بلاشبہ اُس کی تفسیر خود اسے گمراہ کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کے مطالعہ سے انسانی گروہ بھی گمراہ ہونے کا خدشہ شدید ہوجاتا ہے، اس لیے تفسیر لکھنے والے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تفسیر کے دوران ہر لفظ کو ناپ تول کر اُس کی ادبی حقیقت کے علاوہ تاریخی اور واقعاتی خصوصیت کو جانتے ہوئے اظہارِ خیال کرے ، ورنہ تفسیر کی لفظیات حد درجہ گمرہی کا وسیلہ بن جائے گی۔ اس خصوص میں سرسید احمد خان کی لکھی ہوئی تفسیر اور ڈپٹی نذیر احمد کی جانب سے قرآن کے پاروں کے ترجمہ کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ اُن مفسرین نے تفسیر کے دوران اپنی سوچ و فکر کے مطابق قرآنی آیات کی توضیح و تشریح کی طرف توجہ دی ، جس کی وجہ سے ان دو اشخاص کی جانب سے لکھی جانے والی تفسیریں چاہے عقل اور سائنس کی بے شمار گرہیں کیوں نہ کھولتی ہوں ، لیکن حقائق سے پرے ہونے کی وجہ سے ایسی تفسیروں کو قابل اعتناء نہیں سمجھا جائے گا۔ ان مثالوں کے ذریعہ یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تفسیر لکھنے کے مختلف انداز ہر دور میں جاری و ساری رہے اور ہر انسان نے قرآنی آیت کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اظہار کا ذریعہ بنایا، جب کہ قرآن کا بنیادی تقاضہ یہی ہے کہ اس کی لفظیات کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معنی و مفہوم کے توسط سے دنیا میں پیش کیا وہی مفہوم کی وضاحت و تشریح کی جائے۔ تب تفسیر کے فطری تقاضے کا حق ادا ہوتا ہے۔ تفسیر اشرفی کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ اس کے توسط سے الٰہیات کے فلسفے کی نمائندگی ہی نہیں بلکہ روحانیات اور قرآنی آیات کی ترسیلی خصوصیات کو منظرعام پرلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حضرت سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی نے تفسیر اشرفی کے توسط سے توضیح و تشریح کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے اور کہیں بھی قیاس آرائی اور عبارت آرائی سے کام نہ لیتے ہوئے حقائق کی پردہ دری کے ذریعہ قرآن مجید کے مزاج اور اس کی لفظیات میں موجود حقائق کو نمائندگی دے کر عام انسان کے ذہن کو مہمیز کرنے کا کارنامہ انجام دیا گیا ہے، اس لیے تفسیر اشرفی کو اردو میں لکھی جانے والی دوسری تفاسیر سے جداگانہ موقف حاصل ہوجاتا ہے۔
وضاحت کے ضمن میں ایک اہم بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے اور یہ عمل بھی مفسر کے قوتِ تمیز سے متعلق ہے کہ وہ کس حقیقت کی وضاحت کس انداز سے انجام دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں عالم اور فاضل ہی نہیں بلکہ زبان داں افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مفسر قرآن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر وضاحت کے لیے اپنی مرضی اور موقف کے بجائے وضاحت کی فطرت کے لیے جس کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو بروئے کار لائے۔ اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ وضاحت نہ تو طویل ہونی چاہیے اور نہ اتنی مختصر ہو کہ پڑھنے والے کی تشنگی باقی رہ جائے۔ اس کاصاف مطلب یہی ہوا کہ وضاحت ایک ایسا طرزِ عمل ہے کہ جس کے توسط سے قاری کی توجہ اور اس کی تمیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی مفسر حقیقت پسندانہ وضاحت کی طرف توجہ دے۔ کسی واقعہ ، فعل اور عمل کی وضاحت اس کی فطرت کے مطابق انجام دی جائے تو اس میں خوبی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بجائے بے جا طوالت اور لفاظی کا طریقہ اختیار کیا جائے تو وضاحت کا انداز غیرفطری اور قاری کی توجہ کو منتشر کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس لیے کسی بھی مفسر پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ جس آیت، واقعہ اور حقیقت کی وضاحت کا ارادہ کرے ، اس کے توضیحی و ترسیلی رویے میں بانکپن اور فطری روانی کی نمائندگی پر خصوصی توجہ دے۔ جہاں وضاحت کو مختصر کرنا ہو وہاں اختصار سے کام لے اور جس جگہ پر وضاحت تفصیل طلب ہے وہاں پوری خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہوئے وضاحت کا رویہ اختیار کیا جائے تب اس عمل کی وجہ سے وضاحت میں ندرت پیدا ہوتی اور قاری کی توجہ بھی برقرار رہ سکتی ہے۔ اس اعتبار سے وضاحت کا معاملہ مفسر کی اپنی دلچسپی کے علاوہ قاری کی دلچسپی سے بھی وابستہ ہے۔ ایسے مفسرین جو قاری کی دلچسپی کا لحاظ رکھتے ہوئے موزوں اور مناسب وضاحت کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کے کامیاب مفسرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے اپنی علمیت ، زبان دانی اور معاملہ فہمی کو پیش نظر رکھ کر تفسیر کے دوران وضاحت کا طریقہ اختیار کرنے والے مفسرین کی تفاسیر میں اس لیے جھول پیدا ہوجاتا ہے کہ ایسے مفسرین وضاحت کی فطرت کو نظرانداز کرکے غیرفطری وضاحت کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں۔ غرض تفسیر لکھنے والے پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کی وضاحت کے دوران اپنی علمیت اور زبان دانی کے بجائے وضاحت کی فطری خصوصیت کو پیش نظر رکھ کر توضیحات و تشریحات کا معاملہ جاری رکھے۔ اس رویہ سے تفسیر کے دوران وضاحت کا سلسلہ جاری رہے تو بلاشبہ ایسی تفسیروں کو عوامی پسند کا موقف حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر اشرفی میں اس انداز کی پذیرائی موجود ہے۔ فطری وضاحت کے تمام گوشے تفسیر اشرفی کے محاسن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فطری طور پر جس واقعہ کی تفصیل بیان کرنا ہو وہاں وضاحت کا طوالتی انداز اور جس مقام پر اختصار کو ملحوظ رکھ کر وضاحت کو مختصر کرنے کے انداز کو تفسیر اشرفی میں شامل کیا گیا ہے ، اس لیے وضاحتی اعتبار سے تفسیر اشرفی کو فطری وضاحت کی نمائندہ اور توازن کو برقرار رکھنے والی تشریحات کی امین قرار دیا جائے گا۔ غرض اِس وضاحتی عمل کو تفسیر لکھنے کے معاملہ میں انتہائی اہمیت کا موقف حاصل ہے۔
قرآن مجید کی آیات اپنی جگہ مسلمہ اور ان کی لفظیات میں پنہاں معنوں کی گرفت بھی اپنی حقیقت سے وابستہ ہے، لیکن مفسر کا دماغ اور اس کی سوچ قرآنی آیات کے معاملہ میں سرسری نگاہ سے گذر جائے تو کسی بھی قسم کی اہمیت واضح نہیں ہوسکے گی ، کیوں کہ قرآن مجید نے خود انسان کو افلا یتدبرون اور افلا یتفکرون کا درس دے کر انسانی ذہن کو غور و فکر کرنے اور سوچ کی عادت ڈالنے کی ترغیب دلائی ہے۔ اِس پس منظر میں قرآنی آیات اور اس کی لفظیات کے عصری معنی ہی نہیں بلکہ جس دور میں قرآن مجید کا نزول ہوا اُس دور سے آج کے دور تک قرآنی لفظیات کی ہمہ گیر معنویت کو مختلف ادوار میں جن جن فرہنگوں سے وابستہ کیا گیا ہے اور قرآنی آیات کی لفظیات میں چھپی ہوئی کیفیاتی فضا کو جب تک مفسر اپنے ذہنی گوشوں میں نمایاں کرنے کی صلاحیت پیدا نہ کرے ،اُس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآنی آیات کی لفظیات کی گرہیں کھلیں اور مفسر اُن آیات کی ہمہ گیر معنویت کی پردہ دری کا کارنامہ انجام دے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں دنیا کے تمام علوم ہی نہیں بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر اس کے خاتمہ تک کی تمام خصوصیات کو شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کی ہر قسم کی مخلوقات اور زمین و آسمان کے علاوہ ستارے اور سیارے اور پھر زمین کی تہوں میں موجود مختلف اشیاء کے ساتھ ساتھ سائنسی ایجادات و اختراعات کے مسائل کو بھی قرآن مجید کی آیتوں نے وضاحت کے رویوں سے وابستہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موریس بوکائیے نے ’’قرآن، بائبل اور سائنس‘‘ جیسی کتاب لکھ کر قرآنی آیات کے انکشافات کو عالمی تناظر میں حقائق سے وابستہ قرار دے کر انہیں سائنس کی مؤثر نمائندگی کا حق ادا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ غرض ایک مفسر کو قرآنی آیات اور اس میں موجود انکشافات کونمایاں کرنے کے لیے تحقیقی و تنقیدی رویے کو کام میں لاتے ہوئے دنیا کی مختلف زبانوں اور ان کے توسط سے علمی ، فنی اور تکنیکی معاملات کو حل کرنے کے لیے جن جن قرآنی آیات سے استفادہ کیا جاتا رہا ہے ان تمام کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی تفسیر لکھنے کی طرف توجہ دینا پڑتا ہے۔ بغیر مطالعہ اور بغیر تدبر و تفکر کے تفسیر تحریر کرنا درحقیقت خود کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ غرض قرآنی آیات اور اس کی لفظیات کا کشف جب تک دل کے حضور میں نمایاں نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص قرآن مجید کی تفسیر لکھنے میں کامیاب ہوجائے۔ ا س طرح قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا عمل اسی وقت پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے جب کہ لفظ و معنی کی حقیقت سے واقفیت کے ساتھ ساتھ دل کے حضور میں ہر آیت کے بارے میں کشف کا ورود نہ ہو تو بلاشبہ تفسیر لکھنا بھی سخت دشوار ہے۔ یعنی قرآنی آیات کی تفہیم و ترسیل کے لیے خدا کے حکم کی تعمیل کے نتیجہ میں ہی مفسر کا ذہن وضاحتوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس وضاحت کے رویے میں خدا کی نصرت اور اس کی کامرانی شامل ہو تو ہی قرآن مجید کی آیات کی مناسب توضیح و تشریح کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی مدظلہ العالی نے ’’تفسیرِ اشرفی‘‘ کے توسط سے اسی رویے کا استعمال کرکے کامیابی حاصل فرمائی ہے۔
عالمی معیارات کے مطابق تفسیر کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ عمل بلاشبہ فالِ نیک کا درجہ رکھتا ہے، لیکن جہاں تک یوروپی دنیا کی ادبی ترقیات اور لفظوں کی توڑ پھوڑ کا معاملہ ہے اس قسم کے لسانی نظریہ کو کوئی بھی مفسر اپنی تحریر میں جگہ نہیں دے سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یوروپی دنیا میں اردو زبان کو تہذیب و اخلاق سے بے گانہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اِس خصوص میں اردو پر نہ صرف اشتراکی نظریات رکھنے والوں کے حملے ہورہے ہیں، بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے نظریات کو بھی اردو زبان پر مسلط کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرستی ، عریانیت، ہم جنسیت، لڑائی جھگڑے اور اختلافات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ لازمی ہے کہ زبان کے نام پر جھگڑے اور ایک ہی لفظ کے معنی و مفہوم ، آپسی ٹکراؤ کے قریب ہوتے جارہے ہیں تو لازمی طور پر یوروپی افکار نے لسانی پس منظر میں لفظوں کی توڑ پھوڑ کوایک قسم کی جدت کا عمل قرار دیا ہے۔ بلاشبہ اس تراش خراش کو کوئی بھی مفسر اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا، البتہ الفاظ کو سبک ، نرم اور پرتاثیر بنانے کے لیے کسی صوتی آہنگ کو سہارا بنایا گیا ہے تو اس پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر اور تعبیر کے علاوہ اس کی آیتوں کی معنوی پہلوداری کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تفسیربلا شبہ اہم وسیلہ کا درجہ رکھتی ہے اور اس وسیلہ کو استعمال کرکے حضرت سید محمد مدنی اشرفی جیلانی نے برصغیر میں وضاحت کے فطری رویے کی نمائندگی فرمائی ہے، اس لیے تفسیر اشرفی کو عصر حاضر کی ہمہ جہت توضیحات و تشریحات سے مالامال تفسیر کا درجہ دیا جائے توبے جا نہ ہوگا۔ اس تفسیر کی طباعت مدنی آفسیٹ پرنٹرس کرجن گجرات میں مکمل ہوئی ہے ، جب کہ طباعت کی نگرانی سید شوکت علی اشرفی نے انجام دی ہے۔ چھ جلدوں میں پیش کردہ 114 سورتوں پر مشتمل یہ تفسیر اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ تفسیر کے ہر جلد کے آخر میں استعمال ہونے والے الفاظ کی ’’تشریح لغات‘‘ کی شمولیت سے قاری کو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہر جلد چھ سو سے زیادہ صفحات کی نشاندہی کرتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی جامع، مفصل اور دلوں کو چھولینے والی تحریر کے ذریعہ لکھی گئی تفسیر کی ترتیب میں زائد از سات سال کا عرصہ بیت گیا۔ اس طرح 2008 سے لے کر آج تک اس تفسیری خزانہ کی طباعت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس قدر نایاب اور عام فہم تفسیر سے عوام الناس کوضرور فیض پہنچے گا ۔اس کا اجر تو خداوند قدوس کی بارگاہ میں محفوظ ہوچکاہے، لیکن دنیا میں بندوں کی خدمت کا حق ادا کرنے اور انہیں راہِ راست سے جوڑے رکھنے کے لیے حضرت سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کی خدمات کو دین و دنیا میں سرخروئی کا موقف حاصل ہوجائے گا۔ غرض تفسیر اشرفی کی چھ جلدوں کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت علامہ نے قوم کے ایک بہت بڑے قرض کو اتار کر ملتِ اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کے لیے ہمہ جہتکارنامہ انجام دیا ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ تفسیر کے تحفہ کو قبول فرماتے ہوئے مسلمانوں کے آپسی تفرقوں کے ختم کرنے کا ماحول پیدا کردے تاکہ تمام فرقوں میں اتحاد کی فضا ہموار ہو جائے آمین ثمہ آمین۔

Written by Prof Majed Bedar
09441697072

Share
Share
Share