مسجد اندلسی، Spanish Mosque حیدرآباد – – – ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

مسجد اندلسی

مسجد اندلسی، حیدرآباد
Spanish Mosque, Hyderabad

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
09866971375

اسپینی مسجد،حیدرآباد ،دکن کی ایک خوبصورت مسجد ہے جس کو پائیگاہ نواب وقار الامرا اقبال الدولہ بہادر نے 1906میں تعمیر کروایا تھا، اسی لئے اس مسجد کو ’’اقبال الدولہ کی مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔فن تعمیر سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین اس مسجد کو اس کی ہسپانوی طرز تعمیر کے باعث ’’مورش مسجد‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ اس طرز تعمیر کا اظہار کرنے والی مساجد ہندوستان میں نایاب ہیں، میرے علم میں جامع مسجد گلبرگہ اور کپورتھلا کی مسجد کے علاوہ ہندوستان میں ہسپانوی یا مورش طرز تعمیر کی علمبردار کوئی دوسری مسجد نہیں ہے۔اسی لئے ہمیں اس مسجد میں جابجا مسجد قرطبہ کے تعمیری نقوش دکھائی دیتے ہیں۔اس مسجد کی بڑی تعمیری خوبیوں میں اسکے مینار ہیں جو اپنی صدا بہار شان کے ساتھ جلوہ افروز رہتے ہیں ۔یہ مینار ہمیں کسی چرچ کے مینار جیسے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہسپانوی طرز تعمیر میں چرچ کے مینار بالکل اسی انداز میں بنائے جاتے ہیں ،ویسے مسجد میں آویزاں تختی سے خود اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس مسجد کو وقار الامرانے اسپین کی مسجد سے متاثر ہوکر اسی انداز میں تعمیر کروایا ہے۔یہ مسجد اپنے وسعت کے اعتبار سے چھوٹی ہے لیکن فن تعمیر کے لحاظ سے بڑی ہے ، اطراف میں کھلا میدان ہے جو مسجد کی خوبصورتی بڑھاتا ہے اور نماز جمعہ کو پہنچنے والے مصلیوں کے لئے جگہ فراہم کرتا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس میں زائد از 3000افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔مسجد کے صحن میں وضو خانہ بنا ہوا ہے امام صاحب اور موذن صاحب کے مکانات بھی صحن کے ایک کنارے پر بنے ہوئے ہیں۔

مسجد اندلسی کی اصل خصوصیت اس کے ندرت آمیز مینار ہیں، جن کی گنبدوں پر سنہری رنگ چڑھا ہوا ہے۔مسجد میں چھوٹے بڑے کئی مینار ہیں اور ہر مینار ایک ہی وضع رکھتا ہے جانب مشرق مسجد کا صدر دروازہ ہے جو نسبتاً تنگ ہے صدر دروازے کے دونوں جانب دو ، دو یعنی جملہ چار کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں جو اسپینی طرز پر بنائی گئی ہیں ، مسجد کے دونوں جانب ایسی ہی کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں جو یکسانیت کے باعث خوبصورت نظر آتی ہیں۔ دروازہ بھی کھڑکیوں کی وضع رکھتا ہے جو دیوار سے کسی قدرہٹ کر بنایا گیا ہے جس کی وجہہ سے ایک راہداری یعنی Corridor جیسی جگہ پیدا ہوگئی ہے جس سے گذر کر مسجد کے اندر پہنچا جاتا ہے ،اسی دروازے پر مسجد کا جدید انداز رکھنے والا گنبد بھی ہے جو مسجد میں خوبصورتی کی علامت بن کر زائر کے جمالیاتی احساسات کو چھیڑتا ہے تاکہ ان میں عبادت کرنے کا جذبہ دوڑنے لگے اور نمازی اس تصور کے ساتھ مسجد میں داخل ہوکہ مجھے اس خدائے واحد کے سامنے سر جھکانا ہے جو اس خوبصورت دنیا کا خالق و مالک ہے۔دروازے پر مخروطی وضع کی ہشت پہلو گنبد بنی ہوئی ہے ، اس میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کی غرض سے گنبد کے نچلے حصے میں جالیاں لگائی گئی ہیں جس کی وجہہ گنبد کے حسن کا معیار اور بڑھ گیا ہے۔ اس گنبد پرمزید ایک نسبتاً چھوٹی گنبد بنی ہوئی ہے جس کو گنبد کے بجائے ہشت پہلو مخروطی ساخت کہنا زیادہ مناسب ہے ،ویسے یہ مخروطی گنبد نما ساخت بھی مکمل طور پر نچلی گنبد کے مماثل ہے لیکن سائز کا اختلاف ان کے درمیان خط فاصل کھینچ دیتا ہے۔مسجد کے اگلے حصے میں دونوں کونوں پر دو میناریں بنی ہوئی ہیں جو اونچائی میں گنبد والی مینار سے کم ہیں لیکن یہ میناریں مسجد کی دوسری میناروں سے بڑی ہیں ، مسجد کی تمام میناریں ساخت میں ہو بہو ایک دوسرے کی نقل ہیں۔ ایسے ہی کئی مینار مسجد کی چھت پر بھی بنے ہوئے ہیں ان میں کچھ حفاظتی دیوار پر بھی ہیں کچھ قبلے کی دیوار پر بھی بنے ہیں بہر حال ان تمام چھوٹے بڑے میناروں کے جلو میں بڑی گنبد والا مینار اپنی جو بہار دکھلاتا ہے وہ قابل دید ہے۔ مسجد کو اینٹ ، پتھر اور چونے سے بنایا گیا ہے ،دیواروں اور میناروں پر چونے کی استرکاری ہے چھت میں لوہا استعمال کیا گیا ہے جس پراینٹوں اور چونے کی مدد سے چھت بنائی گئی ہے۔ مسجد کی چھت سے نکلے ہوئے چھجوں کے نیچے خوبصورت براکٹس ہیں جو تعمیری حسن کو بڑھاتے ہیں میناروں کی بالکونیوں پر بنے نقوش نازک ہیں اور کام کی نفاست کو ظاہر کرتے ہیں۔مینار کے دو مخروطی چھوٹی بڑی گنبدان کے درمیان مینار کا حصہ ایسی ہی محرابوں کینقش رکھتا ہے جو اس مسجد کی خصوصیت ہے، حتیٰ کہ حفاظتی دیوار میں بھی یہی محرابی قوس اہم رول ادا کرتی ہے۔
میں نے یہاں نماز ظہر ادا کی تھی اور بعد نماز بڑی دیر تک اندرونی حصے کا جائزہ لیتا رہا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کچھ برس قبل مسجد کی اصل عمارت سے متصل حصوں میں وسعت پیدا کی گئی۔ اس جائزے کے بعد میں مسجد کے صدر دروازے کی جانب متوجہہ ہوا جہاں سے نماز کے لئے ایک معصوم لڑکا ’’ میاں فرید‘‘ داخل ہورہا تھا،میں سے سونچا کہ کیوں نہ اس لڑکے سے گفتگو کی جائے اور میں نے اس امید پر اس معصوم لڑکے سے مسجد کی تاریخ پوچھی کہ وہ اس کے متعلق نہیں جانتا ہوگا لیکن مجھے تعجب اس وقت ہوا جب اس نے مجھے اس مسجد کے اہم تاریخی نکات والہانہ انداز میں بتائے اور اسی معصوم نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انکل ۔آج بھی اس مسجد کے سارے انتظامات اسی خاندان کے افراد کے ذمہ ہے جن کے پرکھوں نے یہ مسجد بنائی تھی ۔ اس کے بعد نہایت جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس معصوم نے یہ بھی بتایا کہ انکل ۔ اگر آپ کو مسجد کی رونق دیکھنا ہے تو رمضان میں تشریف لائیے،انشا اللہ آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا ۔ اقبال الدولہ کی اس مسجد کے اندر خوبصورت انداز میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں جو اندرونی ماحول کو مقدس بناتی ہیں ۔ محراب کے بازو لکڑی کا منبر رکھا ہوا ہے ۔ مسجد کامحراب اسی انداز میں بنایا گیا ہے جس انداز کا صدر دروازہ ہے، محراب کے بازو قبلے کی دیوار پر اسی انداز میں محراب کے نقش ابھارے گئے جو اصل محراب کا ڈیزائن ہے، مسجد میں کھڑکیاں بھی کھلتی ہیں جن کے اوپری حصے میں مثلث کی وضع کے شیشے لگے ہوئے ہیں جن سے چھن کر روشنی اندر داخل ہوتی ہے اور اندرونی ماحول کو روشن بناتی ہے ۔مسجد کے اصل ہال میں دو قطاروں میں ستون بنے ہوئے ہیں جن پر کمانیں ٹکی ہوئی ہیں یہی کمانیں چھت کا وزن سہارتی ہیں ، ہر دو ستونوں کے درمیان بنے کمان بالکل وہی تعمیری انداز پیش کرتے ہیں جو صدر دروازے کے کمان کا انداز ہے،اس طرح مسجد کے تمام دروازوں اور کمانوں کے درمیان ڈیزائن میں یکسانیت پائی جاتی ہے جو دل کو بھاتی ہے اور خوابیدہ جذبات کو زندہ کرتی ہے اور انسان کو ہاتھ اٹھانے پر مجبور کرتی ہے تاکہ اللہ ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھوں میں دین و دنیا کی کامیابی ڈال دے کیونکہ ’’انسان بھلائی کی دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا‘‘ یعنی لا یسام الانسان من دعاء الخیر (41-49) اور یہ دعائیں محض اسی لئے ہیں کہ ہم اخروی دنیا میں کامران ہوسکیں۔
Article : Spanish Mosque, Hyderabad
Written by Dr Azeez Ahmed Ursi
ڈاکٹر-عزیزاحمدعرسی

Share
Share
Share