اردوادب میں فنِ ترجمہ نگاری کی روایت – – تحریر: ابنِ عاصی

Share

47868236_46206b

اردو ادب میں فنِ ترجمہ نگاری کی روایت

تحریر: ابنِ عاصی
ای میل :

ترجمہ کیا ہے؟ یا اس کی تعریف کن الفاظ میں کی جا سکتی ہے؟یقیناًیہ ایک اہم ،سنجیدہ اور دلچسپ سوال ہے اور اس کی حیثیت بھی بنیادی نوعیت کی قرار دی جاسکتی ہے لیکن بنظرِ غائر دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ کوئی ایسا سادہ اور ہلکا سوال نہیں ہے کہ اس کا جواب چند فقروں میں دے کر کسی کہ مطمن کر دیا جائے یاد رہے کہ یہ فن کسی بھی دوسرے تخلیقی کا م سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے کیونکہ ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والاشاید اتنا زیادہ نہیں سوچتا ہے جتنا کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتا ہے کیونکہ تخلیق تو ایک طرح سے جبری اور فطری تقاضے کا نتیجہ ہوتی ہے جیسا کہ مرزا غالب نے کہا ہے

شعر خود کردہ تقاضائے کہ گردو فن ما
اور شاید اسی لیے ڈاکٹر جمیل جالبی کو فنِ ترجمہ کے ادق ہونے کا یقین ہے،لکھتے ہیں
ترجمے کا کام یقیناًایک مشکل کام ہے اس میں مترجم،مصنف کی شخصیت ،فکرو اسلوب سے بندھا ہوتا ہے ایک طرف اس زبان کا کلچر،جس کا ترجمہ
کیا جا رہا ہے ،اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر،جس میں ترجمہ کیا جارہا ہے ،یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔(۱)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ایسا جان جوکھوں ولا کام ہے تو پھر اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟دراصل یہ کام انسا نکی تہذیبی ،سماجی،ثقافتی،لسانی،فکری حتیٰ کہ مذہبی ترقی و ضرورت ہے صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان کسی دوسرے کو اپنا مدعا اپنے دل کا حال اور مافی الضمیر بیان نہیں کر پائے گا تو وہ کیسے ،اگلا قدم، اٹھانے میں کامیاب ہو گا؟یقیناًشروع میں ایک دوسرے کی زبان سے نا آشنا لوگ ،اشاروں کی زبان، میں ایک دوسرے سے ،ہم کلام ،ہوتے ہوں گے اور اس دوران کچھ مخصوص اقسام کی آوازیں بھی شاید انہوں نے وضع کر لی ہوں گی جن کی مدد سے وہ،سماجی رشتے،قائم کرنے میں کامیا ب رہے ہوں گے لیکن کیا وہ پوری طرح سے اپنے مطالب اور مفاہیم کا سلسلہ قائم کر پائے ہوں گے؟یقیناًایسا نہیں ہو اہو گااب چونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ،ادھوری بات،سے کبھی بھی مطمن نہیں ہوتا ہے اس لیے اس نے ،پوری بات،سننے اور پہنچانے کے لیے اس زبان کو سمجھنے کا فیصلہ کیا ہو گااور جب زبان سیکھ لی ہو گی تو پھر یہ بھی سوچا ہو گاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے اسرارو رموز سے آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان کو ایسی دشواری اور الجھن پیش نہ آئے ،جیسی کہ کبھی انہیں پیش آئی تھی بس اسی سوچ نے پھر ترجمہ نگاری کی روایت ڈالی ،اسی لیے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں
،ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں ۔(۲)
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے فرمانروا ،بغداد کے عباسی خلفاء،اور مصر کے فاطمی خلفاء ،علم و ادب کے خاصے رسیا تھے اور انہوں نے نہ صرف دنیا کے نامور شہہ پاروں کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا بلکہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں لائبریریاں قائم کر کے منفرد اور قابلِ تقلید مثالیں بھی قائم کیں ،بغداد کی ،بیت الحکمت،اور مصر کی ،بیت الحکم،جیسی لا ئبریریاں اپنی مثال آپ تھیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اردو زبان ،بر صغیر پاک و ہند میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ روایت تقریبا پندرھویں صدی کے نصف آخر میں اپنی ابتدائی شکل میں نظر آتی ہے اسی لیے یہ مانا جاتا ہے کہ یہی دور اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء ،دونوں لحاظ سے بہت اہم ہے۔
یہ با ت بھی ذہن میں رہے کہ بعض اوقات مترجم کو شارح بننا پڑتا ہے (حالانکہ ترجمہ اور تشریح دو الگ الگ راستے ہیں)لیکن ایسا عموما شاعری کے میدان میں ہوتا ہے کیونکہ شاعری میں تمثیل،تخیل،علامت،تلمیح،استعارے اور تشبیہہ کو ہو بہو منتقل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے،پروفیسر مسکین علی حجازی لکھتے ہیں
،علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میںِ منتقل کرنا خاصا دشوار کام ہے ،یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم،صنفِ ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو،(۳)
ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ سولہویں اور خصوصاسترھویں صدی کا زمانہ جنوبی ہند میں ،عہدِ زریں،کہلانے کا مستحق ہے اسی زمانے میں ترجمہ نگاری اور اردو زبان دونوں حوالے سے ایسے ایسے شاہکار تخلیق ہوئے کہ جن کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے اسی دور میں تمام تراجم مشرقی زبانوں سے کیے گیے جن میں فارسی،عربی،سنسکرت اور برج بھاشا وغیرہ شامل ہیں۔
مغلوں کے عہد میں سرکاری اور مقامی ضرورتوں کے کارن مختلف زبانوں سے فارسی میں اور فارسی سے ان زبانوں میں لازمی طور پر تراجم ہوتے ہوں گے لیکن مغل بادشاہوں نے ہندوستانی ادب کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی اکبر کے دور میں ایسے ہندؤوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو فارسی سے بخوبی واقف تھے کہا جاتا ہے کہ اکبر کو سنسکرت سے خاص لگاؤ تھا اسی لیے اس نے سنسکرت سے شاعری ،فلسفہ،ریاضی اور الجبرا وغیرہ کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایااکبر ہیم کے عہد میں کئی علماء نے مل کر ،مہا بھارت، کا فارسی میں ترجمہ کرنا شروع کیا جو ۱۵۹۱ء میں مکمل ہوا اسی زمانے میں ،لیلاوتی،نل ومن،تاجک اور ،ہری بنس، وغیرہ کے تراجم تیار ہوئے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ترجموں کی تیاری میں برہمن اور مسلمان عالم دونوں برابر کے شریک تھے۔
ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں
ترجمے کا کام صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھادوسری ہجری کے وسط میں ہندوستان سے باہر کے مسلمانوں کے ہندوستانوں علمی تعلقات قائم ہو چکے تھے۷۷۰ء میں سندھ سے ایک وفد خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں گیا تھااس وفد میں ایک ایسے پنڈت بھی شامل تھے جو ہئیت اور ریاضیات کے ماہر تھے یہ پنڈت اپنے ساتھ ہئیت کی مشہور کتاب،سدھانت،لے گیا تھا خلیفہ کو جب اس کتاب کے مندرجات کا علم ہوا تو اس نے اپنے دربار کے ایک ریاضی دان ابراہیم فرازی کو حکم دیا کہ وہ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کرے جو پنڈت اپنے ساتھ یہ کتاب لے کر بغداد گیا تھا اسے علم ہئیت میں غیر معمولی مہارت کی وجہ سے بہت عزت حاصل ہوئی بغداد کے دو عالم اور ماہر ہئیت ابراہیم فرازی اور یعقوب بن طارق پنڈت کے شاگرد ہو گئے ان دونوں
شاگردوں نے اپنے اپنے طریقے سے ،سدھانت،کے بنیادی اصولوں کو عربی میں منتقل کیا ،ہئیت کے علاوہ ریاضی اور دوسرے علوم کی کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا ان میں دو کتابوں بہت اہم ہیں ،ایک ،کلیلہ و دمنہ، اور دوسری ،بوزاسف و بلوہر،۔۔۔۔۔۔کلیلہ ودمنہ،پنچ تتر، کا ترجمہ ہے کہا
جاتا ہے کہ ساسانیوں کے عہد میں ان دونوں کتابوں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ دنیا کی بہت سی ترقی یافتہ زبانوں میں عربی سے ان کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔(۴)
کہا جاتا ہے کہ اردوزبان میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے سب سے پہلی کتاب ،نشاۃالعشق، ہے یہ ایک صوفی بزرگ عبداللہ حسینی (جو حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے تھے) نے اردو میں ترجمہ کی لیکن اس سے بھی بعض مححقین سخت اختلاف رکھتے ہیں ان کے خیال میں یہ کہنا اور ثابت کرنا قدرے مشکل ہے کہ اردو میں پہلا ترجمہ کون سا ہے؟ان کے خیال میں شاہ میراں جی خدا نما نے ابوالفضائل عبداللہ بن محمد عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف ،تمہیداتِ ہمدانی، کا عربی سے اردو میں جوترجمہ کیاتھا وہ اردو کا پہلا ترجمہ ہے ،بعض اس کو بھی نہیں مانتے ان کے خیال میں ملا وجہی نے پہلی بار شاہ جی نیشاپوری کی فارسی تصنیف ،دستور عشاق، کا اردو میں ترجمہ ،سب رس، کے نام سے کیا ،۱۷۰۴ء شاہ ولی اللہ قادری نے شیخ محمود کی فارسی تصنیف ،معرفت السلوک،کا اردو میں ترجمہ کیا ،اٹھارھویں صدی عیسوی کے شروع میں سید محمد قادری کی فارسی تصنیف ،طوطی نامہ، کا ترجمہ ہواتقریبا اسی زمانے میں فضل علی فضلی نے ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب ،روضتہ الشہدا،کا اردومیں ترجمہ ،کربل کتھا، کے نام سے کیا،ان ترجموں کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ کوئی باقاعدہ ترجمے نہیں ؂بلکہ کتابوں کی تلخیص یا آزاد ترجمے ہوتے تھے اور ماہرین کے نزدیک ان ترجموں میں ان سائنٹیفک اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی جو اچھے ترجموں کے لیے ازبس ضروری ہے۔
دیکھا جائے تو عادل شاہی دور میں بھی ترجمہ نگاری خوب پھلتی پھولتی نظر آتی ہے اس دور کے اہم شاعر رستمی کی نظم ،خاور نامہ،دراصل ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے مگر رستمی نے کمال خوبصورتی اور مہارت سے ترجمہ کر کے اسے اپنی بنا لیا اس کا زمانہ تصنیف ۱۴۴۹ ہے اسی طرح اس عہد کے ایک دوسرے شاعر ملک خوشنودکی مثنوی ،ہشت بہشت،خاصی مشہو ر ہے یہ نظم امیر خسرو کی فارسی نظم پر مشتمل ہے پھر ،مقیمی، جو فارسی شاعر تھا،نے ایک ہندی لوک کتھا ،چندر بدن مہیار،بڑے دلکش اسلوب میں لکھی ہے۱۵۵۴ء میں علی عادل شاہ ثانی برسر اقتدار آیا اس کے عہد میں بیجا پور کے باکمال شاعر ،نصرتی، کے ڈنکے بجے،مثنوی کی ہئیت میں اس کی تین کتابیں بہت مشہور ہوئیں جن میں سے ،گلشنِ عشق، اور علی نامہ، کو آج بھی سراہا جاتا ہے بیجا پور کے ایک نابینا شاعر ط،ہاشمی، کی تصنیف ،یوسف و زلیخا، جو ایک آزاد ترجمہ ہے،بھی ایک اہم چیزہے۔
اسی طرح قطب شاہی دور میں ترجمہ نگاری پر اچھا وقت رہااس دور میں ملا وجہی،محمد قلی ، قطب شاہ کے عہد کا بہت اعلیٰ پائے کا نثر نگار اور شاعر تھا۱۶۳۵ء میں ملا وجہی نے اپنی شہرہ آفاق ،سب رس، ترجمہ کی اس کا اسلوب مقفیٰ ہونے کے باوجود سادہ و پرکار ہے اس ترجمہ کو دیکھ کر ڈاکٹر سید عابد حسین عابد کی حقانیت پر بے اختیار ایمان لانے کو دل چاہتا ہے،لکھتے ہیں۔
ترجمے کو ادبی قدرو قیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و رنگ ،وہ چاشنی،وہ خوشبو،وہ
مزا بھی آجائے،جو اصل عبارت میں موجود تھا۔(۵)
قطب شاہی دور کا ایک اور بڑا شاعر ،غواصی، تھا اس کا مقام ،ملک الشعراء، جیسا تھااس کی مشہور تصنیف ،سیف الملوک و بدیع الجمال، اور
، طوطی نامہ ۱۶۳۱ء میں لکھی گئی،طرزِ بیان میں سادگی اور کمال کی روانی ہے ا س دور کا ایک اہم شاعر ،ابنِ نشاطی، ہے ا س کی مثنوی، پھول بن، دکنی اردو کے خزینہ ادب کا انمول رتن کہلاتی ہے،پھول بن،فارسی تصنیف،ب تین، پر مشتمل ہے لیکن شاعر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت اور فنکاری نے اس داستان کی پیچیدہ کہانی کو اپنا بنا لیا ہے۔
عیسائیوں نے جب ہندوستان میں تاجروں کے بھیس میں قدم رکھ اتو ان کے مبلغین نے اپنی مذہبی کتابیں ترجمہ اور تایف کر کے شائع کیں اٹھارویں صدی کے وسط میں انہوں نے عیسائیت کے پرچار اور فروغ کے لئے توریت اور انجیل کے اردو ترجمے شائع کیے ،کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی پلہ کتاب ،کتابِ پیدائش کے پہلے چار بابوں کا ترجمہ ہندوستانی،ہے یہ ترجمہ،بنجمن شولٹز(BENJAMAIN SCHULTZE)نے کیا تھااس کے بعد اسی شولٹز نے ،کتابِ دانیال، کا اردو ترجمہ شائع کیا (ان کتابوں کی فہرست ،سی اے گیریرسن ، نے اپنی کتاب ،ہندوستان کا لسانی جائزہ،جلد نہم میں دی ہے)
اسی اٹھارویں صدی کے خاتمے سے کچھ پہلے دلی میں قرآن شریف کے دو ترجمے ہوئے یہ مشہور بزرگ شاہ ولی اللہ کے دو صاحبزادوں مولانا شاہ رفیع الدین اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر نے کیے دونوں ترجموں میں ۹ سال کا فرق ہے شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ تھا اس میں ہر لفظ کا اس طرح کیا گیا کہ اردو فقروں کی ساخت بالکل بد ل گئی چونکہ سلاست اور روانی نہ تھی اس لیے اس کا اصل مفہوم سمجھنے میں دقت ہوتی تھی یہ ترجمہ ۱۷۸۶ء میں ہوا تھاعبدالقادر کا ترجمہ ۱۷۹۵ء میں ہوا پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان ،شگفتہ،سلیس اور رواں تھا ان تراجم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں وہ بھی اس مقدس کتاب کو سمجھ لیں پڑھ لیں یہ ابتدائی مساعی ادبی نہیں تاریخی زمرے میں زیادہ شمار کی جاتی ہے۔
مذہبی کتابوں کے علاوہ ۱۷۷۵ء میں فارسی داستان،قصہ چار درویش،کا ترجمہ حسین عطا تحسین نے کیا اصل میں اس کے مصنف ،محمد معصوم تھے ،کتاب کا نام، نو طرز مرصع، ہے تحسین فارسی کی کئی کتابوں کے مصنف تھے لیکن اردو ادب میں اس ترجمے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اس دور کی ایک کتاب ،بہادرنامہ، بھی ملتی ہے جس میں سرنگا پٹم،کی تاریخ ٹیپو سلطان کء جنگ تک جاتی ہے خیال ہے کہ یہ بھی کسی فارسی تصنیف کا حصہ یا ترجمہ ہے اس طرح پنڈت دیا شنکر کول کا نام ان کی تصنیف ،گلزارِ نسیم، کی وجہ سے زندہ رہے گا،یہ مثنوی لکھنوی طرز تحریر کی نمائند ہ مانی جاتی ہے پنڈت جی نے الف لیلیٰ کی کچھ کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا مگر لازوال شہرت ان کی مترجمہ مثنوی ،گلزارِ نسیم،کی وجہ سے نصیب ہوئی یہ بہت طویل مثنوی پنڈت جی کے استاد آتش کے کہنے پر مختصر ہوئی ،اس مثنوی کا اردو ادب میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ٓاردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں ان میں ماں کا خواب،بچے کی دعا، ایک مکڑی اور مکھی،ایک گائے اور بکری ،ایک پہاڑ اور گلہری(ماخوذ ازایمرسن)،ہمدردی(ماخوذ ازولیم کوپر)،آفتاب(ترجمہ،گایتری)پیامِ صبح(ماخوذ از لانگ فیلو)،عشق اور موت(ماخوذ ازٹینی سن)ِ،رخصت اے بزمِ جہاں(ماخوذازایمرسن)وغیرہ وغیرہ ۔
دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے آخر میں یہی کہنا ہے کہ ادبیا ت میں تراجم کا سلسلہ رکا نہیں ہے اب دیکھنا بس یہ ہے کہ موجودہ دور اور مستقبل میں ترجمے کے ہمہ گیر ادبی و تمدنی اثرات کو کس طرح قبول کیا جاتا ہے۔۔۔؟
حوالہ جات
۱۔جمیل جالبی،ڈاکٹر،ارسطو سے ایلیٹ تک ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد،طبع ہفتم ،۲۰۰۳،ص۱۳
۲۔رشید امجد،فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث ،مشمولہ رودادِ سیمینار۔۔۔اردو زبان میں ترجمے کے مسائل،ص۴۲
۳۔مسکین علی حجازی،ڈاکٹر ،صحافتی زبان،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۷،ص۷۳
۴۔خلیق انجم،مترجمہ فنِ ترجمہ نگاری ،انجمن ترقی اردو ہندی نئی دہلی ،طبع سوم۱۹۹۴،ص۱۰
۵۔مشمولہ بیاض مبارک،مرتبہ سید زوار حسین زیدی،ص۵۶

Share

One thought on “اردوادب میں فنِ ترجمہ نگاری کی روایت – – تحریر: ابنِ عاصی”

Comments are closed.

Share
Share