کون کھولے گا ترے بند قبا میر ے بعد ۔ ۔ ۔ علامہ اعجاز فرخ

Share
ALLAMA AIJAZ FARRUKH
علامہ اعجاز فرخ

کون کھولے گا ترے بند قبا میر ے بعد
حیدرآباد ۔۔۔ ماضی کے جھروکوں سے

علامہ اعجاز فرخ ۔ حیدرآباد ۔ دکن

نوٹ : گزشتہ دنوں ہم نے جہانِ اردو پر علامہ کی تحریرکردہ داستانِ خیرالنساء پیش کی تھی جسے احباب نے بے حد پسند کیا۔اس داستان کے حوالے سے حیدرآباد کی تہذیب و ثقافت کو اجالا گیا۔علامہ کو حیدرآباد اور اس کی تہذیب و تمدن وثقافت سے بے انتہا لگاؤ ہے اور وہ اپنے ہر مضمون میں یہاں کی تہذیب ومعاشرت کوروشن کرتے نظرآتے ہیں۔ تازہ مضمون بھی اسی حوالے کی ایک کڑی ہے۔ موسم تو ایک بہانہ ہے جب موسم کے مزاج بدلتے ہیں تو دیکھیں کہ کس طرح تہذیب وثقافت ومعاشرت اپنے پیراہن کے رنگ بدل لیتے ہیں۔علامہ کا ایک نہایت دلچسپ اور معلوماتی مضمون ملاحظہ کریں(ج۔ا)
گزرنے کو تو زندگی کے ماہ و سال گزر گئے‘ لیکن اب تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ موسم کا تعلق زمین سے ہے یا بدن سے۔ کبھی بدن میں حرارت سی حرارت تھی تو سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں تکتے کہ وہ بادل کی اوٹ میں ہو جاتا اور ادھر پلک نہ جھپکتی۔ اب تو بالوں سے برف الجھنے لگی اور بدن بھی ٹوٹ کر بکھرنے لگا۔ ایسے میں کیا موسم اور کیسی گنتی۔ بدن پر بہار کا موسم ہو اور ساتھ ہمسفر بھی تو تپتے ریگزاروں میں ببول کی شاخ بھی نخلستان بن جاتی ہے اور اگر بدن خزاں رسیدہ ہونے لگے تو کیسا شجر سبز قبا اور کیا رنگ حنا۔ اب تو آئینہ دیکھے بھی برسوں بیت گئے۔ آئینہ خانوں میں ملمع کئے کانچ کے ٹکڑے ہر رخ سے عکس دکھلائیں بھی تو اپنے ملمع سازی اور رنگ سے فریب دیتے ہیں۔ یہ آئینہ نہیں فریب آئینہ ہے۔ آئینہ تو وہ ہوتا ہے جو شیشہ بدن بھی ہو‘ پھرروبرو ہو تو فرط حیاء سے پلکیں بوجھل بھی ہو جائیں اور پیشانی عرق عرق۔ تب آئینہ کے چہرے میں آئینہ دیکھنا اندر کے آدمی کو رو بہ رو کرنا ہے اور اس کے بعد تو تراشیدم‘ میں نے تراشا‘ پرستیدم‘ میں نیپرستش کی‘ شکستم‘ میں نے توڑ دیا‘ بس یہی موسم بھی ہیں اور موسم کے رنگ بھی۔ ورنہ سرد و گرم‘ ساون بھادوں‘ سردی‘ جاڑا‘ بہار و خزاں تو صرف حوالے ہیں۔

ویسے غور کیجئے تو کتنے موسم ہیں جو چپ چاپ گزر جاتے ہیں کہ آہٹ بھی نہ سنائی دے۔ کمسن بچے کی مسکراہٹ‘ بے ساختگی کا موسم‘ نت نئے کھیل‘ بچپن کے اپنے آپ کا موسم‘ کھوج اور جستجو‘ لڑکپن کا موسم۔ پھر اس کے بعد تو خواب کا موسم خیال کی فصل آرزوؤں کا موسم‘ تمناؤں کی فصل۔ دھوپ چھاؤں کا موسم‘ چشم التفات کی فصل‘ فراق کا موسم‘ وصال کی فصل جیسے پت جھڑ کے بعد موسم گل کہ جب بور کی رت میں ہری کونپلیں رس لاتی ہیں اور انجان بادل ملن کا خواب آنکھوں میں تو اتار دیتے ہیں لیکن یہی خواب یوں سارے کس بل ڈال کر لپٹ جاتے ہیں جیسے مدن مست کے پیڑ سے سانپ۔ مدن مست نہ ہو تو سانپ کیسا اور سانپ نہ ہو تو مدن مست کیا۔ یہی رشتہ تو بدن کے تقاضوں اور خواب کا رشتہ ہے۔ اسی میں ہجر کی لذت بھی ہے اور وصال کی کسک بھی۔
حیدرآباد کی زمین کی طرح یہاں کے موسم بھی دلنواز تھے۔ آزر‘ دے‘ بہمن‘ اسفندار‘ سردی کے مہینے کہلاتے تھے۔ کوئی کشمیر کی طرح انگیٹھیاں گلے میں لٹکائے منہ لال کرنے کا موسم تو یہاں نہیں رہا۔ ہاں مگر رضائیاں‘ دلائیاں‘ لحاف کا رواج رہا۔ اور تو اور سورج بھی لحاف اوڑھے لمبی تانتا تب ہی تو چھوٹے دن اور لمبی راتیں ہوا کرتیں۔ بچے اور بوڑھے تو آگ تاپتے تھے اور جوان آگ سے کھیلتے۔ ویسے بھی ہر آگ تاپنے کے لئے نہیں ہوتی‘ کھیلنے کے لئے بھی ہوتی ہے‘ لیکن یہ بچوں اور بوڑھوں کے بس کی بات نہیں۔ تب ہی تو چھوٹے دن اور لمبی راتیں آتیں تو سرما ہی میں تھیں‘ پر سب کے لئے الگ الگ موسم کی سوغات لے آتیں۔
ادھر اسفندار گیا اور فروردی نے لحاف پرے کردےئے۔ آپ چاہیں تو بہمن اور اسفندار کو دسمبر اور جنوری کہہ لیجئے۔ فروردی کو فروری اور اردی بہشت کو مارچ۔ بہمن اور اسفندار پت جھڑ کے مہینے کہ درختوں نے جون بدلنے کی تیاری کرلی اور فروردی نے بہار کے قدموں کی چاپ سن لی۔ اردی بہشت یا مارچ میں کونپلیں سبز ہوئیں تو نئی شاخوں پر ادھر منہ بند کلیاں نمودار ہوئیں کہ بھونرا منڈلانے لگا۔ موسم منہ بند کلی کا بھی‘ غنچہ کا بھی‘ بھونرے کے منڈلانے کا بھی۔ کلی طرحدار‘ خوش رنگ‘ خوش قبا‘ خوش پیرہن‘ بھونرا کم بخت کچھ نہیں بس خوش نوا۔ کلی نے اپنے رنگ روپ‘ سج دھج‘ وجود‘ مہک‘ سارے گہنے پاتوں سے لبھایا مگر وہ نامراد ہرجائی تھا سو ہرجائی رہا۔ کبھی ایک کا نہ ہوا۔ کہیں سُر سنا کے اڑ گیا تو کہیں منڈلاکر کلی کی نیند حرام کی۔ کلی نے بھی انتظار کی حد کردی‘ زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن پتہ پتہ جانتا تھا کہ انتظار میں کھلی آنکھوں کو شکوہ ہے کہ:
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
خورداد یا اپریل میں موسم بہار بھی شباب پر ہوتا گویا بہار پر بہار آجاتی۔ گھر کے آنگنوں میں لگائے ہوئے موتیا اور موگرے کے پودوں میں پھول کھل اٹھتے تو سارا گھر ان غنچوں کی خوشبو سے مہک اٹھتا۔ مٹی کے آنگن میں شام ڈھلے چھڑکاؤ کرکے بان کی چار پائیاں ڈال کر ان پر بھی چھڑکاؤ کردیا جاتا تو ڈھیلی ڈھالی بان بھی یوں کس جاتی جیسے برہن کی جوانی۔ اس پر سفید چادریں ڈال کر آنگن ہی سے چنے ہوئے پھول سفید چادروں پر ڈال دےئے جاتے۔ سہاگنیں کچھ پھول اپنے بالوں میں اڑس لیتیں اور کچھ گجرا گوندھ کر زیب زلف کرلیا کرتیں۔ تو جانو آنکھوں میں کوئی خواب مسکرا اٹھتا۔
ہر موسم کے لئے حیدرآباد میں اہتمام الگ الگ تھا۔ اسی طرح سے خورد و نوش‘ پہناوا‘ زیور‘ مکان‘ آرائش و زیبائش میں ہر بات میں موسم کا خیال رکھا جاتا۔ سرما کے موسم میں نیلے یا سرخ بانات کے پردے دالانوں میں چھوٹے ہوئے‘ چائے کا دہکتا ہوا سماور۔ آگ پر بھونے جانیوالے کبابوں کا اہتمام ہوتا تو گرما میں خربوزہ‘ تربوز‘ فالودہ‘ لسی‘ فالسہ اور صندل کے شربت۔ مغزیات کی ہوائیوں اور بالائی کی قلفیاں۔ تانبے پر چاندی کے قلعی دار برتنوں میں گھٹی ہوئی اور کورے مٹی کے گھڑوں میں برف کے بیچ دبی ہوئی طلائی طشتریوں کے درمیان تراشے ہوئے بادام کے پتے پر چاندی کا ورق لگاکر پیش کی جاتیں۔ ادھر ذرا سی قلفی دہن میں رکھی ادھر ہوا کے جھونکے نے موتیا کی خوشبو ایسی پھیلائی کہ بہشت کا دریچہ کھل گیا۔
موسم گرما میں دالان کے آگے کہیں چلمنیں اور کہیں خس کی ٹٹیاں لگوائی جاتیں اور ان پر مسلسل چھڑکاؤ ہوتا۔ دالان میں تخت اور سفید چاندنی کا فرش امراء کے گھروں کی چھت پر ڈوری اور پھرکی سے آگے پیچھے ہونے والا پنکھا جسے لونڈیاں باندیاں جھلتی رہتیں اور کبھی کبھی خود بھی خس کی ٹھنڈک اور ہوا کے جھونکے سے اونگھ کر چونک پڑتی تو ہاتھ تیزی سے چلنے لگتا۔ غریبوں کے دالان مٹی سے پوتے ہوئے کھجور کی چٹائی پر شطرنجی‘ دری اور اس پر چہلواری کا فرش۔ ہاتھ میں کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے پنکھے۔ کبھی دوپہر میں بچے شرارت کرتے تو گھر کی بڑی بوڑھیاں پکار اٹھتیں ’’ارے ناس پیٹو! گھڑی دو گھڑی تو چین سے بیٹھو‘‘۔ تو بچے ملگجے اجالوں کو دیکھ کر نانیوں دادیوں سے کہتے دادی اماں وہ کہانی سنادیجئے سبز پری والی۔ نہیں نانی اماں وہ جادو کی چھڑی والی تو نانیاں دادیاں کہتیں نہیں بیٹا دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں نہ جانے کس مچلتے بچے کی ضد کس بڑھیا نے پوری کردی۔ ’’ایک تھا بادشاہ‘ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘‘۔ ادھر کہانی چھڑی اور ادھر وقت کا مسافر جو راستہ بھولا تو آج تک راستے کا پتہ نہ چلا۔ اب تو نہ سفال پوش مکان رہے‘ نہ آنگن‘ نہ انگنائی‘ نہ پیڑ نہ پودے نہ وہ منڈیریں‘ جس پر کوا کائیں کائیں کرتے ہوئے مہمان کے آنے کی خبر دیتا تھا۔ نہ دالان تک چگنے والی چڑیوں کی چہچہاہٹ نہ کوئل کی کوک نہ پپیہے کی پیہو پیہو‘ نہ کوری صراحیوں کی سوں سوں نہ مٹی کی خوشبو‘ ہر طرف کنکریٹ کا جنگل ہے۔ کبھی زمینوں پر گھر ہوکرتے تھے اب تو فلک بوس عمارتیں ہیں۔ انسان دوسرے انسان کے سرپر پاؤں رکھے اپنی ترقی کا دعویدار ہے۔ شاید اب خدا کی زمین ہی چھوٹی پڑ گئی ہو کہ انسانوں نے خلاؤں میں گھر بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ اب تو بچے پیدا ہوتے ہی ٹکر ٹکر پہلے ٹیلی ویژن پر حرکت کرتے ہوئے بے ہنگم رقص دیکھتے ہیں۔ کانوں میں اذان سے پہلے جب موسیقی رس گھولے تو اس آغاز کا انجام بھی ظاہر ہے۔
جب گاؤں ہی شہر بن گئے تو کھیت کھلیان‘ کنواں‘ رہٹ‘ گگریا اور ڈگریا کا پوچھنا ہی کیا ہے۔ تال‘ تلیا تو ماٹی چائے ہے اب تو اُبہن کو گگری روٹھے ہے اور پنگھٹ کو بہو رانی ایسے میں باغ‘ باغیچوں اور امرائیوں کا تذکرہ ہی کیا ہے۔ آم اور امرائیوں کا شوق حیدرآباد میں نواب اور امراء کو خوب رہا۔ حیدرآباد بھی اس سلسلے میں لکھنؤ‘ فیض آباد اور ملیح آباد سے پیچھے نہیں تھا۔ نوابین پائیگاہ میں وقار الامراء جن کے نام سے وقار آباد موسوم ہے اور شمس الامراء جن کے نام سے شمس آباد موسوم ہے‘ ان دونوں امراء نے اپنی اپنی امرائیوں میں طرح طرح کے قلم لگائے تھے اور نئے قلم کو خزانہ ہی کی طرح حفاظت میں رکھا جاتا کہ اگر کسی اور نواب کے باغ میں یہ قلم لگ گیا تو گویا ناک ہی کٹ گئی۔
پھلوں کا بادشاہ آم بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ کوئی پانچ ہزار سال سے یہ انسان کا من پسند پھل ہے‘ لیکن یہ پیڑ تخمی ہوا کرتے تھے۔ مغلوں نے پیوند کاری سے اس میں قلم لگانے کو رواج دیا اور مغلیہ باغات قلمی آم کے پیڑوں سے سج گئے۔ کہا جاتا ہے کہ تخمی پیڑ میں قلم سب سے پہلے تیمور لنگ نے لگائی تھی اور اس کی نگہداشت تیمور کی بڑی بہو ’’اولجائی‘‘ نے کی تھی۔ چنانچہ قلمی آم میں آج بھی ’’تیمور لنگ‘‘ باقی ہے اور اس کی ایک اور شکل ’’لنگڑا‘‘ پسندیدہ آموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد کے خوش ذوق نوابوں نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے قلمی پودے منگوائے اور پھر ان کو اور اقسام سے میل دے کر ہمہ رنگی اور ہمہ ذائقہ آم پیدا کئے۔ ان کی اقسام اور نام تو بہت ہیں‘وقت کی گرد نے میرے حافظہ پر بھی چادر سی ڈال دی ہے۔ جو آم‘ نام اور ذائقے یاد رہ گئے وہ تیمور لنگ‘ حسن آراء‘ آب حیات‘ دسہری‘ چوسا‘ لکھنوی‘ اکھلوی‘ لنگڑا‘ نیلم‘ رومانی‘ سراولی‘ بیگن پلی‘ فضلی‘ زرد آلو‘ آٹری‘ مال خورد‘ کیسر‘ راجہ پوری‘ جمعدار‘ بے نشان‘ ملغوبہ‘ جومال گوا کی صورتگری ہے‘ راس پوری‘ بادامی‘ عالم پوری بے نشان‘ حمایت‘ جہانگیر‘ بتوہ‘ سکی‘ من پسند‘ اعظم پسند‘ سفیدہ‘ رس پونیا‘ متوا‘ تیموریہ‘ شربتی‘ گلاس‘ نورس‘ رس گولہ‘ شکر گٹھلی‘ طوطا پری‘ راتول‘ منجیرہ‘ امر پالی‘ لاکھا باغ‘ لیلی مجنوں‘ فجری کلاں‘ گلاب خاص ہیں۔ ایک آم انور رتاول بھی ہوا کرتا تھا‘ لیکن 1947 ء میں ترک وطن کرگیا۔ سنا ہے پاکستان میں پنپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کبھی جمہوریت شاخیں کاٹ دیتی ہے تو کبھی فوجی حکومت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تل جاتی ہے۔ اب تو شاید اس پر دہشت گردوں کا بھی سایہ پڑ گیا ہو۔ کمبخت یہیں رہ جاتا تو شاخ تو کٹتی لیکن جڑیں محفوظ رہ جاتیں۔ ان آموں کے علاوہ سمستان ونپرتی‘ رانی صاحبہ نے ایک اور شاخ لگائی اور اس کا نام ’’سورن ریکھا‘‘ رکھا۔ ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد اب تو صرف ’’چنا رسال‘‘ اور ’’پدا رسال‘‘ کا بولا بالا ہے۔ جن کو گلدان اور اگالدان کا فرق معلوم نہیں وہ آم کے رنگ‘ خوشبو اور مٹھاس میں کیا فرق کرپاتے اور انھیں زعفران کی کیا قدر معلوم ہوتی۔
شمس الامراء اور وقار الامراء کے بیچ آموں کا مقابلہ بھی ہوتا۔ پاس پڑوس کی امرائیوں سے بھی آم آتے‘ لیکن بازی ان دونوں ہی کے درمیان ہوتی۔ یہ نمائش اور مقابلے ایک سال وقار آباد میں اور ایک سال شمس آباد میں منعقد ہوتے تھے۔ شمس الامراء کی سات امرائی شمس آباد کے شمال میں کوئی دو کوس پر تھی‘ لیکن شمس آباد کے جنوب میں کوئی کوس بھر دور ایک موضع مامڑ پلی بھی واقع تھا‘ یہاں بھی آم کے باغات کثرت سے تھے۔ اسی کی وجہ سے اس کا نام مامڑ پلی تھا۔
جس سال کا تذکرہ ہے‘ اس سال شمس آباد میں نمائش کا اہتمام تھا۔ ریاست حیدرآبادکے ایک ممتاز افسر کو جج کے فرائض کے لئے نامزد کیا گیا۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ بھی تھے اور خاندانی رئیس بھی۔ ان کے ساتھ نو ہے‘ مضافات کی بھی سیر کرلیں۔ گھوڑا لے کر مامڑ پلی کی طرف چل پڑے۔ امرائیوں میں پہنچ کر گھوڑا چھوڑ پیدل چلنے کی سوجھی۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد یکایک امرائیوں کے بیچ ایک چھوٹے سے خطہ پر نظر پڑی تو دیکھا ایک ایکڑ سے بھی کچھ کم رقبہ پر سرخ قالین سی بچھی ہے۔ قریب پہنچے تو دیکھا سرخ گلابوں کا تختہ ہے‘ بیچ میں ایک کٹیا ہے جس کے چاروں کونوں پر پیڑ ہیں اور اس پر سرخ رنگ کے پھل ہیں۔ وہ حیران و مبہوت کھڑے تھے۔ مالی کمر کو خم کئے ہاتھ جوڑکر آکھڑا ہوا۔ جج صاحب کو حیران دیکھ کر کہنے لگا سرکار‘ مالک نے تھوڑی سی زمین بخش دی تھی‘ اس پر گلاب لگا دےئے۔ انھوں نے پوچھا ’’اتنے گلاب کیا کرتے ہو؟‘‘ تو مالی نے کہا ’’سرکار! جانے کس کے سہرے میں گوندھے جائیں‘ جانے کس کی قبر پر چڑھائے جائیں‘ میں تو بس مالی ہوں سرکار!‘ پھولوں کی تقدیر میں کیا جانوں‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’سرکار! بیٹھئے نا‘ غریب کی کٹیا ہے‘‘ اور چار پائی ڈال کر چادر بچھا دی اور آواز دے کر کہا ’’اری او! باہر تو چلی آ‘‘۔ اور ایسے میں ’’آئی باپو‘‘ کہتی ہوئی کٹیا سے جو نکلی تو صاحب نے شہنائی کے سر‘ شہد اور خوشبو کو پہلی مرتبہ ایک ساتھ دیکھا۔ دونوں ہاتھ جوڑکر نمسکار کیا‘ انگلیوں کی پورپر نظر پڑی تب صاحب کی سمجھ میں آیا کہ انگوٹھی پہنانا تو ہاتھ تھامنے کا ایک بہانہ ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلووں کی چھوٹ کی تاب نہ آئے تو آدمی انکھیں بند کرلیتا ہے‘ لیکن آنکھ بند کرلینے سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہو جاتی‘ مگر وہ اوجھل ہو گئی اور اب جو آئی تو تھالی میں پھل سجالائی۔ اس نے قاش کاٹ کر پیش کی۔ صاحب کی نظر قاش پر تو تھی نہیں بس ترشی ہوئی انگلیوں کو تراشتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔ جیسے ہی قاش دہن میں ابین اور امراء بھی جیوری کے طورپر ہم نشین ہونے والے تھے‘ جنھیں آم کی پرکھ تھی‘ لیکن مقابلہ میں شامل نہ تھے۔ سب ایک دن پہلے شمس آباد پہنچ چکے تھے۔ جج صاحب نے سوچا چلو شام کا وقت ریاست حیدرآبادرکھی مٹھاس اور گلابوں کی خوشبو سے مشام جاں معطر ہو گئی۔ انھوں نے پوچھا کہ اس کا رنگ سرخ مٹھاس اور ذائقہ آم کا اور خوشبو گلاب کی‘ یہ سب کیسے ہو گیا تو مالی نے دست بستہ عرض کیا ’’سرکار! مالن کی بیٹی ہے‘ اس نے آم کے پودے میں گلاب کی قلم لگا دی تھی سو رنگ گلاب کااور خاصیت آم کی رہ گئی‘‘۔ پوچھا ’’خوشبو‘‘ تو کہا ’’سرکار! جن پھولوں کا کوئی مقدر نہیں ہوتا‘ یہ ان کی پنکھڑیوں کو ٹوٹ کر زمین پر بکھرنے سے پہلے جمع کرکے اس میں آم رکھ دیتی ہے‘‘۔ صاحب نے بے اختیار اسے دیکھا اور اپنے آپ کو شاید سوچ رہے ہوں کہ پسینہ گل جب بدن میں جذب ہوتا ہے تو بدن بھی اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کل تم اپنے آم مقابلہ میں لیتی آنا اور چل پڑے۔
دوسرے دن جب مقابلہ کا آغاز ہوا تو ہر امرائی کے آم ایک کے بعد ایک پیش ہوتے رہے۔ جیوری کے ارکان فیصلے محفوظ کرتے رہے‘ لیکن جج صاحب کی نظریں اسے تلاش کر رہی تھیں اور یکایک وہ آئی گھاگرہ چولی سرخ گوٹ‘ لال چنری آگے کو پڑی گھنے بالوں کی چوٹی جیسے خزانے پر ناگ کا پہرہ‘ رخسار پر پڑی کاکل یوں جھول رہی تھی جیسے ناگن ڈس کے پلٹتی ہے اور پلٹ کر ڈستی ہے۔ گھنیری پلکیں جھکی ہوئیں‘ معصوم چہرے پر بھولی مسکراہٹ خود اپنے آپ سے بے خبر داہنے ہاتھ سے سرپر رکھی آم کی ٹوکری سنبھالے ہوئے اور الٹے ہاتھ سے گھاگرا سنبھالے یوں سیڑھیاں چڑھتی چلی آئی کہ دیکھنے والوں کا دم سینے میں رک گیا۔ وہ اپنی کٹار اپنے ساتھ لائی تھی۔ آم کی قاشیں تراش تراش کر سامنے رکھتی رہی۔ پہلی قاش دہن میں رکھتے رکھتے یہ بھی نہ خبر ہوئی کہ حسن ہوتا ہی انگشت تراش ہے‘ یا تاثیر زلیخائی مبہوت کردیتی ہے۔
جج صاحب نے قاش کی ٹھنڈک محسوس کرکے اسے دیکھا تو اس نے معصومیت سے کہہ دیا آم نے گلاب سے خود کو ڈھک لیا تو اوس نے چادر ڈال دی۔ جج صاحب کے منہ سے نکلا ’’ثمربہشت‘‘ اور سب نے متفقہ فیصلہ اسی کے حق میں دے دیا‘ البتہ نوابوں کے تیور چڑھ گئے۔
دوسری صبح گلابوں کا تختہ اجڑ چکا تھا۔ مالی کی کٹیا اور چاروں درخت جل چکے تھے۔ مالی اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے سرحدوں سے دور نکل چکا تھا‘ مگر لڑکی کی کمر پر رکھے چھوٹے سے گملے میں ایک شاخ لگی تھی اور سینے میں پھانس بھی۔
شمس آباد ایرپورٹ پر جب میں کنگ فشر کے سرخ طیارے کو رن وے پر دوڑتے ہوئے دیکھتا ہوں تو جانے مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گلابوں کے تختے کو روندتا ہوا دور سرحدوں سے پار نکلا جا رہا ہے۔ اس وقت مجھے خاموشی اچھی لگتی ہے‘ جیسے قبر کی خاموشی۔ تنہائی اچھی لگتی ہے‘ جیسے قبر کی تنہائی۔ اندھیرا اچھا لگتا ہے‘ جیسے قبر کا اندھیرا۔ پھر مجھے وہی مامڑ پلی‘ وہی شمس آباد اور وہی حیدرآباد دکھائی دینے لگتا ہے اور میں سوچتا ہوں۔ ریاست حیدرآباد
چاک کرنا ہے اسی غم میں گریبان کفن
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد
,Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4
,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL
HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
afarruq[@]gmail.com

Share

۹ thoughts on “کون کھولے گا ترے بند قبا میر ے بعد ۔ ۔ ۔ علامہ اعجاز فرخ”

Comments are closed.

Share
Share