دکنی محاورے اور ضرب الامثال ۔ قسط – 2 – – ڈاکٹرمحمد عطا اللہ خان

Share

ataulla

دکنی محاورے اور ضرب الامثال ۔ قسط – 2

ڈاکٹرمحمد عطا اللہ خان ۔ شکا گو

فون ۔ 17732405046+

قسط – 1

اپنی گھائی سب پو لائی
ایک چالاک عورت تھی وہ کام ٹھیک سے نہیں کرتی تھی اور کام میں کچھ نہ کچھ غلطی کربیٹھتی تھی اور اس کاالزام دوسروں کے سر باندھتی تھی اور اپنے اوپر اس غلطی کو آنے نہیں دیتی تھی اپنی خرابی دوسرے کے سر کرنا اس کاکام تھا ۔ایسی عورتوں کے لیے کہا جتا ہے کہ اپنی گھائی سب پو لائی ۔

اُٹھ رے مردے عود لے چاروں کو نے کو دلے
اس میں ایک ظالم شوہر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بیوی پر بہت زیادتی کرتا تھا اس کا انتقال ہوگیا تو اس نے سکون کا سانس لیا مگر روسومات کرنا ضروری تھا۔ فاتحہ خوانی کے موقع پر شوہرکی قبر پر آتی ہے اور فاتحہ دینے کے بعد شوہر سے یہ کہاوت طنز یہ کہتی ہے ۔

اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی
ایک تیزطرار ساس اپنی بہو سے پو چھتی ہے کیا سالن پکائی بہو؟۔بہو خوشی خوشی کہتی ہے کہ بھینڈیوں کی کڑی ۔ ۔ ۔ چوں کہ بہو کے ہر کام مں کیڑے نکالنا ساس کا کام ہوتا ہے اس لیے ساس کہتی ہے اجاڑ صورت پو بھینڈیوں کی کڑی بنائی ۔

اُجلے کو دیکھ کو اچھل گیا پُٹّا۔ پیلے کو دیکھ کو پھسل گیاپُٹّا
اولاد کی پرورش ماں باپ بہت لاڈپیار سے کرتے ہیں اور جب اس لڑکے کی شادی ہوتی ہے وہ اپنی بیوی کی طرف ہوجاتا ہے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا ا ن حالات میں ماں بیٹے سے کہتی ہے اُجلے کو(گوری رنگت) دیکھکر اچھل گیاپُٹّا ‘پیلے (سونے کازیور)کو دیکھکر پھسل گیا پُٹّا ۔

اچھے کو دیکھ سکتے نئیں۔ برے کو د ے سکتے نئیں
یہ ایک عام بات ہے کہ جو شخص کھاتا پیتا خوش حال ہے اس کو دنیا والے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ حسد اور جلن سے اُس میں کچھ نہ کچھ خرا بی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ دوسری طرف کوئی غریب ہے تو اُسکو کچھ دے بھی نہیں سکتے اور اس کی مدد نہیں کرنا چاہتے ۔

اچھی اچھی کئے تو دم پو نمدہ بن ری
ساس بہو سے کہتی ہے کہ شادی کے بعد شروع شروع بہو اچھی معلوم ہوتی ہے جیسے جیسے دن گزر تے ہیں بہو میں برائیاں نظر آتی ہیں ۔ اس کہاوت میں دم پو نمدہ بننے کی مثال دی گئی ہے۔ گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لئے لگام کا استعما ل کیا جاتا ہے لگام کس کر باندھنے کے لئے گھوڑے کی دم کے نیچے سے لگام کی رسی باندھی جاتی ہے اس رسی سے گھوڑے کو زخم نہیں ہونے کے لئے نرم قسم کا نمدہ یا چمڑہ بنا جاتا ہے اس کی مثال ساس بہو کو دیکر اپنی دل کی بھڑاس نکالتی ہے ۔

ادھمڑی چال چلو نکو ۔ منھ کہ بل گرو نکو
ماں باپ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں کہ جلدی جلدی چل کر بڑے آدمی بننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے یعنی جلد بازی میں جو کام کیا جاتا ہے اس میں نقصان ہی ہوتا ہے ۔ سوچ سمجھ کر ہی چلنا چاہئیے ۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ۔ جلد بازی سے انسان منھ کے بل گرتاہے اور اپنے دانت تڑوا بیٹھتا ہے۔

ادرک سڑا سو بنیا پھر ے سری کا نکو پھر
بنیا ‘ تجارت پیشہ شخص کوکہتے ہیں ۔ بنیا بہت سو چ سمجھ کر کاروبار کر تا ہے ۔ اتفاق سے وہ ادرک زمین میں بو تا ہے اور ادرک کے پودینکل آتے ہیں اب اس ادرک کو زمین سے نکالنے والا ہی تھا کہ اچانک بارش تیز ہوجاتی ہے اور تمام ادرک کے پودے اسی پانی میں ڈوب جاتے ہے اور سڑ جاتے ہیں۔ ا س حالت میں بنیا گھر سے کھیت کی طرف آتا ہے اور کھیت سے گھر کی طرف جاتا ہے ا س کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اب کیا کیا جاے ۔اسی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے ۔

اکماں کی ساڑی بکم ماں کی چولی ۔ بھر ے دربار میں جا کو کھولی
ایک غریب دیہاتی عورت کو گاوں کے بڑے پیسے والے کے گھر سے شادی کی دعوت آتی ہے ۔اس غریب کے پاس شادی میں پہننے کے لائق کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اُس کے پڑوسن میں اکماں نام کی عورت سے ساڑی مانگ کر پہنتی ہے اور دوسری پڑوسی بکم ماں سے چولی مانگ کر پہنتی ہے ۔ اور یہ تینوں خواتین شادی میں جاتی ہیں ۔ وہاں دیگر خواتین بھی آتی ہیں اتفاق سے وہ ساڑی چولی کو پہچان لیتے ہیں اور طنز سے اس کی ساڑی اور چولی کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔ غریب عورت اس طنز کو برداشت نہیں کرتی اور جھٹ خف4166وتی ہے ۔ وہ بھری محفل میں ساڑی اور چولی اتار کر دیتی ہے اور کہتی ہے یہ دونوں اکماں اور بکماں کے ہیں میرا کچھ بھی نہیں ہے ۔اسے اپنے برہنہ ہونے کی کچھ فکر نہیں ہوتی ۔

الیف بے ٹو ں ٹوں استاد کو پیٹوں
ایک گاوں میں ایک توتلی لڑکی تھی وہ پڑھائی میں بھی چور تھی ۔ استاد اُس کو دو لفظ الیف اور ب یاد کرکے آنے کو کہتا ہے ۔وہ لڑکی حرف ٹوں ٹوں ہی کہتی تھی ۔ استاد اُس لڑکی کو چھڑی سے مارتا ہے وہ اس پر ناراض ہو کر استاد کو کہتی ہے الیف ،ب ٹوں ٹوں استاد کو پیٹوں کہتے ہوئے۔ بھاگ کھڑی ہوتی ہے ۔
رکنی 2
مشمولہ :دکنی محاورات‘کہاوتیں اور ضرب الامثال
مصنف : ڈاکٹرعطا اللہ خان
کتاب منگوانے کے لیے فون نمبر ۔ (09160058268)

Share

۲ thoughts on “دکنی محاورے اور ضرب الامثال ۔ قسط – 2 – – ڈاکٹرمحمد عطا اللہ خان”

Comments are closed.

Share
Share