ٹھنڈی سبیلیں گرم الاؤ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share
bibi ka alam
بی بی کا علم
hyderabad muharram
حیدرآباد کا محرم

ٹھنڈی سبیلیں گرم الاؤ

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :

– – – – –

نوٹ : واقعہ کربلا عالم انسانیت کیلئے حق وصداقت کا وہ پیغام ہے جسے بلا تفریق رنگ و نسل ساری دنیا نے بلا کم وکاست یکساں قبول کیا۔جور ،جبر،ظلم،بربریت،اقتدارپسندی،صنعت قد آوری،حقوق انسانیت کی پامالی، استبداد،،سب وستم ان سب کے خلاف کوئی آواز نہ ہوتی اگررسول اکرم ﷺکے نواسے امام حسین نے ایک مختصرسے پاکیزہ وَش قافلے کے ساتھ ظلم کے ایک وسیع لشکر کو صبروشکرسے شکست دیکرانسانیت کوحمایت حق اورنصرت مظلوم کا پیغام نہ دیا ہوتا۔دسویں محرم کو کربلا کی یہ جنگ دراصل حق وباطل کی پیکار تھی۔یزید،ہوس اقتدارمیں چور،اسلام کو نیست ونابود کردینے پرآمادہ اورامام حسینؓ،دین اسلام کی بقاء پرمصمم۔ صبح سے لیکرشام تلک سرکارحسینی لٹتی رہی اور عصر تنگ میں امام حسین نے آخری سجدہ ادا کیا اورسجدہ ہی کے عالم میں سرکاٹ کرنوک نیزہ پربلند کیا گیا اور اسکے ساتھ ہی اسلام ہمیشہ کے لیے سربلند ہو گیا۔حضرت خواجہ معین الدین چشتیِ ؒ نے کہا۔
شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین ۔ ۔ ۔دیں ہست حسین دیں پناہ ہست حسین
سرداد، نہ داد، دست دردست یزید ۔ ۔ ۔حقا کہ بناء لا الہ ہست حسین
شعورانسانی پرسانحہ کربلا نے جونقوش چھوڑے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ہرذی شعور نے حسین ابن علی کو سلام کیا۔ علامہ اقبال نے کہا۔
اون کہ بخشد بے یقین آرا یقیں ۔۔۔ اون کہ لرزد از سجود او زمیں
اون کہ زیر تیغ گوید لا الہ ۔۔۔ اون کہ از خونش بہ روید لا الہ
وہ، جس نے بے یقینوں کو یقین عطا کیا،وہ جس کے سجدے سے زمین کانپ اُٹھی، وہ جس نے تیغ کے نیچے لاالہ کہا،وہ جس کے خون سے لا الہ نمو پایا۔
میرتقی میرنے کہا : زیر شمشیرستم میر تڑپنا کیسا ۔ ۔ ۔ سربھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
سیماب اکبرآبادی نے کہا : خلوص دل سے سجدہ ہو تواس سجدے کا کیا کہنا ۔ ۔ ۔ وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی
افتخارعارف نے کہا : وہی پیاس ہے وہی دھوپ ہے ،وہی گھرانہ ہے ۔ ۔ ۔ مشکیزے سے تیر کارشتہ بہت پرانا ہے
تصورزیدی نے کہا : گلوے خشک سے ٹوٹا نہ پیاس کا رشتہ ۔ ۔ ۔ ستم نے بیچ میں خنجربھی رکھ کے دیکھ لیا
علامہ اعجازفرخ کی یہ تحریر،، ٹھنڈی سبیلیں ،گرم الاو ،،حیدرآباد کی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے پیش خدمت ہے اوراس ضمن میں احباب کی آراء کا انتظار رہے گا.
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محبت کا اپنا اثرہے ‘اس کا رنگ بھی الگ ‘تاثیر بھی الگ‘ لیکن سب سے زیادہ اس محبت کا اثرہے ‘ جوآہستہ آہستہ بدن میں سرایت کرتا ہے تو مٹھاس ایسی کہ شہد پھیکا اورایک دونہیں ہزارآتشہ ‘ جس کا خمارخوابیدہ کو بیداراوربیدارکومخموررکھے اورپھرخماربھی ایسا کہ ہرتشبیہہ ہیچ ‘ دیوانے کو ہشیار کرے تو ہشیار کو دیوانہ‘ لیکن کم بخت آنکھوں سے تو بدن میں اترتا ہے اورآنکھوں ہی سے چھلکتا ہے۔ اس کے علاج سے طبیب عاجز‘ نسخہ لقمان بے اثر‘ ابھی کچھ افاقہ ہوا تھا کہ چشم بیمارکرگئی ۔ وجود اس کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ ذرادیرہوگئی تورگیں کھنچنے لگیں اورتیماردار اٹھنے لگے کہ جاں بلب کا تڑپنا بھی نہ دیکھا جائے ہے ۔ جانے لوگوں کے بدن میں اتنی وسعتیں کہاں سے آگئیں کہ نفرتوں کا زہرسارے وجود میں بھر کر یوں ڈستے پھرتے ہیں کہ سانپ کو کاٹ لیں تو سانپ مر جائے ۔یہاں تو محبت بھی نس نس میں بسی ہواوروقت کی سوئیاں محبتوں کے اسیرکی زنجیریں بھی کاٹ ڈالے توسانس کی چبھن ہرلمحہ ایک مرگ نو کی صورت میں لمحہ لمحہ زندگی اورموت کے رقص کوجاری رکھتی ہے اور یہ آرزو ہو نے لگتی ہے کہ کم ازکم موت ہی آکے بچالے جائے ‘ ورنہ زندگی توہرلمحہ وجود کوزیروزبرکرتی رہتی ہے۔ کچھ یہی حال حیدرآباد کی مٹی کی محبت
کا بھی ہے ۔ اسی مٹی سے بنے‘ اسی پر پیدا ہوئے‘ یہیں پہلی سانس لی ‘پہلی خوشبو بھی اسی مٹی کی سانس بھر وجود میں سمیٹ لی اورتمام عمرکے لئے اسی کے ہوکے رہ گئے۔ اب جس کے ہوکے رہ گئے سوہوکے رہ گئے ۔ مٹی نے بھی اتنا ٹوٹ کے چاہا کہ کبھی تھک کرپل دوپل کو سرہانے ہاتھ دے کر سوگئے تومٹی نے تمام سردوگرم سے بے نیازکردیا۔ کبھی لڑکپن میں کھیلتے کھیلتے گرجاتے اورزخم آجاتا تووہیں سے مٹی لے کرزخم پرلگالیا کرتے اوروہ اکسیرہوجاتی ۔ جانے آج اسی مٹی میں کس نے اتنا زہربودیا ہے کہ خراش بھی آجائے تو بغیرڈاکٹرسے سوئی لگا ئے نہ بنے ۔ ولادت کے پہلے سے جو انجکشن کا سلسلہ ہے توفی الحال تو بارہ برس تک مسلسل ٹیکہ اندازی ہے۔معلوم نہیں ہوا بدل گئی ‘ پانی بدل گیا یا زمین بدل گئی ۔
ہمارے لڑکپن میں بچوں کو چیچک سے محفوظ رکھنے کے لئے صرف ایک ٹیکہ دیا جاتا اوروہ بھی حکومت کی جانب سے محکمہ بلدیہ کے زیرانتظام گھرگھراپنا بیگ لئے گھومتے اورانہیں چیچک برارکہاجاتا تھا ۔ اسپرٹ لیمپ میں سوئی گرم کرلی ‘ پھر دوا لگا کر ان تین چھوٹی سوئیوں والے آلے کو دوا پر رکھ کر گھمادیا جاتا ۔ ہلکا سا زخم آیا ‘ سودوچاردن میں سارا مواد بھرآتا اورجو نہ آتا تو بھونے ہوئے چنوں کے خستہ دانے کھلائے جاتے کہ ٹیکا خوب پھول جائے اور مرض کے اندیشے سے نجات مل جائے ۔ یہ ٹیکوں کا نشان عمربھرباقی رہ جاتا ۔ اس زمانے کے افراد کے بازوؤں پر دیکھئے تو آپ کو یہ نشان بھی مل جائیں گے۔ اب تک تو خیریت ہے لیکن اگلی نسل اگراس جلد کو تراش کرمیوزیم میں رکھ دے کہ کبھی ہمارے اجدادیوں بھی ٹیکہ لیا کرتے تھے تو یہ ناممکنات میں بھی نہیں ہے ۔
حیدرآباد میں سال اورمہینوں کی ترتیب بھی ہندوستان کے دیگرحصوں سے الگ تھی ۔ انگریزوں کے تسلط کے بعد تو عیسوی سن اورمہینے توکم وبیش سارے ملک میں رواج پاگئے اورآج بھی جنوری تا دسمبرمروج ہیں ۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں فصلی سال سرکاری ہوا کرتا اور اس کے مہینے کچھ یوں تھے ۔ آذردے‘ بہمن‘ اسفندار‘ فروردی ‘ اردی‘ بہشت ‘ خوردار ‘ تیر‘ امردامہرد ‘ شہریور‘ آبان ۔ساتھ ہی ہجری سال کا بھی رواج تھا اور تاریخ ولادت و وفات ‘ سالگرہ ‘ تسمیہ خوانی ‘ شادی بیاہ ‘ نیک بد ‘ قمردر عقب ‘ تحت الشعاع سب ہجری مہینوں کے حساب ہی سے ہوتا ۔اکثر اسلامی طور طریقے ہندومسلمان سبھی میں یکساں رواج پاگئے ۔ مثلاً سالگرہ اورتسمیہ خوانی کا بھی اکثرکا ئستھ گھرانوں میں رواج تھا۔ رائے محبوب نارائن کے خاندان میں بھی اس کا چلن رہا تو مہاراجہ کشن پرشاد کی ڈیوڑھی میں تو اکثررسوم رواج پاگئے ۔ چنانچہ سہ شنبہ کو جسے عرف عام میں منگل کہا جاتا ہے بال ترشوانا متروک تھا۔ چنانچہ آج بھی حیدرآباد کے قدیم محلوں میں یہ رواج اب بھی باقی ہے کہ کوئی نائی اس دن اپنی دوکان نہیں کھولتا ‘ بلکہ بال تراشنا تو کیا گھر میں ناخن تک نہیں تراشے جاتے ۔ دنوں کے ساتھ ساتھ مہینوں کا بھی خیال رکھا جاتا۔اسلامی سا ل کاآغاز ہی محرم سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجہ پر لیکن جس طرح نئے سال کی خوشی منانے کا رواج ہرمذہب میں رہا ہے حیدرآباد میں یہ رواج کبھی نہیں رہا۔ مسلمان تو بہرحال مسلمان ہی تھے لیکن اہل حیدرآباد سب کے سب اسے غم کا مہینہ سمجھتے تھے۔ پورے ماہ محرم میں بلا تفریق مسلک شادی بیاہ ‘ گلپوشی‘ تقریب مسرت کا کوئی تصور بھی نہیں تھا اور آج بھی روایتوں کے امین گھرانوں میں یہی طریقہ مروج ہے۔ شہر کی ہوا تو یوں بھی بدلی بدلی سی ہے لیکن وہ گاؤں جو ابھی گاؤں ہیں ‘ اس میں یہ تہذیب اب بھی بلا امتیاز مذہب و مسلک موجود ہے۔ ایرپورٹ کے حدود میں اگر ایک مسجد منہدم ہوئی ہے تو مامڑ پلی کا عاشورہ خانہ بھی منہدم ہوا ہے ‘ اس کی بھی وقف اراضی ایرپورٹ میں ضم ہوگئی ‘ لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔ ایک مامڑپلی پرکیا موقوف ہے ۔ ابراہیم پٹنم کھٹکیسر‘ کیسرا ‘ سنکیسر‘سرونگر کس دیہات اور کس گاؤں میں عاشور خانے نہیں تھے۔ میرے ایک دوست جو چنچولی سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ جب شب عاشورعلم اٹھتے تو گاؤں کی تمام عورتیں الاؤجلاکراس کے اطراف زاری کیا کرتیں اوررسول کے نواسے کے غم میں نوحہ کناں ہوتیں۔
چھ محرم کو بچوں کو سبز لباس پہنا کرحضرت امام حسین کا فقیربنا کرفقیری کیا کرتیں توکربلا کے پیا سے بچوں کی یاد کوشربت بھی پلایا کرتیں۔ ان میں سے کسی عاشور خانے کا متولی شیعہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ حضرت امام حسین فقط کسی مخصوص فرقہ یا طبقے کے امام نہیں ‘ بلکہ سارے عالم انسانیت کے امام ہیں ۔دور کیوں جائیے۔ مولاعلی کا پہاڑہوکہ بی بی کا علم ‘ نعل مبارک ہوں یا حسینی علم حضرت قاسم کا عاشورخانہ ہویا کیسرہ کے روئی کے علم ‘ سنکیسرکا عاشور خانہ ہوکہ مشیرآباد کے عاشور خانے کا متولی ‘ ان سب کا تعلق اہل سنت ہی سے تھا‘ لیکن احترام میں کوئی کمی نہ تھی۔ آج بھی جب بی بی کا علم واپس آتا ہے اورہاتھی بھی سوگوارسا کھڑارہتا ہے توسناروں کی گلی کی ہندوعورتیں نہا دھوکرگیلے بالوں کے ساتھ ہاتھی کے پیردھلاتی ہیں اورچھوٹے بچوں کو دودھ کا شربت پلاتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا تواس مذہب سے کوئی تعلق نہیں ؟ تو وہ روکر کہتی ہیں سنا ہے ایک ماں کا بچہ اس کی گود سے پانی کے لئے باپ کے ہاتھوں پر گیا تھا‘ پر ظالموں نے اس کے گلے کو تیر سے چھیددیا ۔ ہماری مامتا ہم کو کھینچ کر یہاں لاتی ہے اوریہ رواج ہمارے خاندان میں صدیوں سے ہے ۔ خود بی بی کے علم کی چتربرداری کی خدمت سدرشن کے خاندان میں صدیوں سے جاری ہے ۔ عاشور کو سہ پہر کے بعد جگہ جگہ فاقہ شکنی کا اہتمام ہوتا۔ راستوں پر ڈیر ے لگا کر کربلا کے بھوکوں کی نیاز دلوائی جاتی ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جو اسی حیدرآباد کی مٹی کی رواداری کی علامت ہے ۔
کبھی ساون کے مہینے میں برسات نہ ہوتی تو گاؤں سے عورتیں ایک مسل کے دونوں سروں پر خالی مٹی کے گھڑے چھیکے پرلٹکائے اپنے کندھوں پر اٹھائے اٹھائے گلی گلی آواز دیتی تھیں ۔ ’’ آشنا اوشناپانی ڈالو‘ بی بی فاطمہ پانی ڈالو ‘‘ تودریچوں کی چلمنوں کے پیچھے سے سرپرآنچل ڈالے عورتیں دعا ء کے لئے ہاتھ اٹھا دیتیں کہ برسات کے لئے کر بلا کے پیاسوں کا واسطہ دیا جارہا ہے اوران کا یقین بھی دیکھئے کہ ابھی شام نہ ہوتی کہ جنوب سے تیتر کے پروں کے رنگ کی کوئی بدلی اٹھتی اورکچھ ہی دیرمیں یوں گھٹا بن کرچھا جاتی اورجھوم کربرستی کہ زمین توسیراب ہوجاتی ‘ لیکن برستی بارش کو دیکھ کر نہ جانے کیوں آنکھ بھر آتی۔
بی بی کا علم میرے لڑکپن میں الاوہ بی بی سے ہاتھی پرسوارنہیں ہوا کرتا ۔ نظام نے اس علم کے لئے جو ہاتھی وقف کیا تھا اس کا نام ’’ اقبال پیکر‘‘ تھا ۔ وہ اتنا بلند و بالا تھا کہ یاقوت پورہ کے دروازے سے نہیں گزرسکتا تھا۔ علم وہاں تک پیدل لایا جاتا ۔ میری عمراس وقت چاربرس رہی ہوگی ۔ میں علم کے ساتھ ساتھ یاقوت پورہ ‘ اعتبارچوک ‘ کوٹلہ عالیجاہ ‘ چارمینار گلزارحوض ‘ قدم رسول ‘ منڈی میرعالم ‘ پرانی حویلی ‘ جہاں نظا م بہ نفس نفیس خود ڈھٹی پیش فرماتے اور نذرگزرانتے تھے پھرعزا خانہ زہرا میں بھی ڈھٹی اور نذر گزرانتے تھے۔ پیچھے پیچھے ہزاروں سوگوارابن الزہراواویلا کرتے ہوئے برہنہ سر برہنہ پا شریک جلوس رہتے ۔ دارالشفاء کے پولیس اسٹیشن پر کوتوال شہرعلم کو سلامی پیش کرتا اور ڈھٹی و نذرگزرانتا ۔ ایک مرتبہ جب شری بھاسکرراؤ کوتوال تھے انہوں نے خیرسگالی علامت کے طورپرسیاہ شیروانی اورچوڑھی دار پاجامہ زیب تن کرکے دارالشفاء پر ڈھٹی چڑھائی ۔ دوسرے دن میں نے اپنے مکتوب میں انہیں لکھا کہ اس شہر کی روایت ہے کہ کوتوال شہر کی سلامتی کے لئے نہ صرف ڈھٹی گزرانتا ہے بلکہ احتراماً اپنے یونیفارم میں سلامی پیش کرتا ہے ۔ آپ نے جو ڈھٹی پیش کی وہ بھاسکرراؤ کی تھی کوتوال کی نہیں تھی تواس کی پابجائی میں 14محرم کو جب علم برآمد کئے جاتے ہیں تاکہ اسے پھر سے محفوظ کردیاجائے تو بھاسکرراؤ نے یونیفارم میں نہ صرف سلامی دی ‘ بلکہ پھر سے ڈھٹی پیش کی ۔
جب ’’ اقبال پیکر‘‘ ہاتھی بوڑھا ہو گیا تو نظام نے مہاراجہ میسورسے ہاتھی منتخب کرنے کی خواہش کی جس پرمہاراجہ میسورنے اپنے فیل خانہ کا سب سے بلند ہاتھی علم کی سواری کے لئے روانہ کر دیا اور اس کا نام ’’ فتح نشان ‘‘ رکھا گیا۔ اقبال پیکر کے ہونے تک یہ ہاتھی علم کا نشان لے کر آگےآگے چلتا تھا۔ اس وقت سے نشان کا ہاتھی محاورہ رواج پا گیا ۔ یہ سلسلہ شاید دو یا تین سال رہا ‘ اس کے بعد فتح نشان برسوں علم برداری کرتا رہا اور 70 کی دہائی کے آخر میں فوت ہو گیا۔ اس کے بعد نظام ٹرسٹ سے ایک ہتھنی لکھنو سے خریدی گئی ۔ ڈاکٹر ایم چناریڈی وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کو بی بی کے علم سے نہ صرف عقیدت تھی بلکہ وہ گلزارحوض کے پاس گردھاری لال بجرنگ پرشاد ‘ سورج بھان کے ساتھ ڈھٹی پیش کیا کرتے تھے۔ جب وہ آندھراپردیش کے وزیراعلی ہوئے تب بھی انہوں نے یہ روایت ترک نہیں کی ۔ چنانچہ جب نظام ٹرسٹ نے ہاتھی خریدا تو ڈاکٹرایم چناریڈی نے اسے حکومت کا فرض سمجھ کراس کی پرورش و پرداخت کے لئے جی او جاری کیا جس کی رو سے یہ ہاتھی نہروزوالوجیکل پارک میں رکھا جانے لگا ۔ جب یہ ہاتھی مر گیاتو نواب کاظم نوازجنگ جو علی پاشاہ کے نام سے مشہورہیں انہوں نے نظام ٹرسٹ سے ایک اور ہاتھی خرید نے کااہتمام کیا ۔ وہ شاید دوراندیشی میں آصف سابع سے بھی چار ہاتھ آگے تھے۔ انہوں نے میسور سے ایک حاملہ ہتھنی خریدی تاکہ اس کی نسل چلتی رہے اور پھرہاتھی خرید نے کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن حاملہ ہونے کی وجہ سے اس سال یہ ہتھنی خدمت نہ انجام دے سکی تو کھیل تماشے کے لئے جانو فراہم کرنے والے ایک شخص کو علی پاشاہ نے بحیثیت صدرنشین چارمینار بینک سے ہاتھی کے لئے قرض جاری کیا اوراس ہاتھی نے چند برس خدمت انجام دی ۔ جب یہ بھی چل بسا تو نظام ٹرسٹ کی اس ہتھنی کو استعمال کرنے کا خیال آیا۔ لیکن مہاوتوں نے بتلایا کہ یہ جنگل میں باربرداری کے لئے تربیت یافتہ ہے عوامی ہجوم میں کارآمد نہیں ۔ بہر نوع دوسال سے تروپتی کے مہاوت کے ذریعہ اسے وقتی طورپرپیروں میں زنجیرڈال کراستعمال کیا جارہا ہے ۔
کانگریس کے برسراقتدارآنے کے بعد وزیراعلیٰ نے اچھے تربیت یافتہ ہاتھی کی خریدی کے لئے پانچ لاکھ روپے مختص کئے ۔ یہ رقم اضافہ بھی ہو سکتی ہے ۔لیکن مرکزی حکومت نے بین الریاست ہاتھیوں کی فروخت پرامتناع عائد کررکھا ہے ۔ اس کے لئے مرکز سے استثناء بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت پس وپیش نہیں کرے گی ۔ یہ کام انجام پائے گا ۔ دیکھئے کون آگے بڑھتا ہے کہ یہ کام انجام پائے۔ عاشورکو عزاخانہ زہرا کے روبرو سرینواس لا ہوٹی سیاہ شیروانی میں ملبوس ‘ برہنہ سر برہنہ پا جلوس میں شریک عزاداروں کو پانی پلانے میں مصروف رہتے اور بڑی عقیدت سے ڈھٹی گزرانتے ۔
ادھر بی بی کے علم کی شان کچھ اورتھی تو ادھ نعل مبارک کی شوکت اورکوئی من بھروزنی علم جس میں امام حسین ؑ کے خود او بینی کا ٹکڑامحفوظ ہے اورہرسال صندل مالی کی وجہ سے اس کے حجم اوروزن میں کافی اضافہ ہو چکا ہے ۔ پتھر گٹی سے شب عاشور برآمد ہوتا ۔ اس کے متولی کے احتشام کی کیفیت یہ تھی کہ توال کو خاطر میں نہ لائے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد اس علم پر باقاعدگی سے ڈھٹی چڑھایا کرتے اور نذر گزرانا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب علم ڈیوڑھی کے قریب پہنچا تو ڈیوڑھی کے خاد م کو اندراطلاع دینے میں شاید کچھ دیرہوگئی ۔ اتنی دیرمیں علم چند لمحوں کے لئے رکا اور متولی نے مہاراجہ کوعلم کا منتظر نہ دیکھ کر اپنی کڑک دار آواز میں کہا ’’ یاعلی ‘‘ گویا یہ اشارہ تھا کہ علم آگے بڑھ جائے ۔ مہاراجہ برہنہ سر برہنہ پا برآمدہوئے تو دیکھاعلم آگے بڑھ چکا ہے ۔ لوگوں نے بڑھ کے متولی کو اطلاع دی کہ مہاراجہ ڈیوڑھی پرتشریف لاچکے ہیں اورعلم کے منتظرہیں ۔ متولی نے برجستہ کہا کہ ’’مہاراجہ سے کہئے کہ اگلے سال کاانتظار کریں ‘‘ مہاراجہ پیادہ پا تیز تیز قدموں سے علم تک پہنچے ‘ ہاتھ جوڑ کرتا خیرکی معافی چاہی اورنذرگزران کردیرتک ہاتھ جوڑے کھڑے رہے کہ خطامعاف ہو جائے ۔پھر تبرکات حاصل کر کے واپس لوٹے ۔چہرے پرسکون بھی تھا اطمینان بھی ۔
تمام شب گشت کے بعد نعل مبارک فجرسے کچھ پہلے راؤ رمبھا کی ڈیوڑھی کے روبرو کچھ دیرایک حجر ے میں رکھ دےئے جاتے ۔ اتنی دیرمیں علم برداربھی تازہ دم ہو جاتے اس لئے اس عاشورخانہ کو خوابگاہ نعل صاحب کہا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ علم صبح سات بجے کے قریب پہنچتے ہیں اور فوراً واپس ہوجاتے ہیں۔ علم صرف شیعہ گھروں ہی میں ایستادہ نہیں ہوتے بلکہ اہل طریقت میں بہت سے بزرگ گزرے ہیں ‘ جن کے ہاں علم ایستاد ہوا کرتے اور واقعات کر بلا بیان کئے جاتے ۔ اس کے علاوہ بعض گھرانوں کے عشرہ اول کی مجالس بہت مقبول تھیں۔ چنانچہ نواب تہورجنگ جن کی ڈیوڑھی منڈی میرعالم کے قریب واقع ہے اورحسینیہ نواب عنایت جنگ کے نام سے مشہور ہے ‘ اس میں میرانیسؔ نے بھی مرثیہ سنایا ہے ۔ جس زمانے میں میر انیسؔ حیدرآباد آئے تھے اس وقت تک گلبرگہ سے حیدرآباد تک ریلوئے لائن بحال نہیں ہوئی تھی ۔چنانچہ وہ گلبرگہ سے حیدرآباد بذریعہ شکرام تشریف لائے ۔ اہل حیدرآباد نے کبھی میرانیسؔ کو دیکھا نہ تھا ۔ اس زمانے میں اس ڈیوڑھی کے روبرو جہاں آج زہرا نگرآباد ہے ایک میدان تھا۔ ہجوم کا عالم یہ تھا کہ تھالی پھینکوتو سروں پر جائے ۔ ایک دو رباعیوں کے بعد سلام پڑھ کر جب انیسؔ نے مرثیہ شروع کیا کہ ’’ بخدافارس میدان تہور تھاحر ‘‘ تو مجمع پر سکتے کی کیفیت دیکھ کر انیسؔ نے کہا تھا ’’ ہائے لکھنو تجھے کہاں سے لاؤں ‘‘ لیکن 9محرم کو جب مرثیہ پیش کیا کہ ’’ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے ‘‘ تو اس کے بینیہ حصے کے بعدکہرام سن کر میرا نیسؔ نے اپنے فرزندکو خط لکھا کہ میں نے زندگی میں انسانوں کو تو روتے دیکھا ‘ لیکن پہلی مرتبہ درودیوارکو روتے دیکھا ہے ۔ نہیں معلوم تہورجنگ کا خلوص تھا کہ عنایت جنگ مرحوم کی وارفتہ محبت 9 محرم کو اب تک رٹے رٹائے فقرے اور برسوں سے سنے ہوئے جملے سن کر بھی لوگ کربلا کے شہیدوں پر یوں گریہ کرتے ہیں کہ گویا وہ کیفیت اب بھی برقرار ہے ۔ پانی دیکھ کر پیاس یا د آجاتی تو ہاتھ سے آب خورہ چھوٹ جاتا کہ آخر کا ردریا ہارگیا ‘ پیاس جیت گئی ۔ رائے محبوب نارائن نے لکھا ۔ ’’ محرم بھی کیا محرم ہوتا ‘ ٹھنڈی سبیلیں گرم الاؤ ‘‘۔

علامہ اعجاز فرخ
علامہ اعجاز فرخ

Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4
,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL
HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
ای میل :

Share

۸ thoughts on “ٹھنڈی سبیلیں گرم الاؤ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share