فکاہیہ : سڈول تیلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ نعیم جاوید ۔ دمام

Share

Capture

فکاہیہ : سڈول تیلیاں

نعیم جاوید ۔ دمام

ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔
مہمان نے فرمایا کہ ’’ میاں ‘ذرا ایک دھان پان سی سڈول تیلی دینا ‘‘ میں شریک محفل تھا سن کر چونک پڑا۔۔پوچھا کون ہیں یہ۔۔جواب ملا چپ رہئیے۔۔یہ لڑکے والے ہیں ۔۔بلکہ نوکیلے رشتہ دار ہیں‘ آپ کی بات کا تنکا ان کے لئے شہتیر بھی ہو سکتا ہے۔ اب مجھے اس بات کی جستجو ہوئی کہ آخر کون لوگ ہیں اور کیا کاروبار کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ Tooth picks بناتے ہیں اور اسی کاروباری فضامیں جیتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ایک نحیف سا لڑکا تیلیوں کی چلمن سے چق ہٹاتا ہوا چھناکے سے صحن میں آگرا۔ اسکے اس والہانہ شانِ نزول کی وجہ اس کے سر پر سہرے کا اورضمیرپر مفت جہیزو

جوڑے کی رقم کا بوجھ جو تھا۔ خیر ! گری پڑی چیزوں کو اُٹھانا اور محفوظ کر لینا میرے شوقِ مدارات میں تھا سو وہ میں نے کیا۔ پھر ایک طویل شخص جو خوشبوں میں بسا میرے پہلو میں آبیٹھا جیسے کوئی اگر بتی جل اٹھی ہو‘ بلکہ کسی صاحبِ مزار کا باہر نکل کر اپنے لئے اگر بتی جلا لینا۔ میں نے پوچھا۔۔ تو وہ نوشہ کے سراسر والد نکلے ‘ انھوں نے جتایا بھی کچھ اسی انداز سے تھا۔ پھر محفل میں ڈھیر ساری چوبی لکڑیاں یا لڑکیاں نظر آییء۔ جیسے سوکھے جنگل کی اکہری شاخیں ہوں۔ بلکہ لڑکیاں کیا ہوئیں سوکھے جنگل کی بھوکے ہرنیوں کی ڈار ۔بات بھی کرتیں تو لگتیں جیسے تڑکنے‘ چٹخنے اور کھپریل کے اُکھڑنے کی آواز اور سرگوشی جیسے سوکھے پتوں سے ابھرتی ہوئی سسکیاں۔
دراصل آجکل ہرجگہ Very very slim ہوجانے کی آرزوہے اوراتفاقاً اس جگہ dieting مرکزوں کے فارغ التحصیل ہونق چہروں کا غول جمع ہوگیا تھا۔یارلوگوں کو اس محفل میں ان کے کالج کی سابقہ دوست لڑکیاں نظر آییئ جوان کی روایت کے مطابق دوہری آیسکریم کی طرح ہوا کرتی تھیں اوراب کسی کلفی کی کلفت زدہ تیلی سے زیادہ نہیں۔ان میں سے اکثر تو چلتی ایسی تھیں جیسے کوئی موہوم سا خیال ہو۔بھر ی محفل میں وسوسہ کی طرح آتیں اور بلاوں کی طرح ٹل جاتیں۔بلکہ ایسی ملاقاتیں ڈراونے خواب بن کر لطیف احساسات کو پنکچر کرجاتیں ہیں۔
غالباً ا قبال ؔ نے بھی محبت کی تمنا بھی ایسی ہی کچھ کی ہے ؂ ’’ کانٹا وہ دے کہ جسکی کسک لازوال ہو ‘‘۔
ایک زمانہ تھا جب غزل میں محبوب کے قامتِ زیبا کو چلمن کی تیلوں کی جھلمل چقوں سے تاڑ لیا جاتا تھا۔اب تو ’’ آتی کیا کھنڈالہ ‘‘ کہہ کر بھی شاعری میں محبوب کی کوئی جان لیوا ادائیں ریکارڈ پر نہیں آتیں۔
حضرتِ آدم کی گمشدہ اکہری پسلیوں سے سجی بزمِ خوباں میں اچانک ایک مقدس تیلی نظر آئی ۔ پوچھا تو وہ خاتون بنا تن و توش کے صدرِ خاندان تھیں۔ اتنی مقدس جیسے محرم کا تازیہ یا علم کو زر کی ساڑی پہنادی گئ ہو۔چلتی تو یوں لگتیں جیسے علم کی سواری جھوم رہی ہو۔محفل میں جس جانب رخ کرتیں جشنِ گریہ کا اہتمام کرنے کو جی کرتا۔بلکہ جو انھیں دیکھ لیتا اس کا احوالِ برزخ پر یقین ہوجاتا۔
دراصل یہ جثہ جو گوشت نچوڑ ‘ پوست بھنبھوڑ اور موٹاپا توڑ پیکروں سے ابھرتا ہے وہ اس آرزو کی پایمالی ہے جودبلی پتلی حسینۂ عالم بننے کی جستجو میں پورے بدن پر رنداچل پڑتا ہے۔ کبھی بھرے بھرے گال ‘ نمایاں خطوط خمدار کی نمایش باعثِ کشش تھی لیکن آج بدن کی گولایوں کی جگہ سپاٹ ‘چٹیل میدانوں نے لے لی ہے۔معیارِ حسن بدل گیا ہے۔جس طرح دولت چھپا کر زراندوزی’’کمال ‘‘ ٹہری ویسے ہی آج گوشت گلا کرسوکھی خوبروی ’’جمال ‘‘ ٹہری۔ ا’ردو کا محاورہ سچا ہوا ’’کانٹوں میں تل کر بکنا ‘‘یعنی مہنگے داموں بکنا۔ اب آپ ہی دیکھیے کانٹوں سا بدن اور قدر وقیمت زیادہ۔
پہلے شخصیت کو متوازن رکھا جاتا تھا۔اب Tooth pick کے کنارے سجاے ہیں۔ کیوں نہ کریں ۔۔کسی دعوتِ طعام کے بعد کسی مفت خور کو تیلی سے محروم کرکے دیکھیے ۔ اس کی سیاسی بصیرت سے آپ کی آنکھیں چودہ طبق روشن ہو جاینگی ۔ پہلے تو وہ منہ چڑایگا پھر منہ کی کابینہ میں دایئ بازو اور بایئ بازو کی انگلیوں سے گتھم گتھا کرکے منہ کھول کر راست نشریات کریگا بلکہ موضوع یا گوشت کے ریشوں کوBreaking news کی طرح اہمیت جتا جتا کر دکھایگا یا موسیقی کے سرگم کی طرح تھوکتا رہیگا۔
آج ’’تیلیاں ‘‘ غذائ صنعت میں معاون صنعت بنکرہمارے دستروں کے آفاق سے مشعل بردوش اُبھر رہی ہیں۔ جہاں وہ اپنے سروں پر کبھی زیتون ‘ سڈول بوٹیاں ‘خستہ کباب اورجانے کیا کچھ اٹھا ہماری نگاہِ غلط انداز کی منتظر ہیں۔ صف بستہ تیلیوں پرجانے کیوں ہمیں حفیظ میرٹھی کا شعر یا د آگیا ؂
بے قرینہ ہوکے پھیکا پڑگیا پھولوں کا رنگ
خار و خس ترتیب پا کر خوش نما سے ہوگیئ

Share

One thought on “فکاہیہ : سڈول تیلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ نعیم جاوید ۔ دمام”

Comments are closed.

Share
Share