تدریس میں آنکھ مچولی ۔ ۔ ۔ اسلم مصباحی

Share

Aslam اسلم

تدریس میں آنکھ مچولی

اسلم مصباحی
ریسرچ اسکالر جواہرلال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(نوٹ: مضمون نگارچاہتا تو اس مضون کو ایک دلچسپ انشائیہ یا طنزومزاح میں تبدیل کرسکتا تھا ۔اس امید پریہ مضمون شامل کیا جارہا ہے کہ مصنف کے اچھے مضامین ہمیں پڑھنے کو ملیں گے ۔شرط یہ ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ جاری رہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک سیمنار میں ایک مشہور پروفیسر صاحب کی تقریر سن کر مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی وہ اس مضمون کا محرک بنی جس نے مجھ سے ایک طالب علم کی پریشانیوں کو اگلوا لیا جو عام طور سے دبی کی دبی رہ جاتی ہیں، واقعہ یوں ہے کہ ایک جانے مانے پروفیسر‘ ریسرچ اسکالرزکے سمینار میں بڑے جذباتی انداز میں پورے جذبۂ استادگی کے ساتھ طلبہ کی کمزوریوں اور نسل نو کی حالت زار بیان کررہے تھے جس میں راقم بھی بحیثیت سامع موجود تھا ،بجاے اس کے کہ میں سمینار سے کچھ نیا جذبہ یا نئی معلومات لے کر آتا میں مزید اداس ہوکر واپس لوٹااور مجھے کئی دن تک یہی احساس ہوتا رہا کہ ابھی تو میں اس لائق بھی نہیں کہ ان حضرات کی مجلس میں شریک ہونے کی جسارت کر وں، کئی دن تک غور کرنے کے بعد مجھے لگا کہ اگر مجھے بھی موقع مل جاے تو میں بھی اتنی ہی مزیدار بیان بازی کرکے اساتذہ پر نشانہ سادھ سکتا ہوں ۔

اس میں شک نہیں کہ تدریس نہایت ہی عظیم منصب ہے جس میں احساس ذمہ داری ،پابندی وقت، سنجیدگی اور تربیت دینے کی مختلف مہارتوں کی وجہ سے ایک معلم کو ہر آدمی سے فوقیت دی جاتی رہی ہے لیکن جب تدریس میں معلم و متعلم ایک دوسرے سے شاکی نظر آئیں تو معاملے کی سنگینی ضرور کسی کمزور نبض کی جانب اشارہ کرتی ہے ،شکایت کا عمل دو طرف ہے اساتذہ طلبہ کی شکایت پر آمادہ ہیں تو وہیں طلبہ بھی اساتذہ کی من مانیوں کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں ۔پروفیسر موصوف نے مسلسل چالیس منٹ کی تقریر میں یہ ثابت کیا کہ موجودہ طلبہ میں بنیادی معلومات کا فقدان تشویش ناک ہے ، ماسٹر کرنے کے بعد بھی طلبہ بنیادی اصطلاحوں سے ناواقف رہتے ہیں ،استعارہ،مجاز ، کنایہ اور تشبیہ وغیرہ صنعتوں کی شناخت بھی نہیں کر پاتے ، اس کی بنیاد پر موصوف نے دعوی کیا کہ تعلیم کا معیار گر رہا ہے اولا تو ان کا دعوی ہی نرا نادر شاہی ہے اور اگر مان بھی لیں تو یہ متعین کرنا ہوگا کہ طلبہ کس لیول کے بعد کمزور ہو رہے ہیں ۔اردو شعبے میں خاص طور سے طلبہ کی تعداد بڑی ہے بھلے ہی ملازمت کا فقدان کیوں نہ ہو لیکن طلبہ میں اردو تعلیم کا رجحان بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ، ہر سال طلبہ کی بڑھتی تعداد میں ایک گروپ وہ ہے جو کسی دوسرے مضمون کو چھوڑ کر اردو میں آیا ہے ایسے میں اس کی بنیاد یقیناًکمزور ہوگی ، بہت سے بچے بارہویں سائنس سے کرنے کے بعد گریجویشن اردو سے کرنا پسند کرتے ہیں ایسے میں ان طلبہ کو تعلیم کی گراوٹ کا سبب قرار دے کر دھتکارنا اس جانب اشار ہ کرتا ہے کہ ہمارے نہایت قابل اساتذہ کے پاس روایتی نصاب یا روایتی طرز تدریس کے سوا کچھ نہیں ہے ، نہ ہی بنیادی تعلیم کا بندو بست کرنے کے لیے اضافی وقت ہے نہ اضافی حکمت عملیاں ہیں نہ ترمیم شدہ نصاب ہے، یعنی اساتذہ کی شہرت کے پٹارے میں تنقیدی تیروں کے سوا شاید کچھ نہیں ہے ۔سوال یہ ہے آخر اساتذہ اپنی روش سے ہٹ کر کیوں نہیں پڑھا سکتے ؟ اگر کوئی کمزور طالب علم ہے تو اس کے لیے اضافی وقت کیوں نہیں نکال پاتے ؟کمزور طلبہ کے لیے اضافی حکمت عملیاں کیوں نہیں ہے؟۔
بہت کم ایسی جگہ ہیں جہاں کی تدریسی صورت حال اطمنان بخش ہے بیشتر تعلیمی اداروں میں اساتذہ طلبہ دونوں غفلت کے شکار ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے ہیں ،اولا تو اچھے اساتذہ ہی کم یاب ہیں جو صحیح طرح سے تدریسی فرائض انجام دیں اور جو ہیں وہ محض تدریس پر اکتفا نہیں کرتے اس کی ذمہ داری بڑی حد تک حکومت کے سر ہے اور دانشوران کے بھی، ہر اچھے استاذ کو حکومت اور اس کے اداروں میں اضافی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں اس طرح سے حکومت یہ سوچتی ہے کہ ہم ادارے کو ایک مضبوط شخص سونپ رہے ہیں اور آں جناب کے لیے یہ اعزاز پھولوں کی سیج سے کم نہیں ہوتا ہے اسی پر اکتفا نہیں ابھی تو اداروں ،اکیڈمیوں اور سیمناروں میں بھی آں جناب کی شرکت کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے ، اسی لیے یہ سب بھی انہیں ہی کرنا پڑتا ہے ،دیکھا جاے تو یہیں سے مشکلیں پنپ رہی ہیں آخر ایک استاد کو پڑھانے کے لیے وقت کم پڑ جاتا ہے تو آں جناب کو تدریس کے علاوہ اکیڈمی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا وقت کہاں سے ملتا ہے ؟ اور تدریس کے لیے مطالعہ کب فرماتے ہیں ؟ ایسی مشکل گھڑی میں بچا کچا وقت بھی سیمنار پیپر کی تیاری میں خرچ ہو جاتا ہے ، آپ سمجھ سکتے ہیں ایسے تنگ وقت میں جب استاد درس گاہ میں جاتا ہے تو طلبہ کو درس دینے کے بجاے ہاں میں ہاں ملاکر وقت پورا کرتا ہے اور اگر تدریس غزل میں کسی نے بلا غت کا سوال کردیا تو جواب دینے کی جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ ’یہ گھنٹی غزل کی ہے بلاغت کی نہیں‘یہاں سے سمجھ میں آتا ہے کہ بعض طلبہ اگر سیکھنے کی کوشش کریں تب بھی انھیں کسی طرح لا جواب کر دیا جاتا ہے ایسے وقت میں جبکہ پڑھنے کامطلب سیکھنا اور سمجھنا ہے صرف ڈگری نہیں ہمارے اساتذہ کا طلبہ سے دوری بنانا چاہے وہ تہذیب کے نام پر ہو یا احترام کے نام پر کس قدر بے تکا لگتا ہے ، یہاں ایسے بھی اساتذہ ہیں جو سلام نہ کرنے کی وجہ سے کمرے سے باہر کر دیتے ہیں ،زیادہ سوال کرنے کے سبب ٹیسٹ میں نمبر کاٹ لینا عام بات ہے ،اور یہ مدرسے کا حال نہیں ہے جہاں مطبخ کی لکڑیاں نہ ڈھونے پر بد تمیز کا لیول لگا دیا جاتا ہے بلکہ یہ اعلی تعلیمی اداروں کا حال ہے ۔
جب طلبہ کسی نئے ادارے میں جاتے ہیں تو وہاں کے اساتذہ کا پہلا کارنامہ ان کو ذلیل کرنا،نیچا دکھانااور کم علم ثابت کرنا ہوتا ہے ، تم نے ابھی تک یہ بھی نہیں سیکھا، تو یہاں کیا کرنے چلے آئے،تمہیں تو معلوم ہونا چاہیے،ایم اے میں آگئے اتنا بھی شعور نہیں ہے؟ یہ تمام وہ جملے ہیں جن سے اساتذہ نو وارد طلبہ کا استقبال کرے ہیں ، چہ جائیکہ اصلاح کے لیے ان کی خامیوں کو نوٹس کرتے سب ان کو یہ جتا دیتے ہیں کہ تم کسی لائق نہیں ہو ،اساتذہ میں ایک بڑا فن لا جواب کرنے کا ہے ،انھیں لا جواب کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے جب کسی بچے نے املامیں غلطی کی یا پھر کوئی سوال کرلیا تو اس کی خیر نہیں ہے کسی بھی طریقے سے یہ ثابت کرہی دیتے ہیں کہ بیٹا تم پہلے سوال کرنے کی تمیز تو سیکھ لو ۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ معیار کہاں سے گر رہا ہے اور زیادہ ذمہ دار کون ہے ، اساتذہ جتنی محنت اپنی کتاب شائع کرانے اور پروجیکٹ پورا کرنے میں لگا تے ہیں اس سے کم توجہ سے ایک پوری نسل آبیار ہو سکتی ہے ، اکثر اساتذہ کچھ طلبہ کو قریب کر لیتے ہیں مگر ایسے خوش نصیب صرف وہی طلبہ ہیں جو پاس پڑوس کی خبریں آں جناب کو دیتے رہتے ہیں یا پھر ان کے مضامین وغیرہ ٹائپ کرتے رہتے ہیں یا کتاب کی پروف ریڈنگ کرتے رہتے ہیں وبس ، اور بدلے میں جب کہیں سمینار میں شعبے کے قابل طلب کو مدعو کیا جاتا ہے تو یہ چہیتے بھیج دیے جاتے ہیں ۔
میں خود جب ایم فل کے لیے ایک مرکزی یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ایک ماہ تک کوئی درس نہیں ہوا چھٹے ہفتے میں مشکل سے ہم نے استاد کو گھیرا تو انھوں نے جو پڑھایا وہ بتاتا ہوں ’’ریسرچ وغیرہ میں کلاس و لاس نہیں ہوتی ہے آپ کو خود مطالعہ کرنا ہوتا ہے اگر ہماری ضرورت پڑے تو بتا دینا‘‘ میں نے کہا سر حاضری؟ بولے وہ تو ہمارے ہاتھ میں ہے ، صحیح ہے ایک حاضری ہی کیا تمام نظام کا بنانا بگاڑنا سب انھیں منتخبات روزگار کے ہاتھ میں ہے ۔
یہ تو ان اداروں کا حال زار ہے جہاں حاضری کی پابندی ہے ذرا سوچیے ان اداروں کا حشر کیا ہوگا جہاں حاضری لازمی نہیں ہے خود میرے ایک دوست کے نگراں ہفتے میں دو مرتبہ تشریف لاتے ہیں وہ بھی صرف ۲ سے ۳ گھنٹوں کے لیے ،اس میں بھی اگر کسی دن ان کی اہلیہ کو مچھر نے کاٹ لیا تو اس کاہفتے بھر سونے کا انتظام ہو جاتا ہے ،ایسی خشک سالی میں کوئی کیا ادب کی تخلیق کی بات کرے گا ،کیا تبادلۂ خیال کرے گا ۔
اساتذہ کی ایک اور فن کاری یہ ہے کہ جب کسی طالب علم سے سوال کریں گے تو اپنے ہی معیار کا جواب سننے کی خواہش میں مگن رہتے ہیں ،اگر کوئی طالب علم جذبے میں کچھ تخلیق کرکے لایا ہے تو پہلے ہی جملے پہ بھنویں تان کر معارضہ قائم کرتے ہیں ،یہ بات تو ظاہر ہے کہ ایک طالب علم کی تخلیق ایک تجربہ کار استاد کے ہم پلہ کیسے ہو سکتی ہے ،یہ وہ کمی ہے جو تقریبا ہر معلم کے اندر ہے سواے چندے معدودے کے ، ایک تجربہ کار ماہر استاد کا یہ امید رکھنا کہ میرے سوال کا جواب بالکل میرے معیار کے مطابق ملے گا کس قدر لایعنی ہے۔
میں جتنی بہترین تقریر یں یا لکچر سمیناروں میں سنتا ہوں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ اساتذہ اتنی ہی تفصیل اور شوق سے درس گاہ کا حق بھی ادا کرتے ہیں ،شاید نہیں ، درسگاہ میں یہ پوچھنے کے بجاے کہ کس کو کیا پریشانی ہے ہر معلم اپنی تھوپتا ہے ظاہر ہے جب تک تدریس کے دوران پیش آ نے والی دقتوں کو جان نہ لیا جاے تب تک صحت مند تدریس ممکن ہی نہیں اور اس کے لیے طلبہ کو بے تکلف ہونے کا موقع دینا ہوگا تبھی ایک قابل استاد یہ اندازہ لگا پاے گا کہ تدریس کی کون سی مہارت کا استعمال کیا جاے اور سبق کے کون سے حصے پر زیادہ توجہ دینی ہے ۔
ممکن ہے میری باتیں زیادہ تلخ اور بے ڈھب ہوں یہ الزام تمام اساتذہ پر نہیں ہے ،محنتی اور فرض شناس اساتذہ اس سے مستثنی ہیں مگر طلبہ استاد میں زیادہ ذمہ داری استاد ہی کی ہے اس لیے بجاے شکایت کرنے کے ان کی اصلاح و تربیت پر توجہ دینا خوش آئند ہوگا،میری راے یہی ہے کہ قابل اساتذہ کو صرف تدریسی خدمات سونپی جائیں اور اس پر ان کی بہترین حوصلہ افزائی بھی ہو ساتھ ہی غافل اساتذہ کو اس سے دور رکھا جاے اور یہ تبھی ممکن ہے جب اساتذہ غیر جانبدار ہوکر سوچیں۔
دل کے نقوش ہیں انھیں رکھنا سنبھال کر
کاغذ پے رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کر

Share
Share
Share