پروین شاکر سے ایک مصا حبہ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرقطب سرشار

Share

Parveen Shakir

پروین شاکرسے ایک مصا حبہ
(24 نومبر 1954ء – 26 دسمبر 1994ء )

ڈاکٹرقطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012

اردو شاعری میں تانیثیت Feminism کا رجحان نیا نہیں ہے۔ بین الاقوامی شہرت کی حامل شاعرہ پروین شاکر نے نسائی احساسات ونظریات کواپنی مخصوص لفظیات کے تناظر میں جس خوبصورتی اور کمال ہنر سے پیش کیا ہے کہ دیگر فیمی نسٹ شاعرات کو نصیب نہیں۔ فیمی نسٹ نظریات کے تناظر میں مردوں کی بالادستی سے انحراف، بت شکنی، روایتوں سے بغاوت ، جھلاہٹ، نفرت اور مرد کے خلاف اعلان جنگ جیسے شدید رویوں کے برعکس پروین شاکر نے نسائی احساسات وادراک کی ترجمانی کے ساتھ احترام نسواں کے تصورکو لطیف پیرائیے میں، شاعرانہ نزاکت اور تہذیب کے ساتھ پیش کر کے تانیثیت نگاری کے نئے اسلوب کی ترجمانی کی بناء رکھی ہے۔ پروین شاکر کا فیمی نزم چاندنی کی طرح نرم جنون کی طرح طاقتور پھولوں کی طرح خوبصورت ، شبنم کی طرح درخشاں اور فرحت بخش ہے جو مرد کے دل میں عورت کے لئے جذبہ محبت اور دماغ کو احترام نسوان کی تربیت دیتا ہے۔ آشوب آگہی کے زہر نے پروین شاکر کی شاعرانہ مٹی میں جذب ہو کر غم وغصے نفرت واحتجاج کے اظہار کی بجائے پھول کھلائے خوشبوئیں بکھیریں اور لذت غم سے آشنا کردیا۔ یہاں ہم نے پروین شاکر کی شاعری اور نثر سے چند جوابات اخذ کئے ہیں اور انہیں ایک گفتگو کا روپ دیا ہے۔ تا کہ شاعرہ کے شعری رویے اور نظریات کی ترجمانی دلچسپ پرائے میں ہو ۔ ( ق۔ س )

قطب سرشار : آپ کی شعر گوئی کا پس منظر کیا ہے۔
پروین شاکر : گریز پا لمحوں کی ٹوٹتی ہوئی دہلیزپر ہوا کے بازو تھامے ایک لڑکی کھڑی ہے اور سوچ رہی ہے کہ اس سمئے آپ سے کیا کہے برس بیتے رات کے سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کردے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سن کر اس کا خدا یہ دعا سن کر ایک بار تو ضرور مسکرایا ہوگا۔ کچھ کچی عمر کی لڑکیاں نہیں جانتیں، آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا ۔
قطب سرشار: پھر کیا ہوا ؟
پروین شاکر : وہ ( خدا) اس کی بات مان گیااور اسے چاند کی نمناکی عمر میں ذات کے شہر ہزار درد کا اسم عطا کیا گیا۔
قطب سرشار : کیا ہمارے سماج میں عورت کو چین وسکون نصیب ہی نہیں ہے کوئی اس کے اندر جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔
پروین شاکر : بات یہ نہیں ۔۔۔ کہ فیصل شہر جان کی زرد بیلوں پر کسی کا جمال صورت سحاب نہیں اترایااس شہر کی گلیو ں میں زندگی میں نے خوشبو کھیلی ہی نہیں۔ یہاں تو ایسے بھی موسم آئے جب بہار نے آنکھوں پر پھول باندھ دےئے۔ حصار رنگ سے رہائی دشوار ہوگئی۔
قطب سرشار : مگر ۔۔۔
پروین شاکر : (کہنے دیجئے ) مگر جب ہوا کے دل میں برہنہ شاخیں گڑجائیں تو بہار کے ہاتھوں سے سارے پھول گر جاتے ہیں۔
قطب سرشار : پھر کیا ہوا ؟
پروین شاکر : انہیں پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی یہ لڑکی اس سنسان گلی تک آپہنچی کہ مڑکر دیکھتی ہے تو دور دور تک کرچیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس نے اپنے عکس کو جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ پر اس کھیل میں کبھی تصویر دھندلا گئی کبھی انگلیاں لہولہان ہوگئیں۔
قطب سرشار : گویا وجود کی شکست وریخت کے کرب کو آپ نے شاعری کی زبان دے دی۔
پروین شاکر : وجود کو جب محبت کا وجدان ملا تو شاعری نے جنم لیا۔اس (شاعری) کا آہنگ وہی ہے جو موسیقی کا ہے جب تک سارے سُرسچے نہ لگیں تو گلے میں نور نہیں آتا ۔ دل کے سب زخم لو نہ دیں تو حروف میں روشنی نہیں آتی۔ وجود کے سر تیز بھی ہوتے ہیں اور کومل بھی۔ تیز سر عذاب لاتے ہیں اورکومل خواب۔ کبھی چیخ کبھی کراہ کبھی سسکی اور کبھی گفتگو اور کبھی خود کلامی۔
قطب سرشار : جہاں آپ کی شاعری کے بے شمار مداح ہیں وہاں بعض لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا کہ پروین شاکر کی شاعری بیڈ روم کی شاعری ہے۔
پروین شاکر : (ہاں) کچھ کم گوش یہ کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی شاعری میں سوائے بارش کی ہنسی، پھولوں کی مسکراہٹ ، چڑیوں کے گیت اور اس کی اپنی سرگوشیوں کے کچھ نہیں ۔اگر زندگی سے محبت کرنا جرم ہے تو یہ لڑکی پورے غرور کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہے۔
قطب سرشار : اس سناٹے سے معمور ہو کر یہ المنظرزندگی سے آپ کو نفرت نہیں ہوئی۔
پروین شاکر : سناٹے سے وحشت تو ہوسکتی ہے نفرت نہیں۔ ہاں ضرور کہیں زمین بدصورت بھی ہوگی مگر پروین نے کبھی ایسا نہیں سوچا۔ ماں سے محبت کرتے ہوئے اس کا چہرہ نہیں دیکھاجاتا۔ محبت جب تقاضائے جسم وجاں سے ماورا ہوجائے تو الہام بن جاتی ہے۔
قطب سرشار : آپ کے نزدیک آزادی نسواں کا تصور کیا ہے۔
پروین شاکر :
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
قطب سرشار : مرد کی بے وفائی کے تئیں آپ کا رویہ کیا ہے۔
پروین شاکر :
اس سے اک بارتو روٹھوں میں اسی کی خاطر
اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
قطب سرشار: فیمی نسٹ نظریات کی حامل عورتیں ستم پیشہ مردوں سے بغاوت کو ضرور سمجھتی ہیں۔ کیا یہ مسئلہ کا حل ہے۔
پروین شاکر :
میں آندھیوں کی مزاج آشنا رہی ہوں مگر
خود اپنے ہاتھ سے کیوں گھر کو منہدم کر لوں
بچاؤ شیشوں کے گھر کا تلاش کر ہی لیا
یہی کہ سنگ بدستوں کو منصرم کرلوں
بچھڑنے والوں کے حق میں کوئی دعا کر کے
شکست خواب کی ساعت کو محتشم کرلوں
قطب سرشار : بیش ترخوشحال گھرانوں میں جہاں زندگی کے تمام تر وسائل ہوتے ہیں پھر بھی بعض عورتیں کھوئی کھوئی سی لگتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔
پروین شاکر : ۔۔۔۔۔۔
میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گھونگھٹ اٹھا کے یہ کہہ دے
میرا سب کچھ ہے تیرا، دل کے سوا !!
قطب سرشار : عورت معاشی طور پر خود مکتفی ہو کر بھی مرد کے بغیر اک آئینہ شکستہ ہے کیا وہ اپنے عکس کو جوڑسکتی ہے۔
پروین شاکر : سب کہتے ہیں کیسے غرور کی بات ہوئی ہے میں اپنی ہریالی کو خود اپنے لہو سے سینچ رہی ہوں میرے سارے پتوں کی شادابی میری اپنی نیک کمائی ہے۔ میرے ایک شگوفے پر بھی کسی ہوا کسی بارش کا بال برابر قرض نہیں ہے۔ میں جب چاہوں کھل سکتی ہوں۔ سر اونچا کر کے مل سکتیہوں ایک تناور پیڑ ہوں اب میں۔ اور اپنی زر خیز ی کے سارے امکانات کو پہچان رہی ہوں۔ لیکن میرے اندر یہ جو بہت پرانی بیل ہے کبھی کبھی جب تیز ہوا ہو تو کسی بہت مضبوط شجر کے تن سے لپٹنا چاہتی ہے۔
قطب سرشار : شکریہ آخر میں قارئین منصف کے لئے کوئی پیاری سی نظم عنایت ہو۔
پروین شاکر : ابر بہار نے
پھول کا چہرہ اپنے بنفشی ہاتھ میں لے کر
ایسے چوما کہ پھول کے سارے دکھ
خوشبو بن کر بہہ نکلے ۔ !! (نظم : پیار )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Dr.Qutub Sarshar
Mahboob Nagar Telengana – India
ڈاکٹرقطب سرشار

Share
Share
Share