’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘کی تقریب رسمِ اجراء

Share

dhoolak geet

ثمینہ بیگم کی کتاب
’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘ کی تقریب رسمِ اجراء

ثمینہ بیگم کی کتاب’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘کی تقریب رسمِ اجراء کل /26جنوری محبوب حسین جگر ہال‘ روزنامہ سیاست عابڈس حیدرآباد میں منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر/سکریٹری اردوا کیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ نے کی اور کتاب کی رسمِ اجراء انجام دی۔ اپنی تقریر میں انھوں نے ثمینہ بیگم کی محنت اور کاوش کو سراہا اور کہا کہ یہ کتاب ڈھولک کے گیتوں کی اہمیت قائم کرنے میں نہایت کامیاب ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی تحقیقی کام ہونا چاہئے کیونکہ ہم ترقی کے دور میں بے حد آگے بڑھنے کے باوجود کبھی کبھی لوٹ کر پیچھے کی طرف مڑ کر ماضی کی روایتوں کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

دکن میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت نہایت قدیم ہے یہاں کے سماج میں مختلف تقاریب مثلاً بچے کی ولادت، شادی بیاہ ، سالگرہ وغیرہ کے موقعوں پر ڈھولک کے گیت گائے جاتے تھے لیکن شہری زندگی کے پھیلاؤ اور مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے ہمارے سماج بالخصوص شہری زندگی میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں اُن کی وجہ سے ہم اپنی کئی تہذیبی روایت سے کٹ گئے ہیں اُن میں سے ایک ڈھولک کے گیت بھی ہے۔ پرانے زمانے میں گھروں کے اندر بڑے بڑے دلان ہوا کرتے تھے جہاں پر عورتیں جمع ہوکر ڈھولک کے گیت گایا کرتی تھیں۔ موجودہ دور کے فلاٹس میں لوگوں کے جمع ہونے اور اس طرح کی تہذیبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا تصور بھی پیدا نہیں ہوتالیکن ڈھولک کے گیتوں کی تہذیبی اور سماجی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر/سکریٹری اردوا کیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ نے ثمینہ بیگم کی کتاب ’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘ًؔ کی رسم اجراء کے موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں کیا۔
تقریب رسمِ اجراء کے بہ حیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے ممتاز ماہر دکنیات پروفیسر نسیم الدین فریس نے کہا کہ لوک ادب یا لوک گیت کسی بھی سماجی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں لوک گیت ملتے ہیں اور ہربڑی زبان میں ادب کی تخلیق کا آغاز ہی لوک گیتوں سے ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں لوک گیتوں کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے اور مختلف قوموں ، علاقوں حتیٰ کہ جنگلی قبائل کے لوک گیتوں پر بھی تحقیقی کام ہورہے ہیں ۔ ہندی زبان کے بعض محققوں نے شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں گھوم کر علاقائی بولیوں کے لوک گیتوں کو اکٹھا کرکے انھیں ہندی گیت قرار دیا۔ اُردو میں صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ معیاری ادبی اصناف کے فروغ کے بعد اُردو والوں نے اپنے لوک گیتوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جب کے اُردو میں لوک گیتوں کا رواج عہد قدیم سے چلا آرہا ہے حضرت امیر خسرو سے منسوب بعض گیت اس بات کی دلیل ہیں کہ اُردو شاعری اور لوک گیتوں کی ابتداء ساتھ ساتھ ہوئی ہے۔ دکن میں حضرت خواجہ بندہ نواز اور آپ کے سلسلے کے صوفی بزرگوں نے لوک گیتوں کی ہیئت میں چکی نامہ، چرخہ نامہ وغیرہ جیسے صوفیانہ گیت لکھے۔ دکنی گیتوں پر ڈاکٹرزینت ساجدہ کا مضمون اولیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد بیگم بسم اللہ نیازی اور قیصر جہاں نے اُردو لوک گیتوں پر تحقیقی کام کیا۔ جناب اطہر علی نے اترپردیش کے لوک گیت جمع کیے پھر اس موضوع پر پروفیسر قمر رئیس اور عبداللہ امتیاز کی کتابیں شائع ہوئیں۔
حیدرآباد میں آل انڈیا ریڈیو کے خواتین کے پروگرام میں ڈھولک کے گیت نشر کیے جاتے تھے۔ سرور ڈنڈا میموریل سوسائٹی نے بھی ڈھولک کے گیتوں کا ایک مجموعہ شائع کیا اور ان گیتوں کے مقابلے منعقد کیے۔ اس طرح آہستہ آہستہ گیتوں کی اہمیت کا احساس فروغ پاتاگیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ڈھولک کے گیتوں پر ڈاکٹر حامد اشرف کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ ثمینہ بیگم کی کتاب اس سلسلے کی تازہ کڑی ہے جس میں انھوں نے اُردو گیتوں کی روایت اور ان کی اہمیت و افادیت کا بھر پور جائزہ لیتے ہوئے دکن میں رائج ڈھولک کے گیتوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان گیتوں کی تفہیم و تحسین کے نئے زاویے تلاش کیے ہیں۔
اس موقع پرمقبول انشائنہ نگارمحترمہ نسیمہ ترا ب الحسن نے ثمینہ بیگم کا تعارف پیش کیا اور ان کی کتاب کی خوبیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ کتاب ڈھولک کے گیتوں کے موضوع پر دستایزی اہمیت کی حامل ہے۔
ڈ اکٹر آمنہ تحسین اسوسی ایٹ پروفیسرو ڈائریکٹر مرکز برائے مطالعاتِ نسواں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے بہ حیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ ڈھولک کے گیت لوک ادب کا ایک اہم سرمایہ ہے۔ خواتین کا یہ لسانی، ادبی اور تہذیبی سرمایہ کافی قدیم ہے اور اہم بھی۔ اس لیے کہ اُردو ادب کی شروعات میں صوفیائے کرام نے اپنی تعلیمات کو عام کرنے میں خواتین کے طرزِاظہار کو اپنایا تھا۔ ڈھولک کے گیت دراصل چکی نامے، لوری نامہ، اوکھلی موسل کے گیتوں کا ہی تسلسل ہے۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین نے کہا کہ ہم خواتین کو اپنی لسانی ، ادبی اور تہذیبی حصّہ داریوں پر فخر کرنا چاہئے ۔ انھوں نے ثمینہ بیگم کو خواتین کے زبانی ادب اور تاریخ و تہذیب کو ڈھونڈ نکالنے اور تحریر کرنے پر مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ دکن کا یہ سرمایہ ثمینہ کے ہاتھوں مستقبل میں بھی مرتب ہوگااور پامال ہونے سے بچ جائے گا۔
ڈاکٹر بی بی رضا خاتون اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے ثمینہ بیگم کی کتاب پر تبصرہ کیا جسے ڈاکٹر بدر سلطانہ نے پیش کیا انھوں نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ڈھولک کے گیت جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیں موجودہ دور میں متعدد تفریحی ذرائع کی موجودگی اور مغربی تہذیب کے بڑھتے تسلط کے پیش نظر مستقبل میں ان گیتوں کے وجود وبقا سے متعلق خطرات و خدشات پیدا کردیئے ہیں۔ ثمینہ بیگم نے زیرِ نظر کتاب میں بڑی محنت و جستجو اور عرق ریزی سے جمع کرکے صفحہ قرطاس پر محفوظ کردیئے ہیں۔ انھوں نے شہر حیدرآباد کے علاوہ مختلف شہروں، قریوں، دیہی علاقوں میں گھوم گھوم کر بڑی جانفشانی دیدہ ریزی اور کوشش و کاوش سے بہت سارے ڈھولک کے گیت اکٹھا کیے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت اس کتاب میں چند ہی گیت شامل کیے ہیں۔ امید کہ باقی گیتوں کے سرمایے کو بھی وہ کتابی شکل میں جلد ہی پیش کریں گی۔
ابتداء میں حیدرآباد کی ممتاز شاعرہ محترمہ تسنیم جوہر نے کتاب کی مصنفہ ثمینہ بیگم کا خاکہ پیش کیا اور بتایا کہ مصنفہ نے نہایت نامساعد اور ناموافق حالات میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور حصولِ علم کے لیے بڑی محنت شاقہ کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے تعلیم سے مصنفہ کی دلچسپی کو خراج توصیف پیش کیا۔
محترمہ تسنیم جوہر نے جلسے کی کاروائی بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی انھوں نے مہمانوں کا نہایت شگفتہ انداز میں تعارف کروایا۔
آخر میں مصنفہ ثمینہ بیگم نے اپنے تمام اساتذہ سرپرستوں، بہی خواہوں اور جلسے کے شرکاء اور معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس جلسے میں حیدرآباد کی جامعات کے اساتذہ طلباء ، ریسرچ اسالر کے علاوہ باذوق خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Share
Share
Share