ادب تہذیبی اورثقافتی اثاثے کومنتقل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ۔ ۔ ۔رپورتاژ

Share
عبدالماجد
عبدالماجدسلفیؔ

ادب تہذیبی اورثقافتی اثاثے کومنتقل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ
ریاستِ تلنگانہ کے جونیرکالجس کے اردواساتذہ کا سہ روزہ اورینٹیشن پروگرام

رپورتاژ:عبدالماجد سلفیؔ
لکچرر، ایم اے ایم گورنمنٹ ماڈل جونیر کالج گرلس، نامپلی حیدرآباد۔دکن
موبائل : 09885173874
– – – –
ریاستِ تلنگانہ کے ڈپارٹمنٹ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کی جانب سے ریاست کے سرکاری اردو جونیر لکچررس کا ایک سہ روزہ اورینٹیشن پروگرام 19؍جنوری تا 21؍جنوری پروفیسر جیاشنکر انسٹیٹوٹ آف تلنگانہ انٹرمیڈیٹ اسٹاف ٹرینگ اکیڈمی ہال نامپلی میں منعقد ہوا۔ اس سہ روزہ پروگرام میں ریاست تلنگانہ کے تمام سرکاری کالجوں کے اردو لیکچررز نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی راست نگرانی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے اسپیشل افسیر محترمہ عابدہ فرزانہ نے کی۔ ابتداء میں انھوں نے تمام شرکاء کا خیر مقدم کیا نیز اورینٹیشن پروگرام کے اغراض ومقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

پروگرام کے پہلے دن کے پہلے سیشن ڈاکٹر جناردھن ریڈی پروفیسر ڈاکٹر بی۔ ار۔ امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کو افتتاحی لکچرکے لیے مدعوکیاگیا۔انھوں نے طریقہ تدریس کے نکات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے سطح کے طلبہ لڑکے اور لڑکیوں کی فطرت پر تبصرہ کیااور کہا کہ اکثر اس عمر میں ماں باپ اور بچوں کی سوچ وفکر میں بہت بڑا تضاد ہوتا ہے اور یہی تضاد ماں باپ اور اولاد کے درمیان کشیدگی کا باعث ہوتا ہے ماں باپ کہتے ہیں کہ تم کچھ نہیں جانتے جبکہ بچے کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ۔اس کو انھوں نے خاندان کی برتری اور شخصیت کی لڑائی سے تعبیر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کشیدہ ماحول میں بچے کالج آتے ہیں اس موقع پر وہ اپنے خیالات اپنے دوستوں کے ساتھ شیر (Share) کرتے ہیں۔ لکچر پر دھیان نہیں دیتے۔ ایسے موقع پر ایک استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح کونسلنگ کرے اور انھیں پڑھائی کی طرف متوجہ کرے کیونکہ وہ ان حالات میں اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنے استاد کی سنتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لڑکیاں فطری طور پر لڑکوں سے زیادہ باتونی ہوتی ہیں وہ اس لیے کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں پر پابندیاں اور بندشیں ہوتی ہیں اس لیے وہ جب باہر یا کالج کے لیے نکلتی ہیں تو اسی کو موقع جان کر زیادہ باتیں کرنا شروع کردیتی ہیں۔ انہوں نے ایسے لڑکیوں کو پڑھانے کے مختلف طریقے بتائے۔
اس کے بعد دوسرے سیشن میں ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم اورینٹل اردو پی جی کالج حمایت نگر حیدرآباد کو مدعو کیا گیا۔ انھیں افسانہ، ڈرامہ اور مضمون نگاری جیسے موضوعات دیے گئے۔ ان موضوعات پر لکچردیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ادب کو تہذیبی وثقافتی اثاثے کو منتقل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انھوں نے نثری ادب کے موضوعات کہانی، افسانہ، انشائیہ اور ڈرامہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے کہا کہ کہانی، افسانہ انتہائی قدیم صنف ہے کہانی میں واقعہ ہونا ضروری ہے جب کہ افسانے کے لیے ضروری نہیں ہے، انھوں نے اس حوالے سے داستان اور ناول پر تفصیلی گفتگو کی۔ ۔ ڈرامے کے تعلق سے بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ڈرامہ انسان کا پیدائشی حق ہے۔ انسان زندگی کے ہر موڑ پر ڈرامے کرتا ہے۔ زندگی ڈرامے کے بغیر زندگی ممکن نہیں ‘ زندگی کے اس ڈرامے میں چہرہ اور لہجہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انشائیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انشائیہ ذہین کی ایک آزاد ترنگ کا نام ہے جب کہ مضمون دلیل چاہتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کے لیکچر میں اساتذہ بے باکی سے سوالات کیے اور مباحثہ میں حصہ لیا۔
دو پہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دو سیشن کے لیے ڈاکٹر مجید بیدار (عثمانیہ یونیورسٹی) کو مدعو کیا گیا۔ انھیں خاکہ نگاری اور اردو قواعد کا طریقہ تدریس موضوع دیا گیاتھا۔ انھوں نے اپنے لکچر میں کہا کہ خاکہ ایک غیر افسانوی ادب ہے۔ خاکہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس پر خاکے لکھے اس کے تعلق سے مکمل معلومات حاصل کرے۔ انھوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تصنیف ’’چندہم عصر‘‘ کو اردو کی پہلی خاکہ نگاری کی کتاب کہا جب کہ محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ کو تذکرے اور خاکے کی درمیانی کڑی کہا انھوں نے مزید کہا کہ خواجہ حسن نظامی کا خاکہ انسان کی شخصیت اور فطرت کے پرتوں کو باہر نکالتا ہے۔
دوسرے دن کے پہلے دو سیشن میں پروفیسر فاطمہ پروین عثمانیہ یونیورسٹی کیلیے مختص تھے۔ ان کو غزل میں تشبیہات، استعارات اور جدید غزل جیسے موضوعات دیے گئے۔ سب سے پہلے انھوں نے غزل کے تعلق سے کہا کہ صرف عورتوں سے بات کرنا یا اس کی تعریف کرنا غزل نہیں بلکہ درد کی تپش، ندرت اور کرب کی آواز کا نام غزل ہے۔ انھوں نے کہا کہ امیر خسرو کی غزلوں میں فارسی کے علاوہ اردو زبان کی ابتدائی شکل کے نمونے ملتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ غزل میں تشبیہات کا استعمال کرنا بھی ایک فن ہے۔۔۔۔۔۔ انھوں نے اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں شامل تشبیہات اور استعارات جیسے نرگسی آنکھ، ہرنی کی آنکھ سنبل وسلاسل اور گل لالہ پر تفصیلی بحث کی۔ اس موقع پر انھوں نے مغنی تبسم اور ناصر کاظمی کے ایک ایک غزل کی تشریح بھی کی۔
دوسرے دن کے لنچ کے وقفہ کے بعد کے دو سرے سیشن میں ڈاکٹر اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گورنمنٹ گری راج کالج نظام نے اردو زبان کے معیارکی حفاظت اور اردو کو جدید سائنس وٹکنالوجی سے کیسے جوڑا جائے؟ جیسے موضوعاتپر لیکچردیے۔ انھوں نے زبان کی تعریف اور اس کی تہذیبی وثقافتی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے اپنے لکچر میں کہا کہ ہندوستان میں زبانوں کا مطالعہ آریائی دور سے ہوا۔ انھوں نے اردو کو جدید سائنس وٹکنالوجی سے جوڑنے کے لیے خود کو عملی اقدامات کرنے کے لیے کہا۔ خود انھوں نے لیاب ٹاپ کے ذریعے اپنے کارنامے، کانفرنس جیسے لندن سے ڈاکٹر تقی عابدی کا آن لائن خطاب اور دوسرے کارنامے دکھائے اور اس موقع پر اردو کے مختلف ویب سائٹس کا بھی ذکر کیا۔
تیسرے دن کے پہلے دو سیشن کے لیے پروفیسر نسیم الدین فریس (مانو) کو لکچر کے لیے مدعوکیا گیا۔ ا ن کے موضوعات نظم اور غزل تھے۔ اس موضوع پرلیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ادب میں تخلیق کاآغاز شاعری سے ہوا اور اردو میں شاعری کا آغاز نظموں سے ہوا۔ ۔ انھوں نے مزید کہا کہ نظم کی ابتدائی شکل صوفیوں کے گیتوں سے ملتی ہے۔ اور محمد قلی قطب شاہ نے نظموں کو جلا بخشی۔ اس کے ایک طویل وقفہ کے بعد نظیراکبر آبادی نے عوامی شاعر کی حیثیت سے متوسط طبقے کے سماج کی ترجمانی کی پھر 1874ء میں انجمن پنجاب کی جانب سے محمد حسین آزاد نے مناظمے شروع کیے جہاں نظمیں سنائی جاتی تھیں یہیں سے نظموں کو فروغ حاصل ہوا۔ اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ اس کے برابر سر سید تحریک یا علی گڑھ تحریک کے تحت نظم گوئی تحریکگویا شروع ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے غزل کے تعلق سے کہا کہ شاعری مسرت سے بصیرت تک کا سفر ہے مزید یہ کہ اگر شعر اچھا ہو لیکن معنی ندارد ہو تو شعر سے لطف اندوز ہونا مشکل ہے۔
دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد پہلے سیشن میں ڈاکٹر جاوید کمال موظف لکچرر گورنمنٹ ڈگری کالج حسینی علم تشریف لائے۔ انھیں سرسری مطالعہ میں شامل ’’آپ بیتی‘‘ موضوع دیا گیا۔ انھوں نے آپ بیتی میں شامل موضوعات’ آشفتہ بیانی میری‘ مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور ’پرواز‘ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اس کے نکات پر بحث کی۔ آخری سیشن کے لیے ایک بار پھر ڈاکٹر فضل اللہ مکرم پروفیسر اورینٹل اردو کالج حمایت نگر کو بلایا گیا۔ انھوں نے اردو لکچررس کے طریقہ تدریس میں مسائل کا حل کے عنوان کے تحت لکچر دیا۔ اور کہا کہ ایک لکچر ر کا کام ہے کہ وہ مسائل کو چیلنج میں تبدیل کرے۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض لکچررس میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ پڑھانے کے دوران گائیڈس استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک لکچرر پہلے اپنی زبان پر عبور حاصل کرے اور پھر طالب علم کی زبان درست کرے کیونکہ زبان ہی تخلیقی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ اس کے لیے استاد تختہ سیاہ کے ذریعہ طلبہ سے املا کی پہچان کرائے۔ اورینٹیشن کے درمیان ڈاکٹر عبدالقدوس لکچرر گورنمنٹ جونیر کالج چنچل گوڑہ ہر ایک کا تعارف کراتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چٹکلے چھوڑتے ہوئے محفل کو زعفرانبنادیا۔ تین دن کا یہ اورینٹیشن کے دوران موسم بھی تبدیل تھا کیونکہ سردی کے ساتھ بادل اور بارش کی ہلکی اور دھیمی پھوار نے ماحول کو اور خوشگوار بنادیا تھاآخر میں پروگرام کوارڈنیٹر، ڈپٹی ڈائرکٹر کے علاوہ اردو اسپیشل افسر محترمہ عابدہ فرزانہ کی گل پوشی اور شال پوشی کی گئی۔ اور محترمہ کاظم سلطانہ لکچرر ایم۔ اے ۔ایم کالج نامپلی کے قومی ترانہ کے بعد اورینٹیشن مغرب کے وقت اختتام کو پہنچا۔

Share
Share
Share