آصف جاہی سلاطین کی رواداری ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحمد موسیٰ اقبال

Share

moosa iqbal رواداری

آصف جاہی سلاطین کی رواداری

ڈاکٹرمحمد موسیٰ اقبال
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو
تلنگانہ یونیورسٹی – نظام آباد
موبائل : 09948493729

انسان کوقدرت کی طرف سے بہت سی قوتیں عطا ہوئی ہیں۔ جن میں ذ ہنی اور اخلاقی قوتیں امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن کو سلیقہ کے ساتھ ترتیب دیا جائے توتہذیب کا روپ دھارلیتی ہیں۔تہذیب ہر قوم میں پائی جاتی ہے۔ جو افراد کی جدوجہد‘ ذوقِ لطیف‘ فکر بلند اور فطری صلاحیتوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔حیدرآباد ایک تہذیبی شہر ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے لوگ رہتے ہیں۔اس شہر میں ہندو بھی ہیں مسلم بھی ہیں۔ سکھ‘ عیسائی اور پارسی بھی گویا یہاں کی تہذیب گنگا جمنی تہذیب ایک پاکیزہ تہذیب ہے۔

جو اپنے پاکیزہ ماحول میں پروان چڑھی۔پسندیدہ اخلاق وآداب نے جس کو سنوارا حیدرآباد کے لوگوں کی گفتگو کاایک خاص انداز ہوتا ہے جو بے تکلف ہی نہیں بلکہ دل نشین بھی ہے۔ان کابرتاؤ دکھاوے سے دورہوتا ہے ۔اپنے میں سادہ ادائیں رکھتا ہے جس میں خلوص انگڑائیاں لیتا ہے ۔شاید خلوص انھیں محمدقلی قطب شاہ سے ورثے میں ملا ہو۔ دکن کے اس خطّے کے تمدن کی ایک تاریخ ہے ۔یہاں کی قومی یکجہتی بے مثال ہے۔ ملی جلی تہذیب جواس شہر میں صدیوں سے چلی آرہی ہے قطب شاہوں نے اس کو مستحکم کرنے میں نمایاں کا م کئے ہیں۔ جسے آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کرسکیں گی۔ اس تہذیب کی تکمیل میں آصف جاہوں کا بھی بڑا حصہ رہا ہے۔
دکن کی تاریخ میں 1136ھ ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ جب کہ حضرت آصف جاہ اوّل نے سلطنت آصفی کی بنیاد قائم کی۔ آصف جاہ اوّل جب دہلی سے دکن کی جانب روانہ ہوئے تو آپ کے ہمراہ نہ صرف ایک بڑی فوج تھی بلکہ منتخب ذی وجاہت امراء جری اور دل آور جنرلوں کے علاوہ علماء فضلاء بھی ہم رکاب تھے۔ اگرچہ کہ جنگ ’’شکرکہرہ‘‘ کی فتح کے بعد دکن میں آصف جاہ کا کوئی مدِّمقابل نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنوب اور مغرب کی سرحدوں کو مستحکم کرنے اور ملک کے اندرونی فتنہ وفساد کو فرو کرنے کی غرض سے متعدد مرتبہ آصف جاہ کو صف آرائی اور لشکر کشی کی ضرورت پیش آئی۔اس بناء پر ایک کارآز مودہ لشکر ہمیشہ آپ کے زیر حکم رہا۔ آصف جاہ اوّل نہ صرف اپنے دہلی کے ہمراہیوں کی ہمت افزائی فرمائی اور نواز شاتِ خسروانہ سے اُن کو خوش رکھا۔ بلکہ دکن کے قدیم امراء اور ذی اثر اصحاب کی بہت کچھ قدر افزائی فرمائی۔
نواب قمر الدین علی خاں آصف جاہ اوّل نے (35) سال تک نہایت کامیابی اور فتح مندی کے ساتھ دکن پر حکومت کی۔ آپ نہ صرف اپنے قلمرو کو وسیع سے وسیع تر کردیا بلکہ انتظام مملکت اس حُسن وخوبی سے کیاکہ یہ ہمیشہ تاریخ دکن میں یادگار رہے گا۔ آپ کے سوانح حیات کے پڑھنے والے پر یہ ثابت ہے کہ جہاں آپ میدان سیاست میں بیدار مغز صاحبِ فراست اور مدّبر بھی تھے۔ اگر ایک طرف آپ ایک بلندپایہ ادیب اور سخن سنج ونکتہ داں شاعر تھے تو دوسری طرف صوفی ‘تصوف پسند و حقیقت شناس بھی تھے۔ اگر آپ کو زہد وتقویٰ کے لحاظ سے صاحبِ باطن کہا جاسکتا ہے تو اس طرح آپ اولدالعزم حکمراں کی حیثیت سے ہندوستان کے اعلیٰ فرمان رواؤں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ غرض آپ جملہ صفاتِ حسنیٰ سے موصوف اور مجمع کمالات و مرجع خلائق تھے۔
افضل الدولہ اور ناصر الدولہ بڑے غربا ء پرور تھے ۔ہمیشہ حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ افضل الدولہ اتنے غرباء پرور تھے کہ جب بھی ضرورت مند کو دیتے تو ایک لاکھ سے کم روپیہ سرفراز نہیں فرماتے۔محل کے مصاحب اور خدّام یہ سونچتے تھے کہ بادشاہ کو یاتو پیسے کی قدر نہیں یا پھر انھیں اس بات کااندازہ نہیں ہے کہ ایک لاکھ روپیہ کتنا ہوتا ہے ؟اتفاتاََ آصف جاہ خامس نے ایک حاجت مند کو ایک لاکھ روپیہ دینے کا حکم دیا۔ مصاحبین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ایک لاکھ روپیئے کا ڈھیر حضورپرنور کے آنے کے راستے میں ڈالدیا۔ افضل الدولہ کے دورِحکومت میں سکہّ رائج الوقت چاندی کا تھا۔ نوٹوں کا چلن نہیں تھا ۔اُن کا مقصد یہ تھا کہ محل سے اتنی بھاری رقم کی ادائیگی خیرات کی صورت میں دینے کا جو رواج ہے اس کو ختم کیا جائے جب افضل الدولہ کا گذر اُدھر سے ہوا تو روپیوں کا ڈھیر دیکھ کر آپ نے دریافت کیا کہ یہ روپیئے کیسے ہیں۔خادموں نے دست بدستہ عرض کیا کہ آپ نے فلاں شخص کو ایک لاکھ روپیئے دینے کا حکم فرمایا تھا۔ یہ ڈھیر اُن ہی سکوں کا ہے۔ افضل الدولہ نے اس ڈھیر کو دیکھ کر بڑی حیرت سے فرمایا کہ ایک لاکھ روپیئے اتنے تھوڑے ہیں اُنھیں دولاکھ کردو ؂ ۲۷
(حیدرآباد میں محرم۔ حیدرآباد (ص: ۲۶‘ ۲۴)
داد ودہش میں افضل الدولہ کا ثانی نہیں تھا۔ اپنی فراخ دلی کا ثبوت دے کر آپ نے یہ ثابت کردیا کہ شاہی روایات صرف دکھاوے یا تماشے کی غرض نہیں ہوتی بلکہ ان میں صداقت او رسچائی کا رفرماہوتی ہے۔
آصف جاہی دور کی اساس مذہبی رواداری پر رکھی گئی ہے۔اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب نظام الملک آصف جاہ اوّل نے دکن کا رُخ کیا تو اُس عظیم الشان بزرگ ہستی کے ہمراہ غیر مسلم بھی آئے جنھوں نے ابتداء ہی سے شاہانِ آصفیہ کی وفاداری او رجان نثاری کو اپنا ملک ومشرب بنالیا۔ او رکچھ ا سطرح ملک ومالک کی خدمت کی کہ اُن کی نظروں میں اپنے لئے خاص جگہ بنالی۔اُنھیں جاگیریں‘ مناحب اور خدمات جلیلہ سے سرفراز کیا گیا۔ نظام املک آصف جاہ اوّل کے جانشینوں نے بھی اسی حکمت عملی کو اپنایا۔ ان میں میر محبوب علی خاں آصف جاہ کا نام بھی سرفہرست آتا ہے۔ آپ نے اپنے دور میں مشفقانہ روّیہ‘ وسیع المشربی‘بے تعصبی اور مذہبی رواداری سے عوام وخواص کے دلو ں میں خصوصی جگہ بنالی تھی۔ خاص طورپر رواداری کی ایسی مثالیں قائم کی کہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے باشندوں میں معاشرتی اور تمدنی نقطۂ نظر سے کوئی فرق نہیں دیا۔ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی مختلف فرقوں کے درمیان باہمی ارتباط اور آپسی تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔ اس لحاظ سے نواب میر محبوب علی خاں کا دور یقیناًدکن کی تاریخ کا وہ زرّین باب ہے جس میں آپ کی رواداری سے ہندومسلم اتحاد‘ بھائی چارگی اور قومی یکجہتی کو جو تقویت یہاں ملی اس کی مثال ہندوستان کے کسی حصے میں شاید ہی ملے گی۔
یمین السلطنت مہاراجہ کشن پرشاد کو آصف جاہ سادس سے بڑی عقیدت تھی۔ وہ آپ کا بہت ادب واحترام کرتے تھے۔ آپ نے آصف جاہ سادس کی مذہبی رواداری کی پالیسی کے سلسلہ میں لکھا ہے۔
’’ غفران مکان نے اس فقیر کو خلعت‘ وزارت سے سرفراز فرمایا تو اپنی مدّبرانہ روشن خیالی اور شاہانہ ہردلعزیزی کے من جملہ اور نصیحتوں کے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ ہندو مسلم میری دو آنکھیں ہیں۔ اگر ان میں سے کسی بھی فریق کو نقصان پہنچاتو گویا میری آنکھ کو نقصان پہنچا۔ملک کی ترقی وتہذیب کے لئے دونوں فرقوں کے اتحاد واتفاق کو میں اپنی حکمرانی اور سلطنت کی قوت سمجھتا ہوں‘‘ ۱۷؂ (سید محی الدین جیسی حافظ۔ ’سب رس‘ بحوالہ ص :۲۸)
آصف جاہی دور کی روایت یہ تھی کہ فرمان روائے وقت کے لئے خانساماں ہندو ہوا کرتے تھے ۔محبوب علی خاں کے دور حکومت میں ایک دفعہ کمسن شہزادے میر عثمان علی خاں کی تعلیم کے لئے مقرر کردہ ایک استادنے اعلیٰ حضرت سے عرض کیاخانساماں کی خدمت کے لئے مسلمانوں کے بجائے ہندوؤں کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے۔ اُن دنوں راجہ گردھاری پرشاد خانساماں کی خدمت پر فائز تھے۔ بادشاہ سلامت کی نظرمیں ہندو اور مسلمان دونوں یکسا ں تھے۔ آپ کو یہ بات بہت ناگوار لگی۔ لہٰذا آپ نے استاد سے کہا کہ میرے دربار میں متعصب لوگوں کی جگہ نہیں۔
’’نواب افسر الملک نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کی تھی۔ اتفاقاََ اس مسجد سے قریب ایک دیول تھا جومشاہدین کے مطابق وہاں واقع نہیں تھا۔ بعد ازاں منتقل ہوا تھا جیسے ہی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ہندوؤں نے اُس کی مخالفت کی اور اعلیٰ حضرت کی خدمت میں درخواستیں پیش کیں اورخواہش کی کہ تعمیر بند کردی جائے جیساکہ سب ہی جانتے ہیں بے بادشاہ نے فوراََ تعمیر رکوادی‘‘ ؂۶
بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ تھالیکن دوراندیش بادشاہ نے صرف اپنی رواداری کا ثبوت دیابلکہ ایک حادثہ کو جو ہندو مسلم فساد کی شکل میں ابھرسکتا تھا بڑی خوش اسلوبی سے ٹال دیا۔
’’حیدرآباد کی مشترکہ تہذیبی روایت کی پابندی امرائے وقت نے بھی کی اور ہمیشہ اتحاد وقومی یکجہتی کو پروان چڑھانے میں حکمرانِ وقت کا ساتھ دیا۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے زمانے میں چندولال کی بارہ دری میں ہولی کاتہوار‘ خورشید جاہ کی دیوڑھی میں ناگ پنچھی کامیلہ‘ بشیر باغ پیلیس میں سرآسمان جاہ کی جانب سے تلسنکرات پرپتنگ بازی کے جلسے اور بسنت پنچھی کا تہوار ہندو اور مسلمان مل جل کر منایا کرتے تھے۔ نہایت پُرتکلف ضیافت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ سرآسمان جاہ غریبوں اور دیوڑھی کے ملازمین میں ملبوسات تقسیم کرتے تھے۔‘‘ ۲۳؂ (بشیر باغ میں بسنت کی تقریب‘روزنامہ سیاست۔صفحہ:۵ ۱۸/ ستمبر ۱۹۷۸ء )
’’ ۱۹۰۸ء میں موسی ندی میں طغیانی کا واقعہ حیدرآباد کی تاریخ میں صدیوں تک بھلایا نہیں جائے گا اس طغیانی نے وہ تباہی مچائی کہ ہزاروں بے خانماں ہونئے صدہا بچے یتیم‘ سینکڑوں عورتیں بیوہ‘ اور ہزاروں مرد خانہ بدوش ہوگئے۔ اس ہولناک سانحہ کی نظیر ابتدائے سلطنت دکن سے آج تک تاریخ میں نہیں ملتی۔اسکے باوجود مایوس اور نا اُمید دلوں میں روشنی کی کرن انھیں بادشاہ وقت کی ذاتِ شاہانہ میں نظر آرہی تھی۔ اس عقیدہ او ربھروسے کی وجہ یہ تھی کہ خود بدولت اپنی رعایا کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔ مقام حادثہ پراپنی رعایا کی تکلیف دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے زار وقطار آنسوبہہ نکلے‘‘ ۳۵؂ (مولوی سید محمد حسین اغلب۔ بہار خزاں ‘حیدرآباد مطبع مشیر دکن۔ ۱۹۰۸ء صفحہ:۷۶)
’’ دیکھ کر ویرانگی آنسو بہائے برملا‘‘
نرم دل بادشاہ اتنے متاثر اور رنجیدہ ہوئے کہ آنسوزاروقطار نکلے او روہ کچھ کہہ نہیں پائے۔ ایک کشادہ فراخ دل اور بے تعصب فرمان روا جو مکمل انسان تھا جو اپنی رعایا کے دکھ درد کو سمجھتا تھا اکثر وبیشتر راتوں میں بھیس بدل کر شہر کی صورتحال کا جائزہ بہ چشم خود لیا کرتا تھا۔
آصف سابع کی روادری آج کے زمانے کے لئے عبرت ہے۔ آصف جاہی سلطنت کی یکجہتی‘ عوام دوستی اوررواداری یوں بھی حیدرآباد کی امتیازی خصوصیت رہی ہے۔ لیکن اپنے دور حکومت میں عثمان علی خاں نے غیر مسلموں سے رواداری کی ایسی مثال قائم کی کہ جس سے تنگ دل ہندو(غیر مسلم) بھی انکار نہیں کرسکتے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خوشحالی زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوقوم (غیر مسلم) کو بھی اعلیٰ مراتب حاصل تھے۔ جاگیر یں اور منصب حاصل تھے۔آپ کے دور حکومت میں مہاراجہ کشن پرشادشادؔ وزیر آعظم تھے۔ وینکٹ راماریڈی کو توال بلدہ‘ مسٹر تاراپوروالا مشیر مال حضور نظام تھے۔ راجہ نرسنگ راج بہادر عالیؔ ‘مہتمم سیونگ بینک نظامت ٹپہ کی خدمت پر مامور تھے۔ وہ مذہبی تعصب سے بلند تھے اور ساری رعایا پر یکساں شفقت مرحمت فرماتے تھے۔ وہ اسلامی اصول کے پابند تھے۔ لیکن دوسرے مذاہب کابھی احترام کرتے تھے کسی طبقے کویہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ایک دوسرے سے اجنبی ہیں۔
جہاں انھوں نے مسجدوں‘ عاشور خانوں‘ درگاہوں کی امداد کی دہیں مندروں ‘گردواروں‘ کلیساؤں او رآتش کدوں کی مالی سرپرستی بھی کی۔ پارسیوں کونوروزکی ‘عیسائیوں کو کرسمس کی‘ سکھوں کو گرونانک کے جنم دن کی اور ہندؤوں کو دسہرہ اور دوسرے تہواروں کی اور مسلمانوں کو عیدوں‘ میلادوں کی تعطیل ملتی تھی۔ ہر مذہب کے تہوار پر میر عثمان علی خاں اپنے کلام کے ذریعے عوام کو مبارکباد بجھواتے تھے ۔
رعایا کی خوشیوں میں اُن کی شادی بیاہ او رمذہبی تقاریب میں کھلے دل سے شریک ہوتے تھے۔ مسرت وشاد مانی کے ساتھ ماتمی اور غمی میں ان کا غم بانٹتے تھے۔ میت کے ساتھ چند قدم پیدل چلتے تھے۔ انسانی ہمدردی اُن کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ اکثریوں بھی ہواکہ میّت کی تجہیز وتکفین کے مراسم بھی خود عثمان علی خاں نے ادا کیئے۔ وہ ہندو مسلم بھائی چارہ کے علمبردار تھے انہوں نے غیر مسلم قوموں کو اطمینان دلایا کہ جہاں تک تمہارے معاملات کا تعلق ہے ہم کو لا مذہب سمجھو اور یقین رکھو کہ تمہارے ساتھ وہی برتاؤ ہوگا جو ہم مسلمانوں کے ساتھ کریں گے۔
پست اقوام سے کہا…….
’’ میری نظرمیں نہ کوئی قوم بلندوپست ہے اور نہ کوئی اچھوت ہے میں سب کوبہ حیثیت بنی نوع ایک طرح سے برابر سمجھتاہوں‘‘
ایک بار ہندؤوں کے مذہبی پیشوانے انھیں یقین دلایا کہ’’ہم حکومت کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے خلاف ہیں جو ریاست میں بدنظمی پھیلانے کے ناپاک ارادے رکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے عالی قدر حکمراں کا ساتھ دیں گے‘‘
حضور نے فرمایا’’ جس طرح ہمارے دل میں ہمارے مذہبی پیشواؤں کی عزت وقدر ہے اسی طرح دوسرے مذاہب کے مذہبی مقتدا ہماری نظروں میں عزت کے مستحق ہیں‘‘ دولت آصفیہ مذاہب کی عبادت گاہوں اوران کے مذہبی رہنماؤں اوررسومات کا برابر احترام کرتی ہے۔
اپنی بے مثال رواداری سے انھوں نے ہر قوم وفرقے کی امداد کی تاکہ کوئی فرد اُن کی نوازشوں سے محروم نہ رہ جائے۔
انھوں نے سکھ رعایا سے کہا’’ یہ امتیاز اس ریاست کو حاصل ہے کہ سکھوں کے تمام گردواروں کے لئے میری حکومت سے معاش مقرر ہے۔ اُن کے مدارس کو میری گورنمنٹ سے امداد ملتی ہے
عیسائی رعایا سے فرمایا ’’عیسائیوں کے جتنے مشن ہیں ان کو بھی ہر ایک مذہب کی طرح تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ ان کے اکثر مدرسوں کو میری گورنمنٹ سے امداد ملتی ہے‘‘
سلطان دکن کی بحیثیتِ بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ جو تعلق رہاتھا اس سے سبھی واقف تھے ہر فرد اپنے مذہبی عقیدے میں آزاد تھا۔ اور حکومت اپنا فرض سمجھتی تھی کہ اُن کی مذہبی آزادی میں داخل انداز نہ ہو۔
اسلام’ ’صلح کل‘‘ کا مذہب ہے رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے احترام اور حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ عثمان علی خاں کے فرماں جو انھوں نے اپنی رعایا کے لئے جاری کئے وہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔ اپنے عقیدے اپنے مذہب ‘اپنے دین وایمان پر قائم رہتے ہوئے بھی انھوں نے دوسرے مذاہب اور عقائد کا احترام کیا۔ اسلامی مساوات کا سبق انھوں نے کبھی نہیں بھلایا۔ان کے قلب ونظر میں دنیا کے ساتھ دین بھی شامل تھا۔ اپنی مملکت میں سانس لینے والے ہر قوم وملت کے انسان کے حقوق کے وہ محافظ تھے۔ اُن کا سلوک سب کے ساتھ یکساں تھا۔
رعایا کی فلاح وبہود کے لئے انھوں نے ٹرسٹ قائم کئے جس کے ذریعے غریبوں ‘محتاجوں‘ بے سہاروں کی امداد کی جاتی۔ طلباء کو وظیفے دیئے جاتے‘ بیواؤں کو سہارا دیا جاتا۔ ساتھ ہی خانوادۂ آصفی کے صاحب زادوں اور صاحب زادیوں کو بھی اس سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ ملک اور بیرون ملک مختلف مسلم اور غیر مسلم اداروں‘ اسکولوں وجامعات کو لاکھوں روپیوں کے وظائف عطا کئے گئے۔ ملک کی دولت ملک کی رعایا کی فلاح وترقی کے لئے ہی صرف کی جاتی رہی۔ ان کی فیاضی کی کوئی حدنہیں تھی۔
غیر مسلم مذہبی ادارے جن میں دھرم شالے‘ آتش کدے‘ گردوارے شامل ہیں۔ ان کی تعداد (۱۲) ہزار تھی۔ جن کی امداد سرکار سے مقرر تھی۔ اس کے برخلاف مسلم ادارے جن میں مساجد‘ عاشور خانے‘ درگاہیں‘ خانقاہیں تھیں تعداد میں صرف پونے پانچ ہزار تھے۔ جن کی سرکار سے تنخواہ اور آمدنی مقرر تھی۔ عثمان علی خاں کے عہد میں ناقوس کی جھنکار کے ساتھ مسجد میں اذاں کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ گرجا کے گھنٹے گونجتے اور آتش کدوں میں آگ سلگتی رہتی تھی۔ آصف جاہی امراء‘کائستھ‘چھتری‘ برہمن‘ ریڈی‘ سنّی ‘شیعہ‘ سبھی شامل تھے۔ جنھیں بڑی بڑی جاگیریں اور مناصب حاصل تھے۔ کچھ پارسی‘ انگریز اور سکھ بھی تھے جو پشت ہا پشت سے منصب حاصل کررہے تھے۔
ہند ومسلم حیدرآباد میں اس قدر گھل مل کررہتے تھے کہ اُنمیں اجنبیت کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ خاندانی دوستی پیڑھی درپیڑھی چلی آتی تھی۔ بادشاہ کی طرح اُن کے دل بھی تعصب سے پاک تھے۔ ایک دوسرے کی تقریبوں میں شریک ہوتے‘ ایک دوسرے کے رسومات کو اپناتے‘ لباس ‘بات چیت‘ رہن سہن سب یکساں ہوتا تھا۔
بادشاہ’’ واحدقومیت‘‘ کاتصور رکھتے تھے۔ اس لئے مساوات زندگی کے ہرشعبے‘ہر دل‘ ہرچیز میں داخل تھی۔
حیدرآباد کی حیثیت اس چمن کی سی تھی۔ جس کے پھول کی رنگینی او رخوشبو نے نہ صرف حیدرآباد بلکہ باہر سے یہاں آنے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ یہاں کی مشترکہ تہذیب وشائستگی انسان دوستی اور رواداری اس شہر کے سارے عالم میں مشہور سربلند کیا ہے۔ اس شہر کی اعلیٰ روایات شان وشوکت‘ عظمت امارت دبدبہ‘ سماجی اور معاشی حالات اخلاقی اور سوشیل رحجانات نے اس کی شہرت میں چارچاند لگادئے ہیں۔ حیدرآبادی دادو دہش ‘سخاوت ومروت‘ وضع داری‘ وشائستگی ‘ہندو مسلم اتحاد‘ وبھائی چارگی عدیم المثال ہے۔ ان ہی تمام خوبیوں نے دونوں فرقوں کو ایک کرکے دوئی کے فرق کو مٹادیا تھا۔ راجہ نرسنگھ راج عالیؔ نے سچ کہا تھا۔
حق والوں بتاو حرم و دیر کہاں ہے
جب ایک وطن میں ہوتوپھربیرکہاں ہے
خالق جب دونوں کا جب نہیں دوعالی
ہندو مسلم ہے ایک‘ غیر کہاں ہے
حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب وشائستگی‘ انسان دوستی اور رواداری کی ہم نے وہ خوبصورت تصویر دیکھی جو بہت حاذب نظر اور دل سبھانے والی ہے۔ ماضی کے قصہ کہا نیاں اور روایتیں کا نوں کو سننے میں بہت بھلی لگتی ہیں۔ کیونکہ ان میں تہذیب رواداری
او رکردار کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ان کی اہمیت چاہے ہونہ ہو۔ لیکن اس سرزمین پرجنم لینے والی ہندو او رمسلمان ہستیوں نے اس گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنے فرمانررواؤں کا ساتھ دیا اور آنے والی نسل کیلئے ایک گراں قدر اور بیش بہا خزانہ ورثہ میں چھوڑا۔
موجودہ حیدرآباد میں اب نہ وہ اہل محفل رہے اور نہ وہ محفلوں کی رونق باقی رہی کیوں کہ وہ تمام ہستیاں آج اس دارفانی سے کوچ کرگئی ہیں۔ یہ درخشاں اور روشن ستارے بظاہر غروب ہوچکے ہیں۔ لیکن حقیقتاََ وہ زندہ جاوید ہیں ۔کیونکہ ان کی چھوڑی ہوئی روایات سبق آموز ہیں۔ ان بزرگ ہستیوں کی مثالی زندگی کو سامنے رکھ کران کے نقش قدم پر چل کربہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
عصر حاضر میں ان کے سیکھنے کی شدید ضرورت ہے تصویر کے اگر دوسرے رخ پر ہم نظر ڈالیں تو ہم کو رنگ پھیکے پڑتے نظر آئیں گے۔ کیونکہ جدید تہذہب سابق حیدرآبادی تہذیب پر بہت زیادہ اور تیز رفتار ی سے اثر انداز ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدیم حیدرآبادی روایات او راجتماعی اخلاق کو نہ مٹایا جاسکتا ہے۔ او رنہ ان کو فراموش کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے نقوش بہت واضح اور گہرے ہیں۔

Share
Share
Share