خان حسنین عاقبؔ : نسلِ نَوکے تازہ فکر شاعر۔ ۔ ۔ ۔ محسن ساحل ؔ

Share
حسنین ثاقب - khan
خان حسنین عاقبؔ

خان حسنین عاقبؔ : نسلِ نَوکے تازہ فکر شاعر

محسن ساحل ؔ
شیواجی نگر، گوونڈی۔ بمبئی ۔ ۴۳
ای میل :
موبائل : 09881002221

ہمارے ملک کی تہذیبی و ادبی خوش نصیبی ہے کہ یہاں اردو شاعری کے پاسبان شعراء و ادباء ہر دور میں سر بلند رہے۔ موجودہ دور میں اردو شعراء کی اتنی بھیڑ ہے کہ ہر تیسرا یا چوتھا شخص اپنے آپ کو شاعر کہلوانے کے لئے اتنا مضطرب دکھائی دیتا ہے جتنا لیلیٰ کے انتظار میں مجنوں بھی نہ ہوا ہوگا۔ جس طرح سائنس کے مضمون میں جانداروں کی اکائی خلیہ ہے اور خلیوں کی دو اقسام بتائی جاتی ہیں یعنی یک خلوی اور کثیر خلوی، تو اس لحاظ سے ان موجودہ شعراء کی اکثریت میں بھی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ یک غزلیہ شاعر اور کثیر غزلیہ شاعر۔ یک غزلیہ شعراء پر تو خیر، فی الحال کچھ نہیں کہنا ہے لیکن کثیر غزلیہ شعراء کی بات کی جائے تو میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے شعراء بہت جلد ایک یا کئی عدد دیوان کے مالک بن جاتے ہیں(خالق نہیں) ۔

شعراء کی اس بھیڑ میں چند ہی شعراء ایسے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری ، اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کا لوہا منوایا ہے اور ایک عالم میں اپنی مقبولیت اور شہرت کے جھنڈے گاڑدئے۔ ان شعراء میں ریاستِ مہاراشٹرا کے کہنہ مشق شاعر، ادیب اور ترجمہ نگار خان حسنین عاقب ؔ کا شمار ہوتا ہے ۔ عاقب ؔ صاحب نظم و نثر پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور فارسی میں بھی اتنی شگفتہ اور حرکی شاعری کرتے ہیں جیسی وہ اردو زبان میں کرتے ہیں۔ تنقید میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں اور ترجمہ نگاری میں تو کم ہی لوگ ان کے پائے کے ہوں
گے۔ آئیے ، پہلے ہم عاقب ؔ صاحب کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
خان حسنین عاقب کی پیدائش۸ جولائی ۱۹۷۱ کو آکولہ شہر کے ایک علمی اور تہذیبی خانوادے میں ہوئی۔ دادا حضرت محمد میر باز خان صاحب ؒ صوفی منش شخص تھے۔ اسی شہر میں کے سرکاری اردو مدار س میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور یہیں سے بی۔ اے او ر بی ۔ ایڈ کیا۔ ابتدائی ملازمت بھی وہیں کی لیکن پھر نا قدرئ روزگار کے ہاتھوں مجبور ہوکر بسلسلۂ ملازمت پوسد چلے آئے۔ تا بہ تحریر، پوسد ہی میں کارِ معلمی انجام دے رہے ہیں۔انگریزی پڑھاتے ہیں۔ اس لئے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی اتھاریٹی سمجھے جاتے ہیں۔ فارسی پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ اس زبان میں گاہے گاہے شعر بھی کہتے ہیں اوراس نئی نسل سے ریاستِ مہاراشٹر کے شائد واحدشخص ہیں جو فارسی میں شاعری کر تے ہیں۔ ان کی فارسی شاعری قارئین کو فارسی ادب کے اعلیٰ معیار کا اندازہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حسنین عاقب ؔ نے تقریباً ہر معروف اور مروجہ صنف میں شاعری کی ہے اور نثر نگاری بھی کی ہے۔ جب انہوں نے ہندی میں شاعری کی تو اپنے نئے لہجے اور موضوعات کے تنوع سے ہندی کے شعراء، قارئین اور نقادوں کو چونکادیا۔ لہجے کی انفرادیت اور فکر و احساس کی توانائی ان کی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ انگریزی ، ہندی اور فارسی کلام میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ فارسی غزل کا نمونہ ملاحظہ کیجئے۔
چشم پُر نم ، دست بر جامِ شراب
من ندانم حکمتِ عالی جناب
اس شعر کی تاب و تواں سے متاثر ہوکر ڈاکٹر ناصرالدین انصار کہتے ہیں کہ اس شعر میں ضرب المثل بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ مجھے یہ بات بتانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حسنین عاقب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز انگریزی شاعری سے کیا تھا۔ ان کے انگریزی شعری مجموعہ Flight Of A Wingless Bird کو لندن کے منروا پریس نے بڑے احترام کی نظر سے دیکھا تھا اور اس کے مسودے پرMarks Sykes نے اپنا گراں قدر ادارتی تجزیہ بھی تحریر کیا تھا۔ فنِ ترجمہ نگاری میں موصوف یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال، سیماب اکبر آبادی، گلزار، زبیر رضوی، ندا فاضلی، معصوم شرقی، عاجز ہنگن گھاٹی جیسے شعراء کی نظموں اور غزلوں کے کامیاب منظوم تراجم کئے ہیں اور مشاق و مستند مترجم کی حیثیت سے اپنی منفرد پہچان بنالی ہے۔ انہوں نے ظفر گورکھپوری کی منتخب اردو نظموں کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے جو Screams Of Silence کے عنوان سے جلد شائع ہونے والا ہے۔ بڑی کامیابی کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے قر آنِ کریم کے تیسویں جزو پارۂ عم کی سورتوں کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور یہی ان کے لئے آخرت کا بھی سرمایہ ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ۔ ایک اور اہم سنگِ میل ان کی زندگی میں انگریزی میں نعتیہ ادب کی تخلیق اور نعت کے لئے انگریزی میں متبادل لفظ وضع کرنا ہے۔ ان کے عشقِ رسول نے ان سے یہ کام بھی کر وایا ہے۔
اب اگر حسنین عاقب کی اردو شاعری کی بات کی جائے تو شروعات ظفر گورکھپوری کی اس رائے سے کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جب انہوں نے کہا ’’ حسنین عاقبؔ نئی نسل کے شاعر ہیں اور شدتِ احساس کی نئی راہ پر گامزن ہیں۔ معاصر غزلیہ شاعری کی بھیڑ میں ان کی شاعری میں وہ تاب و تواں ہے جو سنجیدہ قاری کو اپنی جانب متوجہ کرلے۔ ان کی شاعری میں باطن کی واردات کے ساتھ ساتھ خارجی مسائل کی شعلگی بھی ہے اور بلاشبہ یہ شاعری کی فکری بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زندگی کو چیلینج سمجھ کر ا س سے بنرد آزما ہونے اور اس پر فتح پانے کا نا قابلِ تسخیر جذبہ عاقب کی غزلوں میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میری رائے میں یہی مثبت فکر ہے۔‘‘
حسنین عاقب ؔ کے فکر و فن پرملک اور بیرونِ ملک کے شعراء ااور ماہرینِ فن نے ان کی شاعری کا عرق ریزی سے مطالعہ کرتے ہوئے بڑے حوصلہ افزاء اور امید افزاء مضامین لکھے ہیں۔ اور انہیں نئی نسل کی صفِ اول کے شعراء میں شمار کیا ہے۔ حسنین عاقبؔ کی غزلیات کے مطالعہ کے بعد اہلِ ذوق حضرات قطعی نہیں کہہ سکتے کہ اردو غزل گھِسے پِٹے عنوانات کے نیچے دب کر دم توڑ رہی ہے۔ عاقبؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں زندگی کے فلسفے کو نئے انداز سے پیش کر کے اردو شاعری کو نیا رخ عطا کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں ندرت اور جدت ہے۔ نئی تراکیب، اسلوب اور معیارِ تغزل کی پاسداری ان کی شاعری کے اہم خاصے ہیں۔ عاقب نئی نسل کے تازہ فکر شاعر ہیں اس لئے ان کا طرزِ سخن جداگانہ اور منفرد ہے۔ جس میں تخاطب کو بڑا دخل حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی، روشنی، حوصلہ ، محبت،نئی نسل وغیرہ جیسے عناصر سے براہِ راست مخاطب ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے۔

کر و محسوس تم بھی اے امیرو !
تمہیں تھوڑی ضرورت دے رہا ہوں
اُجالو ! پھیل جاؤ چار جانب
تمہیں دِن کی حکومت دے رہا ہوں
راہ، منزل، سفر کے خواب نہیں
زندگی ! تو جو ہم رکاب نہیں
روشنی کا کوئی حساب نہیں
یار سورج! ترا جواب نہیں
منافقوں سے کبھی اجتناب ہے کہ نہیں
کچھ آپ بھی تو کہیں، کیوں جناب ! ہے کہ نہیں
ان سارے اشعار اور ان جیسے تمام اشعار میں حسنین عاقب ؔ کا طرزِ تخاطب بے حد لازمی اور بر موقع معلوم ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تخاطب محض بھر تی کے لئے یا شعری ضرورت کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری نے کبھی شکستہ پائی کی ترجمانی نہیں کی۔ زندگی کی حقیقتوں سے ان کی شاعری بھی ان ہی کی طرح نبرد آزما رہی ہے۔ ان کی شاعری حوصلہ مندی کو propagate کرنے والی اور دورِ حاضر کے مسائل سے دوچار انسانوں کو جینے کی ہمت دینے والی شاعری ہے۔ ان کے یہ اشعار اسی قبیل میں شمار ہوتے ہیں۔
اور تھوڑا سا بکھر جاؤں ، یہی ٹھانی ہے
زندگی ! میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے
ترکش میں تیر کتنے ہیں، اس سے غرض نہیں
یہ دیکھئے کہ کتنی ہے طاقت کمان میں
اُڑنے کی آرزو ہے تو کیجے نہ پیش و پس
دوچار پر تو ٹوٹیں گے اونچی اُڑان میں
حسنین عاقب ؔ نے غزل کے معیار کو بر قرار رکھتے ہوئے عصرِ حاضر میں انسانوں کے باہمی رشتوں کی حقیقتوں کو جس سلیقے سے بیان کیا ہے ، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
بیٹا جو ہو نہار تھا، زن کے اثر میں ہے
کِس کی نظر کا نور تھا، کِس کی نظر میں ہے
خود ہی دولہا ڈھونڈ لیتی ہیں یہ آج
بیٹیاں کتنی سیانی ہوگئیں
بگڑا ہے ایک تو ، میر ے بیٹے، مگر یہ سوچ
بگڑے ہیں کام کتنے ترے اک بگاڑ سے
یہ سوچ کر وہ ہوگیا ماں باپ سے الگ
گستاخیاں نہ ہوں کہیں بیوی کی شان میں
حسنین عاقب پرانی صحت مند قدروں اور رشتوں کی بازیافتگی پر بھی زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار بلاشبہ پائے کے اشعار کہے جاسکتے ہیں۔
اگر میں علم کی کرسی پہ تن کر بیٹھ بھی جاؤں
میں اپنے باپ کے قد سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا
ان کا یہ شعر ہمیں اقبالؔ کی یاد دلادیتا ہے جو کہہ گئے ہیں کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو؟
حالانکہ شعر کا موضوعاتی پس منظر contrasting ہے لیکن ایک ہی رشتہ پر دو پہلوؤں سے دو مختلف شعراء نے بات کی ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے۔ خیر!
عاقبؔ اپنے دوستوں سے بے نیاز رہے ہیں لیکن دوستوں کے دِلوں میں پلنے والے نفاق سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ ایک شاعر کی نظر اور اس کا تجربہ ہے جو کہہ اٹھتا ہے کہ ؂
منافقانہ فضٖا ء دوستوں کے شہر کی ہے
میں پیٹھ پھیروں تو خنجر نکلنے لگتے ہیں
اس دور نے بدل دئے مفہومِ دوستی
دوری بنی ہوئی ہے رفاقت کے باوجود
میرؔ کے معتقد تو غالبؔ بھی رہے ہیں پھر عاقبؔ کیوں پیچھے رہتے ؟ میرؔ کا جادو ان کے یہاں سر چڑھ کو بولتا دکھائی دیتا ہے جب وہ کہتے ہیں۔
رِوایتوں کے تاثر کا اپنا جادو ہے
کہیں کہیں میری غزلوں میں میر رہتے ہیں
غم اُٹھاتا ہوں، غزل کہتا ہوں، جیتا رہتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ اک دِ ن میرؔ ہو جاؤ ں گا میں
بہت پرکھ ہے اسے میرے شعر کی عاقبؔ
کبھی کبھی وہ مجھے عکسِ میرؔ بولتی ہے
حسنین عاقبؔ کی شاعری اور ان کے فن کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنے کے لئے مجھ جیسے تہی دامن قلمکار کو اپنی اہلیت کا شاکی ہونا پڑرہا ہے۔ ان کی شاعری ، فن اور شخصیت کے کئی پہلو ایسے ہیں جن پر بڑی آسانی کے ساتھ کئی کتا بیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یوں بھی ان کی قدر دانی کا زمانہ قریب آرہاہے۔ آئیے ، ہم حسنین عاقب ؔ کو صفِ اول کے شعراء میں شمولیت پر مبارکباد پیش کریں۔

Share
Share
Share