افسانہ : دھار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیگ احساس

Share

بیگ احساس ۔ دھار

افسانہ : دھار

بیگ احساس
مدیر ماہنامہ سب رس ‘ حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09849256723
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

صبح جاگنے کے بعد اس نے حسب معمول شیو کرنا چاہا تو اسے اپنا شیونگ سیٹ جگہ پر نہیں ملا۔ سارا کمرہ دیکھ لیا۔ بچے بھی اس کے کمرے میں نہیں آتے تھے اس کی چیزوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اسے سخت غصہ آیا۔ جب سے اس کا لڑکا واپس آگیا تھا اس کا موڈ بے حد خراب رہنے لگا تھا۔اس نے بیوی کو بلاکر ڈانٹا کہ وہ اس کی چیزوں کا خیال نہیں رکھتی۔ اس کی بیوی بھی حیران تھی کہ آخر شیونگ سیٹ کہاں گیا۔ اس نے گھر کا کونا کونا چھان مارا ہر ممکن جگہ دیکھ لی لیکن وہ سیٹ نہیں ملا۔

برسوں کی عادت تھی۔ چودہ برس کے عمر سے وہ برابر شیو کر رہا تھا۔ صبح جاگتے ہی پہلا کام یہی ہوتا۔ اتنے برس گزر گئے اس کے معمول میں فرق نہیں آیاتھا۔ آج تک کسی نے اس کی داڑھی بڑھی ہوئی نہیں دیکھی تھی۔بیماری اور سفرکی حالت میں بھی وہ شیو کرنے سے کبھی نہ چوکتا۔ تیز دھار کی بلیڈ جب تک اس کے گالوں پر نہ دوڑتی وہ خود کو تروتازہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ پنشن کے بعد اس کے بہت سے دوستوں نے شراب چھوڑدی اور داڑھی بڑھالی تھی۔ لیکن وہ آج بھی بہترین بلیڈ اور قیمتی شراب استعمال کرتا تھا۔
کس کی حرکت ہوسکتی ہے؟ اس نے سوچا۔
اس کا بیٹا تو مولوی ہے پورا مولوی ۔۔۔ اس نے تو داڑھی رکھ چھوڑی ہے۔ سیاہ شرعی داڑھی۔ اسے یہ سب پسند نہیں تھا۔ایک خاص حلیہ جس سے مذہبیت ٹپکتی ہو اسے بالکل پسند نہ تھا۔ اس کا خیال تھا تمام مذاہب انسانوں کے لیے آئے ہیں‘ انسانوں سے نفرت کرنے کے لیے نہیں۔ سارے مذاہب کچھ خاص زمانے میں مخصوص حالات میں اس دور کے لوگوں کے لیے آئے تھے اب وہ پرانے ہوچکے ہیں موجودہ دور میں ناقابلِ عمل ۔۔۔ سب اپنے مذہب کو بہتر سمجھتے ہیں کوئی کسی کی برتری تسلیم نہیں کرتا نتیجے میں کتنے تصادم‘ کتنے فسادات‘ کتنی جنگیں ہوئیں۔ سارے مذاہب کے پیشوا عظیم انسان تھے انھوں نے ایک اچھے معاشرے کے لیے محنت کی۔ آج بھی پرانی باتوں کو دہرانے کی بجائے ایسی ہی کوشش کی جانی چاہیے۔
اس نے اپنے بیٹے کو روکا نہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود ہی اپنے طور پر دنیا کو برتے اور فیصلے کرے۔ اسے دیکھ کر کوفت ضرور ہوتی تھی۔
اور اب اس کے لڑکے کو بڑے زور کا دھکا لگا تھا۔ ویسے وہ بھی اندر سے ہل گیا تھا۔ ادھر کچھ برسوں سے وہ محسوس کررہا تھا کہ اس کے نظریات کو پے درپے شکست ہورہی ہے۔اس کی طرح سوچنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔ صارفیت کے طوفان میں سب بہہ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے آدمی دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لیے تیار ہے۔
جب ملک تقسیم ہوا اس وقت وہ جوان تھا۔ ہر شخص بھاگ رہا تھا‘ تحفظ کے لیے‘ بہتر مستقبل کے لیے‘ مفت میں جائیداد حاصل کرنے کے لیے۔ پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں تھی‘ بس سرحد پار کرنا تھا۔ اس کی ماں کا اصرار تھا کہ وہ ادھر چلے جائیں۔ لیکن وہ یہیں رہنا چاہتاتھا‘ اپنے ملک میں۔ جب بھی فسادات ہوتے اس کی ماں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی لیکن اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔اس کے اپنے خواب تھے‘ انسانیت پر بھروسا تھا۔ جب جہالت دور ہوگی لوگوں کو شعور آئے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ سب مذہبی جنون ہے۔ اُدھر بھی بہت چین اور سکون نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بعد اسے معمولی سی سر کاری ملازمت مل گئی۔ وہ اسی میں خوش تھا۔شادی ہوئی۔ بچے ہوئے۔ بہت خوش حالی تو نہیں تھی لیکن وہ ایک باوقار زندگی گزار رہا تھا۔ بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے لیکن اچھا پڑھتے تھے۔
دوسری بار پھر وہ ایک کڑے امتحان سے اس وقت گزرا جب خلیج کے راستے کھلے۔ اس کے کئی دوست دولت سمیٹنے کے لیے بھاگے۔ بیوی نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ ایسے ملک کو نہیں جائے گا جہاں اسے دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا پڑے۔ اس ملک کے قوانین ‘ طرز زندگی ‘ وہ تو گھٹ کر مرجائے گا۔
اس نے دھیرے دھیرے زندگی جوڑی۔ شہر سے دور ایک ہاوزنگ سوسائٹی کے تحت زمین خریدی۔ اور برسوں میں رفتہ رفتہ گھر بنایا۔ پندرہ بیس برس میں اس علاقے کی صورت بدل کر رہ گئی۔ اب وہ شہر کا ایسا حصہ بن گیا تھا جس کی بے حد مانگ تھی۔ کا لونی میں سب اس کے جاننے والے تھے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے دوست جن کے ساتھ وہ شراب پیتا تھا‘ بحثیں کرتا تھا۔ اسے وہ سب اسی کی طرح لگتے تھے۔ لڑکے نے بھی سرکاری کالج اور یونیورسٹی سے پڑھ کر انجینئرنگ کرلی تھی‘ ایک فرم میں ملازمت بھی کر رہا تھا۔ لڑکی کی شادی ہوگئی تھی۔ داماد خلیجی ملک میں ملازمت کر رہاتھا۔ بیٹی اور نواسے اس کے ساتھ تھے۔بڑی حد تک وہ مطمئن تھا۔ لیکن اندر سے سب کچھ اطمینان بخش نہیں تھا۔ پہلے وہ سوچا کرتا تھا کہ کسی بھی قوم کی زندگی میں پچیس پچاس برس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شخصیت پرستی اور موروثی نظام نے رنگ دکھایا۔ ضدی عورت اور ناتجربے کار لڑکا خود بھی تباہ ہوئے اور ملک کو بھی تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ ان کے بعد اونگھتے ہوئے بوڑھے نے تابوت میں آخری کیل جڑ دی۔ سب کچھ برباد ہوکر رہ گیا۔ ملک کو رتھ والوں کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔
قدیم عبادت گاہ ہٹ دھرمی سے گرادی گئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ کتنے لفظ بے معنی ہوگئے اور کتنے نئے لفظ نئے مفہوم لے کر آئے۔ شیلا نیاس‘ کار سیوک‘ ڈھانچہ‘ ہندو راشٹر‘ بھارتیہ کرن‘ اگروادی‘ جہاد‘ بم بلاسٹ‘ انکاؤنٹر‘ نئی نئی دہشت پسند تنظیمیں‘ بڑی جارحانہ وطن پرستی آگئی تھی۔ کچھ نئے لوگ اس منظر نامے میں ابھر آئے تھے جن کا کام صرف زہر اگلنا اور دھمکیاں دینا تھا۔ سیکولر کہلانے والے اپنی کلائیوں پر سرخ دھاگے باندھنے لگے تھے۔ اپنے بچوں کی شادی کے دعوت ناموں پر جلی حرفوں میں بسم اللہ اور اوم لکھا ہوتا ہے۔ ایک بڑی طاقت تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی تھی اور کل تک جو سو شلسٹ لیڈر تھے ‘ بائیں بازو کے اخبارات شائع کرتے تھے وہ کٹر مذہبی جماعتوں کے تلوے چاٹنے لگے تھے۔
تبدیلی اس کی کا لونی میں بھی آئی تھی۔ وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ شام کی محفلیں کبھی کے ختم ہوچکی تھیں۔ محلے کے بچوں نے اس کے نواسوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔
پاکستانی۔۔۔ پاکستانی۔۔۔!
اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ جس ملک کو اس نے کبھی تسلیم نہیں کیا ‘وہی اس کے بچوں کے سروں پر تھوپا جارہا ہے۔ اس کے بچے پاکستان کے بارے میں زیادہ جانتے بھی نہیں تھے۔
’’ناناجی وہ ہمیں پاکستانی کیوں کہتے ہیں۔‘‘ وہ چب رہا۔
’’ کیوں کہ ہم مسلم ہیں۔‘‘ بڑے نواسے نے کہا۔
’’کیا تمام مسلم پاکستانی ہوتے ہیں؟ ‘‘ پھر سوال کیا گیا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا‘ جھلاکر اسی وقت باہر نکلا۔ وہ کالونی کے بزرگوں سے ملا صورت حال بتائی۔ کسی نے اس کی بات رد نہیں کی۔ لیکن اسے لگا جیسے صرف وہی بول رہا ہے‘ خلا میں اس کے الفاظ بکھر رہے ہیں اور کوئی معنی نہیں دے رہے ہیں۔ پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ شاید اب وہ یہاں نہیں رہ پائے گا۔ جو قومیں کمزور پڑجاتی ہیں انھیں سلمس میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنا گھر فروخت کرتے وقت اسے تکلیف ہوئی۔ قیمت بھی وہ نہیں ملی جو بازار کی تھی۔
اپنے بیٹے اور بیوی کے مشورے سے وہ ایک ایسی بستی میں آگیا جہاں وہ تحفظ محسوس کرتے تھے۔ بے ترتیب مکانات‘ سڑکیں خستہ حال‘ ہر نکڑ پر نوجوانوں کی ٹولیاں ‘ لمبے لمبے کرتے اور اونچے پاجامے پہنے بزرگ‘ لمبی داڑھیاں‘ سر پر ٹوپیاں ۔۔۔ سیاہ برقعوں میں گھومتی عورتیں ‘ صرف آنکھیں کھلی رہتیں۔ نوجوان لڑکے جینز اور ٹی شرٹ پہنے موٹر سائیکلوں پر دندناتے پھرتے۔ راتوں رات دولت مند بن جانے اور بغیر محنت کے پیسہ کمانے کے خواب آنکھوں میں سجائے سر پر الٹی کیپ لگائے‘ جیبوں سے سیل فون کی گنگناتی موسیقی ۔۔۔ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک ملازم تھا ۔۔۔ نماز کا وقت ہوتا تو لوڈ اسپیکر پر اذانوں کا شور بلند ہوتا۔ اس ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگتا۔
عجیب بستی تھی۔ سب کو سب کی خبر ہوتی تھی۔ کون کیا کر تا ہے‘ کیا کھاتا ہے کیا پہنتا ہے کس گھر میں کون مہمان آیا ہے۔ پتہ نہیں یہ ساری باتیں کیسے ایک دوسرے تک پہنچ جاتی تھیں۔ شروع شروع محلے والوں نے اسے بھی گھیر لیا۔ نمازیوں کی ایک ٹولی اس کے پاس آئی۔’’ راہ راست‘‘ پر لانے کی کوشش کی گئی۔ اس نے سختی سے کہہ دیا کہ گناہ اور ثواب کے بارے میں وہ ان سے زیادہ جانتاہے۔ اب وہ عمر کی اس منزل میں ہے کہ کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے۔ اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ اس کے لہجے میں اتنی تلخی اور درشتگی تھی کہ دوبارہ پھر کسی نے ہمت نہیں کی۔ البتہ اس کا بیٹا محلے میں جلد ہی مقبول ہوگیا۔ وہ نماز کا پابند بھی تھا اور محلے کے نوجوانوں اور بزرگوں میں وقت بھی گزارتا تھا۔ بیوی بھی نماز کی پابند ہوگئی تھی۔
اس نے ایک معمول بنالیا تھا۔ صبح ہوتے ہی داڑھی بنا تا‘ نہاتا‘ تفصیل سے اخبار پڑھتا‘ ناشتہ کرتا پھر لائبریری میں بیٹھ جاتا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر سوجاتا۔ شام میں کہیں کوئی جلسہ کوئی میٹنگ ہوتی تو چلا جاتا یا اپنے کسی دوست کے گھر چلا جاتا۔ اپنے معمول کے دو تین پیگ لیتا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کر کے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا۔ جب کبھی معمول سے زیادہ ہوجاتی تو اس کے قدم ہلکے سے لڑکھڑانے لگتے وہ سیدھے بستر میں چلا جاتا۔ اس کی بیوی فرش پر بستر بچھاکر سوجاتی۔ احتجاج کا ایک نیا طریقہ اس نے نکالا تھا۔ محلے والے تو اسے بس باہر جاتے اور آتے ہوئے دیکھتے تھے۔ کسی سے اس کی ملاقات نہ تھی۔
قدیم عبادت گاہ کے گرنے کے تقریباََدس برس بعد جدید طاقت ‘ تہذیب و معاشرت کی علامت دو عمارتیں اچانک گرادی گئیں اور پھر بہت کچھ بدل گیا۔ عمارتیں گرتی ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ پھر کچھ نئے لفظ آئے جن میں زیادہ شور تہذیبوں کا ٹکراؤ اور دہشت گردی کے خلاف ردّعمل ‘ ایٹمی ہتیار رکھنے والے ممالک کا صفایا تھا۔
قدیم عمارت گری کہ جدید عمارتیں ‘نقصان اسی کا ہوا۔ اس کی پوزیشن خراب ہوگئی۔ یوں اس نے جنگ کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ سمیناروں اور سمپوزیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن اسے محسوس ہوا یہ سب کچھ ایک انٹلکچول تفریح کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ جنگ کی ہولناکی کو محسوس نہیں کرتے۔ ٹی وی پر جنگ کے مناظر ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے فیشن چینلس پر خوب صورت جسم ‘ جیسے بلیڈ سے تراشے گئے ہوں ایک ایک عضو نپا تلا ۔۔۔ جسم پر صرف تین تکونی ٹکڑے دو اوپر پتلی ڈوریوں سے بندھے ہوئے پشت گردن پر ایک گرہ اور ایک نیچے ناف سے !!ٹی وی اور انٹرنیٹ نے تصور کے لیے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا‘ ساتھ ہی میدان جنگ اور فیشن شو کے ریمپ کا فرق بھی مٹادیا ہے۔
دوستوں سے بحث کرنے میں بھی کوئی لطف نہیں تھا۔اس کی طرح سوچنے والے کم ہوتے جارہے تھے۔ ایک رخ تو یہ ہے کہ لوگ اس بڑی طاقت کو ظالم کہتے ہیں لیکن اس خلیجی ملک کے حکمران کو ڈکٹیٹر نہیں کہتے۔ لوگ خود کشی بم کی تائید تو کرتے ہیں لیکن بے گناہ مرنے والوں پر افسوس نہیں کرتے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ کہیں بھی بم بلاسٹ ہوتا ہے ‘ دہشت گردی ہوتی ہے تو اس کی طرف عجیب نظروں سے گھور تے ہیں جیسے ہر دہشت گردی کا ذمہ دار وہ ہو۔ پولس راتوں رات اس کے محلے سے نوجوانوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
ان حالات میں اس کے لڑکے نے جب کہا کہ وہ ایک مغربی ملک کو جارہا ہے تو وہ چونک پڑا۔
’’ کیوں جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ظاہر ہے بہتر مستقبل کے لیے۔‘‘
’’کیوں کیا یہاں تمہارا کوئی مستقبل نہیں ہے؟‘‘
’’ نہیں پاپا۔ ہمارے ملک کو اعلا تعلیم یافتہ سوچنے والے ذہن کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’ وہاں بھی تو اعلا تعلیم یافتہ لوگ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں۔‘‘
’’ وہ عبوری دور ہوتا ہے پاپا۔ پیسہ بھی معقول ملتا ہے۔‘‘
’’تو تم پیسہ کمانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ ہاں پاپا پیسہ موجودہ دور کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔‘‘
’’لیکن مذہب تو قناعت پسندی۔۔۔‘‘
’’ مذہب پیسہ کمانے سے روکتا نہیں ‘‘ بیٹے نے بات کاٹ کر کہا ’’ اچھا اچھا ۔۔۔بیٹے کے جارحانہ موڈ کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اس نے اگر قناعت پسندی سے کام لیا‘ زیادہ پیسوں کا لالچ نہیں کیا تو ضروری نہیں کہ اس کا بیٹا بھی ایسا ہی سوچے۔ پہلے جو تعیش کی چیزیں کہلاتی تھیں اب وہ ضرورت بن گئی ہیں جس کے لیے پیسہ چاہیے۔ اس کے بیٹے کو اس کے انداز میں جینے کا موقع دینا چاہیے۔
زور شور سے تیاریاں ہونے لگیں‘ کپڑے ‘جوتے‘ سفر کا سامان ‘ ضروری چیزیں وہاں کے موسم سے مطابقت رکھنے والی۔۔۔ ایک ایک تفصیل تھی اس کے بیٹے کے پاس اس ملک کی ۔۔۔
پھر سب نے نمناک آنکھوں سے وداع کیا۔ دعائیں دیں‘ امامِ ضامن باندھے ۔۔۔گھر لوٹے تو بڑا سونا پن محسوس ہونے لگا۔ ادھر کئی دنوں سے بڑی گہما گہمی تھی۔ رات دیر گئے تک جاگنا۔ دوست احباب کا آنا جانا۔
بیٹے نے ممبئی سے فون کیا کہ پہنچ گیا ہے۔ پھر اس ملک کے پلین میں بیٹھنے سے قبل فون کرنے کا وعدہ کیا۔ رات میں اس کا فون آیا کہ وہ پلین میں بیٹھنے جارہاہے۔ وہ آرام سے سوگئے۔
صبح وہ جلدہی جاگا۔ بیٹے کے فون کا انتظارکرنے لگا۔ بیوی بھی فجر پڑھ کر مصلّے پر بیٹھی تھی۔ کافی انتظار کے بعد بھی فون نہیں آیا تو وہ بے چین ہوکر ٹراویلنگ ایجنسی کے دفتر بھاگا جس کے ذریعے اس کا بیٹا گیا تھا۔ ٹراویلنگ ایجنسی والے بھی کوشش میں لگ گئے۔ وہ گھر لوٹ آیا۔ بیوی گڑ گڑاکر دعائیں کرتی رہی۔ وہ بے چینی سے ٹہلتا رہا۔ پھر ٹراویلنگ ایجنسی والوں کا فون آیا کہ اس کا لڑکا وہاں پہنچ تو گیا ہے لیکن ایرپورٹ پر روک لیا گیا ہے۔وہ پریشان ہوگیا۔ پتانہیں ایسا کیوں ہوا۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ فون کھڑ کھڑانے لگا جن دوستوں کے بچے اس ملک میں تھے یا خاندان کے افراد وہاں تھے۔ ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے۔ لیکن بات نہیں بنی۔ رات بھر وہ بے چین رہا۔ یہ دوسری رات تھی۔ پتا نہیں بیٹے پر کیا گزر رہی تھی۔
رات اس کے بیٹے کا فون آیا۔
’’ہاں بیٹے کیا ہوا؟‘‘ اس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ کچھ نہیں پاپا میں واپس آرہا ہوں۔‘‘
’’کیا ہوا۔ کچھ بتاو تو۔‘‘
’’آکر بتاؤں گا ۔۔۔‘‘ بیٹے نے اپنی واپسی کی فلائیٹ کا وقت بتا دیا۔ صبح اس نے حسبِ معمول شیو کیا۔ وقت سے پہلے ہی ایرپورٹ پہنچ گیا۔ بیٹا واپس آگیا۔ اس نے اسے گلے لگا یا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اس نے پوچھا ’’کیوں روک دیا تھا انھوں نے؟‘‘
’’ ان کا خیال ہے میری شکل بین الاقوامی دہشت گردسے ملتی ہے۔‘‘
’’تم نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’وہ لوگ کچھ سننے کو راضی نہیں تھے۔ انکوائری کی گئی اس کے بعد چھوڑا۔‘‘
’’کچھ ثابت نہ ہونے پر بھی واپس کردیا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’چلو یہی کیا کم ہے تم صحیح سلامت واپس آگئے۔ اللہ جو کرتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔‘‘
اس کے بیٹے نے عجیب نظروں سے دیکھا۔ وہ شرمندہ ہوگیا۔ یہ کیسے الفاظ اس کے منھ سے نکل رہے ہیں۔
بیٹے کے اس طرح لوٹ آنے پر اسے بہت بڑا دھکا لگا۔ کیا ان پر دنیا تنگ ہورہی ہے۔یہاں زہریلے بیانات روزانہ پڑھنے کو ملتے ہیں‘ نسل کشی کا ایک کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے ‘ ظالم ہی حکومت بھی کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک اپنے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی شہریت نہیں دیتے۔ مغربی ممالک کا یہ رویہ ہے۔
بیٹے کے بارے میں وہ کوئی اندازہ نہیں کر سکا کہ اس واقعے کا اس پر کیا اثر ہوا۔ اس نے پرانی ملازمت جوائن کرلی تھی۔ کام میں مصروف تھا۔ ممکن ہے اس نے بیرونِ ملک جانے کا خواب دیکھنا ہی چھوڑدیا ہو۔
آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔ اچھی خاصی داڑھی نظر آرہی تھی۔ سفید سفید ۔۔۔ تیز دھار کی بلیڈ کے لیے وہ بے چین ہوگیا۔ اس کی بیوی بار بار کہہ رہی تھی کہ وہ دوسرا شیونگ سیٹ خرید لے یا باہر جاکر داڑھی بنوا آئے ‘ اس کا چہرہ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ لیکن وہ کاہلی سے گھر میں پڑا رہا۔ بیٹا آفس کے کام سے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ وہ شام تک باہر نہیں نکلا‘ معمول کے دو پیگ بھی نہیں لیے۔ دن بھر پڑھتا رہایا ٹی وی پر خبریں دیکھتا رہا۔
اس کا بیٹا اجازت لے کر کمرے میں آگیا۔
’’ پاپا یہ لیجیے آپ کا شیونگ سیٹ میں لے گیا تھا۔آپ سے پوچھے بغیر ۔۔۔آئی ایم سوری پاپا ۔۔۔‘‘لڑکا ایک سانس میں کہہ گیا ۔
’’ تمہیں کیا ضرورت پڑی اس کی ۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ نظر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اس کے بیٹے کے چہرے پر داڑھی برائے نام رہ گئی تھی۔
’’تمہاری داڑھی؟‘‘ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا۔
’’آہستہ آہستہ کم کردی ۔اب کلین شیو ہوجاؤں گا۔‘‘ بیٹے نے ہنستے ہوئے کہا
’’ لیکن کیوں؟‘‘
’’نیا پاسپورٹ بنواؤں گاکلین شیو تصویر کے ساتھ ۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے ریکارڈ ہوتا ہے ۔۔۔باضابطہ۔‘‘
’’یہاں سب کچھ ممکن ہے پاپا۔ بس سورس چاہیے۔ اس بار کہیں اور جاؤں گا۔‘‘
’’لیکن یہ غیر قانونی ہے ۔‘‘
’’کیا بغیر داڑھی کے پاسپورٹ بنوانا غیر قانونی ہے؟‘‘
وہ خاموش ہوگیا‘ بحث نہیں کی۔
’’صرف داڑھی رکاوٹ بن گئی ہے پاپا ۔۔۔‘‘ یہ لیجیے آپ کا سیٹ۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ’’اسے تم ہی رکھ لو۔‘‘
لڑکے نے حیرت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا اپنی بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ ایسے بھی وہ برا نہیں لگ رہا ہے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور معنی خیز انداز میں مسکرادیا۔

Share

۴ thoughts on “افسانہ : دھار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیگ احساس”

Comments are closed.

Share
Share