ہندوستانی ادب میں نئے رجحانات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر قطب سرشار

Share
trends  رجحانات
ڈاکٹرقطب سرشار

ہندوستانی ادب میں نئے رجحانات

رپورٹ: ڈاکٹر قطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ –

ادبی و علمی اجتماعات میں ’’سمینار‘‘ کی اپنی خاص اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔ چاہے وہ جامعات کی چہاردیواری کے اندر ہویا غیر جامعاتی فضاء میں کسی بھی ماحول میں سمینار کی افادیت اور نتائج یکساں ہوتے ہیں۔ سمینار میں جو گفتگو اور بحث و تمحیص کا ماحول بنتا ہے وہ معلومات آفریں ہوتا ہے، اس سے ذہن کی کئی گرہیں کھلتی ہیں اور گونا گوں فکری ابعاد کا تعارف بھی ہوجاتا ہے۔ سمیناروں کے معیار اور وقعت کا انحصار بہر حال موضوع کے حسن انتخاب پر ہوتا ہے اور یہ حسن انتخاب ہی تھا جس نے کرناٹک اردو اکیڈیمی بنگلور کے کل ہند سہ روزہ سمینار کو وقیع تر اور منفرد بنادیا۔ اس سمینار کا موضوع تھا ’’ہندوستانی ادب میں نئے رجحانات‘‘ اس موضوع میں اس درجہ وسعت اور جامعیت تھی کہ اس پر گفتگو کے نتیجے میں اردو ادب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی کم و بیش تمام تر زبانوں کے عصری ادب کی رفتار اور صورت حال کا بھر پور انداز میں احاطہ ہوگیا۔

کرناٹک اردو اکیڈیمی کے مالی تعاون سے 6 مارچ 2009ء کو سہ روزہ سمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا ، جس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں شاعروں، نقادوں اور محققین کو مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے اردو زبان میں علاقائی زبان و ادب میں رونما ہوتے نئے رجحانات کا اجمالی جائزہ لیا۔ موضوع کے اعتبار سے یہ سمینار اپنی نوعیت کا وہ پہلا سمینار ہوا جس میں ہندوستان کے صف اول کے ادیب وشاعر و نقاد اور محققین اکٹھا ہوئے تھے اس سمینار کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایسے مقالہ نگار بھی شریک رہے جو اردو کے شاعر و ادیب اور نقاد ہونے کے علاوہ اپنی اپنی علاقائی زبانوں پر نہ صرف دسترس رکھتے ہیں بلکہ ان زبانوں کے ادب پاروں کو انہوں نے اردو قالب میں ڈھالا بھی ہے۔ 6 مارچ 2009ء میں سمینار کا افتتاح شہر بنگلور قدیم سنٹرل کالج کے سینٹ ہال میں صبح 11 بجے اردو کے نامور جدید نقادوں وارث علوی کے ہاتھوں عمل میں آیا، افتتاحی اجلاس کی صدارت اردو کے نامور شاعر و ادیب اور نقاد ہونے کے علاوہ اپنی اپنی علاقائی زبانوں پر نہ صرف دسترس رکھتے ہیں بلکہ ان زبانوں کے ادب پاروں کو انہوں نے اردو قالب میں ڈھالا بھی ہے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت اردو کے نامور شاعر و ادیب خلیل مامون صدر کرناٹک اردو اکیڈیمی بنگلور نے فرمائی۔ جبکہ وارث علوی، شمیم حنفی، شہریار عتیق اللہ زبیر رضوی مہمانان خصوصی رہے۔ خلیل مامون نے صدارتی خطبہ کے دوران کہا کہ یہ سمینار اس لئے اہم نہیں ہے کہ ہم اسے قومی سطح پر لے آئے ہیں بلکہ اس کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ اس سمینار میں قومی سطح کے اکابرین ادب شریک ہوئے ہیں تاکہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تمام تر علاقائی زبانوں کی موجودہ صورت حال پر اظہار خیال ہوجائے۔ پروفیسر وارث علوی نے کہا کہ موضوع کے اعتبار سے اس سمینار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ یہاں غیر اردو زبانوں کے ادب کے عصری رجحانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان جو ایک زمانہ دراز تک ملک کی تہذیب و تمدن یہاں تک کہ سماجی اور سیاسی معاشرے کے لئے آکسیجن کا کام کرتی تھی ملک کی کئی تحریکوں اور انقلابات کے لئے اردو کو وسیلہ بنایا گیا، اسے اب اردو کے ادیبوں نے رفتہ رفتہ صرف مسلم کلچر تک محدود کررکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اردو کا کوئی مذہب یا علاقہ نہیں تھا۔ اس کے لکھنے والوں میں پریم چند اور جگن ناتھ آزاد ہوا کرتے تھے۔ سکھ برادری کے علاوہ ہندوستان کی دوسری برادری کے ادیبوں نے بھی اردو کو بیش بہا خزانہ فراہم کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان دنوں بہت ہی کم غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں کے نام سامنے آتے ہیں۔ آج کنڑا، بنگالی، پنجابی، تلگو، ملیالم، گجراتی ہر زبان کا یہی رونا ہے کہ اس کے قارئین کی تعداد روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ یہی حال اردو زبان کا بھی ہے۔ افتتاحی اجلاس کو ڈاکٹر شمیم حنفی، عتیق اللہ اور زبیر رضوی نے بھی مخاطب کیا۔ بعد ازاں پہلے اجلاس کا آغاز ہوا۔ ممتاز ادیب و نقاد شاعر اور صحافی جناب فضیل جعفری نے صدارت کی۔ ڈاکٹر شمیم حنفی اور پروفیسر ابو الکلام قاسمی نے اردو میں اور کنڑ شاعر و ادیب اور نقاد پروفیسر ایچ ایس شیو پرکاش نے انگریزی زبان میں مقالے پیش کئے۔ کرناٹک اردو اکیڈیمی کے رجسٹرار ایس رحمت الحق نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور عزیز اللہ رکن اکیڈیمی نے تعارف کروایا۔ اعظم شاہد نے نظامت کے فرائض انجام دےئے۔
7 مارچ 2009ء سینٹ ہال سنٹرل کالج بنگلور پہلے اجلاس کا آغاز گیارہ بجے ہوا۔ آج کے سمینار میں کل تین مرحلوں میں نو مقالے پیش کئے گئے ۔ پہلے اجلاس میں نامور ادیب شاعر و صحافی جناب فضیل جعفری نے اردو ادب اور مابعد جدیدیت کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اس مقالے کے اہم نکات یہ تھے کہ ساختیات سے لے کر مابعد جدیدیت تک شجرہ نسب سب کا ایک ہی ہے۔ انہوں نے جدید نقادوں کے حوالے سے کہا کہ ان تمام حضرات کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں اور خود ہی اسے منہدم کردیتے ہیں ، سارے ساختیاتی خاندان کی جڑ ہی خراب ہے۔ اسے کبھی ادبی رجحانات کہا نہیں جاسکتا یہ ایک شخص کی چیز تھی۔ گوپی چند نارنگ نے ساختیات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ فلسفہ ہے، اولاں بارتھ سب سے بڑا ساخیاتی لیڈر تھا، جس کی 30 صفحات پر مشتمل کتاب پورے پانچ سال بعد شائع ہوئی۔ فضیل جعفری نے کہا کہ خراب ادب اس مردہ مچھلی کی طرح ہے جسے سمندر خود اچھال دیتا ہے۔ کسی چیز کو مسترد کردینے کے بعد جو چیز بنتی ہے وہ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے یا پھر خلاء ہی رہ جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھے گئے ناول Gravity Raidon میں کہیں ہٹلر کا ذکر تک نہیں تھا۔ 1862ء میں کارل کارکس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا، سرمایہ دارانہ نظام کا مطلب دنیا کو ایک بازار میں بدلنا ہے۔ جس کا نام آج گلوبلائیزیشن پڑ گیا ہے۔ ہندوستان میں یہ گلوبلائزیشن 1991ء میں آگیا۔ یہ سمینار دوسرے سمیناروں سے موضوع کے اعتبار سے قدرے مختلف اور متنوع ہے، اردو اکیڈیمی دہلی، سنرل ساہتیہ اکیڈیمی ایسے سمینار زیادہ تر NCPUL کے ذریعہ دہلی ہی میں منعقد کرتی رہی ہے۔ اس سال سے ’’مابعد جدیدیت کے دہلی کے سمیناروں میں دس تا بارہ لوگ بیٹھ کر مباحثے کرتے آئے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے موضوع پر ایک سمینار علی گڑھ میں بھی ہوا تھا۔ خلیل مامون صدر کرناٹک اردو اکیڈیمی بنگلور نے برسوں بعد اکیڈیمی میں نئی جان ڈال کر محمود ایاز کے دور کی یادوں کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔ فضیل جعفری کے بعد اردو کے ممتاز شاعر و نقاد جناب زبیر رضوری مدیر ’’ذہن جدید‘‘ نے ’’آج کے ادب میں انعامی کلچر کے عنوان‘‘ پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج کے دور میں ہمارے یہاں کتابیں لکھی جاتی ہیں انعامات حاصل کئے جاتے ہیں لیکن کتابیں کوئی پڑھتا نہیں ہے۔ آج کا تخلیق کار بے توقیر ہوکر رہ گیا ہے۔ ادب کے تخلیق کاروں کو جو فضاء اور مقام ملنا چاہئے وہ نہیں مل رہا ہے۔ اس فضاء پر نقادوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ادیب کی لڑائی ہمیشہ انتظامیہ سے رہی ہے۔ سیاست نے ادب پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے۔ ادب کا نوبل انعام، بوکر انعام اور ساہتیہ اکیڈیمی انعام جس انداز سے دےئے جارہے ہیں ان میں کسی مدلل جواز کی تلاش بے فیض ثابت ہورہی ہے۔ مثالوں کے ذریعہ زبیر رضوی نے واضح کیا کہ انعامی کلچر سے زیادہ تر یہی ہوتا رہا ہے کہ انعام یافتہ کے وقار میں کتنا اضافہ ہوا۔ پتہ نہیں البتہ انعام کا وقار ناقابل فہم ہوگیا۔ سمینار کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ابو الکلام قاسمی نے صدارت کی۔ ڈاکٹر رام پنڈت مراٹھی ادب ڈاکٹر دنیش شری نیٹ ہندی ادب ڈاکٹر قطب سرشار تلگوادب ڈاکٹر سجاد بخاری ٹامل ادب ڈاکٹر معین الدین کٹی نے ملیالم ادب ، ڈاکٹر شہناز بنی نے بنگالی ادب اور شیوکمار نظام نے راجستھانی ادب پر مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر قطب سرشار نے اپنے مقالے ’’تلگوادب میں نئے رجحانات‘‘ کے موضوع پر ایک طویل مقالہ پیش کیا۔ جسکا خلاصہ یہ ہے کہ تلگو ادب کی ابتداء بھی اردو کی طرح ترجمہ نگاری سے ہوئی۔ تلگو کے پہلے شاعر منیابھٹو نے تلگو میں مہاربھارت کا سنسکرت سے ترجمہ کیا۔ تلگو زبان اٹھارہ سو برس قدیم زبان ہے۔ ایک ہزار برس تک تلگو ادب مہابھارت، رامائن اور دیومالا کے اثرات سے آزاد انہ ہوسکا۔ اٹھارویں صدی سے تلگو میں سماجی اور سیاسی موضوعات جگہ پانے لگے۔ اس حوالے سے کندوکوری ویریشا لنگم پنتلو گروجاڑا اپاراؤ رائے پرولو کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں تلگو ادب میں سماجی اور سیاسی انقلاب کی تحریکات تلگو ادب کے جدید رجحانات کی صورت میں سامنے آنے لگیں۔ بیسویں صدی، میں سری سری، گنٹور، شیشندر شرما اور ڈاکٹر سی نارائن ریڈی نے تلگو ادب کو عصری حسیت کا ترجمان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مشہور فکشن نگار چلم نے تلگو ادب کو تانیثیت کا ایک وسیع تر موضوع دیا اور اتنا کچھ لکھا کہ پوری پانچ دہوں سے چلم کی تحریروں نے حریت پسند ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ڈاکٹر قطب سرشار کے بعد ڈاکٹر شہناز نبی نے بنگالی ادب معین الدین کٹی نے ملیالم ادب سجاد بخاری نے ٹامل ادب میں نئے رجحانات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر شہناز نبی نے بتایا کہ بنگالی ادب میں مسلمانوں کا نمایاں حصہ رہا ہے کئی مسلمان مشہور شاعر ہیں۔ بنگالی ادب کی وسعت کو سمیٹنا بہت مشکل کام ہے۔ صرف اکیلے رابندر ناتھ ٹیگور پر ہزاروں صفحات لکھے جاسکتے ہیں اور قاضی نذر السلام کو عالمی سطح پر سب ہی جانتے ہیں۔ جن کی شاعری سے مخدوم محی الدین بھی بہت متاثر تھے۔ آخر میں زبیر رضوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو اکیڈیمی کرناٹک کے صدر جناب خلیل مامون نے یہ سمینار منعقد کرکے بہت بڑا کام کیا ہے، مقالہ نگاروں کا انتخاب بھی واقعی حیرت انگیز ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب کی جانکاری نے اردو والوں کیلئے نئے راستے پیدا کردےئے ہیں۔ گویانٹی کھڑکیاں کھول دی ہیں۔
پہلا اجلاس ڈاکٹر عتیق اللہ کی صدارت میں ہوا۔ اس میں تین مقالہ نگاروں کشمیر کے پروفیسر شفیع شوق، گجرات کے نامور شاعر جینت پرمار اور پنجاب کے ڈاکٹر عزیز پری ہار نے حصہ لیا۔ کشمیر کے پروفیسرشفیع شوق نے کشمیری ادب میں نئے رجحانات کے موضوع پر مقالہ پیش کرنے کی بجائے ہندوستانی جامعات کے بددیانت اور مفاد پرست کلچر کے موضوع پر بیسیوں کڑوی سچائیوں پر سے پردہ اٹھایا اور گجرات کے جینت پرمار نے مقررہ موضوع پر مقالہ پیش نہیں کیا بلکہ چند بہت ہی عمدہ نظمیں سنا ڈالیں۔ صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ جینت پرمار کی نظموں نے انہیں بہت متاثر کیا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خالد جاوید نے کی۔ ڈاکٹر کرامت علی کرامت نے اریا ادب پر اور بنگلور کے ممتاز شاعر و مترجم مہر منصور نے کنڑا ادب میں نئے رجحانات پر مقالے پڑھے۔ البتہ بنگلور کے ماہر منصور نے کنڑا ادب میں نئے رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے بہت سارے انکشافات کئے۔ انہوں نے بتایا کہ کنڑا زبان دو ہزار برس قدیم ہے۔ دراوڑ زبانوں میں یہ دسری زبان ہے جسے کلاسیکل زبان کا درجہ دیا گیا۔ 1926ء کے بعد اس زبان نے اپنے جلوے بکھیرنے شروع کردئے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس زبان میں رومانی شاعری ہوتی رہی ہے کہ وی پٹپا اور بیندرے نے کنڑا ادب کو نیا رخ دیا۔ کنڑا ادب میں مسلمانوں کا رول بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر اکبر علی رمضان درگاہ عبدالرشید، محمد حنیف اور خواتین میں رضیہ بانو مشتاق اور سارہ ابو بکر افسانہ نگاری اور شاعری کے وسیلے سے اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ کنڑا ادب کے لئے اب تک (7) گین پیتھ انعام اور پچاس ساہتیہ اکیڈیمی انعامات حاصل ہوئے ہیں۔ صدر اجلاس ڈاکٹر خالد جاوید نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام تر مقالے بڑی عرق ریزی سے لکھے گئے ہیں۔ اس بات کا اندازہ مقالوں میں شامل معلوماتی مواد سے ہوتا ہے۔
6مارچ تا 8 مارچ تین روزہ سمینار کے کل چھ اجلاسوں میں کشمیر سے کنیا کماری تک ملک کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے 19 مقالے نگاروں کے منجملہ 17 مقالہ نگاروں نے علاقائی زبانوں کے ادب کے عصری رجحانات پر سیر حاصل مقالے پیش کئے۔ باقی دونوں میں کشمیر کے شفیع شوق اور گجرات کے جینت پرمار موضوع سے گریز کرتے ہوئے بالترتیب مضمون اور نظمیں پیش کیں۔ آخر میں پروفیسر شمیم حنفی سے اختتامی خطبہ دینے کی خواہش کی گئی ۔ پروفیسر شمیم نے بہت تفصیلی اور جامع خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے جہاں کی تہذیبوں کے اختلاف میں اختلاط کا رنگ شامل ہے۔ یہ ملک ایک تجربہ گاہ ہے اس سمینار کے ذریعہ اہل اردو نے ملک کی دیگر زبانوں کے ادب کے بارے میں خاصی معلومات حاصل کرلی ہیں۔ خاص کر یہ کہ شمالی ہندوستان میں ارضیت کم ہے جو جنوبی ہند کے ادب میں نظر آتی ہے۔
اسی روز رات 10.30 بجے کرناٹک اردو اکیڈیمی بنگلور نے ایک عظیم الشان کل ہند مشاعرے کا اہتمام بمقام الامین ہائی اسکول گراؤنڈس نزد لال باغ بنگلور کیا۔ جہاں مہمان خصوصی الامین تحریک بنگلور کے بانی ڈاکٹر ممتاز احمد خاں رہے دیگر مہمانوں میں پروفیسر وارث علوی، پروفیسر شمیم حنفی بھی موجود تھے۔ مشاعرے کے آغاز سے پہلے مغربی بنگال اردو اکیڈیمی کی صدر نشین محترمہ شہناز نبی کے شعری مجموعے ’’پس دیوار گریہ‘‘ کی رسم اجراء پروفیسر وارث علوی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ بعد ازاں صدر نشین کرناٹک اردو اکیڈیمی خلیل مامون نے اپنے خطاب میں کہا کہ اکیڈیمی کی صدارت پر فائز ہونے کے بعد میں نے دہلی اردو اکیڈیمی کے طرز پر اردو تعلیم اور ادب سے جڑے لوگوں کے مسائل اور احساسات کو وزیر اعلی، گورنر اور متعلقہ وزراء تک پہنچانے کوشش جاری رکھی ہے۔ حالانکہ اردو تعلیم کا مسئلہ حکومت کا مسئلہ ہے۔ اردو اکیڈیمی کے بجٹ میں اگر اضافہ ہوتا ہے تو مختلف میدانوں میں کام کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ فی الحال اکیڈیمی پرائمری اور ثانوی سطح کے اسکولوں کے مقابلے منعقد کئے ہیں۔ ضلع اور تعلقہ جات کی سطح پر کوآرڈینیٹر کا تقرر کرکے اردو کی خدمات کی جاری ہیں۔ خلیل مامون کی تقریر کے بعد بنگلور کے نامور شاعر شفیق عابدی نے مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالی سب سے پہلے خلیل مامون نے اردو کے ممتاز شاعر شہریار کا خیر مقدم کیا۔ بعد ازاں کنڑا کے نامور شاعر نقاد اور پروفیسر ایچ ایس شیوپرکاش کو دعوت سخن دی گئی۔ انہوں نے دو تین نظمیں کنڑا زبان میں سنائیں۔ جن کا اردو ترجمہ ماہر منصور نے کیا۔ شیوپرکاش کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے لگ بھگ (53) (شعراء بشمول مقامی شعراء نے کلام سنایا۔ طالب خوندمیری، ڈاکٹر قطب سرشار، سردار سلیم اور تقیہ غزل نے حیدرآباد کی نمائندگی کی۔ ان کے علاوہ نیاز الدین نیاز، شاہد مدراسی (چنٹی)، شہناز نبی (کلکتہ)، ماجد دیوبندی (ولی)، زبیر رضوی دہلی، شاہد ماہلی دہلی، شہریار علی گڑھ ، شفیع شوق سری نگر، نسرین نقاش، سری نگر، محمد علوی احمد آباد، انجم بارہ بنکوی، عزم شاکری ایٹا نعیم اختر برہان پور، جینت پرمار احمد آباد، کاشف نظام جودھ پور، علیم صبا نویدی چنٹی، بشر نواز اورنگ آباد، احمد محفوظ دلی، شمیم حنفی دلی، کرامت علی کرامت اڑیسہ، عزیز پریہار پنجاب، کے علاوہ ریاست کرناٹک کے شعراء محب کوثر، سلیمان خمار، سردار ایاغ، اکرام نقاش، روشن خان زارہ، مظہر محی الدین، شفیق عابدی، اختر علوی، ساجد حمید، خالد سعید، فیاض شکیب، ماہر منصور، منیر احمد جامی، ریاض احمد راہی فدائی، شائستہ یوسف، راز امتیاز، اسد اعجاز اور دیگر شعراء نے کلام سنایا اورمشاعرہ رات 2.30 بجے مشاعرہ اختتام کو پہنچا۔

Share
Share
Share