انشائیہ : کلچر۔ ۔ ۔ ۔ سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی

Share

Syed Arif

انشائیہ : کلچر

سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :

انکل انکل ،،، یہ کلچر کا کیا مطلب ہے۔۔۔ پڑوس میں بسنے والے برخوردار پپو میاں نے اچانک ہماری بیٹھک میں‌جاری محفل میں آکر جب یہ سوال داغا تو بھائی رستم کے منہ سے کھاتے کھاتے سموسہ ہی چھوٹ گیا، انہیں یہ لگا کہ یہ سوال بس انہی سے پوچھا گیا ہے۔۔ پھر انکے ہاتھ اور اعصاب یکایک ساتھ کیوں نہ چھوڑ دیتے ۔۔۔
بیٹھک میں ایک سناٹا سا چھاگیا۔۔۔

سبھی ایکدوسرے کا منہ تکنے اور جیسے دل ہی دل میں لاحول پڑھنےلگے۔۔۔ بچہ بڑوں کو چھوٹا ہوتا دیکھ کر وہیں رک کر انہیں دلچسپی سےدیکھنے لگا۔۔۔
جب تین تین بار ہرایک کا منہ تکا جاچکا تھا اور قریب تھا کہ پپو میاں اس بے تحاشا فکری افلاس پہ تشویش کا اظہار کرے اور برجستہ ملال کربیٹھے تبھی جمن بول پڑے
” یہ بھی بھلا کوئی مشکل سوال ہے۔۔۔ ”
سب نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ سب کی عزت خطرے میں آگئی ہوئی تھی اور اب جمن اسے بچاتے معلوم ہورہےتھے۔۔۔
” میاں کوئی مشکل سوال کرو اسکا جواب تو ہمارے بھائی رشید بھی دے سکتے ہیں۔۔
عین اسی وقت بھائی رشید چائے کی خالی پیالیاں اٹھاتے پھسل کر گرپڑے۔۔۔ گرتے گرتے یہ پیالیاں انکے کرتے کے دامن کو بھی داغدار کرگئیں اور وہ ان داغوں کومٹانے غسلخانے میں جاگھسے ادھر ادھر ہوجانے کے اس نادر موقع سے وہ بھلا کیوں فائدہ نہ اٹھاتے۔۔۔
اتنا سب کچھ ہوجانے پر بھی پپو اپنا سوال تھامےوہیں کھڑا تھا۔۔۔ اسکی اس بے حسی پہ سبھی نے اسے غصے سے گھورا ،،،
"کیا فضول اور فالتو سوال اٹھا لاتے ہو اور سب کو تنگ کرتے پھرتے ہو۔۔۔” تابش دہاڑے
"لیکن انکل اس میں فضول والی کیا بات ہے۔۔” پپو میاں نے ستفسار کیا
” لیجیئے اب ایک اور سوال آگیا” جمن بڑبڑائے وہ اس نئی افتاد کیلیئے تیارنہ تھے
” بھئی بتا ڈالو نا اس معمولی سے سوال کا جواب۔۔۔ ” بھائی رشید نے کمرے کے باہر سے ہی ہانک لگائی،، وہ اب اندر آنے میں دلچسپی نہ رکھتے تھے
عاجز آکر تابش نے پپو میاں سے کہا
"لو میں بتاتا ہوں کہ کلچر کیا ہے۔۔۔ ” یہ کہ کر تابش نے کمرے میں فاتحانہ نظر دوڑائی اور سلسلہ کلام جاری رکھا ” یہ کلچر اصل میں کسی ملک کے لوگوں کی زبان اور لباس ہوتا ہے”۔۔۔
” نہیں میرا خیال ہے کہ رہنے سہنے کا طریقہ کلچر کہلاتا ہے ” رشید منمنائے
” یہ سب فروعی باتیں ہیں، اصل میں کسی ملک کا مذہب ہی وہاں کا کلچر ہوتا ہے” ابکےخواجہ کے دہاڑنے کی باری تھی ۔۔۔
"انکل دنیا کے بہت سے ملکوں میں بہت سے مذہبوں کے لوگ رہتے ہیں الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اسی طرح ہمارے ملک کے کے کئی صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کی زبانیں اور لباس بھی الگ الگ ہیں۔۔۔ تو کیا دنیا بھر کے ملکوں کا اور ہمارے ملک کا کوئی ایک کلچر نہیں ہے۔۔۔؟” پپو میاں کے اس ضمنی سوال نے تابش میاں کے اوسان خطا کردیئے
۔۔۔” میاں ایک تو تم سوال بہت کرتے ہو۔۔” تابش بہت بےبسی سے غرائے۔۔
” کیا صرف 2 سوالوں کو بہت کہا جاسکتا ہے۔۔” پپو میاں نے ترنت ایک اور سوال اٹھادیا،،۔۔
اب تابش ایک ایسی ہزیمت سے دوچار تھے کہ جس میں اہل بیٹھک کی مدد لازمی نا ملتی تو نروس بریک ڈاؤن کا احتمال تھا۔۔۔
” پپو میاں ابھی تم جاؤ۔۔ بعد میں آنا ، ابھی ذرا کچھ اہم مسئلے پہ بات ہورہی ہے ۔۔” خوجہ منمنائے۔۔ پپو انہی کا بھتیجا تھا اور انکی نسبت سے ہم سب کا بھتیجا، خواجہ ڈیپریشن کے مریض تھے اسلیئے ان سے ایسے سوالات مہلک ہوسکتے تھے۔۔۔ بچے نے "براہ اقربا پروری” اسی لیئے انکی طرف رجوع ہی نا کیا تھا،،،
” پھر کب آجاؤں۔۔” بچے نے ہم سب کو ترس کھانے والے انداز میں گویا رعایت سی دی پھر مزید کہنے لگا
"دراصل مجھے کل اسکول سے "کلچر” کے عنون سے ایک مضمون لکھنے کو ملا ہے۔۔ اور تین روز میں دینا ہے”۔۔۔
"اررررےےے اس میں ایسا کیا مسئلہ ہے،،، تم کل آکر ضرور لے جانا اپنا مضمون پپو میاں۔۔” چچا (خواجہ) نے بھتیجے پہ خاص شفقت فرمائی تھی کیونکہ اچانک انکے پیش نظر بے روزگار پھرتے ادیب عدنان کڑکی کی ممکنہ مددگاری آگئی تھی ،،
پپو میاں کے واپس جاتے ہی کمرے میں ہر طرف سکون کی اجتماعی سانس لی گئی ،،، سب کے چہروں پہ رونق لوٹ آئی ،،، سب پہ ایک دوسرے کی ‘علمیت آشکار’ ہو چکی تھی ،،، بھائی رستم نے نارمل صورتحال کی یوں بحالی پہ باآواز بلند خدا کا شکر ادا کیا اور گلا کھنکھار کر اپنی پاٹ دار آواز میں بولے ،،، ویسے پپو میاں کے اس سوال کے بعد ہمیں یہ جاننے کی کوشش تو کرنی چاہیئے نا کہ کلچر آخر ہوتا کیا ہے ،،،
جعفر جو ابتک بہت دیر سے چپ بیٹھے تھے اچانک بول اٹھے ،،، یار یہ کلچر ولچر سب فضول باتیں ہیں کیونکہ انہیں جاننے سے یا نہ جاننے سے کسی کلچر کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ،،، یہ سب دانشوروں کےچھوڑے ہوئے شوشے ہیں جنہیں اصطلاحات کے نام پہ وہ ہمیں مرعوب کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں یہ کلچر انہی میں سے ایک ہے ،،،
رشید نے حوصلہ پاکر جعفر کی بات کی یوں تائید کی ۔۔۔ "ہاں بھئی یہ دانشور ہر زمانے میں بہت دقت اور بڑی مشکل سے آسان بات کو پیچیدہ بنانے میں لگے رہتے ہیں ،،، کلچر بھی اک ایسی ہی آسان بات ہے جسے پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔۔۔!!”
اس پہ رستم لپک کے بولے ” تو آپ ہی وہ کلچر کے بارے میں وہ آسان بات کیوں نہیں بتا دیتے کہ جسے دانشوروں نے مشکل بنادیا ہے،،،”
رستم کی اس مداخلت پہ جعفر بوکھلا کر بولے ” میاں آسان بات یہ ہے کہ کلچر میں سب کچھ شامل ہے اور جونہیں بھی ہے وہ بھی بیشک ڈال لو تو بھی کلچر کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ نہ اسکا کوئی منہ ہے نہ آنکھیں یا ہاتھ پیر ،،، کہیں کوئی کلچر ہو یہ نا ہو ،،، وہاں جو کام جیسے ہورہا ہے ویسے ہی چلتا رہے گا-۔۔۔!”
کلچر کلچر کی اس تکرار سے سبھی تنگ آچلے تھے اور ماحول کے بوجھل پن کو ختم کرنے کیلیئے لازم تھا کہ کوئی اور بات کی جائے سو خواجہ صاحب نے کہا کہ شام کو عدنان کڑکی سے رابطہ کرکے اس موضوع پہ کچھ لکھ دینے کو کہوں گا،،، اسکی جیب بھی کچھ گرم ہوجائے گی اور پپو میاں کے سامنے ہم سب کی عزت بھی رہ جائے گی ۔۔۔ اس پہ سب نے یکبارگی آنکھیں بند کرکے دوبارہ سکون کی اجتماعی سانس لی اور کل تک کے لیئے یہ محفل برخواست ہوگئی
عدنان کڑکی اک ایسا گشتی قلمکار تھا کہ جو کسی بھی وقت اور کہیں بھی، کچھ بھی لکھنے پہ مائل رہتا تھا،،،اور ہروقت کان پہ قلم رکھے گھوما کرتا تھا ۔۔ ایم اے اردو ادب ہونے کے باوجود اسکی طبیعت کبھی ملازمت کی طرف رغبت نا ہوئی اور یونہی دوستوں اور "ضررورتمندوں” کے بل پہ اک عجب بےڈھب سی زندگی سے الجھا ہوا تھا۔۔۔ کبھی اسکی جیب خالی ہوتی تھی تو کبھی بھری ہوئی لیکن اپنے کام کا کوئی نہ کوئی معاوضہ وہ ضرور وصول لیا کرتا تھا- پہلے سستے دنوں میں اسکی علمی مشقت کی اجرت ایک مسکا بند اور دودھ پتی کی چائےہوا کرتی تھی لیکن اب ترقی پاکر وہ گولڈلیف کا پیکٹ بھی ساتھ ہی منگوا لیا کرتا تھا۔۔۔ اگر کام زیادہ بڑا ہو تو دھڑلے سے کھانا بھی طلب کرلیتا تھا۔۔۔ وہ دکانوں کے تھڑوں پہ اور چائے خانوں کی بینچوں پہ اکثر ہی کہیں نا کہیں رکھا ہوا ہوتا تھا ۔۔۔ ڈھوھونڈنے سے مشکل سے ہاتھ لگتا تھا اور بغیر ڈھونڈے ہر وقت دستیاب تھا۔۔۔
پپو میاں کی جانب سے "ہمارا کلچر” کے عنوان سے ایک مضمون فٹافٹ لکھنے کی فرمائش کو ٹالنا بیحد مشکل تھا کیونکہ وہ خواجہ صاحب کا بھتیجا تھا اور اس لحاظ سے ‘جگت بھتیجا’ تھا اور تھا بھی بہت تیز اور چلبلا سو سبھی ‘منڈلی’ کی توقیر خطرے میں تھی اور ایسے میں عدنان سے رجوع کیاجانا ناگزیر تھا۔۔۔
عدنان چونکہ لکھنے کا دھتی تھا اور اسکی اجرت وصولنے میں ذرا نہ شرماتا تھا لہٰذا اسنے پوری مستعدی سے یہ مضمون لکھنے کی حامی بھرلی ،،، لیکن اس سے ایک بہت بڑی چوک ہوگئی ،،، ایک غیر معمولی غلطی ،،، کیونکہ جب اگلے دن وہ مضمون لکھ کر لائے تو سرنامے پہ عنوان ‘کلچر ‘ کے بجائے ‘کلچہ’ لکھا ہوا تھا ۔۔۔ اس پہ سبھی اہل محفل کے منہ لٹک گئے ۔۔۔ عدنان دراصل نہایت عجلت باز آدمی ہیں اور بات صحیح طرح نہ سننے کی وجہ سے مضمون کا عنوان کلچر کے بجائے ” کلچہ” سمجھ بیٹھے اور اس پہ دوسرے ہی دن فوری ادائیگی کی امید میں شتابی سے ایک گرماگرم مضمون لکھ لائے ،،،
سبھی ان کی اس حرکت پہ بہت پریشان ہوئے لیکن وہ بولے ،،، "بھائیو ، آپ کا غم اپنی جگہ لیکن میرا یہ مضمون ذرا پڑھ تو لیں ” ۔۔۔ جس پہ ان کے ہاتھ سے صفحات لے کر جعفر نے بلند آواز میں سب مضمون پڑھ ڈالا ،،، ان کی بے پایاں تحریری صلاحیت اس مضمون میں پوری طرح جلوہ گر تھی اور وہ ساری تحریر تشبیہات استعارات اور محاوروں کی ندرت سے آراستہ تھی ۔۔۔ سبھی عش عش کر اٹھے لیکن زیادہ عمدہ اور بہت حیرت کی بات اس مضمون میں یہ تھی کہ ‘کلچہ’ کے موضوع پہ لکھا گیا یہ مضمون ذراسی تبدیلیوں کے بعد ‘ کلچر’ کے موضوع کیلیئے بھی مکمل فٹ” تھا اور اسے باآسانی پپو میاں کو دیا جاسکتا تھا اور اس پہ اہل محفل میں کوئی دو رائے نہیں تھیں ۔۔۔

Share
Share
Share