علی سردارجعفری : ایک اورزاویے سے ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرابوبکرعباد

Share
ali-sardar-jafri
علی سردار جعفری

علی سردارجعفری :ایک اور زاویے سے

ابوبکرعباد
پروفیسرشعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی۔
ای میل :
موبائل : 09810532735

علی سردار جعفری ایک معتبر شاعر،اچھے صحافی ، ڈرامہ نگار، ناقد، ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن،افسانہ نگار، اور ٹیلی ویژن کی دنیا کے رمزشنا س تھے۔میر، کبیر، غالب اوراقبال پرانھوں نے قابل ذکر کام کیا ہے۔ ان کی کتاب’’ترقی پسند تحریک کی نصف صدی ‘‘ اورشاعری کی لغت ’’سرمایۂ سخن‘‘ کو حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔شعروادب کے انتخاب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اورمافی الضمیر ادا کرنے کے بیشتر وسائل کے سلیقے مند اظہار سے واقف تھے۔کلام میرکے علاوہ پریم چند سے لے کرسید محمد اشرف تک کے افسانوں کاانتخاب، ’نیا ادب ‘اور’گفتگو‘ کی ادارت ، شاعروں کے کوائف پر مبنی ٹی وی سیریل ’کہکشاں‘ اور اِپٹا کے بینر تلے کھیلے گئے ان کے ڈرامے ان کی مختلف النوع دلچسپیوں اور صلاحیتوں کی غمازی کرتے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں اور بعض ادبی اور تحریکی فیصلوں میں ایک نوع کا تحکم ان کے مزاج کی شدت کی عکاسی کرتاہے۔

وہ ایک سخت گیرترقی پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں جس کااعتراف سجاد ظہیر نے بھی اپنی کتاب’روشنائی‘ میں کیا ہے۔ اور شاید یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کے اس رویے سے کسی حد تک ان کی اپنی شخصیت مجروح ہوئی اور کافی حد تک تحریک کو نقصان بھی پہنچا۔ کہنے کی اجازت دیجیے کہ مزاج کی یہ شدت اور شعرو ادب کی تنقید کا پیمانہ خود فکر شاعر اور خودفہم ناقد سے زیادہ ایک مرعوب یا متاثرشخص کا تھا، جو فیض کی نظم ’صبح آزادی‘ میں کوئی واضح نصب العین ڈھونڈنے اورجمالیاتی حسن دیکھنے کا منکر اور شاہین سے متعلق اقبال کے شعر کومحض تخریبی عمل ثابت کرنے پرمصر تھا۔
سردارجعفری کا بھی کیا قصور؟تب لینن اوراشتراکیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ، زمانہ ادبی انقلاب کے عروج کا تھا، تحریک کے منشور(اعلان نامے)کو صحیفۂ آسمانی کی سی منزلت حاصل تھی اور ترقی پسندتحریک کے نوجوانوں کی ٹولی عمر کی جس منزل سے گزر رہی تھی اس میں دوستوئفسکی، ٹالسٹائی، گورکی اور اینگلز کے تہہ دارادبی فکر کے مقابلے میں لینن کا یک رخا اورجانبدارانہ شعروادب کا یہ تصور ’reactionary ذہنوں کوزیادہ راس آرہا تھاکہ :’’ادب کو صرف پارٹی کا ادب ہونا چاہیے، پارٹی کے ادب میں یقین نہ رکھنے والے (غیر جانبدار) ادیبوں کا ناس ہو۔‘‘ (بحوالہ نظر اور نظریے، آل احمد سرور، ص 248)چنانچے ہوایہ کہ سردار جعفری بھی شعروادب کو خیر وشر اور سیاہ وسفید کے خانوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، اوران کی واضح اور واشگاف تخلیق پر اصراربھی کرنے لگے۔ انھوں نے بڑے سپاٹ انداز میں رجائیت کو اچھا اور قنوطیت کو برا قرار دیا، اورادب میں زندگی کی نئی تشکیل، نئی تنظیم اور نئی تخلیق کے پہلو کو غیر اہم قرار دے کرمیزانِ فن کا ’ادب سماج کا آئینہ ہے‘ والا پلڑا ضرورت سے زیادہ جھکا نے کے قائل رہے ، نتیجتاًان کے نزدیک شعرو ادب کی حیثیت ایک خود مکتفی حقیقت کے بجائے سماجی دستاویز یا سیاسی آئڈیلزم کی ہوکررہ گئی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی شاعری اور نثر پارے ادبی مقاصد کے بجائے اشتراکی مقاصد پر زیادہ مبنی ہیں۔ جب کہ ان کے جن معاصرین نے نظریاتی وابستگی کے ساتھ فن کی لطافت ونزاکت کو بھی قائم رکھاان کی تخلیق وتنقید کہیں زیادہ اثر انگیز، توانا اور ہر دلعزیز ثابت ہوئیں۔ سامنے کی مثالیں عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانے، فیض احمد فیض کی شاعری اورپروفیسر محمد حسن کی تنقید اور ان کے ڈرامے ہیں۔
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ سچا فنکارنہ تو کسی سے زیادہ دیر تک مرعوب رہ سکتا ہے نہ تادیر کسی کے حلقۂ اثر میں۔ وہ اپنی راہ آپ بناتا ہے، تصورات پرنظر ثانی اورفکر کی تشکیل نو کرتا ہے اور فن کے حسن ولطافت اور اس کی فنی نزاکتوں کا بہر طور معترف بھی ہوتا ہے۔ یہ افلاطون کے شاگرد ارسطو نے بھی کیاتھا اور لینن سے متاثر سردار جعفری نے بھی کیا۔ سو، سردار جعفری کی بعد کی تحریریں شاہد ہیں کہ انھوں نے اپنے کئی ابتدائی خیالات سے رجوع کیا، فکر کی تشکیل نو کی اور اپنی تحریروں میں نظریات کی موج تہہ نشیں کے ساتھ ساتھ اسلوب کی چاشنی اور فنی جمالیات پر بھی توجہ دی۔
تصوف کو انھوں نے اپنی کتاب ’ترقی پسند ادب ‘ میں جاگیردارانہ معاشرے کی فرسودہ روایت کے حوالے سے دیکھا تھا بعد میں یہی تصوف ان کے یہاں عوامی اقدار کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔ شروع میں انھوں نے نہ صرف اقبال کے حرکت وعمل کے استعارے شاہین کومسولینی اورنپولین سے تعبیر کیا تھا بلکہ اقبال کو بھی ہیرو پرست اور بورژوا تصورات کا حامل بتایا تھا،لیکن کچھ عرصے بعدوہ انھیں عالمی شاعر قرار دیتے اور یہاں تک لکھتے ہیں کہ :’’اقبال نے ان تصورات سے اردو شاعری کو نئی سطح پر پہنچا دیااور آج یہ سب تصورات ترقی پسند شاعر کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہے ہیں، .. . اقبال کے بغیر ہم اپنی موجودہ شاعری کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔‘‘ (ترقی پسند ادب، انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، 1951ص80) ساٹھ کی دہائی تک وہ مشرق کے مقابلے میں مغرب کوسرمایہ دار اور ظالم کہہ کر اس کی سخت مخالفت کرتے تھے لیکن1964میں’’مشرق ومغرب‘‘ نظم لکھ کر دونوں کی وحدت کے گیت گائے،جدیدیت کی بعض باتوں سے بھی انھوں نے اتفاق کیا، اسی طرح وہ ماضی اور ماضی کے ادب سے خوش نہ تھے کہ ان پر انھیں جمودکی سیلن کا گمان ہوتا تھا، لیکن کلاسکس پر کام کرتے ہوئے وہ دونوں کی اہمیت کے معترف ہوئے۔ اورحد تو یہ ہے کہ سپاٹ اندازاوربراہ راست تخاطب کے اس شیدائی نے ایک طرف اپنی شاعری کے حرم میں تشبیہ واستعارے کے ساتھ اشارے کنائےاورعلامت تک کو داخلے کی اجازت دی تو دوسری جانب وہ سادہ نثرکو شعری حسن عطا کرنے کے خیال سے بھی غافل نہ رہے۔ 1960کے بعد کی ان کی شاعری سے اس نوع کی وافرمثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں مثلاً ’ہاتھوں کا ترانہ‘، تین شرابی‘،’لمحوں کے چراغ‘، کوچۂ چاک گریباں‘وغیرہ۔ایسے ہی ان کے ڈراموں، افسانوں اور دوسری تحریروں میں خوبصورت اور رنگین نثرکے نمونے بکثرت موجودہیں۔ انھوں نے 1970کے آس پاس ایک مضمون ’’لمحوں کے چراغ(موت زندگی کے آئینے میں)‘‘ لکھا تھا جو جنوری تا اپریل 1996رسالہ ’’آجکل‘‘ دہلی میں شائع ہوا تھا، اس مضمون میں زندگی اور موت کا فلسفہ بھی ہے، اورحیات وموت کے اسلامی تصور پر ان کے مثبت رویے کا اظہار بھی ۔ مضمون کے بعض حصے تمثیل کی صورت کے لاجواب نثر پارے ہیں۔ جن میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ بیان کی جارہی ہیں۔یوں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک ہی قسم کے پھولوں پر چھٹکے ہوئے مختلف رنگوں کو ، یا شاخِ نازک سے لپٹی ہوئی کومل سی امر بیل کو۔ یہ اپنی نوع کا ایک بالکل نیا تجربہ ہے ، ممکن ہے یہ تجربہ غیر شعوری طور پر وقوع پذیر ہوگیا ہوکہ سردار جعفری کی منشا محض تمثیلی یا تشبیہی نوع کے متن کی تخلیق رہی ہو۔لیکن جوبھی ہو ،ہے یہ ایک نئی چیز۔یہاں تمثیل کی طرح ایک قصہ متن کی سطح پراور دوسرا بین السطوربیان نہیں ہورہا ہے ،بلکہ دونوں ساتھ ساتھ یوں بیان ہورہے ہیں جیسے ایک ہی صفحے پر دورنگ کی روشنائی سے دو کہانیاں یوں لکھی ہوئی ہوں کہ ڈیڑھ سطر ایک رنگ سے اورپھراگلی ڈیڑھ سطر دوسرے رنگ سے ۔ بھلے ہی اس تجربے کو کوئی نیا نام نہ دیا جاسکے ، یا فی الوقت اسے کسی صنف کے خانے میں فٹ کرنا ممکن نہ ہو، لیکن اسے ایک نئے اور عمدہ فن پارے کی حیثیت سے قبول کرنے میں حرج بھی کیا ہے۔ شاعرانہ حسن سے مملو نثر پارے کے اس نئے تجربے کوملاحظہ کیجیے:
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود زندگی موت کا باعث ہے، زمین میں نیا بیج پڑتا ہے اور وہ آنچل پھیلا کر ا س بیج کو لے لیتی ہے دو نوجوان محبت کرنے والے ایک ہوجاتے ہیں اور ایک چھوٹا سا گھر بناتے ہیں۔ زمین سے کونپل پھوٹتی ہے ، ننھا سا پودا مٹی کے پردوں کو ہٹا کر سورج کی طرف ہمکتا ہے۔ نئے گھر میں نئے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پودا بڑھنے لگتا ہے۔ اس کی لچکدار شاخیں ہر طرف ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ہری ہری پتیاں دھوپ میں ہنستی ہیں، ہوا میں تالیاں بجاتی ہیں۔ دنیا کے سارے غم ہیچ ہیں ۔ بچے جوان ہورہے ہیں۔ دوڑ کر ماں سے لپٹ رہے ہیں۔ باپ سے اٹھلا رہے ہیں۔ گھر میں قہقہے گونج رہے ہیں۔ ننھا ساپودا بڑھ کر تناور درخت بن گیا ہے۔ اس میں پھول آرہے ہیں۔ جوان لڑکے لڑکیاں بوڑھے ماں باپ کی آنکھ کا نور ہیں۔ وہ پھولوں سے ڈھکی ہوئی شاخوں کی طرح لہرا رہے ہیں۔ کچھ پھولوں کو ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں۔ کچھ شاخوں میں ننھے ننھے پھل بن جاتے ہیں۔ سورج کی کرنیں انھیں رنگ اوررس دیتی ہیں۔ ہوائیں پنکھا جھلتی ہیں۔ بارش انھیں نہلاتی ہے۔ درخت کی شاخیں اپنے پھلوں کے بار سے جھک گئی ہیں۔ بہت سے ہاتھ پھلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ٹوکریاں مہک رہی ہیں۔ گودیں بھری ہوئی ہیں۔ لیکن شاخوں کے ہاتھ خالی ہیں۔ انھوں نے اپنی ساری مسرت لٹا دی ہے۔ گھر میں شادیانے بج رہے ہیں۔ روشن چوکیاں اور شہنائیاں۔ دولھے کے ماتھے پر سہرا ہے۔ دلہن کے ماتھے پر افشاں چمک رہی ہے۔ جوڑا مہک رہا ہے۔ بچے جوان ہوکر اپنا الگ گھر بسانے جا رہے ہیں۔ اور نئے گھر بن رہے ہیں اور پرانے گھر اجڑ رہے ہیں۔ نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، نئے پودے بڑے ہورہے ہیں۔ پرانے درختوں کی شاخیں بے برگ وبار ہوتی جارہی ہیں۔ اب نہ پھول آتے ہیں نہ پھل۔ نہ چڑیاں گاتی ہیں، نہ تتلیاں اڑتی ہیں۔ بس دھوپ، ہوا اور کھلا آسمان۔ بھرا گھر خالی ہوگیا ہے۔ اسے موت نے نہیں زندگی کے ہاتھوں نے چھوا ہے۔ دو بوڑھے جو اب بچوں کی طرح محبت کرتے ہیں، گھر میں اکیلے ہیں، جس طرح وہ پیار کرتے ہیں، کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک اداسی جس پر مسرت نے سونے چاندی کے ورق چڑھا رکھے ہیں۔ ہر گھر ہر باغ سے زندگی اسی طرح گزرتی ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اورکوئی اس گزرتی، ہنستی ، کھیلتی زندگی کوپکڑ نہیں سکتا۔ روک نہیں سکتا۔ ‘‘(آجکل ، نئی دہلی، مارچ 1996)
چار قسطوں میں شائع ہونے والے مضمون کا یہ اقتباس اپنے آپ میں ایک مکمل فن پارہ ہے۔ چاہیں تو اسے زندگی کے سفر، اس کے مختلف پڑاؤاور منزل پرپہنچ جانے کے بعد پھر سے ایک نئے سفر کے آغاز کی کہانی سمجھیںیا زندگی کے کبھی نہ ختم ہونے والے تسلسل کا فلسفہ، لیکن درحقیقت یہ ایک ایسا فن پارہ ہے جس میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ بیان ہورہی ہیں ۔ ایک بیج، کونپل، پودے، ثمردار پیڑ اوربے برگ وبار شجر کے حوالے سے نباتات کے باغ کی۔ اور دوسری انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک اس کے مختلف عمروں سے گزرنے، رشتوں میں بندھنے، متنوع جذبات وکیفیات کو بھوگنے اور بالآخر فنا کی گود میں کھوکر ایک اور جنم لینے والے بنی نوعِ انسان کی۔ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ چھوٹے چھوٹے بے ساختہ جملوں سے ترتیب دیے ہوئے اس نثر پارے پر شاعری کے حسن اور اس کی خوش آہنگی کا گمان مستزاد ہے۔
سردار جعفری کی نثری تحریروں میں ان کی کتاب ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ کئی اعتبار سے اہم اور قابل ذکر ہے۔ اس کتاب کا تعلق ان کی معروف شناخت یعنی شاعری، ڈرامے ،تنقید اور افسانے سے بالکل الگ ہے۔ جی ہاں یہ سوانح، یادداشتوں، سفر ناموں اور رپورتاژ پر مشتمل چھے مختلف النوع خوبصورت تحریروں کا بظاہر عام سا مجموعہ ہے۔ کتاب ان کے نظریات و رجحانات، خاندانی پس منظر ، تعلیمی صورت حال ، ان کے احباب اور تحریک سے متعلق بعض اہم اور دلچسپ واقعات کا حسین مرقع تو ہے ہی ، ساتھ ہی ان کے قدرے نئے انداز بیان اوربدلے ہوئے اسلوب نگارش کاخوبصورت نمونہ بھی ہے۔ اِن تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ تمام اصناف کے واقعات برتی ہوئی ٹھوس سچائی پر مبنی ہیں جنھیں افسانوی نثر کی روپہلی قبا اس طور پہنائی گئی ہے کہ صبح کاذب کی چاندنی واقعات کے ماہ وانجم کو پوری طرح سے چھپا نے نہ پائے ۔ پہلی تحریر سوانحی حالات سے متعلق ہے :
عمر کے چوالیس سالوں میں ہزاروں دنوں اور ہزاروں راتوں کی شکنیں پڑی ہوئی ہیں اور ہر شکن میں لاکھوں لمحے سورہے ہیں۔ان کو جگانے کی ہمت کس میں ہے۔ قہقہوں کے مرجھائے ہوئے پھول، آنسوؤں کے جمے ہوئے موتی، ابرؤں کی ٹوٹی ہوئی کمانیں، رخساروں کی بجھی ہوئی شمعیں، کتابوں کے پھٹے ہوئے ورق، علم، شعور، رشک، حسد، محبت، نفرت، حماقت ، رعونت سب ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈالے ہوئے ہیں۔ ‘‘(ص، 14)
اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سردار جعفری عمر عزیز کے ستائیس اٹھائیس برسوں کا لیکھا جوکھا کس طور پیش کرنے والے ہیں ۔ کبھی ماضی سے بیزاررہے سردار جعفری اب اپنی ہی ماضی کا بیان ایسی رومان انگیزنثر میں کرتے ہیں کہ ریاست کا برسوں پرانا کھنڈراپنے تمام آسائشی لوازمات کے ساتھ جی اٹھتاہے ، گزرا ہوا عہد آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور قاری مصنف کے لڑکپن کے ساتھ سپنوں کی وادی میں جا پہنچتا ہے ، جہاں’’تھان کے پاس لگا ہوا برگد کا بوڑھا درخت اب بھی پھلتا ہے اورچڑیاں اس کے سرخ رنگ کے پھلوں کو کتر کتر کر زمین پر پھینکتی رہتی ہیں ۔ اوراس کی ٹہنیوں پر لال چونچ کے طوطے ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے ہیں۔ پریاں برگد کے پھول اب بھی چرا لے جاتی ہیں لیکن اب اس بات میں کوئی رومانی کیفیت باقی نہیں ہے۔ ‘‘(لکھنؤکی پانچ راتیں، ص 13)پر سچی بات تو یہ ہے کہ گزران وقت نے واقعات کی رومانی کیفیت بھلے ہی کم کردی ہو،نثر کی رومانیت اپنے شباب پرہے ۔
یاد کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ذہن کو متحرک رکھتاہے اور ماضی کو حسیاتی بالخصوص سمعی اور بصری سطح پر زندہ کردیتاہے،پھر اس میں ایک نوع کی رومانیت تو ہوتی ہی ہے جو اپنے بیان کے لیے میٹھے اور خواب آفریں الفاظ سے زیادہ ہم آہنگی رکھتی ہے ، جو اِس میں بھی ہے ، تاہم یہ تحریرخوبصورت نثر اور حسین یادوں کا عمدہ بیانیہ ہونے کے باوجود ویسی بے ساختگی ، اثر انگیزی ، درد مندی ، اور دل کشی نہیں رکھتی جن سے پروفیسر محمد حسن کی اسی نوع کی تحریربعنوان ’ ’آپ بیتی‘‘ آراستہ ہے۔
’لکھنؤ کی پانچ راتیں ‘پانچ حصوں میں بیان ہوئی ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مجاز کاکردارہر ایک حصے میں موجود ہے۔کسی میں مرکزی کردار کی حیثیت سے ، کسی میں ضمنی کردار کے طورپر۔ یہاں تک کہ وہ جس بیانیے میں محض چند گھڑیوں کے لیے آتا ہے وہاں بھی اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے، بالکل ’امراؤ جان ادا‘ کے لمحاتی کرداروں کی مانند۔ ساتھ ہی اپنی شدت پسندی کے زمانے میں جس فیض اور جذبی کو وہ رجعت پسند تک کہہ گئے تھے ان دونوں کا بھی اس میں محبت بھرا ذکر ہے۔
لکھنؤ کی پہلی رات کے قصے کا سب سے یادگار اور دلچسپ حصہ وہ ہے جب سنیما کے شو کے بعد لوٹتے ہوئے مجاز، سردارجعفری اورسبطِ حسن کااپنے کتے’ نیلسن ‘ کی وجہ سے ایک گورے انگریز سے جھگڑاہوجاتاہے۔ بات بڑھنے کے ساتھ ان کا ایک اورکثرتی جسم والا صحافی دوست ان کی مدد کے لیے وہاں آجاتاہے اور ’’نیا قانون ‘‘ کے منگو کوچوان کی طرح وہ گورے انگریز کی پٹائی شروع کردیتا ہے۔ سردار جعفری اور سبط حسن بیچ بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں لیکن صحافی کا ہاتھ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا، اورمجاز باکسنگ کے ریفری کی طرح ان کے گرد گھوم گھوم کر گورے انگریز پر پڑنے والے ہر گھونسے کی گت پر چٹکی بجا بجا کر ناچ رہے ہیں اور لہک لہک کر اپنے گیت کے یہ دو مصرعے گا رہے ہیں:
بول اری او دھرتی بول
راج سنگھاسن ڈانوا ڈول
تیسری رات میں لکھنؤ کے ماحول ، سردارجعفری کے زمانۂ طالبعلمی کی سیاست، ان کے گرفتار ہونے اور جیل بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ ضمناً ان کے عشق اوران کی محبوبہ کا بھی تذکرہ ہے، جس پر ابہام کا ہلکا سارنگین غبار چھایا ہوا ہے ۔اس میں مصنف نے جگہ جگہ فلیش بیک کی تکنیک سے کا م لے کر جیل کی چہار دیواری کواپنے مزاج کے اعتبار سے وسیع کائنات میں تبدیل کرلیا ہے۔ بقول اصغر گونڈوی:’’بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا؍ وہ پابندِ قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے۔‘‘ سردار جعفری کی شاعرانہ نثر یہاں بھی اپنے جلوے دکھا رہی ہے، بالخصوص منظر نگاری میں۔
’’ پہلی بار معلوم ہوا کہ بیل کا خوبصورت لفظ زنجیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور میری یادوں میں عشق پیچاں کی ہری ہر ی نازک بیلیں پھیل گئیں، جن میں ننھے ننھے سرخ پھولوں کے ہزاروں چراغ جل رہے تھے۔زندگی کتنی حسین ہے۔ہرے بھرے درختوں کے سائے میں پھولوں کی کیاریاں مہک رہی ہیں، گلاب کی ادھ کھلی کلیوں پر شبنم کے قطرے جم گئے ہیں، گھڑوں کا پانی بے حد ٹھنڈا ہے، گھاس پر دور دور تک موتی ہی موتی بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘(ص، 57)
؂ لکھنؤ کی پانچویں رات کا عنوان مجاز کی قبر کے کتبے پر لکھے ہوئے شعر کایہ آخری مصرعہ ہے’’ہم پر ہے ختم شامِ غریبان لکھنؤ۔‘‘ در اصل یہ مجاز کا بے حد خوبصورت، سچا اور اثر انگیز خاکہ ہے۔ اب تک کی چاروں راتوں میں مجاز اپنے دوستوں، چاہنے والوں اور پولس والوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طور موجود تھے، اور اپنی باتوں کی بارش ، دھنک رنگ ہنسی اور دل موہ لینے والے انداز سے بوجھل ماحول کوخوشگوار اور ناسازگار فضا کوسازگار بناتے رہے تھے ۔ لیکن کون جانتا تھا کہ دنیا کو اپنے آگے بازیچۂ اطفال سمجھنے والا یہ جوان شاعراس دنیا سے اتنی جلد بیزار ہوجائے گا۔ اور اُس کے کارن دوستوں سے بھی منھ موڑلے گا۔ یہ تو نہیں معلوم کہ اپنے بے حد عزیز دوست سے محروم ہوکر سردار جعفری پر کیا گزری ہوگی لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ سردار نے مجاز کے خاکے میں ان کی شخصیت کے اَن گنت رنگوں سے ایک نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نیا قالب دھارن کر کے بھی مجاز بالکل ویسے ہی رہے۔ ہنس مکھ، بذلہ سنج، بے فکر، بے نیاز، بے روزگار، خوش مزاج۔ بہترین ساتھی، سرگرم کارکن، انسان دوست، نسائی آزادی کے علمبردار، عاشق ناکام، خوددار، اعصابی تناؤ کے شکار اور زبانِ اردو کو عشق، عاشق اور معشوق کا جدید تصور دینے والے شاعرِخود افکار۔ سردار جعفری نے نئی نسل سے اپنے مرحوم دوست کاتعارف کچھ اس بے تکلفی سے کروایا ہے کہ یہ البیلا شاعر اب بھی گاہے بہ گاہے چاہنے والوں کے پاس آدھمکتاہے، اُن سے محو کلام ہوتا ہے، خوش گپیاں کرتا ہے، اورپھر اچانک انھیں تنہا اور اداس چھوڑ کر نہ جانے کون سی دنیا میں غائب ہو جاتا ہے۔ یہی توسردار کے لکھے اس خاکے کا سحر ہے،جادو ہے۔
اس مجموعے میں جعفری کے تین سفر نامے ہیں ’خال محبوب اور امن عالم‘ ،’ذوق تعمیر‘ اور گردش پیمانۂ رنگ‘۔ تینوں سفر نامے کمزور ہیں۔ دوسرے سفرنامے میں تو کسی حدتک ملک یا گھر سے باہر ہونے کا گمان بھی ہوتا ہے، باقی دونوں بے دلی سے لکھی ہوئی یادداشت کا احساس کراتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محض چند ذاتی پسند کی چیزوں کی زیارت اور ان کے ذکرکے مقابلے میں ان دیکھی دنیا کی گلی کوچے، وہاں کے لوگ باگ، ان کی تہذیب وثقافت اور فطرت کے رنگوں کے مشاہدے کا بیان قاری کو زیادہ خوش آتاہے۔ یوں بھی سیاحت کی حیرت زا اور چشم کشا کائنات کی نظارگی کی خواہش رکھنے والوں کونظریات کی تنگنائے کی چہل قدمی کوئی خاص لطف نہیں دیتی ۔ سفر ناموں کے راوی محدودوقفے میں بھی بھرے پُرے شہروں اور زندہ جاوید حال کے مناظرسے آنکھیں پھیرکر بار بار ماضی میں لوٹتے رہتے ہیں ، جسے سیاحت کے قاری کے ساتھ اچھی رفاقت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
اس مجموعے میں شامل دو تحریریں ’’گلینا‘‘ اور ’’چہرو مانجھی‘‘ کومصنف نے رپورتاژقرار دیا ہے ۔بعض لوگوں نے صرف ’گلینا‘ کو افسانہ کہا ہے بعض نے دونوں کو۔خود علی سردار جععفری ’چہرومانجھی‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اس کتاب میں شامل ’’چہرو مانجھی ‘‘کو کہانی کا نام دے کر دنیا کی آٹھ دس زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔‘‘ (نیا ایڈیشن، لکھنؤ کی پانچ راتیں، ص 7)
ہمارے ناقدوں سے ان دونوں تحریروں یا دونوں میں سے کسی ایک کو افسانہ قرار دینے میں سہودراصل افسانے اور رپورتاژ میں امتیاز نہ کرپانے کی وجہ سے ہوا ہے ۔رپورتاژ کااہم وصف یہ ہے کہ اس میں حقیقی واقعات ویسے ہی بیان کیے جاتے ہیں جیسے یا جس ترتیب سے وہ گزرے ہوں۔ واقعے کو اس طرح بیان کرنا کہ اس کی تعبیر بدل جائے، اس میں اپنی جانب سے کچھ چیزیں شامل کردی جائیں جس سے حقیقت مسخ ہوتی ہو، یا اس میں اس طرح کے اشارے استعمال کرنا جس سے معنی کچھ اور نکلیں جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ لکھنے والااسے سچائی کے دعوے کے ساتھ لکھ رہا ہے اور پڑھنے والا اسے سچ سمجھ کر ہی پڑھتا ہے۔ تاہم رپورتاژ محض اخبار کی روکھی ، بے رس اور بعینہ رپورٹ بھی بھی نہیں ہوتی، کہ لکھنے والے کو اس میں اپنے تاثرات اور جذبات واحساسات کے ساتھ اپنے اسلوب بیان کا جوبن دکھانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
دیکھنے کی کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اتنے خوبصورت نثری بیانیہ کی حامل ان دونوں تحریروں کو جن میں پلاٹ، کردار، واقعات اور آغاز وانجام موجود ہیں افسانہ کیوں نہیں قرارپا سکتا، جب کہ بقول سردار جعفری ’چہرو مانجھی ‘کو دنیا کی آٹھ دس زبانوں میں بطور کہانی شائع کیا جا چکا ہے۔ تو واقعہ یہ ہے کہ انھیں افسانے کے بجائے رپورتاژ ثابت کرنے میں پہلی اور حتمی دلیل خود سردار جعفری کا یہ اعتراف؍ اعلان یا وضاحت ہے :
ممکن ہے بعض واقعات اپنی تفصیلات میں پوری طرح اپنی صحت برقرار نہ رکھ سکے ہوں کیوں کہ حافظے کی فریب کاریاں اور یادوں کی رنگ آمیزیاں عجیب وغریب ہوتی ہیں، کبھی کبھی وقت کے بُعد کی وجہ سے واقعات کی ترتیب میں بھی فرق آجاتا ہے ، پھر بھی کسی واقعے کی صحت میں شبہ نہیں ہے اور داخلی صداقت میں کسی طرح کا کوئی کھوٹ نہیں ہے۔‘‘(تمہید، لکھنؤ کی پانچ راتیں، ص 5-6)
اب چونکہ یہ حقیقی واقعات کا سچابیان ہے اور مصنف ان کی صداقت پر اصرار بھی کررہا ہے ، لہٰذا کہانی کے صنفی عناصرسے شدید مشابہت اور خوبصورت افسانوی زبان کے باوجود یہ تحریریں ا فسانہ نہیں رپورتاژ ہی قرار پائیں گی۔کم ازکم ’’گلینا ‘‘ تو یقیناً۔ کہ یہ حقیقی واقعہ ہے عالمی شہرت یافتہ شاعر ناظم حکمت اور ان کو پسند کرنے والی لیڈی ڈاکٹر گلینا کا ، جو اُن کے دل کے معالج کے طورپر ان کے ساتھ تھیں اور بعد میں اُن سے شادی کر کے ان کی رفیق حیات بنیں۔ اس تحریر میں واقعات بیان کرتے ہوئے ایک جگہ سردار جعفری جو اس کے راوی بھی ہیں لکھتے ہیں:
’’اپنے کھانے کی میز پر بیٹھ کر ترکی کے عظیم شاعر ناظم حکمت نے اپنی ڈاکٹر گلینا کا یہ واقعہ سنایا۔….اور وہ اس گملے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھالائے، جس کی خشک ٹہنی میں گلینا نے اپنے آنسوؤں سے پھول کھلا دیا تھا، ناظم حکمت نے کہا کہ میں خود بھی اس واقعے کو لکھوں گا ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس پرلکھو، یہ بڑا خوبصورت واقعہ ہے۔‘‘ (ص، 130)
افسانے میں بیانِ واقعات اپنے زمانی ترتیب کاپابند نہیں ہوتا، افسانے کا آغاز واقعے کے اخیر، ابتدا اور درمیان کہیں سے بھی ہو سکتا ہے، اور ایسے ہی اس کا اختتام بھی، جب کہ رپورتاژ میں حقیقت بیانی کی لازمی شرط کے باعث اس ترتیب کوبہر طور قائم رکھنا ہوتاہے۔ ’گلینا ‘ میں سردار جعفری گلینا سے اپنی دوملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں اور صنف کی متعینہ تکنیک کو برتنے کے ساتھ شعوری طور پر یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ صداقت کا دامن کہیں ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ سو، یہ تحریر خوبصورت زبان، عمدہ بیانیہ، اثر انگیزی اوراپنے بیشتر افسانوی اوصاف کے باوجود افسانے کی سرحد سے نکل کر رپورتاژ کی صف میں جا شامل ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’گلینا‘ سردار جعفری کے بیشتر افسانوں سے کہیں زیادہ اچھا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔
رہی بات ان کی دوسری تحریر ’’چہرو مانجھی‘‘ کی جو دنیا کی آٹھ دس زبانوں میں بطور کہانی شائع ہوچکی ہے، تویہ کوئی ایسا غلط بھی نہیں ہوا، کیوں کہ یہ تحریر اُس مجموعے سے الگ ہوکر جس میں مصنف واقعات کے حقیقی ہونے پر ایک سے زیادہ بار اصرار کررہا ہے، کہانی کی صنف پر پورا اترتی ہے کہ اس کے حقیقی ہونے کی کوئی داخلی شہادت موجود رہتی، یوں بھی یہ متن ’صداقت محض‘ کے دعوے کے باوجود حقیقت اور تخیل بلکہ تخیل اور حقیقت کا امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ پھر حقیقی واقعے کو افسانے کی صورت میں ڈھالنا نہ معیوب ہے نہ ممنوع، بلکہ مستحسن ہے۔ یوں اس میں کردار، پلاٹ اور واقعات کے ساتھ دوسرے افسانوی اوصاف مثلاً بیانیہ، روداد اور فضاوغیرہ موجود ہیں۔ تکنیک اور سلیقے مند بُنت کے اعتبار سے یہ کہانی سردار جعفری کے افسانوی مجموعے ’’منزل‘‘ میں شامل تمام افسانوں سے عمدہ اور کامیاب ہے۔کہانی میں چار کردار ہیں۔ بوڑھا مانجھی،اُس کا نوجوان بیٹا گنیش جو ’چہرو‘ سے پیار کرتا تھا، اور مرکزی کردار ’چہرو ‘(گل چہر) جو گنیش سے پیار کرتی ہے۔یوں تو کہانی افسانے کا حاضر راوی بیان کرتا ہے ، لیکن ہر کردار اپنے حصے کا واقعہ اس طرح سناتاہے کہ کہانی فطری طریقے سے آگے بڑھتی ہے اور واقعات کے منطقی ربط میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ کہانی کا حسن یہ ہے کہ اس کی پوری فضا حجاب امتیاز علی اور شکیلہ اختر کے گوتھک افسانوں کی سی ہے لیکن کردار،ان کی سوچ، ان کے رویے اور کہانی سے برآمد ہونے والا نتائج خالص انقلابی ہیں۔ یوں اس افسانے کو رومانیت اور اشتراکیت کا حسین امتزاج کہا جا سکتاہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
بوڑھے نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ ’’تم پرھے لکھے ہو ،بہت سے دیس دیکھے ہوں گے، تم جانتے ہو کہ ہماری دولت کہاں جاتی ہے۔‘‘
میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن بوڑھے ماہی گیر نے اس کا موقع نہیں دیا اور بہتی ہوئی موجوں کی طرف دیکھ کر اپنے سوالوں کا جواب دینے لگاجیسے وہ سب کچھ جانتاہے۔ …ہماری محنت بھی اسی طرح بہتی ہوئی کسی بڑے سے سمندر کی طرف جا رہی ہے، کوئی اندھا سمندر ہے جوہماری چاندی کی طرح چمکتی محنت کو نگلے لے رہا ہے، چاندی ہی تو ہے یہ جو بہہ رہی ہے۔
میں نے موجوں کی طرف دیکھا جو واقعی بہتی ہوئی چاندی کی طرح چمک رہی تھیں، ہمارے بائیں طرف دور افق میں مہینے کی آخری راتوں کا چاند ابھر رہا تھا، جس کی نرم کرنیں فضا سے گزر کر دریا کے جسم میں پھیل گئی تھیں، اور مٹیالے پانی کو سیال چاندی میں تبدیل کر رہی تھیں، بوڑھے کا سیاہی مائل چہرہ چاند کی ہلکی سی سرخ مائل روشنی میں چمک اٹھا تھا اور سفید بادبان بادل کا ایک خوبصورت ٹکڑا معلوم ہورہا تھا، جو ہمیں چاندی کے دریا میں بہائے لے جارہا تھا۔(ص، 60)
بھلے ہی سردار جعفری نے حقیقی واقعات اور سچے کرداروں پر مبنی رپورتاژ لکھاہو اور اس صنف کے ہونے پر اصرار بھی کیاہو ، لیکن یہ تحریر مصنف کی تمام وضاحتوں کے باوجود اپنی تکنیک ، بیانیے اور تاثر کے لحاظ سے افسانہ ہے ، ایک خوبصورت افسانہ۔
اب یہ محاکمہ کہ آخر سردار جعفری جیسے سخت گیر ترقی پسند، کمیونسٹ پارٹی کے ادبی مبلغ، مغرب کے مخالف،ماضی کے ادب اور ادیبوں سے بیزار، تصوف سے حذر کرنے والے، جدیدیت سے نالاں اور نظم ونثر میں براہ راست تخاطب اور سادگی کے علمبردارکی شخصیت میں ایسی واضح تبدیلی کیونکر پیداہوئی ۔ دو وجہیں تو شروع میں بیان کی جا چکی ہیں۔اول یہ کہ ہر جینوئین فنکار فن کی لطافت ونزاکت اور اس کی جمالیات پر ایمان لاتاہی ہے، دوئم یہ کہ وہ شخصیت کے سحر میں زیادہ دنوں تک گرفتار نہیں رہتا ، چنانچہ سردار جعفری بھی لینن کے اکہرے تصور ادب سے باہر نکل آئے ، اور فن کی اُن جمالیاتی قدروں کو بھی قبول کیا جو تحریک کے منشور میں شامل نہ تھیں۔ایک تیسری وجہ عمر کے ایک خاص عرصے میں داخل ہونے کے بعد شعور کی بالیدگی اور ذہنی پختگی ہے جن کا مشترکہ وصف اعتدال اور توازن ہوتا ہے۔
لیکن راسخ العقیدگی میں اتنی جلد تبدیلی یوں ہی تو نہیں آجاتی،بتدریج آتی ہے،یا پھر کوئی اہم محرک ہوتاہے، مہمیز کا سبب بنتا ہے کچھ۔توآئیے یہ سب جاننے کے لیے پروفیسر محمد حسن صاحب سے رجوع کریں جنھوں نے ہر عہد میں اس تحریک، اس کے متعلقین اور اس کے اتار چڑھاؤ کا بہت ہی گہرائی اور باریکی سے مطالعہ کیا ہے ۔لیکن اس سے پہلے سردار جعفری سے منسوب باتوں، ان کی لکھی ہوئی سوانحی تحریروں اور سنے ہوئے کوائف کے حوالے سے یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ سردار جعفری کی طبیعت میں بچپن سے ایک طرح کی ضد اور مزاج میں رد عمل کا اظہار موجود تھا۔پروفیسر محمد حسن صاحب کی روایت ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ یا اس کا محرک در اصل ایک ’حادثہ‘ ہے ۔ واقعہ تب کا ہے جب سردار جعفری انقلابی شاعر کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کررہے تھے اور ان کا نام ایلیا اہرن برگ، پبلو نرودا، امریکہ کے ہاورڈ فاسٹ اور مشہور موسیقارپال رابنسن کے ساتھ لیاجانے لگا تھا۔ اُنھی دنوں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے حکومت وقت کے خلاف تلنگانہ کی مسلح جدو جہد شروع کی ۔اور اس سلسلے کی مزاحمتی تحریک میں سردارکو بھی جیل جانا پرا۔ اس سے آگے کا واقعہ خود حسن صاحب کی زبانی سنیے:
وہاں کچھ مصلحتیں آڑے آئی ہوں گی ہمیں صرف اتنا معلوم ہوا کہ اچانک ، زیر زمین پارٹی مرکز سے ایک سائکلواسٹائل مکتوب ملاجس میں یہ اطلاع تھی کہ سردار کو پارٹی کی ر کنیت سے خارج کر دیا گیا ہے اس کی توثیق بعد کو سردار کے مجموعۂ کلام ’ایک خواب اور‘ کی اشاعت اور اس کے چند سطری دیباچے اور اس کے لہجے سے بھی ہوگئی۔اس کے بعد سردار کی شاعری ہی نہیں اس کی فکر کا بھی انداز بدل گیا اور اچانک وہ اس دور کے ترقی پسند ادب پر مضامین اور گشتی خطوط لکھنے کے بجائے کلاسیکی ادب پر لکھنے لگے۔ میر، غالب خاص طور پر اقبال اور ہندی کے شعراء کبیر اور میرا بائی پر ان کی کتابیں سامنے آنے لگیں۔ ان کی شاعری میں بھی رومی کے مصرعے جگمگانے لگے اور ان کا طرزِ فکر اب ہیجانی سے زیادہ آرائشی ہونے لگاجس میں دلآویزی کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔‘‘(خطبۂ صدارت بعنوان’سردار جعفری کی وراثت‘مشمولہ :سردار جعفری ۔شخصیت اور فن، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،2002،ص19-20)
یوں ان تمام حوالوں کے ساتھ سردار جعفری کا ایک نیا شناخت نامہ مرتب ہوتا ہے جو بھلے ہی سردار جعفری کی ابتدائی ادبی شخصیت سے پوری طرح مختلف نہ ہو لیکن کچھ زیادہ میل بھی تو نہیں کھاتا۔

Abu Bakar سردار

Abu Bakar Abbad
E-mail:
(M) 09810532735

Share

۲ thoughts on “علی سردارجعفری : ایک اورزاویے سے ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرابوبکرعباد”

Comments are closed.

Share
Share