کتاب : تُو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار: کشورسلطانہ

Share

kishor sultana کشور

کتاب : تُو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
موضوع : افسانہ

افسانہ نگار: کشورسلطانہ
مبصر : ابوالمکرم

کشور سلطانہ ’ بنیادی طور پر شاعرہ ہیں اور افسانہ نگار بھی ۔ جنھوں نے دس سال کی عمر سے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور جن کی پہلی تخلیق 1961 ؁ء میں شائع ہوئی ۔اس پچپن سالہ تخلیقی سفر میں انھوں نے افسانوں کے صرف دو مجموعہ دیئے اور شاعری کا مجھے علم نہیں ہے۔میں ان سے اس حد تک ہی واقف ہو ں کہ آپ کی ایک بہن رضیہ سلطانہ میڈم اردو حال کیمپس کے اردو ماڈل اسکول کی کرسپانڈنٹ رہی ہیں ۔ اگر کوئی شاعر ’ افسانہ نگار بھی ہو تو اس کے افسانے میں شاعری اور شاعری میں افسانے روشن ہونے لگتے ہیں ۔ تبھی تو اس افسانوی مجموعہ کا نام ایک مصرعہ پر مشتمل ہے کہ ’’ تُو اِسے پیمانۂ اِمروز و فروا سے نہ ناپ ‘‘ پھرآپ کتاب کے صفحات الٹتے جائیں گے تو آپ پر ہر افسانے میں شاعری کے رموز کھلتے جائیں گے ۔تعارف کے تحت اپنا نام بشیرالنساء بیگم لکھا پھر ساتھ میں ایک مصرعہ جڑ دیا ۔ پھر عرفیت کے تحت کشور سلطانہ لکھا اور دوسرا مصرعہ لکھ کر شعر مکمل کردیا ۔پورا تعارف نامہ مختلف مصرعوں پر مشتمل ہے ۔اب ان مصرعوں کو غور سے پڑھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر مصرعہ میں کوئی نہ کوئی افسانہ پوشیدہ ہے۔

زیرِ نظر افسانوی مجموعہ میں ( ۲۴ ) افسانے شامل ہیں ۔جبکہ پہلے افسانوی مجموعہ ’ لمحوں کی قید ‘‘(۱۴) افسانوں پر مشتمل تھا۔امید واثق ہے کہ اگلا افسانوی مجموعہ(۳۴) افسانوں پر محیط ہوگا ۔ ان افسانوں کے عنوانات پر بھی شاعری کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔اور ہر افسانے میں دوچار پیراگراف ایسے مل ہی جائیں گے جو مرصع و مسجع و مقفی اسلوب لئے ہوئے ہیں۔ یہ تمام افسانے گم گشتہ تہذیبی اقدار کے بازگشت کی ایک کوشش ہے جس میں افسانہ نگار کامیاب نظر آتی ہیں ۔
میں یہاں ان افسانوں پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جس کا تھیم محبت ہے۔اور ان تینوں افسانوں میں محبت کے مختلف مدارج اور ان کے تقاضوں پر گفتگو کی گئی ہے ۔
’’ فصلِ بہاراں ‘‘ روزنامہ ملاپ میں 1961 ؁ء میس شائع شدہ افسانہ ہے ۔ ویسے یہ ایک عام افسانہ ہے جس میں تِکونی محبت کو دکھایا گیا ہے ۔روپا‘ آنند سے محبت کرتی ہے لیکن سنیل روپا کو چاہتا ہے اور آنند اس غلط فہمی میں رہتا ہے کہ روپا اسے نہیں چاہتی ۔ اس درمیان سنیل اور روپا ایک کھیل کھیلتے ہیں تا کہ آنند ‘ روپا سے قریب ہو جائے مگر اس کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ روپا کو نہ سنیل ملتا ہے اور نہ ہی آنند ۔۔۔۔ بلکہ وہ اب بھی فصلِ بہاراں کی منتظر ہے ۔ ا فسانے میں کہیں بھی کوئی اصلاحی پیغام پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی لیکن پورا افسانہ پڑھنے کے بعد خود بہ خود قاری پر تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بازیافت ہوتی ہے اور بزرگوں کا قول بھی یاد آجاتا ہے کہ مذاق کبھی کبھی نقصا ن دہ ہوجاتا ہے ۔ مصنفہ نے محبت کرنے والوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ دیکھو محبت ایسے کروگے تو ناکام رہو گے ۔
دوسرا افسانہ ’’ کانچ کی گڑیا ‘‘ ہے جو ماہنامہ شمع میں شائع ہوا ہے ۔جس میں کشورسلطانہ نے نسائی حسّیت کو بیان کیا ہے ۔ منیشا ایک حسین و جمیل لڑکی ہے اور اسے بے حد چاہنے والا شوہر ملتا ہے ۔ لیکن چاہت کا یہ روپ منیشا پر گراں گزرتا ہے ۔ کیوں کہ منیشا کو سامنے گھنٹوں بٹھاکر اسے نہارتا رہتا ہے ۔ دیگر بشری تقاضے محض اس لئے پورے نہیں کرتا کہ کہیں اس کا حسن ماند نہ پڑ جائے ۔نتیجہ ۔ ۔ ۔ منیشا ‘ بے انتہا چاہنے والے شوہر کو چھوڑدیتی ہے۔
افسانہ ’’ دھرتی کا بوجھ ‘‘ ماہنامہ روبی میں شائع ہوا ہے ۔ اس میں ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو بچوں سے بے انتہا نفرت کرتا ہے لیکن اس کی بیوی رعنا کو بچوں سے بے ا نتہا محبت ہوتی ہے ۔ مختلف مزاج اور متضاد رویوں کے ساتھ یہ افسانہ آگے بڑھتا ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ جب وہ دواخانے میں اپنے بچے کو دیکھتا ہے تو اس کی نفرت یکسر ختم ہو جاتی ہے ۔کیسے ؟ یہ کوئی افسانہ نگار سے ہی پوچھے۔
ان تینوں افسانوں میں محبت کے مختلف روپ دکھائے گئے ہیں ۔ بظاہر یہ افسانے نامکمل لگتے ہیں لیکن افسانہ نگار نے کچھ ایسے موڑ پر افسانے کو ختم کیا ہے کہ باقی کا کام قاری خود اپنے طور پرمکمل کرے ۔ کچھ سوال یقیناً کھڑے کئے جا سکتے ہیں کہ کیوں فصلِ بہاراں میں روپا کو تڑپتا بلکتا ہی چھوڑ دیا گیا ۔ جب کہ کانچ کی گڑیا میں منیشا اپنے شوہر کو چھوڑ کر گھر سے نکل جاتی ہے ۔ کیا یہ فیصلہ صحیح ہے ؟ ’’ دھرتی کا بوجھ ‘‘ میں کس طرح ایک شخص کو اچانک بچوں سے محبت ہو جاتی ہے جب کہ زندگی بھر وہ ان سے نفرت کرتا رہا ۔اب ان سوالات کے جواب یقیناً نفسیات کے دائرے میں دیئے جا سکتے ہیں ۔ لیکن ہم افسانہ نگار سے پوچھ نہیں سکتے اس لئے کہ انھوں نے کتاب کا نام ہی یہ رکھ دیا ہے کہ تُو اِسے پیمانۂ اِمروز و فروا سے نہ ناپ ۔۔۔ !
بہترین افسانے ‘تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار ‘زبان و بیان پر مکمل گرفت‘ بہترین گٹ اپ اورروشن طباعت ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار کو مبارک باد۔
صفحات : ۲۵۶
قیمت : ۲۰۰ روپیے
ملنے کا پتہ : اردو ہال ‘ حمایت نگر‘ حیدرآباد
ای میل :

Share
Share
Share